اعلی تعلیمی سرگرمیوں سے مذہبی اداروں کی بے رخی کیوں؟

اعلی تعلیم کے شعبے میں ہزار کام ہیں اور اقلیت آبادی کے تعلق سے لاکھوں مسائل تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ موجود ہیں لیکن انھیں سلجھانے کے لیے سرکاری اداروں کی عدم دل چسپی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن بڑے مذہبی ادارے یا تنظیمیں ایسے سوالوں سے بے رخی کیوں برت رہی ہیں؟
سابق ممبر پارلیمنٹ اور مشہور ہندی شاعر رام دھاری سنگھ دنکر نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بار کسی ضروری مسئلے پر تبادلۂ خیالات کے لیے کئی ادیبوں کے ساتھ وہ جواہر لعل نہرو سے ملنے کے لیے گئے۔ رخصت کے وقت وزیر اعظم چہل قدمی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، اسی دوران ان کے قدم لڑکھڑاگئے اور گرتے گرتے بچے ۔ رام دھاری سنگھ دنکر نے انھیں سہارا دیتے ہوئے کہا : سیاست جب لڑکھڑانے لگتی ہے تو ادب اسے سہارا دیتا ہے۔ جواہر لعل نہرو خوش تو ہوئے ہی انھیں اس کے لیے داد بھی دی تھی۔ مذہب کے لیے تو یہ ہزاروں سال سے لازمی حقیقت قرار دی گئی کہ جب سماج لڑکھڑانے لگے تو اسے مذہب کا سہارا چاہیے۔ سیاسیات ، تاریخ ، فلسفہ اور ادب کی ہزاروں کتابوں میں اس حقیقت کی ہزار تفصیلات موجود ہیں۔ اس فلسفے کی گہرائی میں جاکر واقعۂ کربلا کا جائزہ لیں تو وہاں بھی سماج کے لڑکھڑانے کو سنبھالنے کے لیے مذہب آگے بڑھ کر خدمات انجام دے رہا تھا۔ ہر چند اس میں اپنی جان قربان کرنی پڑی۔
ہندستان کے مخصوص جمہوری چوکھٹے کو نظر میں رکھیں اور مسلم اقلیت آبادی کا ایک مخصوص دائرہ تیار کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس جمہوری نظام کے لڑکھڑانے کے وقت ہمارے مذہبی اداروں نے کبھی سہارا نہیں دیا۔ مثالیں تو اس کی بھی مل جائیں گی کہ جمہوری ڈھانچے کو لغزشوں کے لیے آمادہ کرنے میں کبھی کبھی ہمارے مذہبی ادارے سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقیقی فرائض اور خدمات کی توسیع کا کچھ خاص نظام بڑے مذہبی اداروں کی نگاہ میں نہیں ہے اور شاید ان کے ذہن میں ایسے خواب بھی نہ ہوں کہ وہ عمومی عوامی دھارے کو اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کررہے ہوں۔
ہندستان کو جب غلامی سے نجات ملی ، اس وقت تعلیم یافتہ افراد کا تناسب واقعتا آٹے میں نمک کے برابر تھا۔ آئین کے معماروں نے اس حقیقت کو سمجھا تھا اور تعلیم کی توسیع کے کام کو اولیت دی گئی تھی ۔ بلاشبہ سست رفتاری کے باوجود ہم ۷۵؍فی صد خواندگی کی شرح تک پہنچے ہیں ۔ حکومت کی تمام ایجنسیوں نے تعلیم کے فروغ کو ہر زمانے میں اولیت دی اور اس کی توسیع کے عمل میں جس سے جتنا ممکن ہوسکا ، اس نے اس قدر مشقت کی ہے۔ لیکن جب اسی دائرے میں رکھ کر ہم مدارسِ اسلامیہ اور دیگر اعلا مذہبی تعلیمی اداروں کی کارکردگی اور دلچسپیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک ہم نے اس جمہوری نظام میں اپنے تعلیمی معیار کو استحکام دینے اور اس کی توسیع کے لیے جو کچھ کارنامے انجام دیے، وہ غیر تشفی بخش ہیں اور کہیں نہ کہیں ہماری غفلت شعاری کا واضح ثبوت ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب آزادی کی جنگ کے لیے ہماری قوم کا ذہن آمادہ تھا ۔ یونی ورسٹیوں کی آمد آمد اور انگریزی نظامِ تعلیم کے استحکام کے واضح ثبوت ملنے لگے تھے۔ ان کے نتائج کیا ہوں گے، اس پر مسلمانوں کے بیچ غور و فکر جاری تھی اور قوم کے متوقع مسائل کے علاج کے لیے چارہ گری شروع کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ دارالعلوم دیو بند کا قیام صرف ایک ادارے کا قیام نہیں بلکہ اغیار کے تعلیمی نشانوں کے سامنے ان سے بڑی لکیر کھینچنے اور ان سے مقابلہ کرکے قوم کو بچانے کا نشانہ رکھا گیا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی انگریز پرستی اور قومی مسئلوں میں ادھورے پن کا جب احساس شدید ہوا تو شبلی نعمانی اور ان جیسے افراد نے ندوۃ العلما کا پلیٹ فارم تیار کیا ۔ یہ تعلیمی ادارے تو تھے لیکن انھوں نے قوم کے سیاسی، سماجی، مذہبی اور تعلیمی ؛تمام مسئلوں کو پیش نظر رکھا اور یہ بھی کوشش کی کہ مستقبل کے مسائل بھی موجودہ کوششوں سے حل ہوجائیں۔
ہندستان کی تعلیمی تاریخ میں جس ’گروکل‘کا تذکرہ ہوتا ہے ، اس کا فلسفہ رہایشی ، مساوات پر مبنی کل وقتی اور معیاری تعلیم کا تصور ہے۔ بڑے مسئلوں پر سرجوڑ کر ہمہ تن غور و فکر کرنے کا ایک خاص انداز وہاں موجود تھا۔ دنیا سے بے رغبتی، اپنے مفاد سے دوری اور مستقبل کے سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کی ایک مہم ہوتی تھی۔ عدم مساوات اور چھواچھوت نے برہمنی نظام کو پاتال تک پہنچا دیا۔ بودھوں نے کچھ دیر کے لیے سنبھالا اور پانچ سات سو برس تک بڑی بڑی یونی ورسٹیوں کی تعمیر میں مصروف رہے لیکن پھر تعلیم کے اس فلسفے کو چھوٹے چھوٹے مدارس نے ہی اپنے دلوں میں اتارا۔ کم خرچ بالانشیں ، خاک نشینی اور فقر جیسے اصولوں کی بنیاد پر تعلیم کا ایک ایسا معیار قائم کرنے کی کوشش کی گئی جہاں سے ایسی روشنی پھوٹے جس سے سب کے اندھیرے چھَٹ جائیں۔ تعلیم کا یہی مقصد ہے اور ایک خاص مدت تک اسلامی تعلیم کے چھوٹے چھوٹے مراکز محدود معنوں میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ یہ کام کرتے گئے۔
آج کوئی شخص یہ سوال پوچھے کہ ملک میں موجود اسلامی تعلیم کے بڑے مراکز کے فارغین کا علمی معیار کیا ہے اور وہ اپنے بزرگوں سے جن کاموں کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے ذمہ دار ہوئے تھے، کیا وہ اس سے صحیح طور پر عہدہ برآ ہورہے ہیں: ایسے سوال کا جواب آسان نہیں ہوتا ہے۔ چھوٹے مدارس کی تعداد میں ملک کی ضرورت کے اعتبار سے اضافہ ہوتے ہوئے تو کبھی نہیں دیکھا گیااور نہ ہی اس کی فکر مندی میں ملک کے نامور ادارے اور علماے عظام پائے جاتے رہے۔ گلی گلی اور محلّوں میں بنیادی اور ابتدائی تعلیم کے ادارے کھلیں اور اقلیت کثیر علاقے میں بنیادی تعلیم کے ڈھانچے کو اس قدر مستحکم کردیا جائے کہ تعلیم کے عمومی مسائل سے یہ آبادی محفوظ ہوجائے۔ ایسی کون سی مہم قومی سطح پر چھیڑی گئی؟
