اقبال، اقبالیات اور دو اہم اقبال شناس

نایاب حسن

اقبالیات پرعلامہ اقبال مرحوم جب باحیات تھے، تبھی سے لکھا جارہا ہے اوربے پناہ لکھاجارہاہے، ایک عرصے تک اس نوع کی تحریروں میں کسی نہ کسی نئی جہت کااکتشاف ہوتارہا، مگر اب زیادہ تر پرانی شراب کونئی بوتل میں پیش کرنے کاعمل جاری ہے۔

ماضی میں اقبالیات کے ماہر کئی ہوئے، جنھوں نے اپنے اپنے ذہن وفکراور صلاحیتِ فہم کی بہ دولت اقبالیات کے مختلف گوشوں کوروشنی میں لانے کی کوشش کی اوراپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہے، ہمارے یہاں مولانا عبدالسلام ندوی، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، رشیداحمد صدیقی اور آل احمد سرور کے نام اس حوالے سے اہم ہیں، پاکستان میں تو بے شمار’’ماہرینِ اقبالیات‘‘ ہوئے ہیں ….. اس ضمن میں ہمیں مولاناابوالحسن علی میاں ندوی کاکردارخاصااہم اور تفہیم وتوسیعِ اقبالیات کے حوالے سے نمایاں ترین نظرآتاہے، کہ انھوں نے اقبال کی وفات کے لگ بھگ تیس سال بعد ایک نئی دنیا کو اقبال سے روشناس کیا،انھوں نے اپنے دراک ذہن، اَخاذطبیعت اورسیال وشگفتہ قلم کی بہ دولت اقبالیات کوان لوگوں تک پہنچایا، جوکلامِ اقبال کے زیادہ تر حصے کاراست مخاطب تھے، علی میاں کے ’’روائعِ اقبال ‘‘کے بعدہی عربی، اسلامی دنیاکواقبال کی نابغیت کاپتاچلا اورکلامِ اقبال عربوں کے مطالعے کاحصہ بنا…. 2010 میں جب میں دارالعلوم دیوبند میں زیرِ تعلیم تھا، اس دوران معروف عربی اسلامی مفکر واہلِ قلم اور’’لاتحزن ‘‘کے مصنف ڈاکٹرعائض قرنی وہاں تشریف لائے تھے، انھوں نے جامعِ رشیدمیں طلباواساتذہ کے مجمع کوخطاب کرتے ہوئے جب اپنے مخصوص عربی خطیبانہ آہنگ میں اقبال کے مشہور شعر:

رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیاتلقینِ غزالی نہ رہی

کاعربی ترجمہ علی میاں کے حوالے سے سنایااورپھراس کی دلنشیں تشریح کی،تومجھے ایسا محسوس ہواکہ اقبال کواس سے بہتر نہ سمجھاجاسکتاہےاورنہ سمجھایاجاسکتا ہے اوریقیناً اس کاسہراعلی میاں کے سرہے، جنھوں نے اپنی لسانی وادبی مہارت، فکری وذہنی نابغیت اورگہرے اسلامی و تہذیبی شعور کے زیرِ اثراقبال کے نقوش ہوبہو عالمِ عربی تک پہنچائے،علی میاں جب کسی عربی ملک کے دورے پرجاتے اوروہاں علمی وفکری کانفرنسوں اوراجتماعات میں خطاب کرتے، تواپنے موضوعِ گفتگوکے عناصرزیادہ تر اشعارِ اقبال کی روشنی میں منتخب کرتے، پہلے اقبال کاکوئی شعرپڑھتے، پھراس کی روشنی میں اپنی گفتگوکاسلسلہ آگے بڑھاتے، اس طرح بھی انھوں نے عربوں کے لیے اقبال اورکلامِ اقبال کومانوس بنایاـ اس کے علاوہ جب ”روائعِ اقبال ”کااردوترجمہ منظرِ عام پرآیا، تواقبالیات کے ”اردوماہرین ”کوبھی علی میاں کی اقبال شناسی کی داددیناپڑی، رشیداحمد صدیقی نے ”نقوشِ اقبال ”پرجومقدمہ لکھا، وہ ان کے حسنِ اعتراف کاآئینہ ہے۔

