اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے

احساس نایاب

 12 مئی2018 بروز سنیچرریاست کرناٹک میں آج صبح 7 بجے سے پولنگ کا آغاز ہوا۔ ریاست بھر میں سیکوریٹی کا خاص انتظام کیا گیا تھا، ہر شہر ہر گلی کے چپے چپے پہ سخت سیکوریٹی لگائی گئی تھی، جس کی وجہ سے راہ گیروں اورمسافروں کوکافی دشواریوں کابھی سامناکرناپڑا،کیوں کہ سیکوریٹی وجوہات کی وجہ سے انہیں جگہ جگہ پرمختلف قسم کے جانچ سے گذرناپڑا۔ خاص کر شہر اور دوسری ریاستوں سے آنے والی گاڑیوں کی ، تاکہ انتخابات کے دوران کسی طرح کی گڑبڑی یا شر پسندوں کے ذریعہ کسی قسم کی شرانگیزی نہ کی جاسکے۔ سیکوریٹی کے انتظامات کوسخت اورچست درست بنائے رکھنے کے لئے مقامی پولس کے علاوہ دوسری ریاستوں سے بھی بڑی تعدادمیں پولس فورسز بلائی گئی تھی، جن میں ایک بڑی تعداد میں یس یس بی، آئی ٹی بی افسران اور کئی دیگر دستوں کے نوجوان تعینات کئے گئے تھے۔

تمام پولنگ بوتھوں پر صبح 7 بجے سے ہی رائے دہندگان کی بھیڑ اکٹھا ہونی شروع ہوگئی۔سخت پولس سیکوریٹی کے درمیان علاقے کے سرکاری اسکولس اور سرکاری گراؤنڈس میں پولنگ شروع ہوئی۔اس دوران ایک بات شدت سے محسوس کی گئی کہ ووٹرس کے درمیان بہت ہی جوش وخروش نظرآرہاتھا۔رائے دہندگان کے چہروں سے خوشی اورمسرت کی لہرصاف طورپردیکھی جارہی تھی۔ کہا جارہا ہے کہ کرناٹک میں کل4؍ کروڑ 97؍لاکھ سے زائد ووٹرس موجود ہیں ان میں لگ بھگ / 78500 مسلم ووٹس ہیں اور دیگر دوسرے طبقوں کے یعنی ہندو ، دلت ، لنگایت ،کرسچن وغیرہ جو 2600 سے زائد امیدواروں کا فیصلہ کرینگے ۔ فی الحال 222 سیٹوں پہ ہی پولنگ ہوئی ہے۔

 آج کے دن کوہر ہندوستانی باشندہ جمہوریت کے عید کی طرح مناتاہے۔ بالخصوص مسلمان ووٹنگ کواپنااخلاقی اورجمہوری فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے پورے کنبہ کے ساتھ پولنگ بوتھ پرپہونچ کرخوشی خوشی ووٹ ڈال رہے تھے،لیکن اس خوشی میں کچھ کچھ خوف کے آثاربھی نظرآرہے تھے۔ صبح سے بھوکے پیاسے ،دھوپ ،گرمی اور بارش کو نظر انداز کرتے ہوئے کئی مرد اور برقع پوش خواتین بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے ،تو کئی بزرگ ہاتھ میں لاٹھی لئے اپنی حب الوطنی کو ثابت کرتے ہوئے چہرے پہ ہلکی سی مسکان سجائے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے تھے، انکے اس جذبہ کو دیکھ کر فخر محسوس ہورہا تھا اور دل کررہا تھا کہ اس زندہ قوم کے مخلصانہ جذبہ کو سلام پیش کروں، دل ہی دل میں یہی سب کچھ سوچتے ہوئے خوشی خوشی ہم نے بھی اپنا ووٹ ڈالا اور واپسی کے لئے باہر کا رخ کرتے ہوئے آگے بڑھے تو وارڈ کے باہر کا منظرجسے دیکھ کرمیں فخرمحسوس کررہی تھی اچانک غصہ اورمایوسی میں بدل گیا۔صورت حال یہ تھی کہ یہاں چند لو گ پریشان اور گھبرائے ہوئے کھڑے تھے، کیونکہ ان میں کئی لوگوں کانام ووٹنگ لسٹ میں نام نہیں مل رہاتھا تو کئی بیچاروں کو اپنے وارڈ نمبرکابھی پتہ نہیں چل پارہاتھا، تو کہیں چند ایسے لوگ بھی نظر آرہے تھے جنہیں ووٹ ڈالنے کا طریقہ ہی معلوم نہیں تھا۔