بنیادی تعلیم کے معملات چھوڑیے، یہ بڑے کام ہیں لیکن اعلا تعلیم کے شعبے کی طرف تو ہمارے مذہبی اداروں کی توجہ ہوہی سکتی تھی۔ ڈیڑھ سو برس اور سو برس کے پرانے تعلیمی اداروں کے انفرااسٹرپکچر پر غور کریں تو کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے کہ اتنے وسائل تو اسی شہر کے ایک اوسط درجے کے اسکولوں کے پاس ہیں۔ کہنے کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے مرکزی اداروں کو بڑھانے، پھیلانے اور اعلا معیار کی طرف لے جانے کے ساتھ ساتھ جمہوری مزاج ڈالنے میں شاید کوتاہی کی جس کی وجہ سے قومی ضرورت اور حالات کی تبدیلی یا ترقی کے معاملے میں ہم پسماندگی کا شکار ہوئے۔ یہ پسماندگی خود اختیار کردہ ہے کیوں کہ اس کے کئی فائدے ہیں جنھیں حاصل کرنے میں ہمیں لطف آتا ہے جیسے :
الف۔ ہمارے بڑے مذہبی اداروں کے اساتذہ ملازمت سے سبک دوش ہونا نامناسب سمجھتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں ایسا نظام نہیں ہوسکتا۔جمہوری مزاج بھی یہ کہتا ہے کہ ہم نے اپنا کام کرلیا، اب دوسروں کی باری ہے۔
ب۔ بڑے مذہبی اداروں کے انتظامیہ عہدوں پر بھی ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نافذ نہیں ہوسکا۔ اسی لیے ایک طبقہ ہے جو زور زبردستی سے اس چوکھٹے میں گھس جاتا ہے یا اسے داخل کرادیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ مخصوص مفاد کے تحت ان اداروں کے اعلا عہدوں تک پہنچتا ہے۔
ج۔ ملک کی یونی ورسٹیوں سے الحاق یا خود ہی پرائیویٹ یونی ورسٹی کی طرح کام کرنے کا ارادہ ان اداروں کے پاس اس لیے بھی نہیں ہے کہ ساٹھ پینسٹھ برس بعد ریٹائرمنٹ ہوجائے گا ۔
ذرا سوچئے کہ جواہر لعل نہرو کا خاندان اس بات کے لیے آج تک سماج کی جوتیاں کھاتا رہتا ہے کہ اس نے ہندستانی سیاست میں خاندانی بہبود اور مفاد کے ایجنڈا کو حتمی شکل دے دی۔ کیا یہ بات قابلِ غور نہیں ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلما جن پر مثالی مذہبی کردار کی پیش کش اور زمانے کے سامنے نمونۂ حیات بننے کی ذمہ داری تھی، انھوں نے گاندھی نہرو خاندان کے اسباق کو پہلے سے ہی خود میں حلول کرلیا تھا۔ کوئی بتا دے کہ کس عوامی جدوجہد، مذہبی اصول اور جمہوری قانون میں اس بات کی گنجایش ہے؟ اگر ایک یا دو چار خاندانوں کے افراد اداروں کی تعلیمی، تدریسی اور انتظامی ذمہ داریوں پر کاربند ہوں گے تو یہ صرف ناانصافی نہیں بلکہ امانت میں خیانت ہی ہے۔
ایک مجلس میں گفتگو کے دوران جب یہ بات ابھری کہ جمیعت العلمانے مسلمانوں کے بیچ اتحاد کو اپنا ایجنڈا بنایا ہے اور ملک بھر میں اس سلسلے سے وہ کوششیں کرے گی۔ یہ بات اکثر کو معقول لگی لیکن ایک شخص نے یہ سوال کیا کہ جب چچا اور بھتیجے میں اتفاق قائم نہ کرسکے تو ملک کے تمام مسلمانوں کے بیچ کیسے اتفاق قائم کرسکیں گے؟ یہ اگر پھبتی بھی ہے تو نمک پاشی نہیں بلکہ آنکھیں کھولنے کے لیے ایک سوال ضرور ہے۔ اقلیتی اداروں کے کئی ایسے سربراہان ہیں جو عمر اور صحت کی ایسی منزلوں تک پہنچ چکے ہیں، جہاں سے اب دوسری طرف کا راستہ قریب کا معلوم ہوتا ہے۔ آخر ان کے لیے کون سی مجبوری ہے کہ وہ ان عہدوں پر بنے رہیں۔ کیا انھیں اپنے بعد والوں کے لیے وہ جگہیں نہیں خالی کردینی چاہیے؟کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان سربراہوں کے پیچھے ایک ایسی ہوشیاراور دنیا دار جماعت ہوتی ہے جو اُن کے بڑھاپے اور جسمانی صحت کی رکاوٹوں کا سہارا لے کر قومی معاملوں میں اپنا مفاد سادھتی ہے۔ محمد علی جناح کی زندگی کے آخری ایام بھی اسی طرح سے یاد کیے جاتے ہیں۔
