انسان اور زمین کی حکومت (قسط 39)

رستم علی خان

حضرت ذوالقرنین کا آب حیات کی طرف سفر اور حضرت خضر کا چشمہ حیات سے پانی پینا اور غسل کرنا؛ گو کے قرآن و احادیث میں اس سفر کے بارے کوئی سند نہیں ملتی اس لئیے بہت سے علماء نے اسے ایک افسانوی کہانی سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔  لیکن کچھ مفسرین نے اسے کتابوں میں نقل کیا ہے اور قصص النبیاء میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے اس لیے بیان کرنا بہتر سمجھا۔  باقی اس واقعے کی حقیقت کیا ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔

روایات میں مذکور ہے کہ حضرت ذوالقرنین نے سن رکھا تھا کہ سام بن نوح کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ حیات سے پانی پیے گا تو اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔

چنانچہ حضرت ذوالقرنین نے علماء کو اکٹھا کیا اور ان سے اس بارے میں پوچھا کہ کیا واقعی میں ایسا کوئی چشمہ ہے جسے چشمہ حیات کہا جاتا ہو اور جس کا پانی پینے والے پر موت نہ آتی ہو۔  علماء نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہوں نے کہیں بھی اس بارے نہ سنا نہ ہی کہیں پڑھا ہے۔  تب ایک نوجوان عالم اٹھا اور اس نے کہا کہ ایک بار مجھے حضرت آدم علیہ السلام کی وصیت پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا اس میں میں نے اس بارے بھی پڑھا تھا کہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ سے آگے ایک لمبا راستہ ہے جو تاریکیوں یعنی ظلمات کا راستہ ہے اس راستے میں کہیں یہ چشمہ حیات بھی پایا جاتا ہے جو کہ قاف میں بنتا ہے اور جس کے بارے مشہور ہے کہ جو اس کا پانی پئیے گا اسے کبھی موت نہ آئے گی یہاں تک کہ وہ موت کی درخواست کرے گا اور اللہ سے موت کو مانگے گا۔

تب ذوالقرنین نے پوچھا کہ وہاں تک جایا کیسے جا سکتا ہے یعنی ان اندھیروں اور ظلمات میں سفر کیسے کیا جا سکتا ہے۔  تب انہوں نے کہا کہ گو کہ وہ اندھیرا رات کے اندھیرے جیسا نہیں بلکہ سفیدی مائل یعنی دھند کے جیسا ہے۔  پھر بھی اس قدر ہے کہ تھوڑے وقفے پر بھی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔  وہاں پر وہی چیز سفر کر سکتی ہے جس کی نظر بہت تیز کام کرتی ہو۔
ذوالقرنین نے پوچھا کہ دنیا میں سب سے تیز نظر کس چیز کی ہے۔  جواب ملا کہ گھوڑی کی۔  پوچھا کونسی گھوڑی کی ؟ کہا ایسی گھوڑی جس سے نہ تو بچا جنا ہو اور نہ ہی کبھی کسی گھوڑے سے اس کا میل ہوا ہو اور نہ ہی اس پر سواری کے علاوہ کوئی بوجھ لادا گیا ہو۔

چنانچہ حضرت ذوالقرنین کے حکم پر ایسی چھ ہزار گھوڑیاں تیار کی گئیں اور چھ ہزار جوانوں کے لشکر کے ساتھ ذوالقرنین نے قاف کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔  اس سفر میں آپ کیساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے۔ یہاں پر تھوڑا تذکرہ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے بھی بیان کرتے چلیں جو پیچھے رہ گیا ہے۔

حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ”بلیا” اور ان کے والد کا نام ”ملکان” ہے۔ ”بلیا” سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ”احمد” ہے۔ ”خضر” ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔
خضر” کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ یہ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ”خضر” کہنے لگے۔

یہ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ (صاوی، ج۴، ص۱۲۰۷، پ۱۵،الکہف:۶۵)
یہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ (صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)

تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔ حضرت خضر کے بارے علماء میں یہ اختلاف بھی پایا جاتا ہے کہ وہ نبی تھے یا ولی۔  بعض کے مطابق وہ نبی اللہ تھے اور بعض کے مطابق وہ نبی نہیں تھے بلکہ اپنے ذہد و تقوی کی بنیاد پر منصب ولایت پر معمور تھے اور اللہ کی طرف سے کچھ کرامتیں ہوتی تھیں۔  واللہ اعلم الصواب۔

چنانچہ ذوالقرنین کے حکم پر چھ ہزار گھوڑیاں جو سفر کے لیے موزوں تھیں اور جن میں وہ تمام اوصاف جو بیان کئیے گئے تھے با اتم موجود تھے تیار کی گئیں اور مشرق کی سمت قاف کا سفر شروع کیا۔  مذکور ہے کہ ذوالقرنین نے علماء سے بھی اس سفر میں ساتھ چلنے کو کہا لیکن انہوں نے جانے سے انکار کر دیا۔  اور کہا کہ آپ جاویں ہم پیچھے یہاں کے انتظامات نبھائیں گے اور یہ کہ دنیا کی آفت میں ہم پڑھنا نہیں چاہتے۔  تب پوچھا کہ یہ تو بتاو کہ جب ہم ظلمات میں داخل ہوں گے تو اندھیرے کی وجہ سے نظر تو کچھ نہ آئے گا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ایک دوسرے کو کھو دیں یعنی قافلے کے بکھر جانے کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔  تب انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں اگر آپ کے پاس لعل و گوہر ہوں تو زیادہ بہتر رہے گا کہ ان کی روشنی سے قافلے کے بکھرنے یا ایک دوسرے سے بچھڑنے کا خطرہ کم ہو جائے گا کہ ان کی روشنی اور چمک سے سب کو پتا چلتا رہے گا کہ وہ قافلے میں ہیں یا دور ہو رہے۔  چنانچہ جناب ذوالقرنین نے خزانے سے تمام لعل و گوہر منگوائے اور انہیں حضرت خضر کے حوالے کیا۔  انتظامات سلطنت کے اپنے ایک بھروسہ مند ملازم کو سونپے اور کہا کہ بارہ برس تک میرا انتظار کرنا اگر میں اس عرصہ میں لوٹ آیا تو ٹھیک ورنہ پھر جو تم لوگوں کو بہتر لگے مشاورت سے طے کر لینا۔

بعد اس کے حضرت ذوالقرنین ان کے ساتھ ایک نوجوان عالم کہ جس نے چشمہ حیات کے متعلق صحیح راہنمائی کی تھی اس کے علاوہ حضرت خضر علیہ السلام جو کہ سپاہ سالار تھے اور ساتھ ایک لشکر جو چھ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا چشمہ حیات کو ڈھونڈنے کی مہم پر روانہ ہوئے۔  اور مذکور ہے کہ ایک لمبے عرصے تک یہ قافلہ چلتا رہا تب جا کر مشرق کی سمت سورج طلوع ہونے کی جگہ سے اس پار پنہچے تو دیکھا کہ اس کے پار ایک چشمہ ہے جسے پار کرنے کے بعد وہ ظلمات شروع ہونے تھے۔  تب وہاں پنہچ کر ذوالقرنین کے حکم پر لشکر کو دو ٹکڑوں میں بانٹ لیا گیا۔  ایک حصہ حضرت خضر علیہ السلام کی قیادت میں تھا اور دوسرا ذوالقرنین کی…اب سفر یوں تھا کہ آگے حضرت خضر کا لشکر تھا اور پیچھے ذوالقرنین کا۔  اور فاصلہ اتنا تھا کہ جس جگہ حضرت خضر کا قافلہ پڑاو ڈالنے کے بعد آگے بڑھتا تو بعد اس کے وہاں پر ذوالقرنین کا قافلہ آ کے پڑاو ڈالتا۔  یعنی ایک دوسرے سے ایک رات دن کی مسافت کی دوری پر تھے۔

