سورۂ فاتحہ: ایک عہد، ایک ایگریمنٹ

ابو نبراس برہان احمد

سورۃ فاتحہ، قرآن پاک کی ایک اہم ترین سورۃ ہے، حکمت و دانائی کا درس اس میں پنہاں ہے، احکام خداوندی کا یہ نایاب گلدستہ ہے، اس کا ہر لفظ وسیع معانی اور دقیق حقائق کو اجاگر کرتا ہے، دنیا و جہاں کو پیدا کرنے والے اصل مالک کی طرف رہنمائی کرتا ہے، خالق اور مخلوق کے رشتہ کو استوار کرتا ہے، اس کے رہنما خطوط مخلوق کو دیتا ہے، انسان کو انکے آئیڈیل افراد سے متعارف کراتا ہے، ناکام و نامراد افراد کی نشاندہی کرتا ہے، حقیقتا کامیاب زندگی اور اخروی فلاح کے رہنما خطوط کی گائیڈ ہے یہ سورۃ فاتحہ۔

اس گائیڈ کی اساس، اس کی بنیاد، اس کا محور اور اس کا اعلان، خالق اور مخلوق کے درمیان ہونے والا عہد و پیمان ہے، دراصل اس میں اس ایگریمینٹ پر کاربند ہونے کا انسان وعدہ کررہا ہے کہ ’’ اے ہمارے پیدا کرنے والے!، اے ہمارے رب روز جزا و سزا کے مالک! ہم صرف تیری ہی بندگی کریں گے اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگے گے‘‘  ایسی بندگی جو چند فرائض تک محدود نہ ہو، ایسی بندگی جو ایمان کی روح سے خالی نہ ہو، ایسی بندگی جو بوجھ نہ لگے، ایسی بندگی جس سے دل بیزار نہ ہو، ایسی بندگی جو مفاد کے ساتھ نہ بدلتی ہو، بلکہ ایسی بندگی جودل کا سکون ہو، ایسی بندگی جس میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہو، ایسی بندگی جس سے روح کو تازگی اور سوچ کو پرواز نصیب ہو، ایسی بندگی جو ہر ایک سے بے نیاز کردے، ایسی بندگی جو اپنے پیدا کرنے والے اللہ سے جوڑ دے، اسی کا بناکر رکھ دے، اسی کے نام سے صبج ہو اور اسی کے ذکر سے شب ہو، تنہائی میں اس کا ساتھ محسوس ہو، مجمع میں آنکھوں سے وہ اوجھل نہ ہو، رنج و غم کے مارے جب نڈھال ہو تو اسی کا سہاراتلاش ہو، اور جب خوشی میسر ہو تو زباں پر اسی کا شکر ہو، جب معاملات کریں تو اس کی خوشنودی متمح نظر ہو، کاروبار ہو یا شادی بہا، معاشرت کے مسائل ہو یا سماج کے معاملات اسکی نارضگی سے بچنے کی مکمل کوشش ہو۔

  ’’ ایاک نعبد و ایاک نستعین ‘‘ صرف تیری ہی بندگی کریں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگیں گے۔ ۔ یہ ایک ایسا عہد ہے جس کے اقرار کے وقت پیارے نبی ﷺ کا ہر ایک امتی ’’ نعبد ‘‘ کا کلمہ استعمال کرتا ہے، جو ’’ عبد ‘‘ سے بنا ہے جس  کے معانی ہی مکمل اطاعت اور غلامی کے ہوتے ہیں ، اور عبادات، نماز، روزہ، حج، عمرہ وغیرہ اس بندگی کا مظہر ہے، اس بندگی کی علامت ہے، اور اس بندگی کا لازمی جزء ہے۔ اور اس اطاعت و غلامی کا انسان اپنی مکمل زندگی میں کاربند رہے گا، چاہے اسکا تعلق معاملات سے ہو یا نماز روزہ سے۔