ہماری بڑی یونی ورسٹیاں مثالی اداروں کے طور پر کچھ اسکول اور کالج قائم کرتی ہیں۔ کبھی لڑکیوں کے ادارے اور دوسرے نظام کو خود سے جوڑ کر ایک تعلیمی ترقی کا ٹھوس سلسلہ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ روزانہ اپنے کورس میں تبدیلی اور عصری تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے کوششیں کرتی ہیں۔ یونی ورسٹیوں میں اسلامی تعلیم تک کے لیے گنجایشیں پیدا ہوئیں۔ کہیں بین لسانی اور بین العلومی مطالعات کا سلسلہ بڑھالیکن کوئی یہ کہہ دے کہ اعلا اسلامی مدارس کیا اس نہج پر اپنے کو بدلنے کے لیے تیار ہوسکے۔ کیا ان کے فارغین آج کی تاریخ میں اسی طرح سے سرفراز و کامران ہیں جیسے کبھی ابوالکلام آزاد اور سید سلیمان ندوی مدارس کی بوریوں سے نکل کر دنیا کے تعلیمی نظام کو بدلنے کے لیے سرگرداں نظر آتے تھے۔ ایسا نہیں ہوسکا۔ اب ہمارے مدارسِ عالیہ جذباتی سوالوں، سوِل کورٹ، طلاق اور بیش از بیش سیاسی معاملات میں گھرے ہوئے ہیں اور انھیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ یہ سوالات آگے بڑھنے کے نہیں بلکہ رکاوٹوں سے لڑنے کے لیے ہیں۔ قوم کی حقیقی ترقی اور اس کے مسائل کچھ دوسرے ہیں اور وہ جمہوری دائرۂ کار میں ہی زیادہ سلیقے سے سلجھائے جاسکتے ہیں۔
دارالعلوم دیو بند، ندوۃ العلماکے نام ان کی قدامت اور تاریخی حیثیت کی وجہ سے لیے جارہے ہیں ورنہ کشمیر سے کنیا کماری تک بڑے بڑے مدارس اسلامیہ ہیں، سب اپنی حدوں میں کام کررہے ہیں۔ کیا سب مل کر بھی پانچ ایسے اعلا تحقیقی جریدے شایع کررہے ہیں جن میں دنیا اور بالخصوص عالمِ اسلام کے مسائل کی حقیقی چارہ گری موجود ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان اداروں میں اصحاب الراے موجود نہیں ہیں۔ نام تو بہت سنے جاتے ہیں ، اخبار کی شاہ سرخیاں تو بہت دکھائی دیتی ہیں۔ اخباروں کے صفحات پر علماے کرام کی شرعی اور غیر شرعی تصویریں بھی خوب نظر آتی ہیں لیکن اسلامی اداروں اور علماے کرام کی وہ علمی شان اور صرف اور صرف تعلیم کی گہرائی کے لیے جانیں کھپا دینے کا اسلوب اگر کہیں نظر آتا ہے تو کوئی ہمیں دکھائے۔
ملک کے صدرِ محترم پرنو مکھرجی بار بار ہندستان کی یونی ورسٹیوں کے بہ تدریج بے مغز ہوجانے کی شکایتیں کرتے ہیں۔ کاش ایسے میں ہمارے مدارس اسلامیہ کے فرزندان کھڑے ہوتے اور کہہ سکتے کہ ہم نے اپنے اداروں میں تعلیم کا ایسا معیار بنایا ہے جہاں تک آپ کی یونی ورسٹیوں کو پہنچنے میں بھی دیر لگے گی۔کل مدارس کے فرزند گول میز کانفرنس میں شریک ہوتے تھے اور ملک کے نظامِ تعلیم کی تازہ کاری میں اپنا خونِ جگر صرف کرتے تھے لیکن آج اپنے انتظامی عہدوں اور مذہبی قیادت کے لیے ایسی وفاداری پیدا ہوگئی ہے جس کے سامنے سارے فرائض ہیچ اور سارے خواب مجذوب کی بڑ ہوگئے ہیں۔ کاش! پوری قوم کو بیدار کرنے والے اداروں اور ان کے ذمہ داروں کو جھنجوڑ کر اُس خوابِ غفلت سے جگا دے اور انھیں اپنے حقیقی فرض کی طرف واپس آنے کے لیے مجبور کردے۔ ورنہ ہندستان کی عصری تعلیمی ترقی میں اقلیتی اداروں اور بالخصوص مسلمانوں کی کارکردگی کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