اس خرابے میں بھی اکثیر وہی ہے کہ جو تھا!

ڈاکٹر عابد الرحمٰن 

عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑ نے کے لئے بلاوا دیں گی جیسے بھوکے (جانور) کھانے پر ٹوٹ پڑ نے کے لئے بلاوا دیتے ہیں‘ یہ اللہ کے رسول آخرالزماںرحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشن گوئی ہے جو امت کی نہایت دگر گوں حالات کی خبر ہے، اورہم امت مسلمہ اپنی تاریخ کے اسی دور میں پہنچ گئے ہیں جس کی خبر چودہ سو سال پہلے سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے دے دی تھی موجودہ حالات میں فی الواقع یہی ہو رہا ہے۔دنیا کی کوئی قوم ہماری دوست تو ہے نہیں بلکہ ہر قوم ہماری دشمن بنی ہوئی ہے غور کر نے کی بات ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ہمیں بہترین قوم کہا گیا ،’امت وسط‘ کہا گیا اور لوگوں کی خیر و فلاح ہم سے وابستہ کی گئی لیکن اس کے باوجود ہمارے عالمگیر حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہیں ،پستی کی کوئی سطح ایسی نہیں بچی جہاں ہم نہ پہنچے ہوں،کوئی ناکامی اور نا مرادی ایسی نہیں جو ہمارے حصہ میں نہ آئی ہو،ذلت و رسوائی بھی ہم سے زیادہ کسی اور قوم کا مقدر نہیں،اگر کہیں بے تحاشا ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور انسانی خون کا زیاں ہو رہا ہے تو مسلمانوں کا ، اگر کہیں شدید ترین بد امنی ہے تو مسلمانوں کے ممالک اور علاقوں میں،اگر کسی کی زمین صنعتیں فصلیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے تو مسلمانوں کا،اگر کہیں جنگیں ہورہی ہیں محاصرے ہورہے ہیں غذا دوا اور ضروریات زندگی کی شدید قلت ہو رہی ہے تو مسلمانوں کے ممالک میںیہی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی جنگیں بھی مسلمانوں کے ممالک میں ہی ہورہی ہیں ، دہشت گردی کا الزام مسلمانوں پر ہے اور دہشت گردی بھی ہمارے ہی ممالک اور علاقوں میں ہورہی ہے اس کے ذمہ دار بھی مسلمان اور اسکا شکار بھی مسلمان ۔قابل غور بات یہ ہے کہ یہ سب ان لوگوں کے ہاتھوں یا ان لوگوں کے مقابل ہو رہا ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کھلے دشمن ہیںاللہ کی ذات و صفات میں شرک کرتے ہیں اور اس کے رسول ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیںجو مسلمانوں ہی کے نہیں بلکہ اصل میں اللہ کے دین کے دشمن ہیںجن کی ساری تگ و دو اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اور خاص بات یہ بھی کہ یہ زوال ہم پر کم و بیش ایک ہزار سال تک بام عروج پر رہنے کے بعد آیا ہے،ان سالوں میں ہم ہر معاملہ میں دنیا کے امام تھے دولت طاقت اور علم وحکمت میں کوئی ہمارا ہم پلہ نہیں تھا ۔ہم سے پہلے بنی اسرائیل امات دنیا کے منصب پر فائض تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں امامت کے جلیل القدر منصب سے بنی اسرائیل کی معزولی کے اسباب پوری طرح کھول کر بیان کردئے ہیں جس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ہم ان اغلاط کوتاہیوں اور گناہوں سے بچیں جن کی پاداش میں بنی اسرائیل امامت جہاں سے معزول ہوئی ۔جب تک ہم من حیث القوم ان کوتاہیوں سے بچے رہے پوری دنیا میں ہمارا سکہ ہی سکہء رائج الوقت رہا اور اب جبکہ ہم ہمہ گیر پستی کا شکار ہیںتواس کی ذمہ داری بھی ہم ہی پر عائد ہوتی ہے ،ہماری موجودہ مذہبی سماجی معاشی اور سیاسی روش اس بات کی غماز ہے کہ ہم بھی بالکل اسی راستے پر ہیں جس پر چلنے کی وجہ سے بنی اسرائیل امامت جہاں سے معزول اور بارگاہ ایزدی میں معتوب ہوئی تھی۔قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے غلبہ کو ایمان سے مشروط کردیا ہے کہ ’ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو ۔( سورہ آل عمران 139)‘اب سوال یہ ہے کہ صاحب ہم تو پیدائشی مومن ہیں ،اس کا اعلان بھی کرتے ہیں ٹوپی داڑھی کرتا پا جامہ کا اہتمام بھی کرتے ہیں نماز روزہ زکوٰۃ قربانی اور حج کی ادائیگی بھی کرتے ہیں،اور اب تو ہماری مسلمانیت میں کافی اضافہ بھی ہوا ہے نئی نئی مساجد تعمیر ہورہی ہیں ،مدارس اسلامیہ کا جال بھی بچھ گیا ہے اور ذکر و اذکار وظائف اور استغفار بھی ہمارے روز مرہ میں شامل ہو گئے ہیں لیکن ہماری پستی ذلت رسوائی اورمغلوبی ہے کہ نہ صرف بڑھتی جا رہی ہے بلکہ مستقبل قریب میں اس کے کم ہونے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ایسا کیوں ؟ تو اس کا جواب بڑا سادہ ہے کہ صاحب ہمارے مومن ہونے میں کمی ہے وگرنہ ہم سچے پکے اور حقیقی مومن ہو جائیں اور اللہ اپنا وعدہ پورا نہ کرے ،ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔ مومن ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور حکم دیا ہے کہ ’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ(البقرہ208)‘ اب ہم خود سو چیں کہ ہم اسلام میں کتنے داخل ہیں،اگر خلوص کے ساتھ ہماری مسلمانیت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ ہم اسلام میں پورے کے پورے داخل نہیں ہیں۔ہم نے دراصل کرتا پاجامہ پہن لینے داڑھی رکھ لینے اور ٹوپی یا عمامہ باندھ لینے کو اور پانچ وقت جیسے تیسے نماز پڑھ لینے رمضان کا مہینہ بھر روزہ رکھ لینے قربانی کر نے اورحج وعمرہ کر لینے اور اپنی بول چال میں ان شاء اللہ ما شاء اللہ کو ہی اسلام سمجھ رکھا ہے اس دکھاوے کے اسلام میں بھی ہم زکوٰۃ پوری طرح ادا نہیں کرتے کھیتی کے مال میں سے عشر بھی ایمانداری سے نہیں نکالتے اور اپنے والدین ،بھائی بہنوںاور ہم سایوں کے حقوق بھی پوری طرح ادا نہیںکرتے۔ اور رہی دنیا اور معاشرت تو یہاں تو ہم بہت دھڑلے سے بالکل جائز سمجھ کر بے دینی کرتے رہتے ہیں۔دراصل ہم نے دنیا کو دین سے اور دین کے اصول و ضوابط سے آزاد کر رکھا ہے اور ہم نے دین کو مسجد میں قید کر رکھا ہے اور مساجد کو جماعتی گروہی اور مسلکی دھینگا مشتی کا اکھاڑہ بنا رکھا ہے بلکہ اب تو یہ بھی ہورہا ہے کہ مساجد کے انتظام پر سیاسی لوگ قابض ہو ئے جارہے ہیں اور وہ مساجد کو بھی اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنے لگے ہیں،یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ‘ لیکن صاحب اب تو یہ ہورہا ہے کہ سیاسی لوگ مساجد میں گھس کر چنگیزی کر نے لگے ہیں ۔اس کے علاوہ ہم لاکھ شریعت محمدی ﷺ پر مر مٹنے کے نعرے لگائیں لیکن حقیقت یہ کہ ہم خود شریعت کو قدم قدم پر پامال کر تے ہیں۔جذباتی طور پر تو ہم آن واحد میں مسلمان ہو جاتے ہیں لیکن جذبات ٹھنڈے ہونے پر پھر وہی ڈھاک کے تین پات ! اور جذبات کی عمر انتہائی قلیل ہوتی ہے لیکن یہی قلیل عمر کے جذبات بہت لمبے عرصہ تک جاری رہنے والا نقصان کردیتے ہیں،جو کسی طور ہمارے ذہن میں نہیں آرہا ہے۔دراصل ہم میں منافقت بہت زیادہ ہوگئی ہے ،نام سے تو ہم مسلمان ہیں لیکن ہمارے کام مسلمانوں جیسے قطعی نہیں۔ ہم اگر شریعت محمدی اپناتے بھی ہیں تو صرف عبادات میں، تکفین و تدفین میں اور کبھی شادی و طلاق میں۔ہمارے دوسرے معاملات بالکل دنیا کے سپرد ہیں اور ان میں شریعت کا بالکل پاس نہیں رکھا جاتا ہم ظاہری طور پر تو مسلمان ہیںلیکن باطنی طور پر مسلمانیت ہم میں کم ہی ہے ،کیا اسے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونا کہہ سکتے ہیں۔ اسلام کا مطلب ہی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے کا ہے اور اسلام میں پوے کے پورے داخل ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کوصدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ مانیں اور بے چوں و چرا بجا لائیں اور اپنی دنیا کو اور دنیاوی معاملات کو بھی اللہ کے دین کے تابع کردیں ۔اگر ہم محض عبادات کو دین کے تابع کریں اور دنیا کو اس سے آزاد کرلیں تو کیا ہم سچے مسلمان اور حقیقی مومن ہو سکتے ہیں؟ایک اور بات کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دین اللہ بنا کر اسے لوگوں میں محبت اور اخوت کا ذریعہ بنایا اورجو واقعی مومن رہے انہوں نے اسی دین کی بنیاد پر قبائلی اختلافات اور پیڑھی در پیڑھی چلنے والی جنگوں اور دشمنیوں کو یکسر بھلا دیا تھااور آپس میں شیر و شکر ہو گئے تھے اللہ تعالیٰ نے اس دین کے ماننے والوں کو بار بار متحد ہونے کی اور تفرقہ میں نہ پڑ نے کی ترغیب دی اور تفرقہ و پھوٹ کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا لیکن دیکھئے ہم کتنے عجیب ہیں کہ ہم نے اس دین کو بجائے خود نکتہء تفریق بنالیا ،ہم نے مسلکوں اورجماعتوںکے نام اسلام دین اللہ کو فرقوں میں بانٹ لیا ہے ۔نہ صرف فرقوں میں بانٹ لیا بلکہ ہر فرقہ کی تگ و دو اسلام کی سر بلندی کے لئے یا اسلام کے دشمنوں کے خلاف نہیں بلکہ اسی اسلام کے دوسرے فرقوں کے خلاف اور انہیں اسلام سے خارج کر نے کے لئے ہو گئی ہے ۔ آج ہمارے خلاف پوری دنیا اور دنیا میں بسنے والی تمام اقوام اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہے اور ہمارے خلاف عملی جنگ بھی شروع کر رکھی ہے ہماری مسجدوں کو نشانے پر لے لیا گیا ہے اور ہماری درسگاہوں کو دہشت گردی کے اڈے کہا جا رہا ہے ،ہماری شریعت کو نعوذ باللہ نا قص کہا جا رہا ہے لیکن ہم اسی میں الجھے ہوئے ہیں کہ کونسی مسجد مقلدین کی ہے اور کونسی غیر مقلد ین کی ،کونسی درسگاہ کو جماعت اسلامی چلاتی ہے اور کونسی درسگاہ کو اہل سنت والجماعت ۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم غیر مسلموں سے تو رسم و راہ رکھتے ہیں ان سے معاشی لین دین کو ترجیح دیتے ہیں ان کی غیر دینی مجالس اور حرکات کو توبرداشت کرتے ہیں لیکن مسلکوں اور جماعتوںکے نام ہمارے اپنے دینی بھائیوں کو ہی برداشت نہیںکرتے ۔ جب ہماری یہ حالت ہے تو غیر مسلموں سے مغلوب ہو جانے میں ہمیں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ دراصل ظلم و جبر نہیں بلکہ ہمارا حق ہے۔ اور یہ اس وقت تک ختم یا بند نہیں ہو سکتا اور ہماری حالت میں اس وقت تک سدھار ممکن نہیں جب تک ہم حقیقی مومن نہیں بن جاتے اور پورے کے پورے اسلام میں داخل نہیں ہو جاتے اور اپنی دنیا کو بھی دین کے تابع نہیں کردیتے۔ سو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ آج کے ہمارے اس خرابے میں بھی وہی نسخہ اکثیر ہے جو پہلے تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