انسان اور زمین کی حکومت (قسط 31)

رستم علی خان

پھر وہ سب کے سب حضرت یوسف کے سامنے سجدے میں گرے اور تب آپ نے اپنے والد سے کہا کہ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے- یعنی میرے گیارہ بھائی ستارے ہیں اور میرے باپ سورج اور میری والدہ چاند ہے اور یہ سب مجھ کو سجدہ کررہے ہیں۔ یہی آپ کا خواب تھا جو بچپن میں دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور سورج و چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں۔

یہ سجدہ تعظیمی تھا جو بقول حافظ عمادالدین ابن کثیر آدم کے زمانہ سے مسیح علیہ السلام کے عہد تک جائز رہا۔ البتہ شریعت محمدیہ نے ممنوع و حرام قرار دیا۔ جیسا کہ احادیث کثیرہ اس پر شاہد ہیں- بعض مفسرین نے اس جگہ سجدہ کے معنی متبادر مراد نہیں لئے۔ محض جھک جانے کے معنی لئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سجدہ یوسف علیہ السلام کو نہ تھا بلکہ یوسف علیہ السلام کی عزت و عظمت دیکھ کر سب نے خدا کے سامنے سجدہ شکر ادا کیا- یعنی یوسف علیہ السلام کے عروج و اقتدار کے سبب سے خدا کے آگے سجدہ میں گر پڑے (تنبیہ) تعظیم اور عبادت دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ غیر اللہ کی تعظیم کلیۃً ممنوع نہیں-

یہاں آپ کی والدہ کے بارے بھی مفسرین کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے- بعض کے نزدیک آپ کی والدہ کا انتقال آپ کے بچپن میں ہو گیا تھا اور سجدہ کرنے والی آپ کی خالہ تھیں- جبکہ بعض کے نزدیک وہ آپ کی والدہ ہی تھیں اور خالہ آپ کی انتقال فرما گئیں تھیں- واللہ اعلم الصواب-

اصحاب تواریخ کا بیان ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام مصر میں اپنے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس چوبیس سال تک نہایت آرام و خوشحالی میں رہے۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے یہ وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ ملک شام میں لے جا کر مجھے میرے والد حضرت اسحٰق علیہ السلام کی قبر کے پہلو میں دفن کرنا۔ چنانچہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جسم مقدس کو لکڑی کے صندوق میں رکھ کر مصر سے شام لایا گیا۔ ٹھیک اسی وقت آپ کے بھائی حضرت ”غیص” کی وفات ہوئی اور آپ دونوں بھائیوں کی ولادت بھی ایک ساتھ ہوئی تھی۔ اور دونوں ایک ہی قبر میں دفن کئے گئے اور دونوں بھائیوں کی عمریں ایک سو سینتالیس برس کی ہوئیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد اور چچا کو دفن فرما کر پھر مصر تشریف لائے اور اپنے والد ماجد کے بعد ۲۳ سال تک مصر پر حکومت فرماتے رہے۔ اس کے بعد آپ کی بھی وفات ہو گئی۔

آپ کی وفات کے بعد آپ کے مقام دفن میں سخت اختلاف پیدا ہو گیا۔ ہر محلے والے حصولِ برکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں دفن پر اصرار کرنے لگے۔ آخر اس بات پر سب کا اتفاق ہو گیا کہ آپ کو بیچ دریائے نیل میں دفن کیا جائے تاکہ دریا کا پانی آپ کی قبر منور کو چھوتا ہوا گزرے۔ اور تمام مصر والے آپ کے فیوض و برکات سے فیضیاب ہوتے رہیں۔ چنانچہ آپ کو سنگ مرمر کے صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے بیچ میں دفن کیا گیا۔ یہاں تک کہ چار سو برس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کے تابوت شریف کو دریا سے نکال کر آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے آباؤ اجداد کی قبروں کے پاس ملک شام میں دفن فرمایا۔ بوقت وفات آپ کی عمر شریف ایک سو بیس برس کی تھی اور آپ کے والد محترم حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایک سو سنتالیس برس کی عمر پائی۔ اور آپ کے دادا حضرت اسحٰق علیہ السلام کی عمر شریف ۱۸۰ سال کی ہوئی اور آپ کے پردادا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی عمر شریف ایک سو بیس اور تورات کے مطابق ایک سو پچھتر سال کی ہوئی۔

(جیسا کہ پیچھے حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو کس طرح آزمائشوں میں ڈالا اور پھر ان تمام آزمائشوں میں آپ کو صبر کی توفیق بھی دی اور بعد اس کے آپ کو بلند مقام و مرتبے سے نوازا….حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں آپ کے زلیخا سے نکاح ہونے یا نہ ہونے پر کافی زیادہ بحث کی گئی قرآن و احادیث میں اس بارے حتمی شواہد موجود نہ ہونے کی بنا پر روایات میں اس چیز پر ہمیشہ اختلاف پایا گیا ہے—-چونکہ ہمارا مقصد یہاں کوئی اختلافات پیدا کرنا نہیں بلکہ محض معلومات پنہچانا ہے سو یہی کوشش کی جائے گی کہ دونوں طرف کے پہلووں کو بیان کیا جائے اور اس چیز کا مقصد محض معلومات فراہم کرنا ہے نہ کہ کوئی اختلافی بات پیدا کرنا-)

بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں زلیخا کے شوہر قطفیر کا انتقال ہوگیا تو شاہَ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی شادی کردی، اس وقت یوسف علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ یہ سورت اس سے بہتر نہیں ہے جو تم چاہتی تھیں زلیخا نے اعتراف قصور کے ساتھ اپنا عذر بیان کیا۔

