مولانا مودودی کی ترجمہ نگاری

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

برادر مکرّم ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی نے حیدر آباد سے بہت خوشی و مسرّت کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ انھوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (م1979) کے ترجمہ ‘اسفار اربعہ ‘(ملا صدرا کی کتاب کا اردو ترجمہ) کو دریافت کرکے شائع کیا ہے۔ پھر انھوں نے بذریعہ کوریر کتاب بھی میرے پاس بھیج دی۔ واقعی یہ خبر بہت مسرّت انگیز ہے، اس لیے کہ اس کتاب کے ذریعے مولانا مودودی کی خدمات کے ایک اہم پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ مولانا کی شہرت ایک مفکّر، مصنّف، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے مسلّم ہے، البتہ ان کی ترجمہ نگاری کے بارے میں اہل علم کو کم معلومات ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے اس پہلو پر اہم روشنی پڑتی ہے۔

ملا صدرالدین شیرازی (م1050/ھ1640ء)کی تصنیف الحکمة المتعالیة في الاسفار العقلیة، جو ‘اسفار اربعہ’ کے نام سے مشہور ہے، عربی زبان میں فلسفہ کی ایک ادقّ، وقیع اور بلند پایہ کتاب ہے۔ اس کا شمار فلسفہ کی امہات الکتب میں ہوتا ہے۔ یہ ایران میں فلسفہ کے نصاب میں شامل رہی ہے۔ ہندوستان میں بھی اسے گزشتہ صدی کے اوائل میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کے شعبہ فلسفہ و منطق کے نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔

مولانا مودودی نے دہلی کے دوران قیام علوم شرقیہ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے حاصل کیے اور فلسفہ و منطق مولانا عبدالسلام نیازی سے پڑھا، جو فلسفہ کی گہری معلومات رکھتے تھے۔ مولانا مودودی کو ترجمہ نگاری میں بھی مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے انگریزی اور عربی دونوں زبانوں سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ جن کتابوں کا انھوں نے عربی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا ان میں مصری دانش ور قاسم امین کی ‘المراۃ الجدیدة’، مصطفی کامل مصری کی ‘المسالة المشرقية’، ابن خلکان کی تاریخ سے مصر کے فاطمی خلفاء سے متعلق حصہ اور شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کی ‘حجۃ اللہ البالغة ‘ کے منتخب حصوں کا ترجمہ (جو ان کے مجموعہ مضامین ‘تفہیمات’ جلد چہارم میں شامل ہے) قابل ذکر ہے۔ اسفار اربعہ کے ترجمہ کے منظر عام پر آنے سے مولانا کے تراجم میں ایک اور کتاب کا اضافہ ہوگیا ہے۔

حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کے آخری نظام ہفتم میر عثمان علی خان کے عہد (1911۔1948)میں جامعہ عثمانیہ کا قیام 1919 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کا ذریعہ تعلیم اردو رکھا گیا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ تمام علوم و فنون کی کتابیں اردو میں مہیا کی جائیں، طبع زاد کتابیں تالیف کی جائیں اور دیگر زبانوں سے اہم علمی کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی کروایا جائے۔ چنانچہ جامعہ عثمانیہ کے قیام سے پہلے ہی 1917 میں ‘سررشتہ تالیف و ترجمہ جامعہ عثمانیہ سرکار عالی ‘ قائم کیا گیا، نیز ایک مجلس وضع اصطلاحات کے لیے بھی قائم کی گئی، جو مختلف علوم و فنون میں اصطلاح سازی میں معاونت کرتی تھی۔ اس ادارہ کے ذریعے جو تالیفات وتراجم دارالطبع جامعہ عثمانیہ سے شائع ہوئے ان کی تعداد 400 سے زائد ہے اور تقریبا ایک لاکھ اصطلاحات مختلف علوم و فنون کی وضع کی گئیں۔

مولانا مودودی کے بڑے بھائی جناب ابوالخیر مودودی دار الترجمہ سے وابستہ ہوکر تاریخ اسلام کی کتابوں کا ترجمہ کر رہے تھے۔ ان کی ترجمہ کردہ کتابوں میں تاریخ کامل ابن اثیر، تاریخ یعقوبی، تحفۃ الامراء فی تاریخ الوزراء اور کتاب الخراج قابل ذکر ہیں۔ غالبا مولانا مودودی نے اپنے بھائی کی ترغیب پر دار الترجمہ کے لیے ترجمہ کا کام کیا تھا۔

