اس کے قتل پہ میں جو چپ تھا میرا نمبر اب آیا

ڈاکٹر سلیم  خان

معروف صحافی نکھل واگلےنے ٹوئیٹ کیاتھا ’’اب اس دیش میں کوئی بات کہنی ہو تو لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ ہی کہنی پڑے گی، ورنہ دوسری بھیڑ کچل دے گی‘‘۔ بہت سارے دانشوروں کواس آسان سے فقرے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا  لیکن   ضلع احمدنگر میں شری گونڈا کے لوگ واگلے کی بات سمجھ گئے  اور 12گئو رکشکوں کو سبق سکھادیاجن  میں 7 زخمی ہوگئے۔ مہاراشٹر کے کاشٹی گاوں میں مویشیوں کا میلہ لگتا ہے جس میں جانوروں کی  خریدو فروخت ہوتی ہے ۔ یہ بازار حکومت کی اجازت سے لگایا جاتا ہے اب ظاہر ہے یہاں مویشیوں کو گاڑیوں سے لانا پڑے گا کیونکہ اگر ان کو چلا کر لایا جائیگا تو جانوروں کے ان کے لانے والے بھی ادھ مرے ہوجائیں گے۔ یہ کاروبار صدیوں سے چلا آرہا ہے لیکن اب گئو رکشا کا ایک نیا دھندہ شروع ہوگیا ہے۔ گئورکشک  دلوں کا حال جانتے ہیں۔  ان کو پتہ چل جاتا ہے کہ کون سے جانور ذبح کرنے کی غرض سے لے جائے جارہے ہیں بلکہ انہیں اس بات کا بھی علم ہوجاتا ہے کہ کن  مویشیوں کو بازار میں ذبح کرنے کی خاطر لایا جارہا ہے۔ یہ  کمال  کےانتریامی لوگ ہیں۔

اکھل بھارتیہ کرشی گئو سیوا سنگھ بھی گئو سیوا کے کالے دھندے میں ملوث  ایک تنظیم  ہے۔ اس کے کارکنان کو ایک ٹیمپو پر شک ہوگیا جس کے ذریعہ  2 گائے اور 12 بیلوں  کو بازار میں فروخت کے لیے  لے جایا جارہا تھا ۔ یہ لوگ پونہ سے ٹیمپو کے تعاقب میں لگ گئے ۔  بالآخر شری گونڈا پولس تھانے کے احاطے میں اسے روک دیا گیا ۔ نام نہادگئورکشک شکایت درج  کرانے کے لیے پولس اسٹیشن میں چلے گئے۔پولس انسپکٹر باجی راو پوار کے مطابق   شام میں جب وہ کھانے کے لیے ہوٹل میں  گئے تو 20 تا 25 لوگوں نے ان پر حملہ کردیا ۔ گئو سیوکوں کے سردار شیوشنکر راجندر سوامی نے الزام لگایا کہ  اس حملے میں کئی لوگ زخمی ہوگئے اور حملہ آور سونے کی چین بھی چھین کر لے گئے تاہم پولیس  نےبھیڑ کو منتشر کردیا۔احمد نگر کے ڈی ایس پی سدرشن منڈے نے کہا کہ سوامی کی شکایت  پر 30 افراد کے خلاف دفعہ 307 کے تحت کیس درج کرلیا گیااورملزمان کو گرفتار کرنے کی کارروائی شروع کردی گئی ہے جن میں ٹیمپو کے مالک واحد شیخ اور ڈرائیور راجو فطرو بھائی شیخ بھی شامل ہیں۔

اس خبر میں گئو رکشک نہایت بے ضرر اور شریف لوگ معلوم ہوتے ہیں لیکن پچھلے کئی ماہ سے ان لوگوں نے ملک میں آتنک مچارکھا ہے۔  لنچنگ کو لے کر   نہ صرف ایوان پارلیمان میں ہنگامہ ہوچکا ہے بلکہ  کئی مرتبہ وزیراعظم کو بھی اس کی مذمت کرنی پڑی ہے ۔ کئی  بے قصور لوگوں کو گائے کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔   ان بدمعاشوں کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے  کہ خوداپنی دہشت گردی کی ویڈیو بناکر پھیلاتے ہیں ۔اس دوران  عام لوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور انتظامیہ اپنے آقاوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔  کہیں  نام معلوم افراد کے خلاف  شکایت درج کرلینے پر اکتفاء کرلیا جاتا ہے تو کہیں نمائشی گرفتاریاں عمل میں آجاتی ہیں لیکن آج تک کسی گئو دہشت گرد کو سزا نہیں ملی۔  ان لوگوں نے پچھلے دنوں  ناگپور کے قریب کاٹول تحصیل میں بی جے پی اقلیتی شعبے کے صدر سلیم اسماعیل شیخ کو بھی  نہیں بخشا ۔ بیف لے  جا نے کے شبہ میں اس کو  پیٹ دیا اوراس کی ویڈیو بناکر پھیلادی ۔ عدالت کے مطابق مہاراشٹر میں گئو کشی کی ممانعت  ضرور ہے لیکن بیف کے حمل نقل پر پابندی نہیں ہے۔ سلیم شیخ نے جب  حملہ آوروں کودہائی دی  کہ وہ بی جے پی کا رہنما ہے تو اسے بتایا گیا کہ وہ مسلمان بھی ہے۔ کاش کہ سلیم اسماعیل  بھی جانتا کہ وہ جوبھی بن جائے مگرہندو احیاء پرستوں کی نظر میں  مسلمان ہی رہے گا۔

اس تشدد کے جواب میں چار گئو دہشت گرد  اشون ، رمیش، موریشور اور جگدیش  گرفتار کیا کیےگئے۔ ان پر دفع 326 اور دفع 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا لیکن 305 سے گریز کیا گیا اس لیے کہ گئو رکشکوں کی طرح پولس کو بھی پتہ چل جاتا ہے کون سا حملہ قتل کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور کون  سازخمی کرنے کے لیے ۔ یہ معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے وطنِ عزیز میں مسلمان ہمیشہ قتل کرنے کے لیے حملہ کرتا ہے اس لیے اگر وہ حملہ آور ہے تو دفع 305 لگادی جاتی ہے جیسا کہ شرو گوندا میں کیا گیا اور عدم تشدد کا علمبردار ہندو اگر قتل بھی کردے تب بھی ہلکی پھلکی  دفعات سے کام چلایا جاتاہے۔  مذکورہ واقعہ کی مذمت شیوسینا سے لے کر این سی پی تک سبھی نے کی اس لیے بی جے پی کو مجبوراًکہنا پڑا کہ  یہ امن و سلامتی کا سنگین معاملہ نہیں بلکہ کبھی کبھار ہوجانے والا قابلِ مذمتسانحہ  ہے۔ بی جے پی کا کوئی قومی یا صوبائی رہنما تو دور علاقائی لیڈر بھی سلیم کے گھر نہیں گیا ۔ سلیم تو خیر صرف زخمی ہوا مگر ان کو تودہلی سے چند گھنٹوں کے فاصلےپر واقع پہلو خان کے گھر  میواتجانے کی توفیق بھی نہیں  ہوئی۔  ان کی تنگ نظری کا یہ حال ہے کہ جاتے جاتے پرنب مکرجی نے ان کو جوتے سے مارا لیکن برا نہیں لگا مگر وہی بات حامد انصاری نے کہی تو جل بھن گئے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