کچھ عرصہ تک یہ سفر خیریت سے چلتا رہا۔  پھر کسی وجہ سے ذوالقرنین کا قافلہ راستہ بھٹک گیا اور جب حضرت خضر نے انہیں پیچھے نہ پایا تو اپنے لشکریوں سے وہیں رکنے کو کہا اور خود دوسرے قافلے کی تلاش کے لئیے نکلے اور خود بھی بھٹک گئے۔  اور اسی طرح نا معلوم عرصے تک تاریکیوں میں گھومتے رہے چونکہ وہاں حد دن رات کی نہ تھی سو وقت مقرر نہ ہو سکا کہ کتنا عرصہ رہے۔

تب آپ نے ایک لعل جو بڑا تھا اور تاریکی میں مثل آفتاب کے چمکتا اور چراغ کی طرح روشنی اس کی دور تک جاتی نکالا اور اسے زمین پر رکھ دیا۔

تب اللہ کے حکم اور قدرت سے تاریکی کافور ہوئی اور روشنی پھیل گئی اور روشنی میں آنکھیں دور تک دیکھنے قابل ہوئیں تو حضرت خضر کو وہاں ایک چشمہ دکھائی دیا۔  سفر کی تھکان کو دور کرنے کے لیے حضرت نے اس میں غسل کیا اور اس سے پانی پیا۔  گو کہ حضرت خضر کو معلوم نہ تھا کہ یہی چشمہ آب حیات کا ہے۔  لیکن جب آپ اس کا پانی پی چکے تو اس پانی میں وہی تمام خصوصیات پائیں جو کہ چشمہ حیات کے متعلق سنی تھیں اور اللہ کا شکر ادا کیا۔  اور دوبارہ وہاں سے دوسری سمت قافلے کی تلاش میں سفر شروع کیا۔

چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام نے آب حیات کو پی لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور وہاں سے دوسری طرف چلے اور دوسری طرف لشکروں کے آثار نظر آئے تو آپ نے وہی لعل نکال کر زمین پر رکھا اور سارا قافلہ روشنی سے نظر آنے لگا۔  تب ذوالقرنین کو وہاں نہ پایا تو ان کے متعلق پوچھا۔  اور بعض روایات میں ہے کہ قافلوں کو ایک مقام پر کھڑا کر کے دونوں حضرت خود آگے گئے تھے اور کسی وجہ سے بھٹک گئے اور ایک دوسرے سے الگ ہو گئے تھے۔  تب حضرت خضر آب حیات تک پنہچ گئے جبکہ حضرت ذوالقرنین وہاں سے دوسری طرف ایک بالا خانے میں جا پہچے اور اس کی چار دیواری ہوا میں معلق تھی۔  اور اس میں پرندے بہت دیکھے جو کہ مرغ جیسے تھے۔  ان پرندوں نے حضرت سے پوچھا کہ تم کون ہو اور اپنی بستی چھوڑ کر اس ظلمت میں کیوں آ پڑے ہو۔

حضرت ذوالقرنین نے کہا کہ میں یہاں آب حیات پینے کو آیا ہوں تاکہ میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکوں اور کبھی موت نہ آئے۔
شاہ مرغ نے کہا کہ اے ذوالقرنین تو موت سے کیوں ڈرتا ہے اگر تو نیک مومن ہے تو یہ تو تیرے واسطے خوشخبری کی طرح ہو گی کہ ملاقات کر سکے اپنے مالک سے اور دنیا کی غم پریشانیوں سے ہٹ کر ہمیشگی کی نعمتیں اور زندگی ملے گی۔

