کیا یہی آزادی ہے؟

نازش ہما قاسمی

مورخ کہتا ہے کہ آزادی سے پہلے انگریز ایک بار بھی اپنے تلوؤں میں زہر لگا لیتے تو نام نہاد دیش بھکتوں کے مکمل پریوار کا خاتمہ ہوجاتا۔۔۔!۔۔۔منکووووووول۔۔۔

آج ہم جشن آزادی کی اکہترہویں سالگرہ منا رہےہیں ، ہمارے ملک کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوئے ستر سال ہوچکے ہیں ۔ ہم جشن اس لیے منارہے ہیں کہ اس ملک کی آزادی کی خاطر ہمارے آباءو اجداد نے بے شمار قربانیاں دی ہیں ، وطن کا ذرہ ذرہ ہمارے لہو سے ہی لالہ زار ہے، اس شبستان چمن کو پانی سے زیادہ ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے سینچا اور سر سبز و شاداب رکھا ہے،انگریزوں کے خلاف علم بغاوت ہمارے آباء و اجداد نے ہی بلند کیا،شیر بنگال نواب سراج الدولہ سے ٹیپو سلطان تک ایک طویل سلسلہ ہے ، جنہوں نے انگریزوں کو میدان کارزار میں آنے پر مجبور کیا اور اپنی شجاعت و بہادری کا احساس کرایا ،انگریزوں کو اس بات سے پوری طرح واقفیت تھی کہ ہم ان بہادر اور شیر دل افراد کا مقابلہ میدان جنگ میں کرنے سے قاصر ہیں ۔

چنانچہ انہوں نے جاگیر داری کا لالچ دے کر میر جعفر اور میر صادق پیدا کئے، اور مکر و فریب کا جال بننا شروع کیا ،اور اس کے نتیجہ میں چند بہادروں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوگئی ۔۔۔۔۔بلکہ ان سلاطین کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں جذبہ آزادی اور بھڑک اٹھا ، وہ پہلے سے زیادہ تیاری کے ساتھ میدان کارزار میں نکلے ،اس بار مسلمانوں کی جماعت تنہا نہیں تھی بلکہ ملک کی خاطر برادران وطن کے راجہ مہاراجہ ، سادھو سنت ، بھی اس جنگ کا حصہ بنے اور آہستہ آہستہ پورے ملک میں بغاوت کی آگ پھیل گئی،ہر شخص نے اپنے قلب میں اس کی تپش محسوس کی ،ایک ایسی آگ جس نے ہندو مسلم دونوں کو ایک دوسرے کیلئے بازو ثابت بنادیا اور 1857 میں بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں آزادی کی لڑائی لڑی گئی ، لیکن افسوس تما تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود انگریزوں نے اس جنگ کو اپنے پلڑے میں ڈال لیا اور پھر یہاں سے ظلم و تشدد کا وہ دور شروع ہوا جسے لکھ کر اور سن کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے،آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ،حرکت قلب میں تیزی آجاتی ہے ،انگریزوں نے ایک کاؤنٹ ڈاؤن شروع کیا ، جس کے نتیجہ میں ملک کے چپہ چپہ سے ہر اس شخص کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا جس کے متعلق صرف یہ شک تھا  کہ وہ 1857 کی جنگ آزادی میں شامل تھے۔

ان ایام میں مسلم عوام کے علاوہ 54 ہزار علماء کرام کو پھانسی کے تختہ پر چڑھایا گیا،ایسی نسل کشی اور اتنے سخت حالات میں بھی مسلمانوں نے جذبہ آزادی کو سرد ہونے نہیں دیا اور پھر شیخ الہند نے تحریک ریشمی رومال کے ذریعہ انگریزوں کو نیست و نابود کرنے ،اسے ملک سے بھگانے کا پلان تیار کیا، شیخ الہند نے اپنے شاگردوں سے سپہ سالاروں کا کام لیا اور انہیں جنگ کی تیاری کیلئے دنیا کے مختلف علاقوں میں روانہ کیا لیکن افسوس کہ یہ تحریک بھی پایہ تکمیل کو نہ پہونچ سکی اور قبل از وقت شیخ الہند کی گرفتاری عمل میں آگئی جس کے نتیجہ میں آپ کو مالٹا کی جیل میں قید کیا گیا۔ تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کے بعد مسلمانوں نے برادران وطن کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف محاذ قائم کردیا اور بالآخر لاکھوں افراد کی شہادت کے بعد 1947 میں ہندوستان کو انگریزسامراجوں سے آزادی ملی ۔ لیکن انگریز اس ملک سے جاتے جاتے ملک کو دو بہت بڑے زخم دے گیا ،ایک تقسیم اور دوسرے ہندو مسلم منافرت ۔۔۔! زمین بھی تقسیم ہوئی ذہن بھی تقسیم ہوئے ،یہ دو زخم ایسے ناسور بنے کہ قومی یکجہتی کا گہوارہ ، امن وآشتی کا علمبردار ہندوستان آج آزادی کے ستر سال ہونے کے بعد بھی نفرت وتعصب کی آگ میں جل رہا ہے، انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی نفرت میں کمی نہیں آئی  ، بلکہ اب تو نفرت کے بل پر سیاست کی روٹیاں سینکی جاتی ہیں ۔