اللہ تعالیٰ جل شانہ نے بڑی عزت و شان کے ساتھ ان کی مراد پوری فرمائی اور عیش و نشاط کے ساتھ زندگی گزری، تاریخی روایات کے مطابق دو لڑکے بھی پیدا ہوئے، جن کا نام افرائیم اور منشاء تھا۔

بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد یوسف علیہ السلام کے دل میں زلیخا کی محبت اس سے زیادہ پیدا کردی۔ جتنی زلیخا کو یوسف علیہ السلام سے تھی، یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان سے شکایت کی کہ اس کی کیا وجہ ہےکہ تم مجھ سے اب اتنی محبت نہیں رکھتیں جتنی پہلے تھی، زلیخا نے عرض کیا کہ آپ کے وسیلہ سے مجھے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوگئی، اس کے سامنے سب تعلقات اور خیالات مضمحل ہوگئے، یہ واقعہ بعض دوسری تفصیلات کے ساتھ تفسیر قرطبی اور مظہری میں بیان ہوا ہے۔ واللہ اعلم الصواب-

اس کے علاوہ تاریخی ناول نگاروں نے اس بارے میں داستان گوئی کی حد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت یوسف ایک دن اپنے تمام اہل خانہ کے ہمراہ شہر کے دورے پر نکلے تو راستے میں ایک مفلوک الحال بڑھیا کو دیکھا جس کے بال بکھرے اور صورت پریشان حالی کی غماز تھی- چونکہ آپ نبی اللہ تھے اور ایک منصف و عادل حکمران تھے اس لئیے آپ اس کے حال پر بےچین ہو گئے اور اپنے سپاہیوں سے اس عورت کی بابت دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اے یوسف یہ زلیخا ہے اور آپ کے عشق نے اس کا یہ حال کر دیا ہے- تب آپ نے اللہ سے اس بارے صحیح طریقہ کار اختیار کرنے کے لئیے راہنمائی کی دعا کی تو بحکم ربی جبرائیل امین زمین پر آئے اور اس عورت کے بدن پر اپنا پر پھیرا تو ضعیفی اور دیوانگی کا حال جاتا رہا اور دوبارہ خسین اور جوان ہو گئی تب حضرت یوسف نے انہیں اپنے عقد میں لے لیا اور اس عورت سے آپ کے دو بیٹے بھی ہوئے جبکہ زلیخا کے پہلے شوہر سے اس کی کوئی اولاد نہ تھی- واللہ اعلم الصواب

قرآن مجید اس بارے میں خاموش ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی شادی زلیخا سے ہوئی یا نہیں۔ میرے علم میں اس ضمن میں کوئی صحیح حدیث بھی نہیں ہے۔ جہاں تک تفاسیر کے اختلاف کا تعلق ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ مفسرین نے ان واقعات کی مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لئے سابقہ یہودی علماء جیسے کعب الاحبار علیہ الرحمۃ سے معلومات حاصل کیں اور جو کچھ ملا انہیں تفسیر کی کتابوں میں درج کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر کی کتابوں میں اسرائیلی روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان روایتوں کی جانچ پڑتال ایک مشکل کام ہے کیونکہ اس میں حقیقت کے ساتھ بہت سے قصے کہانیاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ چونکہ قدیم مفسرین جیسے امام طبری نے انہیں درج کر دیا ہے، اس وجہ سے بعد کی تفاسیر میں یہی روایتیں نقل در نقل منتقل ہوتی چلی گئیں۔

اسرائیلی روایات کی نسبت بائبل کا بیان نسبتاً زیادہ معتبر ہے۔ کتاب پیدائش باب 46 کے مطابق سیدنا یوسف علیہ السلام کی شادی مصر کے مذہبی راہنما فوطیفرع کی بیٹی آسناتھ سے ہوئی تھی۔ ان کے بطن سے آپ کے دو بیٹے افرائیم اور منسی پیدا ہوئے۔ جبکہ باب 39 میں یہ بیان ہے کہ جس خاتون نے آپ کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی، وہ شاہی گارڈز کے کمانڈر انچیف کی بیوی تھی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شادی اس خاتون سے نہیں ہوئی۔ واللہ اعلم الصواب

اس کے علاوہ بھی بہت سے مفسرین اکرام نے یہی بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف کا اس عورت سے نکاح نہیں ہوا تھا- چونکہ قرآن اور صحیح احادیث سے اس بارے کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے اور بائبل میں اس نکاح کی تردید کی گئی ہے بلکہ جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ بائبل کے مطابق آپ کا نکاح کسی اور سے ہوا تھا- آپ کی اولاد کے بارے بھی کوئ واضح تفصیل یا قول نہیں ملتا البتہ اس بارے بھی اسرائیلی روایات سے آپ کے دو بیٹوں کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے ایک افرائیم تھے جن کی بیٹی سے حضرت ایوب علیہ السلام کا نکاح ہوا تھا- واللہ اعلم الصواب

اس کے علاوہ آپ کے بھائیوں کے نبی ہونے یا نہ ہونے پر بھی بحث پائی جاتی ہے بعض مفسرین کے مطابق آپ کے تمام بھائی آپ کے بعد آپ کی شریعت کے نبی ہوئے اور بعض مفسرین کے مطابق حضرت یوسف کے علاوہ آپ کے بھائیوں میں سے دوسرا کوئی بھائی نبی نہیں ہوا- واللہ اعلم الصواب۔

تبصرے بند ہیں۔