اس ارتداد کے لیے کوئی ابو بکرؓ  نہیں

محمد نافع عارفی

(معہد الولی الاسلامی، ہرسنگھ پور، دربھنگہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی پورے جزیرۃ العرب میں ارتداد کی آگ بھڑک اٹھی۔ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، شجاع جیسے مدعیان نبوت ایک طرف اٹھ کھڑے ہوئے تو دوسری طرف کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ ہر طرف اسلام بیزاری کی اک ہوا چلانے کی کوشش کی گئی، لیکن سیدنا حضرت ابو بکر صدیق نے ان فتنوں کا مقابلہ ہمت فرزانہ اور جرأت مومنانہ کے ساتھ کیا۔ اور چند ہی روز میں ارتداد کا طوفان تھم گیا۔ سیدنا خالد بن ولید اور ان کے بہادر و جانباز رفقا نے مرتدین کو کیفر کر دار تک پہنچا دیا۔ ان نازک حالات میں جہاں بڑے بڑے بہادروں کے دل دہل گئے اور سیدنا حضرت عمر فاروقؓ جیسے جیالے خلیفہ وقت سے نرمی اور عفو در گزر کی درخواست کر رہے تھے وہیں سیدنا ابو بکر صدیق نے پوری قوت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے ان فتنوں پر کاری ضرب لگائی کہ ابو بکر کے جیتے جی دین میں نقص پیدا ہو جائے یہ ممکن نہیں ہے۔

آج پوری مسلم دنیا بلکہ یوں کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ دنیا کے ہر خطے میں فکری ارتداد کی آندھی چل رہی ہے۔ نت نئے فتاوے جاری ہو رہے ہیں، بڑے بڑے ادارے جن پر ایک زمانے میں امت کا اعتماد تھا وہاں سے اس امت مسلمہ کو ایسے فتوے دیئے جا رہے ہیں جو شریعت اسلامی سے متصادم ہے۔ ازہر کا شیخ وقت کے فرعون، بد کر دار، بد نیت اور صہیونیت کے ایجنٹ، سی سی کے ہر قول و فعل کو شریعت قرار دے کر امت کرار دے کر امت کو اسی پر عمل کر نے کی نصیحت کر رہا ہے تو کوئی ازہری مفتی شراب، سودکے جواز کے فتوے دے رہا ہے، تو کوئی مفتی یہودیوں کو جنتی قرار دینے پر آمادہ ہے، کوئی قرآن کریم میں تبدیلی کی وکالت کر رہا ہے، کوئی بد کر دار خاتون مصری چینل پر آ کر عورتوں کی آزادی کے نام پر اسلام کے بنیادی قوانین کی دھجیاں اڑا رہی ہے، ہر طرف فتنہ بر پا ہے۔

مملکت توحید اور مہبط وحی کی سرزمین سعودی عربیہ جدید کاری اور انقلاب کے نام پر فکری ارتداد کی لپیٹ میں ہے۔ سعودی کا مطلق العنان او ر مغربی فکر کا گرفتار شہزادہ محمد بن سلمان ایسے فیصلے کر رہے ہیں جو نہ صرف قرآن و حدیث سے متصادم ہے بلکہ قدیم ترین سعودی روایات کے خلاف بھی ہیں۔ سعودی عربیہ میں جوئے کے اڈے، سنیما ہال کھولے جا رہے ہیں اور کسی مولوی نما شخص سے یہ افتتاح کرایا جا رہا ہے۔ سعودی حکومت کا ارادہ ہے کہ ملک کے ہر شہر میں سنیما ہال قائم کیا جائے گا۔ ان عورتوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر ہی میں رہنے کا حکم دیا، انہیں سر بازار رسوا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ بد دینی کے سارے کام دین کے نام پر ہو رہے ہیں۔ اور اسے دینی اور شرعی ثبوت فراہم کر نے کے لئے ریال کے غلام علما ابن سلمان کی ہاں میں ہاں ملاتے نہیں تھکتے۔

اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نصیحتوں میں سے ایک ہے کہ یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا لیکن سلمان اور اس کے بیٹے کی موجودہ حکومت یہودیوں کے لئے جزیرۃ العرب کے دروازے کھول دیئے۔ وہ ان کے استقبال میں اپنی آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔ ایسے ایسے فیصلے اور معاہدے کئے جا رہے ہیں جس کا راست طور پر اثر فلسطین کے بے یارو مددگار مسلمانوں پر پڑ رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے تعلق سے بھی سعودی پالیسی عملی طور پر بدل چکی ہے۔ بلکہ حکومت سعودیہ غزہ کے محصور مسلمانوں کے گرد زندگی کا دائرہ تنگ کر نے کی ہر کوشش کا تعاون کر رہی ہے۔ یہی پالیسی امارات کی حکومت اور اس کے بے لگام شہزادہ محمد بن زائد کی ہے۔حد تو یہ ہو گئی کہ اس سال حج کے بعض ٹھیکے اسرائیلی کمپنیوں کے سپرد کر دیئے گئے۔ جس حرم کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صہیونیت کی نجاست سے پاک کرنے کا حکم دیا تھا، وہ حرم آج صہیونیت کے نرغے میں ہے۔