دار الترجمہ کے تحت ‘اسفار اربعہ’ کے پہلے حصے کا ترجمہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے کیا تھا، جو دو جلدوں میں 1941 اور 1942 میں شائع ہوا تھا۔ دوسرے حصے کا ترجمہ مولانا مودودی نے کیا تھا، جو شائع نہ ہو سکا تھا۔ مولانا مودودی کے ترجمے پر مولانا گیلانی نے نظر ثانی کی تھی۔ یہ ترجمہ مولانا مودودی نے 1932 میں کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 28، 29 برس ہوگی۔ اسفار اربعہ کے حصہ دوم کا ترجمہ کرنے کا ذکر مولانا نے اپنی ایک خودنوشت میں کیا ہے، جو انہوں نے 1932 کو قلم بند کی تھی۔ دوسروں کے استفسار پر مولانا نے اپنے مکتوبات میں بھی اس کی توثیق کی ہے۔ تلنگانہ آرکائیو کے ریکارڈ میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔

1948 میں انڈیا کے پولیس ایکشن کے ذریعے سلطنت آصف جاہی کا سقوط ہوا۔ اس کے بعد 1954 میں جامعہ عثمانیہ UGC کے تحت عثمانیہ یونی ورسٹی بن گئی، اس میں مذہبی تعلیم کا خاتمہ کر دیا گیا، ذریعہ تعلیم کو اردو سے انگریزی کردیا گیا، چنانچہ دارالترجمہ کی ضرورت باقی نہ رہی۔ اس بنا پر اسے ختم کردیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد یکایک دارالترجمہ کے ذخیرے میں آگ لگی (یا لگادی گئی)جس سے وہاں محفوظ نصف سے زائد مسودات اور دیگر اہم دستاویزات کا ریکارڈ جل کر خاکستر ہو گیا۔ جو مسودات بچ گئے بعد میں انہیں بھی محفوظ نہ رکھا جا سکا۔

ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی نے شعبہ اسلامک اسٹڈیز، عثمانیہ یونی ورسٹی سے مولانا مودودی پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ہے۔ انہوں نے مولانا کی ابتدائی تحریروں کو مدوّن کیا ہے، جو اخبار مسلم(1921 تا 1923) اور الجمعیة (1925 تا 1928)میں شائع ہوئی تھیں۔ انہوں نے مولانا مودودی کے ترجمہ ‘اسفار اربعہ’ کو تلاش بسیار کے بعد دریافت کیا۔ یہ مسودہ 90 برس قدیم تھا۔ روشنائی پھیکی اور دھندلی پڑ گئی تھی۔ املا قدیم طرز پر تھا۔ ایک برس میں کمپوزنگ، پروف ریڈنگ، تصحیح اور طباعت کے مراحل طے کیے۔

مولانا مودودی کے اس ترجمے سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:

(1) اس سے مولانا کی عربی دانی کا ثبوت ملتا ہے۔ اس وقت مولانا کی عمر 29 برس تھی۔ اس عمر میں انہوں نے فلسفہ کی ایک ادقّ اور معیاری کتاب کا عربی سے اردو میں ایسا رواں ترجمہ کیا ہے کہ اس میں ترجمہ پن بالکل دکھائی نہیں دیتا۔

(2) اس کتاب میں مولانا کے جو حواشی ہیں وہ علوم عقلیہ میں ان کی گہرائی، وسعت اور مہارت کا پتہ دیتے ہیں۔

(3) اس سے مولانا کے انداز ترجمہ کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وہ لفظی ترجمہ کے بجائے بامحاورہ آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، جس میں مفہوم و مدّعا کی ادائیگی مقصد اور روح کے ساتھ ہوتی ہے، نیز انشاء اور ادب کے قواعد کا پورا لحاظ ہوتا ہے۔

اس کتاب کی اشاعت پر میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور جناب احمد ابو سعید صاحب کو بھی، جنہوں نے اس کتاب کو اپنے اشاعتی ادارہ شان پبلیکیشنز حیدرآباد سے شائع کیا۔

تبصرے بند ہیں۔