 کہنے کو تو یہ سبھی آج کے دن کنگ میکر ہیں لیکن انہیں اپنی طاقت تک کا اندازہ نہیں تھا ، نہ ہی انہیں اپنے ووٹ کی اہمیت کا پتہ تھااور وہ اپنی اس لاعلمی کی وجہ سے اپنے قیمتی ووٹوں کوانجانے اورلاپرواہی میں دوسری فرقہ پرست اورفسطائی پارٹیوں کودیکر ضائغ کرچکے تھے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بات کا پتہ ہمیں اس وقت چلا جب یہاں پہ ہماری ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی جسکی عمر تقریباً 21 , 22 سال رہی ہوگی۔ باتوں ہی باتوں میں ہم نے جب ان سے ووٹ ڈالنے کے بارے میں پوچھا ، تو اس بچی کاجواب سن کرمیں نے اپناسرپیٹ لیا۔اُس لڑکی کا کہنا تھا کہ آج انہوں نے اپنی زندگی کا پہلا ووٹ  ڈالاہے جس کی وجہ سے انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ووٹ کیسے ڈالاجاتاہے؟ اور صرف یہی نہیں بلکہ انہیں کی طرح چنددیگر خواتین جو ان کے ساتھ موجود تھیں، وہ بھی شرم و حیا اور گھبراہٹ کی وجہ سے کسی مخصوص پارٹی کا نام و نشان دیکھے سمجھے بغیر ان سبھی نے کسی دوسرے بٹن کو پریس کردیا، ان کی یہ بات سن کر ہمیں اپنی قوم کے بھائی بہنوں کی لاعلمی پہ افسوس کے ساتھ تکلیف بھی ہوئی ، کہنے کو تو قوم کےرہنمااور ذمہ داران، پارٹی کے کارکنان کئی کئی دن پہلے سے تربیت دیتے ہیں،پھر بھی ناکامی، شاید انکی تربیت و رہنمائی میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی اور خامی رہ جاتی ہے اور یہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے اس طرح کی پریشانی اور نقصان کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

 کیونکہ جب شہرکا یہ حال ہے تو دیہاتوںاور قصبوں کا کیا حال ہوتا ہوگا،  پہلے تو ای وی یم مشین ہی بھروسہ کے قابل نہیں تھی ،اوپر سے اس طرح کی کوتاہیاں،اور تو اور شام ڈھلتے ڈھلتے کچھ لوگوں کی اصلیت بھی سامنے آنی شروع ہوگئی ، کیونکہ یہاں پہ ہم نے اور بھی بہت کچھ دیکھا ، کچھ کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ،تو کہیں ہم نے دیکھا کہ ایک دن پہلے تک اتحاد کی بات کرنے والے منتشر ہوگئے تھے، خود کو سیکولر کہلانے والے چند روپیوں کی خاطر اپنادین دھرم ورضمیرتک کوبیچ ڈالاتھا۔ اور تو اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ لوگ اپناقیمتی ووٹ قوم کی خاطر استعمال کرنا چاہتے تھے، لیکن چند لالچی منافق پیسوں کی خاطر قوم کو گروی رکھ کراپنے قیمتی ووٹوں کاسوداکرلیا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سیکولر پارٹیوں کے کارکنان اپنا چولہ بدل کر فرقہ پرست پارٹیوں کا ساتھ دے رہے ہیں، چند کاغذ کے ٹکڑوں کی خاطر قوم کے مستقبل کو داؤ پہ لگارہے ہیں۔

الوداع شعبان اور ابتدائے رمضان کے درمیان خود کو مومن کہنے والے ،داڑھی ٹوپی پہننے والےاپنا ایمان بیچ رہے ہیں، اب اتنا سب کچھ دیکھنے جاننے کے بعد تربیت، ووٹنگ اور قوم کی بدحالی کو لیکر جو سوال ہمارے ذہن میں آرہے تھے، ایک ساتھ ہمیں ان سبھی کے جوابات مل گئے،  صبح کا جوش ، خوشی، فخر، امید، یقین سب کچھ ٹوٹ کے بکھرچکا تھااور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں یہ اشعار گردش کرنے لگاکہ:

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

لیکن ان سب کے باوجود اب بھی امید کی ایک چھوٹی سی کرن ہمیں دلاسہ دے رہی ہے۔ اچھے دنوں کا یقین دلارہی ہے(مودی جی کے اچھے دن نہیں) بلکہ کانگریس کے پرانے اچھے دن کایقین ہمیں ہورہاہے۔اورہمارادل ودماغ کانگریس کی جیت کو یقینی بتارہی ہے۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