اف یہ ذہنی خباثت و غلاظت!

سہیل انجم

فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ فنکار کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔ اگر کوئی فنکار افسانوی حیثیت اختیار کر لے تو اس کی مقبولیت کے سامنے بلند و بالا سرحدی فصیلیں سرنگوں ہو جاتی ہیں۔ وہ فنکار پوری دنیا کا اپنا ہو جاتا ہے اور اس کے پرستاروں کی جماعت پورے عالم میں پھیل جاتی ہے۔ اور جب ایسا کوئی فنکار دنیا سے جاتا ہے تو صرف اس کے اپنے وطن ہی کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی فضا سوگوار ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ رہا لتا منگیشکر کے ساتھ۔ جوں ہی یہ خبر عام ہوئی کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں غم و الم کی کیفیت سرحدوں کو عبور کرکے پورے عالم پر چھا گئی۔ ان کی موت پر ہندوستان میں جتنا سوگ منایا گیا اس سے کم پاکستان میں نہیں منایا گیا۔ سب سے پہلے وہاں کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے ٹوئٹ کرکے اظہار غم کیا۔ اس کے بعد تو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کا تانتا لگ گیا۔ عمران خان سمیت بیشتر سیاست دانوں نے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر گھنٹوں گھنٹوں لتا جی کو یاد کیا گیا۔ پاکستانی فنکاروں، سیاست دانوں، صحافیوں، ادیبوں اور عوام کی جانب سے سُروں کی ملکہ کے لیے جن جذبات کا اظہار کیا گیا وہ قابل ذکر ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ایسے مواقع پر ان لوگوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا جن کے ذہن و دماغ میں خباثت و غلاظت بھری ہوئی ہے۔ انھوں نے لتا جی کی آخری رسوم کو بھی مذہب کے چشمے سے دیکھنے کی کوشش کی اور اس میں بھی مسلم مخالفت کا ایک گھناونا پہلو نکال لیا۔

بالی ووڈ کے سپراسٹار شاہ رخ خان نے بھی شیوا جی پارک جا کر لتا جی کو شردھانجلی دی۔ ان کے ساتھ ان کی منیجر پوجا ددلانی بھی تھیں۔ جہاں شاہ رخ نے اس موقع پر دونوں ہاتھ اٹھا کر ان کے حق میں دعا کی وہیں ددلانی نے دونوں ہاتھ جوڑ کر خراج عقیدت پیش کیا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو امر کر گیا۔ شاہ رخ خان نے بارہ سکنڈ تک دعا پڑھنے کے بعد اپنا سیاہ ماسک سرکا کر ذرا سا جھک کر بالکل اسی طرح میت پر پھونک ماری جیسے کہ کسی پر دم کرتے وقت کیا جاتا ہے۔ حالانکہ میت کے لیے دعا تو کی جاتی ہے لیکن پھونک نہیں ماری جاتی۔ شاہ رخ خان نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی یہی کافی تھا۔ لیکن اگر انھوں نے پھونک بھی مار دی تو بھی یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ اس پر ایک تنازع کھڑا کیا جاتا۔ لیکن ایسے شرپسندوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو اچھے کاموں میں بھی برائی ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔ اس موقع کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ’شاہ رخ خان‘ ٹرینڈ کرنے لگا۔ شاہ رخ کے پرستار جہاں ان کے اس عمل کو پسند کرتے نظر آئے وہیں ہندوتو وادیوں کا اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔

ریاست ہریانہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے ایک عہدیدار ارون یادو نے شاہ رخ خان کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا یہ ان پر تھوک رہے ہیں۔ یوپی بی جے پی کے ترجمان پرشانت امراو ¿ نے بھی اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ شاہ خ خان تھوک رہے ہیں۔مسلم دشمنی میں اندھا ہو جانے والا سریش چوانکے بھی کود پڑا اور اس نے اپنے ٹی وی چینل پر ایک پروگرام کر ڈالا۔ آلوک بھٹ نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ شاہ رخ خان نے تھوکا یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا انھوں نے ایسا کرنے کے لیے لتا جی کے اہل خانہ سے اجازت لی تھی۔ انھوں نے اس سے آگے جا کر کہا کہ اگر کوئی ہندو کسی مسلم سلیبریٹی کی میت پر گنگا جل چھڑکے تو کیا یہ قابل قبول ہوگا۔ اب ایسے لوگوں کی عقلوں پر ماتم کرنے کے علاوہ کیا کیا جائے جو اٹھتے بیٹھتے مسلم دشمنی کا راگ الاپتے رہتے اور فرقہ وارانہ یگانگت اور بھائی چارے کی ڈور کو کاٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو نہیں معلوم کہ ہندوستان ایک مشترکہ تہذیب والا ملک ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ کیا ہریانوی بھاجپائی نیتا کو یہ نہیں معلوم کہ مذہب اسلام میں دعا کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور کیا اسے نہیں معلوم کہ آج بھی دیہی اور قصباتی علاقوں میں لوگ بالخصوص خواتین نماز مغرب کے وقت مسجدوں کے باہر دعا کرانے کے لیے کھڑی ہو جاتی ہیں اور ان میں غیر مسلم خواتین یا لڑکیوں اور بچوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ اگر تحقیق کی جائے تو ارون یادو کے خاندان میں سے بھی کسی نہ کسی نے، کسی نہ کسی وقت، کسی نہ کسی مسلم مذہبی شخص سے دعا کرائی ہوگی اور ان کے خاندان کی کوئی نہ کوئی خاتون، کسی نہ کسی مسجد کے سامنے تیل یا پانی پر دم کروایا ہوگا۔ کیا ان کو نہیں معلوم کہ آج بھی جبکہ سماجی ماحول کو بہت زیادہ زہر آلود کر دیا گیا ہے، مزاروں اور درگاہوں پر مسلمانوں سے زیادہ ہندو جاتے ہیں۔ وہاں بھی دعائیں کی اور کرائی جاتی ہیں۔ ارون یادو اس روایت کے بارے میں کیا کہیں گے اور کیا وہ عام ہندوو ¿ں سے اپیل کریں گے کہ وہ اب مزاروں اور درگاہوں پر جانا چھوڑ دیں اور مسلم مذہبی شخصیات سے دعا وغیرہ نہ کرائیں۔ کیا ارون یادو کونہیں معلوم کہ آج بھی بڑی درگاہوں پر چادر چڑھانے والوں میں ہندووں کی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ ارے دور کیوں جائیں آجکل خواجہ معین الدین چشتی کا عرس چل رہا ہے اور اس موقع پر ان کی درگاہ پر چادر پوشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ارون یادو کے سب سے بڑے گرو، وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنی جانب سے خواجہ صاحب کے مزار کے لیے چادر بھیجی ہے۔ کیا وہ وزیر اعظم کے اس عمل کے خلاف احتجاج کریں گے۔

