اسیمانند کی رہائی:  کیا ظلم کے دروازے کھلے رہیں گے؟

راحت علی صدیقی قاسمی

2007 کا مشہور حادثہ جس نے پورے ملک کو تکلیف میں مبتلا کردیا تھا، ہر خطہ اور ہر فرقہ کے افراد نے اس کی تکلیف محسوس کی تھی، خداوند قدوس کے محترم گھر کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا، اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل ایک مقدس مقام کو خون سے رنگ کر کی تھی، لوگ نمازوں میں مصروف تھے، دہشت گردوں نے بم بلاسٹ کئے اور یادِ خدا میں مشغول بندوں کو خون میں لت پت کردیا ، اس سنگین حادثہ میں 9 افراد کی جان گئی، 58سے زائد افراد زخمی ہوئے، ملک کے ہر شہری نے ان کا درد محسوس کیا، ہر شخص یہ چاہتا تھا، اِن بے گناہوں کو انصاف ملے، اُن کے قاتلوں کو سخت ترین سزا دی جائے، اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، معاملہ کی تحقیقات کا سلسلہ پولیس سے این آئی اے تک پہنچا، اس اہم جانچ ایجنسی پر اعتماد کیا گیا، شہیدوں کے گھروالوں کو یقین تھا کہ انہیں انصاف ملے گا، این آئی اے پوری محنت و جفاکشی سے حقائق کو سامنے لائے گی، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے گی، لیکن یہ خوشی اس وقت کافور ہوگئی، جب ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی این آئی اے کے ہاتھ خالی نظر آرہے ہیں ، 226 گواہ پیش کئے گئے، 54 گواہ اپنے بیانات سے پلٹ گئے، 431 دستاویز پیش کئے گئے ان سب کی روشنی میں عدالت نے یہ طے کیا کہ ثبوت و شواہد اُس معیار پر کھرے نہیں اترتے، جن کی بنیاد پر سزا دی جاسکے ، لہٰذا پانچوں ملزمین کو بری کردیا گیا۔

عدالت کا فیصلہ یقینی طور پر قابل احترام ہے، اس میں چوں و چرا کی گنجائش نہیں ہے، جمہوریت میں عدلیہ سب سے مؤقر و معتمد شعبہ ہے، اگر چہ چند دن قبل عدالت عالیہ کے چار ججوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا، آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ سب سے سنگین واقعہ تھا، لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوئے، شکوک و شبہات کا سلسلہ شروع ہوا،عوام تشویش میں مبتلا ہوگئے، جمہوریت پر خطرات کے سیاہ بادلوں کا احساس ہونے لگا، لیکن اس المناک باب کو خوبصورت تدابیر کے ذریعہ بند کردیا، اور اب بھی عدلیہ کا احترام لوگوں کے قلوب میں زندہ ہے، لہٰذا عدلیہ کے فیصلے پر گفتگو کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، البتہ جانچ ایجنسیوں کا رویہ سوالات پیدا کرتا ہے، اس پر گفتگو ضروری ہے۔

 عرصہ دراز پہلے جب این آئی اے کو جانچ سونپی گئی تھی ، کن بنیادوں پر انہوں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا؟ کون سے پہلو تھے جن کی روشنی میں انہوں نے ملزموں کو گرفتار کیا جانچ کا رخ متعین کیا؟ تحقیقات کا سلسلہ کرنل پروہت اور اسیمانند جیسے قدآور افراد اور آر ایس ایس کارکنان تک پہنچا، کہاں سے وہ حوصلہ فراہم ہوا جس کی بنیاد پر ان افراد کو گرفتار کیا گیا؟ مسلسل دس سال تک این آئی اے ثبوت و شواہد جمع کرنے میں مصروف رہی، کبھی اس جماعت کو جانچ کا رخ بدلنے کا خیال تک نہیں آیا،خطا پر ہونے کا احساس نہیں ہوا، پورے طور پر اِنہیں افراد کو مجرم جانا، پھر آخر اس عرصہ میں مطلوبہ ثبوت کیوں فراہم نہ ہوسکے؟ یہ سوال ضرور ذہن میں کھٹکتا ہے، اس سوال کا جواب ایک مشہور ہندی روزنامہ نے دینے کی کوشش کی ہے، لیکن اگر اس جواب کو تسلیم کر لیا جائے، تو جانچ ایجنسیوں کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، ان کی وقعت و اہمیت ہی باقی نہیں رہتی، مظلوموں کو انصاف ملنے کی امیدیں ہی کمزور پڑ جاتی ہیں ، کون ان کی طرف سے پیروی کرے گا؟ کون ثبوت و شواہد مہیا کرے گا؟ کون حقائق کا سراغ لگائے گا؟ جمہوریت ہی باقی نہیں رہے گی بادشاہی نظام کی تصویریں نظر آئیں گی، تمام شعبہ جات مشکوک ہوجائیں  گے ،ہندی روزنامہ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے، کہ ہندو ’’دہشت گردی‘‘ جملے کو سیاسی مفاد کے لئے گھڑا گیا اور اسی ضمن میں جانچ ایجنسیوں کا اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا گیا، یہ جملہ متحیر کن ہے، کیا جانچ ایجنسیوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور وہ بھی مدیر محترم کے الفاظ ’میں من مانا استعمال‘‘کیا یہ ممکن ہے؟ اگر واقعتا یہ امکان ہے، تو جانچ ایجنسیوں پر لوگوں کا اعتماد کیسے بحال رہ سکتا ہے؟

