حجاب تنازعہ : چند قابلِ غور باتیں

محسن رضا ضیائی

(پونے، مہاراشٹر)

حالیہ چند دنوں میں صوبۂ کرناٹک کے متعدد شہروںمیں حکومت اور شر پسندوں کی طرف سے حجاب کو لے کر یکے بعد دیگرے جو واقعات پیش آئے وہ انتہائی افسوسناک ہیں، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ جہاں زعفرانی حکومت کی عصبیت و نفرت کو مسلم خواتین اور طالبات کے تئیں جگ ظاہر کرتا ہے، وہیں مسلمانوں کو بھی غور و فکر کرنے اور مثبت و مستحکم لائحہ عمل تیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اگر حجاب تنازعہ پر بات کریں خاص طور سے اُوڈوپی میں پیش آئےاس پورے واقعہ پر غائرانہ نظر ڈالی جاے تو اس میں اوڈوپی کے ایک سرکاری کالج میں بی کام کی سیکنڈ ایئر کی ایک بہادر مسلم طالبہ مسکان خان کا کردار نکھر کر سامنے آتا ہے، جس نے سیکڑوں زعفرانی رنگ میں رنگے ہندو انتہا پسندوں کے سامنے صداے نعرۂ تکبیر بلند کرکے باطل ایوان میں کھلبلی مچاکر جس جرأت و بے باکی اور شجاعت و بہادری کا بے مثال مظاہرہ کیا، وہیں مسلم قائدین کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑنے کا بھی گراں بہا کام سر انجام دیا، اس کا یہ عمل نہ صرف لائق صد تحسین و آفرین ہے بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔

بنتِ حوا کے اس کردار کو پوری دنیا نے دیکھا اور اس کی خوب سراہنا بھی کی۔ بلکہ ملکِ عزیز ہندوستان میں اس مسلم طالبہ کے خوب چرچے ہیں، جا بجا اس کی استقامت و عزیمت کے تذکرے ہورہے ہیں، اسے انعامات و اکرامات سے بھی نوازا جارہاہے، جو یقیناً ہونا چاہیے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس کی حوصلہ افزائی اور داد رسی ہونا چاہیے، لیکن یہاں سب سے بڑا اور سلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ کیا صرف تذکروں اور تحفوں سے بی بی مسکان خان کی لڑائی کو تقویت ملے گی یا اس کے شانہ بہ شانہ چل کر عملی طور پر زعفرانی فکر کے خلاف لڑکر تقویت ملے گی۔ اس پر تمام دینی، ملی اور سماجی قائدین کو غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اب یہ صرف ایک یا چند مسلم طالبات کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ بن چکا ہے، لہذا آج ضرورت سب سے زیادہ اس امر کی ہے کہ تمام ہندوستانی مسلمان بلا لحاظِ مسلک و مشرب متحد و متفق ہوکر اپنے دینی و آئینی حق کے لیے مستعد و کمربستہ ہوجائیں اور اسلام دشمن طاقتوں کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ بلکہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح ان کے سامنے مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہیں ۔ملک میں تعصب و نفرت کا بیج بونے والوں کی بیخ کنی کریں۔ خاص طور سے حالیہ واقعہ حجاب پر تمام مسلم قائدین و دانشوران ایک اسٹینڈ لیں اور ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت عرضی پر اپنی عنانِ توجہ منعطف رکھیں۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ اگر حجاب کے حق میں آتا ہے تو یہ عدل وانصاف کی فتح ہے اور اگر اس کے بر خلاف آتا ہے تو اس کے لیے تیار رہیں اور سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کریں اور بڑی قوت کے ساتھ لڑیں۔ یہ ذہن نشین رہے کہ یہ نہ صرف ہمارا جمہوری و آئینی حق ہے بلکہ وہ پہلے ہمارا دینی و مذہبی حق ہے، جس کو ہم کسی کو چھیننے نہیں دیں گے اور ہمیشہ اس کے لیے صداے انصاف بلند کرتے رہیں گے۔

یاد رکھیں کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں، وہ ایک جمہوری، دستوری اور گنگا جمنی تہذیب کی رواداری کا ملک ہے، جہاں جتنی بھی نفرت و عصبیت کو چاہے سیاسی فائدے کے لیے یا مذہب و دھرم کی آڑ میں پروان چڑھایا جائے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بس شرط یہ ہے کہ مسلمان جمہوری، دستوری اور قانونی طرز عمل کو اپنائیں اور اپنی صفوں میں جہاں اتحاد و اتفاق قائم رکھیں وہیں اسلام مخالف طاقتوں کو اپنی طرف سے کوئی ایسا موقع فراہم نہ کریں، جس سے اسلام اور مسلمانوں کا کسی طرح نقصان ہو۔

اسی طرح علما و ائمہ کرام مسجد و منبر سے حجاب کے حوالے سے لوگوں کے اندر بیداری لائیں،اس کی اہمیت و افادیت کو واضح کریں، قرآن و احادیث کی روشنی میں اس کے احکامات بتائیں۔عوام کی بھی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کی خواتین اور بچیوں کو حجاب کا پابند بنائیں۔ کیوں کہ حجاب یہ ہمارا مذہبی شعار ہے۔ اگر مسلم خواتین اور بچیاں خاص طور سے اسکول، کالجیز اور یونی ورسٹیز کی طالبات حجاب کو اپنے اوپر لازم کرلیں اور اسے اسلامی شناخت کے طور پر پیش کریں تو کسی بھی بھگواداری کی ہمت و جرأت نہیں ہوسکتی ہے کہ وہ ان سے ان کا حق چھین سکے۔ آج جس طرح مسکان خان حجاب کو لے کر اپنے عمل و کردار سےحکومت کے جارحانہ نظام کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت بن گئی اور اپنے موقف پر کس قدر بنیان مرصوص بن کر ڈٹی ہوئی ہے، یہ مسلم بچیوں اور عورتوں کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ بھی اس طرح اپنے بنیادی، مذہبی اور قانونی حقوق کی لڑائی کے لیے حکومتِ وقت اور دشمنانِ اسلام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکار سکتی ہیں اور نعرۂ تکبیر کی صداؤں سے ایوانِ کفر و شرک میں زلزلہ پیدا کرسکتی ہیں۔
کسی کہنے والے کیا خوب کہاہے؎

باطل نے جب جب بدلے ہیں تیور
آیا ہے تب تب میری زبان پر
نعرۂ تکبیر اللہُ اکبر
نعرۂ تکبیر اللہُ اکبر

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