 اس زمین پر، ان افراد کی کمی نہیں جو یہ کہتے ہیں : کہ میں اپنے تمام اختیارات کا خود مالک ہوں ، یہ زندگی میری ہے، میں چاہے جو کروں ، جو من کرے پہنوں ، جیسا من چاہے زندگی بسر کرو ں ،اپنے من کو بہلانے کے لئے عیاشی کروں ، یا سامان عیش بے حساب لٹاوں نہ کسی کو مجھے منع کرنے کا حق ہے اور نہ ہی میں کسی قانون کا ان معاملات میں پابند ہوں اورنہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے۔

  ان خیالات کو ماننے والوں کی کثیر تعداد اس لئے ہوا کرتی ہے کیونکہ ان کو اپنا کر انسان شتر بے مہر ہوجاتا ہے، وہ اپنی خواہشات کا غلام ہو جاتا ہے، اسی زندگی میں اس کو لطف آنے لگتا ہے، اس کی خواہشات کے سامنے اب کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی ہے، عیش ہی عیش، مستی ہی مستی نظر آنے لگتی ہے۔ ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ خواہش نفس اور دنیا کی چکا چوندہ کے سامنے وہ اس کائنات کے پیدا کرنے والے کو پہچان نہیں پایا ہے، ایک ادنی سی چیز کے موجد پر اسے ناز ہوتا ہے لیکن خود کے موجد سے وہ غافل ہوتا ہے۔ زمیں و ستاروں کی دوریاں تو وہ جان جاتا ہے لیکن اپنے خالق سے وہ کتنا دور ہوتا جارہا ہے، اسکا اسے احساس ہی نہیں ہوتا ہے۔ جب اس پیدا کرنے والے کو جانتا ہی نہیں تو اسکے احکامات کو مانتا بھی نہیں ۔ اور بہت سے ایسے بھی نادان ہیں جنھیں یہ دعوی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کو جانتے ہیں اس پر ایمان بھی رکھتے ہیں لیکن ان کی زندگی اس خالق کے بتائے احکامات سے خالی ہوتی ہے۔

 اسی لئے پیارے نبی ﷺ کا ہر ایک امتی سورۃ فاتحہ کے شروع ہی میں ، خوشی سے جھومتا ہوا، محبت سے شرسار، یہ پکارتا ہوا نظر آتا ہے ’’شکر و ثنا اللہ رب العالمین، رحمن و رحیم، مالک روز جزا کے لئے ہے ‘‘۔۔جب اس جہاں کی حقیقت سے ایک مومن واقف ہو جاتا ہے، جب وہ اپنے پیدا کرنے والے کو جان جاتا ہے، اور اس پر ایمان لے آتا ہے، تو خوشی کے مارے بے اختیار پکار اٹھتا ہے : تمام تعریفیں اس سارے جہاں کے رب یعنی اس جہاں کے مالک اور آقا کے لئے ہے، میں اپنے پالنے والے، پرورش کرنے والے نگہباں کا شکر اداکرتا ہوں کہ مجھے اسکی معرفت نصیب ہوئی وہی فرما روا ہے، وہی حاکم ہے، وہی مدبر اوروہی منتظم ہے۔

وہ رحمن و رحیم ہے اسلئے اس نے انسان کو موت آنے تک یہ چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جو بولنا چاہے بول لے، جتنی من کرے مو شگافیاں کرلے، اپنے ہم نواؤں سے جتنی داد و تحسین سمیٹنا ہے سمیٹ لے، تحقیق و ترقی کے نام پر جتنی مذہب سے بیزاری ظاہر کرنا ہو کرلے،  لیکن یاد رکھے ادہر سانس نے چلنا چھوڑا اور ادھر حساب کتاب شروع۔ اور پھر تم مانتے رہے ہو یا نہ رہے ہو، باعمل رہے ہو یا نہ رہے ہو، بالاخیر اس پیدا کرنے والے کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے، جو اس دن تمہارے اعمال کے مطابق فیصلہ کرے گا اور اس کا حکم فورا نافذ کردیا جائے گا۔

 ان ہی مذہب بیزار لوگو سے قرآن پوچھتا ہے ’’ (اے نبی )ان سے کہو کبھی تم نے یہ سوچا کہ اللہ خواہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کردے یا ہم پر رحم کرے، کافروں ( انکار کرنے والے، نافرمانوں ) کو درد ناک عذاب سے کون بچالے گا؟‘‘

تبصرے بند ہیں۔