اسلام کے نزدیک ایمان ہی عمل کی جڑہے (دوسری قسط)

ایمان کے بغیرتمام اعمال بے اصل اوربے وزن ہیں

تحریر : مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ ترتیب : عبدالعزیز

اسلام کانظریہ یہ ہے کہ (1)کائنات کانظم ایک قادرمطلق ہستی کاقائم کیاہواہے اوروہی اس کوچلارہی ہے۔ (2) اس قادرمطلق ہستی کے ماتحت بے شماردوسری ہستیاں ہیں جو اس وسیع کائنات کی تدبیرمیں اس کے احکام کونافذکررہی ہیں۔ (3) انسان کے وجودمیںاس کے خالق نے خیروشردونوں کے میلانات رکھے ہیں۔ دانائی اورنادانی ، علم وجہل دونوں کااس کے اندراجتماع ہے۔ غلط اورصحیح دونوں طرح کے راستوں پر وہ چل سکتا ہے۔ ان متضاد قوتوں اور متخالف میلانات میں سے جس کا غلبہ ہوتا ہے، اس کی پیروی انسان کرنے لگتا ہے۔ (4) اس تنازع خیر و شر میں خیر کی قوتوں کو مدد پہنچانے اور انسان کو سیدھی راہ دکھانے کیلئے اس کے خالق نے خود بنی نوع انسان ہی میں سے چند بہتر آدمیوں کا انتخاب کیا ہے اور ان کو علم صحیح عطا کرکے لوگوں کی ہدایت پرمامورکیا۔(5)انسان کوئی غیرذمہ داراورغیرمسئول ہستی نہیں ہے۔ وہ اپنے تمام اختیاری اعمال کیلئے اپنے خالق کے سامنے جوابدہ ہے۔ ایک دن اس کوذرہ ذرہ کاحساب دیناہوگااوراپنے اعمال کے اچھے یابرے نتائج دیکھنے ہوں گے۔
یہ نظریۂ خدا، ملائکہ، وحی، رسالت، یوم آخر پانچوں امورکے وجودکامقتضی ہے۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جوعقلاًمحال ہونہ اس کی کسی چیزکووہمیات و خرافات سے تعبیرکیاجاسکتاہے۔ برعکس اس کے ہم اس پرجس قدرزیادہ غورکرتے ہیںاسی قدراس کی تصدیق کی جانب ہمارامیلان بڑھتاجاتاہے۔
خداکی حقیقت خواہ ہماری سمجھ میں نہ آئے مگراس کاوجودتسلیم کئے بغیرچارہ نہیں۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیرکائنات کامعمہ کسی طرح حل نہیں ہوتا۔
ملائکہ کے وجودکی کیفیت ہم متعین نہیں کرسکتے مگران کے نفس وجودمیں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ تمام اہل علم وحکمت نے ان کی ہستی کوکسی نہ کسی طورپرتسلیم کیا ہے۔ اگرچہ وہ ان کواس نام سے یادنہیں کرتے جس سے قرآن انہیں موسوم کرتاہے۔
قیامت کاآنااورایک نہ ایک دن دنیاکے نظام کادرہم برہم ہوجاناعقلی قیاسات کی روسے اغلب بلکہ قریب بہ یقین ہے۔
انسان کااپنے خداکے آگے جواب دہ ہونااوراس کااپنے اعمال کیلئے مستوجب جزاوسزاہوناکسی قطعی دلیل سے ثابت نہیں کیاجاسکتا، مگرعقل سلیم اس حدتک تسلیم کرنے پرمجبورہے کہ انسان کی موت اورموت کے بعدکی حالت کے متعلق جتنے نظریئے قائم کئے گئے ہیں ان میں سب سے بہتر،نتیجہ خیزاوراقرب الی القیاس نظریہ وہی ہے جواسلام نے پیش کیاہے۔
رہاوحی اوررسالت کامسئلہ تویہ ظاہرہے کہ اس کاکوئی مادی ثبوت نہیں پیش کیاجاسکتا، مگرجن کتابوںکووحی الٰہی کی حیثیت سے پیش کیاگیاہے ان کے معانی اورجن لوگوں کوخداکارسول کہاگیا ہے ان کی سیرتوں، پرغورکرنے سے ہم اس نتیجے پرپہنچتے ہیںکہ نوع انسانی کے افکار و اعمال پر ان کے برابر گہرے، وسیع، پائیدار اور مفید اثرات کسی اورنے نہیں ڈالے۔یہ بات اس امرکایقین کرنے کیلئے کافی ہے کہ ان میںکوئی غیرمعمولی بات ضرورتھی جونہ انسانی تصنیفات کونصیب ہے اورنہ عام انسانی لیڈروں کو۔
اس بیان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے ایمانیات عقل کے خلاف نہیں ہیں۔ عقل کے پاس ان کی تکذیب کیلئے کسی قسم کاموادنہیں ہے۔ ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ علمی اورعقلی ارتقاء کے کسی مرتبہ پرپہنچ کرانسان کوردکردینے پر مجبور ہوجائے بلکہ اس کے برعکس عقل ان کی اغلبیت کاحکم لگاتی ہے۔
