اس قوم کو میں کیا نام دوں؟

مدثر احمد

کہنے، سننے اور بولنے کو تو ہم مسلمان ہیں، لوگ ہمیں مسلمانوں کےنام سے جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں لیکن کیا واقعی میں ہم مسلمان ہیں یہ سوچنے کی بات ہے۔ ویسے ہمارا شمار اس قوم سے ہے جس کے چرچے بہادری، دانائی، علم و حکمت اور اخلاقیات وباکردار لوگوں کے میدان میں ہیں، لیکن ملک کے موجودہ حالات کاجائزہ لیں تو ہم مسلمان بس نام کے مسلمان ہوکر رہ گئے ہیں نہ ہم میں ظلم کا جواب دینے کی سکت رہی ہے نہ ہی ظلم سے بچنے کی طاقت، ہر کوئی مارتا جارہاہے اور ہم مار کھاتے جارہے ہیں، ہماری تہذیب، ہماری شناخت یہاں تک کہ ہمارا دین بھی خطرے میں ہے اور ہم بزدل قوم بس ایک دوسرے پر تبصرے کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور ہماری زبانیں گنگ ہوتی جارہی ہیں۔

 ہندوستان بھر میں ماب لنچنگ کی وارداتیں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ہماری تاریخ سے جڑے ہوئے شہر وں کے نام بدلے جارہے ہیں، ہماری شناخت ہمارے وجود کو تباہ و برباد کیا جارہاہے لیکن کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک کے مسلمان بس تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ آخر کب تک مسلمان خاموش رہینگے کیا مسلمانوں کے پا س وہ جذبہ معدوم ہوچکاہے جس میں انکے تذکرے بہادری و شجاعت والوں میں ہوتے تھے۔ واقعی میں مسلمان کمزور ہوچکے ہیں۔ مجھے غصـہ آرہاہے کہ ہم ناکارہ بن چکے ہیں اور ہمارے پاس اتنی بھی طاقت نہیں کہ گروہ در گروہ بناکر جس طرح سے مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں لیکن ہم سوشیل میڈیا میں ان حملوں کی ویڈیوس کو شئیر کرنا، فیس بک پر لائک کرنا اپنی بہادری سمجھ بیٹھے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے اپنی زندگی میں کہہ دیا تھا کہ جس قوم کے حکمران اپنی جان و مال کی حفاظت کے تعلق سے سوچنے لگیں اس قوم کی آبرو اور جان محفوظ نہیں رہے گی۔ یقینا آج ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو حکمران کہلاتاہے، اپنے آپ کو لیڈر کہتا ہے۔ لیکن جب بات قوم کی حفاظت کی آتی ہے تو ہر کسی کو اپنے جان و مال کی فکر ستانے لگتی ہے۔

مسلمانوں کو مراٹھا قوم سے سبق لینے کی ضرورت ہے جنہوںنے اپنی ذات کے ریزرویشن کے لئے نہ صرف مہاراشٹرحکومت کے ناک میں دم کررکھاہے بلکہ ہندوستانی حکومت کو بھی انکے تعلق سے سوچنا پڑرہاہے جبکہ ادھر جاٹ سماج کے لوگ ہریانہ میں جس طرح سے اپنے حقوق کی لڑائی لڑچکے ہیں وہ بھی تاریخی واقعہ ہے مگر ہم ریشمی رومال کی تحریک چلانے والے، انگریزوں کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کا نعرہ بلند کرنے والے اس قدر ناکارہ ہوچکے ہیںکہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دینی بھائی کا قتل ہوتے دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ مسلسل مسلمانوں سے جڑے ہوئے شہروں کے ناموں کو تبدیل کیا جارہاہے اور ہم لائک اینڈ شئر کے گیم میں مصروف ہیں۔