ارون یادو نے یہ تو دیکھ لیا کہ شاہ رخ خان تھوک رہے ہیں لیکن اس کورچشم کو یہ نظر نہیں آیا کہ انھو ںنے دونوں ہاتھ جوڑ کر میت کا طواف کیا اور اظہار عقیدت میں پائنتی کو ہاتھ لگایا۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ کیا شاہ رخ خان نے دعا کرنے کے لیے لتا جی کے اہل خانہ سے اجازت لی تھی، تو اس بے دماغ شخص سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا جتنے لوگوں نے شیوا جی پارک پہنچ کر لتا جی کو خراج عقیدت پیش کیا انھوں نے ان کے اہل خانہ سے اجازت لی تھی۔ ایسی بیہودہ اور بے سرپیر کی باتوں کی توقع دھارمک جنون میں مبتلا بھکتوں سے ہی کی جا سکتی ہے۔ اور جہاں تک کسی مسلم سلیبریٹی کی میت پر گنگا جل چھڑکنے کا سوال ہے تو ایک بار نہیں ہزار بار چھڑکو کیا فرق پڑتا ہے۔ دریائے گنگا بھی تو اسی قادر مطلق کا پیدا کردہ ہے جس نے کائنات کی ہر شے بنائی ہے۔ اور پھر کیا مسلمان دریائے گنگا کے پانی کو ناپاک سمجھتے ہیں جو میت پر چھڑکنا حرام ہو جائے گا۔ کیا بنارس کے مسلمانوں نے یا جہاں جہاں سے بھی دریائے گنگا گزرتا ہے، اس کے پانی سے وضو یا غسل نہیں کرتے۔ یا پہلے کبھی نہیں کیا ہوگا۔ کیا علامہ اقبال کے اس شعر کو فراموش کیا جا سکتا ہے کہ: ’اے آب رودِ گنگا وہ دن ہیں یاد تجھکو، اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا‘۔ کتنے ہی مسلم شعرا نے دریائے گنگا کی شان میں قصیدے لکھے ہیں۔ کیا ان تمام قصیدوں کو دریابرد کیا جا سکتا ہے۔

دراصل یہ سب کچھ جہالت نہیں بلکہ خباثت ہے۔ اس طرح کچھ لوگ اپنی ذہنی گندگی کو سماج پر انڈیل کر اسے متعفن کرنے کی کوشش کر تے رہتے ہیں۔ لیکن شکر ہے کہ ہندوستان اب بھی ایک سیکولر ملک ہے جہاں ایسی گھناونی سوچ رکھنے والوں کا جواب دینے والے بھی موجود ہیں۔ لہٰذا جہاں بھکتوں نے اپنی ذہنی خباثت پھیلائی وہیں بہت سے لوگوں نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کو بھرپور جواب دیا۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے لتا جی کی آخری رسوم کو متنازع بنانے کی کوشش کی کیا وہ مسلمانوں کے بارے میں ہمدردانہ جذبہ رکھنے پر لتا جی کو برا بھلا کہیں گے۔ حالانکہ اس معاملے میں بھی ایک تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور کچھ لوگوں کا اصرار تھا کہ لتا منگیشکر مسلم مخالف جذبات رکھتی تھیں۔ لیکن ایسے لوگوں کو شاید معلوم نہیں کہ وہ دلیپ کمار کو اپنا راکھی بھائی مانتی اور ان کی کلائی پر راکھی باندھتی رہی ہیں۔ کیا یہ لوگ لتا جی کی آتما سے اس بارے میں شکایت کریں گے۔ خدا ان جاہلوں کو عقل دے اور ان کے دماغوں سے خباثت و غلاظت کو صاف کرے تاکہ ملک کے عوام پر سکون زندگی گزار سکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