ثانیاً-غیبیات میں سے بیشترامورایسے ہیں جن کی حیثیت محض علمی ہے، یعنی ان سے ہماری عملی زندگی کاکوئی تعلق نہیں ہے۔مثلاً(Ether) ہیولیٰ، صورت مطلقہ، مادہ ، فطرت وقانون علت ومعلول اورایسے ہی بیسیوں علمی مسلمات یامفروضا ت ہیں کہ ان کے ماننے یانہ ماننے کاہماری زندگی کے معاملات پرکوئی اثرنہیں پڑتا۔ لیکن اسلام نے جن امورغیب پرایمان لانے کی دعوت دی ہے وہ ایسے نہیں ہیں۔ان کی حیثیت محض علمی ہی نہیںہے بلکہ ہماری اخلاقی اورعملی زندگی سے ان کاگہراتعلق ہے۔ ان کی تصدیق کواصل الاصول قراردینے کی وجہ یہی ہے کہ وہ محض علمی صداقتیں نہیں ہیںبلکہ ان کاصحیح علم اوران پرکامل ایمان ہمارے نفسانی اوصاف و خصائل پر، ہمارے شخصی اعمال پراورہمارے اجتماعی معاملات پرشدت کے ساتھ اثراندازہوتاہے۔
ثالثاً- اسلام کے نظام تہذیب کومختلف عقلی اورعلمی مراتب رکھنے والی وسیع انسانی آبادیوں پران کی زندگی کے مخفی اورجزئی سے جزئی شعبوں تک میں اپنی حکومت قائم کرنے اوراپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے جس قوت کی ضرورت ہے وہ صرف ان ہی ایمانیات سے حاصل ہوسکتی ہے جن کی تصدیق کااسلام نے مطالبہ کیاہے۔ یہ یقین کہ ایک سمیع وبصیر، قادروغالب اوررؤف ورحیم خداہمارے اوپرحکمراں ہے، اس کے بیشمارلشکرہرجگہ ہرآن موجودہیں، پیغمبراسی کابھیجاہواہے ، جواحکام اس نے ہم کودئے ہیں وہ اس نے خودنہیں گڑھے ہیں بلکہ سب کے سب خداکی طرف سے ہیںاوراپنی اطاعت یاسرکشی کااچھایابرانتیجہ ہم کوضروردیکھناپڑے گا،اپنے اندروہ زبردست اورہمہ گیرطاقت رکھتاہے جواس کے سواکسی اورذریعے سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔مادی طاقتیںصرف جسم کوجکڑسکتی ہیں، تربیت اورتعلیم کے اخلاقی اثرات انسانی معاشرہ کے اعلیٰ طبقوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ قانون صرف وہاں کام کرسکتاہے جہاں اس کے کارندوں کی پہنچ ہو، مگریہ وہ قوت ہے جودل اورروح پرقبضہ کرتی ہے ، عوام اورخواص، جاہل اورعالم ، دانشمنداوربے دانشمندسبھی کواپنے گرفت میں لے لیتی ہے۔ جنگل کی تنہائیوںاوررات کی تاریکیوں تک میں اپناکام کرتی ہے۔ جہاں سے روکنے والا، اس پرملامت کرنے والا، حتیٰ کی اس کودیکھنے والابھی کوئی نہیں ہوتا، وہاں خداکے حاضروناظرہونے کایقین ،پیغمبرکی دی ہوئی تعلیم کے برحق ہونے کا یقین، قیامت کی بازپرس کایقین، وہ کام کرتاہے جونہ کوئی پولیس کاسپاہی کرسکتاہے ، نہ عدالت کاحاکم ، نہ پروفیسرکی تعلیم ، پھرجس طرح سے یقین نے معمورہ ٔ ارضی پرپھیلے ہوئے بیشمارمختلف ومتضادانسانی عناصرکوجمع کیا، ان کوملاکرایک قوم بنایا۔ ان کے تخیلات، اعمال واطوارمیںغایت درجہ کی یکجہتی پیداکی، ان کے اندراختلاف ظروف واحوال کے باوجودایک تہذیب پھیلائی اوران میں ایک اعلیٰ مقصدکیلئے فداکاری کی والہانہ روح پھونکی ، اس کی مثال کہیں ڈھونڈے نہیں مل سکتی۔
یہاں تک جو کچھ ثابت کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی اصطلاح میں ایمان سے مراد، ملائکہ، کتب، رسل اور یوم آخر پر ایمان لانا ہے، پھر عقلی تنقید کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام جس قسم کی تہذیب قائم کرنا چاہتا ہے اس کیلئے صرف یہی امور ایمانیات بن سکتے ہیں اور انہی ایمانیات کی اس کو ضرورت ہے، نیز یہ کہ ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو عقلی و علمی ترقی کا ساتھ نہ دے سکتی ہو۔
اب تک کی بحث سے جو چند امور غیر مشتبہ طور پر ثابت ہوئے ہیں وہ یہ ہیں:
(1) ایمان، نظام اسلام کا سنگ بنیاد ہے، اسی پر اس نظام کی عمارت قائم کی گئی ہے اور کفر و اسلام کا امتیاز صرف ایمان و عدم ایمان کے بنیادی فرق پر مبنی ہے۔
(2) انسان سے اسلام کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ایمان لائے۔ اس مطالبہ کو قبول کرنے والا دائرۂ اسلام میں داخل ہے اور تمام اخلاقی احکام اور مدنی قوانین اسی کیلئے ہیں اور جو اس مطالبہ کو رد کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس سے نہ کوئی اخلاقی حکم متعلق ہوتا ہے اور نہ کوئی مدنی قانون۔
(3) اسلام کے نزدیک ایمان ہی عمل کی جڑ ہے۔ صرف وہی عمل اس کی نگاہ میں قدر و قیمت اور وزن رکھتا ہے جو ایمان کی بنیاد پر ہو اور جہاں سرے سے یہ بنیاد ہی موجود نہ ہو وہاں تمام اعمال بے اصل اور بے وزن ہیں۔      ( جاری)

تبصرے بند ہیں۔