انگریزوں نے جس بیج کو ملک کے ہندو مسلمانوں کے درمیان بویا تھا ، آج وہ تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے، مہاتما گاندھی کو مارنے والے گوڈسے کے پیرو کار ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو مٹانے پر تلے ہیں ،غلط واقعات و روایات من گھڑت باتوں کے ذریعہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں نفرت کی آگ بھڑکائ جارہی ہے ، اور انہیں اس بات پر اکسانے کی کوشش کی جاری ہے کہ یہ ملک صرف تمہارا ہے۔ یہاں کے مسلمان اور عیسائی دوسری جگہ سے آکر بسے ہیں ،یہ "شرنارتھی” ہیں ۔۔۔رفیوجی ہیں ۔۔۔اس لئے ان کو یہاں سے نکالنا بے حد ضروری ہے،تاکہ دوبارہ تمہاری حکومت قائم ہوسکے،اکھنڈ بھارت اور ہندو راشٹر جس کا خواب تمہارے پرکھوں نے دیکھا تھا اس کی تعبیر  یہاں کے مسلم عیسائی اور دیگر اقلیتوں کو ختم کرکے ہی ممکن ہے ۔مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے باضابطہ انہیں تیار کیا جارہا ہے،انہیں اسلحے کی ٹریننگ دی جارہی ہے تاکہ وہ ہر جگہ بلا کسی وجہ کے مسلمانوں کے ساتھ تشدد کو روا رکھیں اور اگر قانون کی نظر میں آجائیں تو اپنی پاور اپنی طاقت اور اپنی پہنچ کا استعمال کرکے انہیں بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

جو ملک کبھی دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک سمجھا جاتا تھا آج وہ ملک پوری دنیا میں ’موب لنچنگ‘ کیلئے مشہور ہوگیاہے ،جہاں کی عدلیہ انصاف کیلئے مشہور تھی اب وہ خاموش تماشائی بن کر فرقہ پرست حکومتکے آگے سپر ڈال چکی ہے۔ پورے ملک میں ایک آگ لگی ہوئی ہے اور اس میں تیل چھڑکنے کا کام ہمارے سیاست داں انجام دے رہے ہیں ،جو الیکشن میں ترقی کے نام پر ووٹ تو مانگتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد اقلیتوں کا خون چوس رہے ہیں ۔۔۔ہر چہار جانب سے اقلیتوں کو پریشان کیا جارہا ہے،ہندو راشٹر کے نام پر برہمن ازم کو فروغ مل چکا ہے۔۔۔دلتوں کے ساتھ پھر وہی صدیوں پرانا چھوت چھات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیا گیا ہے اب زرخرید غلام بن چکا ہے،نون ایشوز کو ایشوز بنانا اس کا سب سے محبوب مشغلہ ہے۔ غلط رپورٹنگ اور بےجا الزام تراشی میڈیا کا شعار ہے ایسے میں اب ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں ؟ ہم کس چیز سے آزاد ہیں ؟ کیا یہی آزادی ہے کہ ہم اپنے شعائر اسلام پر عمل نہیں کرسکتے۔ ؟ ہمارے بچوں کو اسکول میں ’وندے ماترم ‘پڑھنے پر مجبور کیا جائے۔ کیا یہی آزادی ہے؟ نائب صدر جمہوریہ کے بیان کو اس کے عہدے کا لحاظ رکھ کر نہیں ایک مسلمان ہونے کے ناطے سے دیکھا جارہا ہے؟ ان کے بیان پر بھگوا تنظیمیں چراغ پا ہیں ۔ کیا انہوں نے غلط کہا ہے؟  اقلیتوں میں جو ڈر وخوف ہے اسی کو تو انہوں نے بیان کیا ہے۔ کیا انہیں اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے من کی بات کہہ سکیں ؟ کیاانہیں اس چیز کی آزادی نہیں ہے؛صرف انہیں ہی آزادی ہے جن کے اسلاف نے ہمیشہ انگریزوں کی غلاموں کی۔ ان کے تلوے چاٹے اور آج ان کی نسل دیش بھکتی کا سرٹیفکیٹ بانٹ رہی ہے کیا وہ اس ملک کے حقیقی باشندے ہیں ؟ کیا وہی جمہوریت کے پاسدار ہیں ؟

نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہم بھی آزاد ہیں اور ہمیں بھی اتنا ہی حق ہے جتنا برادران وطن کو حق ہے۔ ہم اس ملک میں اسی شان وشوکت سے رہیں گے جس طرح ہمارے اسلاف نے زندگی گزاری ۔ ہمیں چھیڑا نہ جائے ہم اسی قاسم ومحمود کی اولاد ہیں جنہوں نے شاملی میں میدان کارزار گرم کیا تھا ۔ ہمارے خون میں بھی وہی جذبہ حریت ہے ،ہم نے ہر دور میں باطل کا مقابلہ کیا ہے اور ضرورت پڑی تو اب بھی فرقہ پرستوں سے لوہا لیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ پورا دیش ہندو راشٹر کے نظریات کا حامی ہے اب بھی برادران وطن کی کثیر تعداد اس بات پر متفق ہے کہ ہندوستان کی بقاء اور جمہوریت کی بقا اسی میں ہے کہ یہاں ہندو مسلم اتحاد سے رہیں ۔ اور ہم یہی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب برقرار رہے۔ اس کے لیے دونوں فرقوں کے لیڈران کو قومی سطح پر اُٹھ کام کرنا چاہئے، اور بہت سے لیڈران یہ کام کررہے ہیں ،اور ان شاء اللہ جلد ہی اس کے نتائج ظاہر ہوں گے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