ہمارا ملک ہندستان بھی عجیب و غریب کشمکش کا شکار ہے۔ وہ مغربیت کی طرف تیز گامی سے سفر کر رہا ہے۔ عدالتیں ایسے فیصلے سنا رہی ہیں جو نہ صرف یہ کہ اسلام کے خلاف ہے بلکہ انسانیت اور ہندستانی ریتی رواج اور روایت سے متصادم ہے۔ ہم جنسی اور زنا کی اجازت ایک ایسی خطرناک بات ہے جو پوری نسل انسانی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گی۔ یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے اور خدا کی خدائی میں دخل دینے کے مترادف ہے۔ کون نہیں جانتا کہ قوم لوط اپنے اسی ناپاک عمل کی وجہ سے تباہ و برباد کر دی گئی۔

ٹکنا لوجی کی ترقی نے بھی نوجوان نسل کو فکری طور پر ارتداد کے حوالے کر دیا ہے۔ ترقی کے نام پر مغرب مشرق کے متاع دین و ایمان پر شب خون مار رہا ہے۔ فیس بک، واٹس اپ اور دیگر عوامی رابطے کی سائٹیں نوجوان نسلوں کو کس تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں اس کا ہر صاحب عقل و خرد آسانی سے اندازہ لگاسکتا ہے۔ کچھ زر خرید غلام ٹی وی چینلوں پر بٹھا دیئے گئے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف کھلے عام زہر افشانیاں کر تے ہیں۔ طلاق جو بسا اوقات زوجین کے لئے رحمت ہے اسے عورتوں کے خلاف ایک ہتھیار بتا کر جھوٹ پھیلانے والوں نے اس قدر جھوٹ پھیلایا کہ بھولے بھالے مسلمان اور بطور خاص اسلامی تعلیم سے نا بلد نو جوان کے ذہن و دماغ میں اسلامی عائلی قوانین کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کر دیئے گئے۔ادھر تیونس کی حکومت نے اسلام کے نظام وراثت پر حملہ بولا ہے اور مساوات نسواں کے نام پر قرآن کے تقسیم وراثت کے قانون کو کالعدم قرار دیا ہے۔ کیا کیا لکھا جائے اور کن کن مسائل کا ذکر کیا جائے۔ پوری دنیا مغرب کے فکری یلغار کا شکار ہے۔ ہر کوئی کشکول لے کر اس طرف دوڑ رہا ہے، جس کے پاس دینے کے لئے نہ کل کچھ تھا اور نہ آج کچھ ہے۔ اوروں کی بات تو چھوڑیئے خود مسلمان جن کے پاس اپنا نظام تعلیم، اپنی تہذیب و تمدن، اپنا قانون اور ایسا قانون جو ابدی ہے اور جس کا بنانے والا خود خالق کائنات ہے وہ بھی مغرب کی طرف للچائی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ جو خود ہر میدان میں تہہ دامن ہے وہ کیا کسی کو کچھ دے سکتا ہے۔ لیکن شیطان نے ایسا پر فریب نعرہ دیا ہے کہ ہر کوئی سراب کو پانی سمجھ بیٹھا ہے۔ دوسری طرف ہماری قیادتیں ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے جنبش کرنے پر آمادہ نہیں۔ ضرورت ہے کہ خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کی جائے۔ لیکن روایتوں کی زنجیر کی جکڑی ہماری خانقاہیں اپنے گرد و پیش سے نا بلد اپنی ہی دھن میں مست ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوششیں نہیں ہو رہی ہیں لیکن ان کوششوں میں بھی اس جذبہ ایمانی کا فقدان صاف دکھتا ہے جو ایک مرد مومن کا سرمایہ ہو سکتا ہے۔ یہ جذبہ کہ ’’میرے جیتے جی دین میں نقص پیدا ہو جائے یہ نا ممکن ہے ‘‘نہ معلوم کہاں کھو گیا ہے۔ ہم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آنے والا، نہ کوئی کتاب نازل ہو نے والی ہے۔ اس جاہلیت کا علاج بھی اللہ کے اسی ابدی کتاب میں پوشیدہ ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سپرد کر کے گئے ہیں۔ ہم اسی ابو بکر کے ماننے والے ہیں جنہوں نے اپنی جا ن ہتھیلی پر لے کر اسلام کے قلعہ کی حفاظت فرمائی۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہر ہر مسلمان جو اپنے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کا دعویدار ہے وہ میدان عمل میں اترے اور یہ ثابت کر دے کہ اس کے ہوتے ہوئے دین کا کوئی حکم روندا نہیں جا سکتا۔ اسے یہ گوارا تو ہو کہ اسے شہہ رگ پر خنجر پھیر دیا جائے، اس کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے لیکن وہ اسے ہرگز قبول نہ کرے اس شریعت کا کوئی حکم اس کی نظروں کے سامنے پامال ہو۔ یہی ایمان کا تقاضہ ہے اور یہی اللہ اور اس کے رسولؐ کا مطالبہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