پھر مزید کہا کہ اب وہ وقت آ پنہچا ہے کہ مرد سب لباس حریر (نرم ریشم) پہنیں گے اور بڑے اور پائیدار مکان بنائیں گے اور دنیا کے پیچھے عیش و عشرت اور لہو و لعب میں مصروف رہیں گے۔  یہ کہہ کر پر اپنا جھاڑا اور ذوالقرنین نے دیکھا کہ تمام عمارت جواہرات کی بن گئی۔  تب مرغ نے کہا کہ اے ذوالقرنین اب "چنگ” "باجہ” اور "بربط” اور "طنبور” (یہ سب موسیقی کے آلہ جات ہیں) بجنے کا وقت آ گیا ہے۔  یعنی لوگ اب رقص و سرور اور موسیقی کی طرف راغب ہونے لگیں گے۔  اور پھر اپنا پر جھاڑا تو بالاخانہ تمام لعل و یاقوت کا بن گیا۔  یہ دیکھ کر حضرت ذوالقرنین نے بہت حیران ہوئے۔  تب مرغ نے کہا کہ تو حیران نہ ہو اور نہ ہی گھبرا کہ یہ بالا خانہ تمام اور یہ ظلمات ابلیس کا کارخانہ ہے۔  اور مزید کہا کہ اب دنگا فساد ہو گا اور لوگ دنیا کے لئیے ایک دوسرے کا خون بہائیں گے اور زمین پر فساد بپا کریں گے۔

پھر اس نے پوچھا کہ دنیا میں "لا الہ الا اللہ” باقی ہے یا نہیں ؟ حضرت نے کہا باقی ہے۔  پھر پوچھا لوگوں میں ابھی ہنوز دیانت داری باقی ہے یا نہیں ؟ تب حضرت نے کہا کہ باقی ہے۔

پھر وہ مرغ وہاں سے اڑا اور دوسرے کوشک پر جا بیٹھا۔  اور مروی ہے کہ پھر اس نے حضرت ذوالقرنین سے کہا کہ تو اس دوسرے بالاخانے پر جا کر دیکھ تو وہاں کیا چیز ہے۔  چنانچہ حضرت ذوالقرنین وہاں گئے اور دیکھا کہ ایک شخص ایک پاوں پر کھڑا نرسنگا منہ میں لگائے کھڑا ہے۔  کہتے ہیں کہ وہ حضرت اسرافیل تھے جو صور پھونکنے کے لیے ازل سے ایسے ہی کھڑے آسمان سے حکم نازل ہونے کا انتظار فرما رہے ہیں۔

تب انہوں نے ذوالقرنین سے پوچھا کہ اے ذوالقرنین تو اپنی سلطنت اور روشنی ملک کی چھوڑ کر ان اندھیروں اور ظلمات میں کیوں آ پڑا ہے کیا وہ تجھے بہت نہ تھا جو تیرے رب نے تجھے عطا کیا ہے۔

تب حضرت ذوالقرنین نے کہا کہ میں یہاں آب حیات پینے کو آیا ہوں تاکہ میری زندگی لمبی ہو اور میں اللہ کی زیادہ عبادت کر سکوں اور حکم اس کا زمین میں پھیلاتا رہوں اور سرکشوں کے خلاف اللہ کی راہ میں لڑتا رہوں۔  تب حضرت اسرافیل علیہ السلام نے ذوالقرنین کے ہاتھ میں ایک پتھر مثال بلی کے سر کے دیا اور فرمایا کہ میں نے تجھے غفلت سے ہوشیار کر دیا اب زیادہ حریص مت ہو اور یہاں سے واپس چلا جا۔

چنانچہ حضرت ذوالقرنین وہاں سے بنا آب حیات پئیے ہی واپس لوٹے اور اپنے لشکر سے آ ملے۔  اور سب وہاں سے اکٹھے ہو کر واپسی کے چلے۔  تب اس اندھیرے میں کچھ پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دیکھے جو گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے آ رہے تھے۔  تب حضرت نے پوچھا یہ کیا چیز ہیں کہ چمک ان کی مثل شب چراغ کی سی معلوم ہوتی ہے۔  تب اس عالم نے کہا کہ یہ پتھر ہیں خاصیت ان کی یہ ہے کہ جو اٹھائے گا وہ بھی پچھتائے گا اور جو نہ اٹھائے گا وہ بھی پچھتائے گا۔

چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے ان سنگریزوں کے کچھ ٹکڑے اٹھا لیے اور جنہوں نے نہ اٹھائے وہ ان پر ہنسنے لگے کہ تم بھلا یہ بیکار سے پتھروں کے ٹکڑے کیوں اکٹھے کرتے ہو جو کہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیں اور قریب ہے تم ان پر افسوس کرو اور انہیں پھینک دو۔  پھر بھلا تم سے زیادہ احمق بھی کوئی ہو گا۔  یعنی جب روشنی میں جاو گے تو انہیں بیکار جانوں گے تب افسوس کرو گے کہ کیوں اٹھا لیے تھے اور بعد میں افسوس کرنا احمقوں کا کام ہوتا ہے۔  اور اسی طرح ان کا ٹھٹھہ اڑانے لگے۔  تب ان لوگوں نے کہا کہ احمق تو تم ہو ہم نے تو یہ اس لیے اٹھائے ہیں کہ ان کی چمک ہمیں حیران کئیے دے رہی ہے سو چاہتے ہیں کہ باہر روشنی میں جا کے انہیں دیکھیں کہ یہ کیا ہے۔

چنانچہ جب وہ لوگ ظلمات سے باہر نکلے اور روشنیوں میں پنہچے تو دیکھا کہ وہ سنگریزے درحقیقت گوہر نایاب ہیں اور لعل و جواہر سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔  تب جن لوگوں نے اٹھائے تھے وہ کہنے لگے ہائے افسوس تم لوگ سچ کہتے تھے کہ ہم بڑے ہی احمق ہیں بھلا ہم نے انہیں اور زیادہ کیوں نہ اٹھا لیا اور اتنی مقدار میں کیوں نہ اٹھائے کہ جتنی مقدار ہم اٹھا سکتے تھے۔  تب جن لوگوں نے نہ اٹھائے تھے اور اٹھانے والوں کا مذاق اڑایا تھا کہنے لگے، ہائے ہائے تم نہیں بلکہ اصل احمق تو ہم ہیں جنہوں نے کچھ نہ لیا اور جیسے خالی ہاتھ آئے تھے ویسے ہی لوٹ رہے ہیں۔  کاش کہ ہم بھی تمہاری طرح کچھ اٹھا لیتے پر ہم تو بلکل خالی ہاتھ ہیں۔  اور پھر اٹھانے والوں سے کہیں گے کہ ہم کو بھی تو دو کچھ لیکن وہ ہرگز نہ دیں گے۔

تب ذوالقرنین نے حضرت خضر سے ان کی حقیقت کے بارے پوچھا کہ بھلا بتاو تو اس میں کیا راز پوشیدہ ہے۔  چونکہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ نے علم ایسا عطا کیا کہ وہ پوشیدہ باتوں اور اشاروں کو اپنے علم و حکمت سے جاننے والے تھے۔  جیسا کہ آگے حضرت موسی علیہ السلام کے قصے میں بھی ان شآء اللہ آئے گا۔