 ہماری نوجوان نسلیں کرکٹ، جوے بازی، سٹے بازی، نشہ خوری میں مست ہے تو تعلیم یافتہ طبقہ اپنے اہل و عیال کے لئے روپیہ پیسہ کمانے میں مصروف ہے۔ اہل علم حضرات مسلکی معاملات کے بحث و مباحثوں میں مصروف ہیں تو علمائے کرام ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سال میں دومشاعرے ہماری شناخت ہوچکی ہے اورایک قوالی کو ہمارے اوپر فرض بنالیاہے۔ غیر ہماری داڑھیاں منڈوانے کے لئے ہم پر زبردستی کررہے ہیں تو ہم داڑھی کیسی ہونی چاہئے اس پر بحث کررہے ہیں۔ ہماری نوجوان بیٹیاں و بہنیں غیر مسلموں کی سازشوں کا شکار ہوکر انکی باہوں میں جارہی ہیں تو ہم اپنی بیٹیوں کی شادیوں کے لئے سنی و تبلیغی لڑکوں کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، اسی تلاش کےدوران وہ دلت کے ساتھ بھاگ جائے یا پھر برہمن کو اپنالے اس کی ہمیں کوئی فکر نہیں ہے۔

ہماری مسجدیں نمازیوں سے خالی ہورہی ہیں اور ہم ہر گلی میں مسجد بنا نے لگے ہیں۔ ہمارے دین کے قلعے مانے جانے والے مدرسوں میں دراریں آنے لگے ہیںاور ہم ان قلعوں کو پہلے درست کرنے کے بجائے نئے نئے مدرسوں کو عمل میں لانے کے لئے دربدر گھوم رہے ہیں۔ ہم ہندوستانیوں کا وجود ہی خطرے میں ہے اور ہم پاکستانی مسلمانوں کی بدحالی کی بات کررہے ہیں۔

آج امت مسلمہ کو جن باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ان باتوں پر توغور نہیں کیاجارہاہے۔ چار پیسے لے کر مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لئے چند لوگ داڑھی ٹوپی لے کر ٹی وی اسٹوڈیو پہنچ رہے ہیں اوروہ مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ دین کا دیوالہ نکال رہے ہیں اور ہم ہمیشہ ان پر لعن طعن بھیج رہے ہیں۔ موجودہ دور کے ٹی وی چینلس پر مسلمانوںکے خلاف مسلسل زہر اگلا جارہاہے اور ہم ان ٹی وی چینلوں کا بائیکا ٹ کرنے کی بات کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے بائیکاٹ کرلیں لیکن آزادی کے بعد سے اب تک کونسا ٹی وی چینل آپ لوگوں نے بنالیا اور کونسے ٹی وی چینل کے ذریعے آپ اپنا درد بیان کررہے ہو۔ جب بات میڈیا کی آتی ہے، ٹی وی چینل بنانے کی بات ہوتی ہے تو مسلک اور مذہب کی تبلیغ کے لئے ٹی وی چینل بنالیتے ہیں۔ پیس ٹی وی جو ہندوستان کا مشہور اسلامک چینل ہے اس چینل کا کیا حشر ہوا آپ نے دیکھا ؟۔ اگر ذاکر نائک نے اس کام کے ساتھ ساتھ ملک کے موجودہ حالات کو پیش کرنے کے لئے ایک چینل بھی بنادیا ہوتا تو شاید آج انکا پیس ٹی وی پیس پیس ہونے کے بجائے محفوظ رہتا۔ چھوٹا منہ بڑی بات۔

 ہم مسلمانوں کے پاس اب ہوش نہیں رہا اور ہم ایک طرح کے دلال بن چکے ہیں۔ کوئی سیاسی دلال تو کوئی مذہبی دلال، کوئی مسلک کا دلال تو کوئی قوم کا دلال۔ ۔ بس اب دلالی ہی ہماری پہچان ہے اور ہم یوں ہی کٹتے مرتے رہینگے۔ جاگو مسلمانوں جاگو، حالات کو دیکھو اور اپنے آپ کو مسلمان بنائو نہ کہ دلال۔

تبصرے بند ہیں۔