ان کا احتجاج کرنا اپنے معاملات کو ایجنسیوں کے سپرد کرنے کی کوشش کرنا سب کچھ بے معانی ہوجائے گا اور کل جب کانگریس ایسا کرسکتی ہے، تو بی جے پی بھی اپنے دامن سے اس داغ کو دھونے کے لئے ایجنسی کا استعمال کیوں نہیں کرسکتی، یہ سوال ہر ذی شعور فرد کے ذہن میں پیدا ہونا یقینی ہے، اسد الدین اویسی کے جملے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہیں ،جس میں انہوں نے کہا کہ’’ 2014 کے بعد ہی تمام گواہوں نے اپنے بیان کیوں تبدیل کئے؟ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ این آئی اے اور بی جے پی سرکار نے ملزموں کو ملی ضمانت کے 90 دن بعد تک اپیل بھی نہیں کی‘‘ ان جملوں کا اثر عام آدمی کے لئے حوصلہ شکن ہے، اگر حقائق وہی ہیں ، جو مدیر محترم نے ظاہر کئے اور جن کی جانب اویسی نے اشارہ کیا تو صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔  تصور کیجئے اس طرح ہر سیاسی جماعت اپنے مفاد کی خاطر ایجنسیوں کا استعمال کرتی رہے گی، ملزمین بھی نام و نسب دیکھ کر طے کئے جائیں گے، پھر نام و نسب دیکھ کر ہی تبدیل کئے جائیں گے، سیاسی جماعتیں اپنی مرضی کے مطابق ماحول تیار کرتی رہیں گی، مظلوم ہمیشہ مظلوم رہے گا، اسے کبھی انصاف میسر نہیں آئے گا، وہ ہمیشہ مفاد کی چکی میں پستا رہے گا اور اگر حقائق یہ نہیں تو بھی جانچ ایجنسیوں کے لئے بڑا سوال ہے، اگر یہ مجرم نہیں ہیں تو پھر اصل مجرم کہاں ہیں ؟

البتہ ایجنسیوں کا یہ رویہ ذہن میں سوال ضرور پیدا کرتا ہے، اور اس کیس میں جو چیز سب سے زیادہ حیران کن ہے، وہ جج کا استعفی ہے، اس فیصلے کے فورا بعد جج نے استعفی دے دیا، اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی سروس کے صرف دو ماہ باقی تھے، اس کے بعد وہ ریٹائرڈ ہوتے اور بہت سی سہولیات حاصل کرتے، ان کے استعفے کا وقت بھی سوالات پیدا کرتا ہے، اگرچہ انہوں نے استعفی کو ذاتی وجوہات پر مبنی بتایا ہے، اگر چہ ایک اخبار نے ان کے استعفی کی کچھ اور ہی وجہ بتائی ہے کہ کرشنا ریڈی نامی شخص نے ان کے خلاف شکایت درج کی تھی، کہ جج صاحب نے ان کی زمین سے متعلق معاملہ میں فریق مخالف کو جلد ضمانت دی تھی یہ شکایت تین ماہ قبل کی بتائی جارہی ہے، اگر واقعتا ایسا ہے تو پھر اتنے اہم کیس کی شنوائی انہیں کیوں سونپی گئی، اور اس شکایت کی وجہ سے استعفی ناقابل یقین ہے، فیصلے کے بعد ہی استعفی کیوں ؟ یہ سوال ابھی زندہ ہے۔

اس صورت حال میں جو 9 شہیدوں کی روحیں اب بھی انصاف کے لئے تڑپ رہی ہیں ،اب بھی ان کے احباب قاتلوں کو سولی پر چڑھتے دیکھنے کے لئے منتظر ہیں ، اب بھی پورا ملک اس بدترین جرم کے مرتکبین کو تلاش کررہا ہے، اور ایجنسیوں کے کردار کو حیرت کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے، کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، حکومت کو سنجیدگی سے اس سمت قدم بڑھانا چاہئے، سیاسی مفاد سے اوپر آٹھ کر دیکھنا چاہئے، ورنہ ملک میں عدم تحفظ کی فضا عام ہوگی  اور عام شہریوں کے لئے زندگی گذارنامشکل ہوجائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