چنانچہ ذوالقرنین کے پوچھنے پر حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ اے بادشاہ یہ ظلمات مثال دنیا کی ہیں کہ انسان ہمیشگی کی زندگی چاہنے لگتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ چشمہ حیات سے ایسی سیرابی حاصل کرے کہ اسے کبھی موت نہ دیکھنی پڑے۔  انسان اسی لالچ میں دنیا کے ظلمات اور اندھیروں میں بھٹکتا رہتا ہے یہاں تک کہ واپسی کا حکم آ جاتا ہے۔  اور مثال ان پتھروں کی اعمال اور نیکیوں کی سی ہے جو اللہ تعالی انسان کے راستے میں مثل ان چمکتے پتھروں کے ڈال دیتا ہے کہ ان میں سے جو جتنی زیادہ اکٹھی کر لے۔  اور جو لوگ نیکیاں چننے لگتے ہیں سرکش لوگ ان پر ہنستے ہیں کہ بھلا یہ تمہیں کیا فائدہ دیں گی جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو پھر بھلا کیسے ممکن ہے کہ زندہ ہو سکیں۔  لیکن وہ نہیں جانتے کہ جس نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا جب یہ کچھ نہ تھا تو دوسری مرتبہ پیدا کرنا اس کو کیا مشکل۔  تب جب یہ لوگ اس دنیا کی ظلمات سے نکل کر حشر میں اکٹھے ہوں گے تب نیکوکاروں کی نیکیاں ان بظاہر نظر آنے والے سنگریزوں کی طرح بہت قیمتی ہوں گی اور ایک ایک نیکی کا اجر بہت زیادہ ہو گا۔  تب دونوں طرف افسوس کریں گے نیکوکار اس بات پر کہ ہائے کاش ہم دنیا میں اور بھی نیکیاں کرتے اور زیادہ اجر پاتے۔  اور سرکش و بدکار اس بات پر کہ ہائے افسوس کاش ہم نے ان کی بات مانی ہوتی اور کچھ نیکیاں ہم بھی کر لیتے تو آج اس پچھتاوے میں نہ ہوتے۔  اور تب واپسی کا راستہ نہ پاویں گے اور ہمیشہ کا پچھتاوا ان کا مقدر بنے گا۔  اور بہت کم لوگ ایسے ہونگے جنہیں اس دن کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہ ہو گا۔  اور جو بالا خانہ دیکھا وہ مثال دنیا کے دھوکہ کے ہے کہ مختلف رنگ بدلتی ہے اور انسان کو اپنی رنگینیوں میں لگا کر غافل کر دیتی ہے۔  اور جو باتیں مرغ نے بیان کی وہ فتنے ہیں جو ظاہر ہوتے رہیں گے۔  اور جو معاملہ اسرافیل علیہ السلام کا دیکھا تو وہ نشانی ہے کہ کسی بھی وقت صور پھونکا جا سکتا ہے کہ قرب قیامت کی نشانی ہے۔   تب حضرت ذوالقرنین نے پوچھا کہ بھلا بتاو تو جو پتھر اسرافیل نے مجھے دیا اس کی کیا حقیقت ہے۔

حضرت خضر نے ایک بڑا ترازو منگوایا اور کہا اے ذوالقرنین اپنا پتھر کا ٹکڑا اس کے ایک پلڑے میں رکھو۔  چنانچہ رکھ دیا گیا۔  پھر فرمایا دوسرے پلڑے میں ڈھیر مال خزانہ جو جمع ہے لا رکھو۔  چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔  یہاں تک کہ اس پلڑے میں مزید جگہ باقی نہ بچی اور ڈھیروں مال خزانہ لعل و جواہرات رکھنے پر بھی چھوٹے سے پتھر والا پلڑا نہ اٹھا اور ترازو کا وہ پلڑا یوں جھکا تھا جیسے دوسری جانب کوئی وزن نہ رکھا گیا ہو۔  تب حضرت ذوالقرنین نے پوچھا بھلا بتاو تو اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔

فرمایا اے بادشاہ حکمت اس میں یہ ہے کہ تم سکون و آرام چھوڑ کر دنیا کے خزانوں اور مال و زر کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہو جبکہ تمہارا پیٹ صرف ایک مٹھی قبر کی مٹی سے بھرنے والا ہے۔  کہ وہاں تم کچھ ساتھ نہ لے جا سکو گے اور نہ تمہارے کام ہی کچھ آئے گا۔

مروی ہے کہ حضرت ذوالقرنین پر اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے سب حکومت وغیرہ چھوڑی اور اس کے بعد اللہ کی عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے اور دنیا کے مال خزانوں کو ترک کر دیا۔  اور بعض نے کہا کہ یہ ذوالقرنین کا پہلا سفر تھا اس کے بعد کے سفر جو انہوں نے کیے صرف لوگوں تک حق بات پنہچانے اور انہیں اللہ کی بات پنہچانے کے لیے اور سارے عالم کا سفر کیا اور لوگوں تک دعوت حق پنہچائی۔  اور یہ زیادہ صحیح روایت ہے۔  واللہ اعلم الصواب۔

تبصرے بند ہیں۔