اقبالیات کے ماہرین کی صف میں ایک اورنام غیرمعمولی اہمیت رکھتاہے، اگرچہ ہماری نسل مختلف وجوہ کی بناپر اسے اس حوالے سے تقریباً نہیں جانتی…… یہ نام آغاشورش کاشمیری کاہے،جنھوں نے اقبالیات کی تشریح کے ساتھ تیس چالیس سال کے دوران اقبالیات پر تصنیف کی جانے والی اہم کتابوں کا بے لاگ و حقیقت افروز جائزہ پیش کیا۔ شورش کی اقبال سے دوتین ملاقاتیں رہیں، ایک چودھری افضل حق کی معیت میں، دوسری سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ اور ایک آدھ ان کے علاوہ، یہ زمانہ شورش کی عملی زندگی کی ابتدا اور ان کے شعورودانش کے آغاز کا تھا،جبکہ علامہ مرحوم عمرکی آخری منزلوں پرتھے،ان ملاقاتوں کے دوران اقبال کی بات چیت اور لوگوں کو برتنے کے ان کے انداز سے شورش نے محسوس کیا کہ اقبال تمام تر فکری بلندیوں کے باوجود مزاجاً درشت ہیں، ہوسکتاہے یہ اتفاق ہوکہ شورش جب جب اقبال کے یہاں پہنچے،انھیں ایسی کیفیت میں پایا یا ممکن ہے عمر کے آخری پڑاؤ پر واقعی اقبال میں ایسی بات آگئی ہو،بہر کیف شورش نے اپنی ایک رائے قائم کرلی اوراپنے دلچسپ ادبی تکنیک میں لکھاکہ’’آج تک میرا ذہن عقیدت مندی کے باوجوداس خیال میں پکاہے کہ وہ مزاجاً نسیمِ سحر نہ تھے‘‘۔(بوئے گل، نالۂ دل،دودِچراغِ محفل)

البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عملی وفکری زندگی میں شورش نے جن چند شخصیات سے اثر قبول کیا،ان میں اقبال نمایاں ترہیں اور اس کا انھوں نے اپنی زندگی میں بارہا اظہار کیا،انھیں کلامِ اقبال کا پچہترفیصد حصہ ازبرتھا اور اقبالیات کے اورچھور سے وہ بخوبی طورپر واقف وآگاہ تھے۔ شورش ایک مجاہدِ آزادی، ایک عظیم خطیب، ایک بے مثال ادیب اورایک حق نگارصحافی کے طورپربرصغیرمیں مشہورومتعارف ہیں، مگر انھوں نے اقبالیات کی تفہیم اوراس کی صحیح تعبیروتشریح کے حوالے سے جواہم قلمی وخطابی خدمات انجام دی ہیں، وہ عام طور پر زیرِ قلم وزبان نہیں آتیں، شورش نہ صرف اپنے اخبار’’چٹان ‘‘میں وقفے وقفے سے افکارِ اقبال کی مختلف جہتوں سے پردہ اٹھاتے رہے؛ بلکہ تشکیلِ پاکستان کے بعدوہاں اقبالیات کے زیرِ عنوان اقبال اکادمی یااقبال سے منسوب دیگرسرکاری وغیرسرکاری اداروں سے شائع ہونے والی کتابوں کابھی بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا اورصرف مطالعہ ہی نہیں کیا؛ بلکہ اپنے اخبارہی کے صفحات پر ان کتابوں کے بے لاگ تجزیے بھی کیے۔اس ضمن میں شورش کی ایک اہم ترین کتاب ’’اقبالی مجرم‘‘ہے، جس میں انھوں نے اقبالیات پرلکھی گئی تین کتابوں کاجائزہ لیا ہے، پہلی کتاب مولاناعبدالمجیدسالک کی’’ذکرِ اقبال‘‘ہے، جوپہلی بار 1955 میں شائع ہوئی تھی،اس کی ضخامت 296صفحات ہے، دوسری کتاب عابدعلی عابدکی ’’شعرِ اقبال ‘‘ہے، جوبہ قولِ مؤلف’’اقبال کے شعورِ تخلیق کاجائزہ‘‘ہے، کتاب کی ضخامت 637 صفحات ہے۔تیسری کتاب ’’فکرِ اقبال ‘‘ہے، اس کے مؤلف خلیفہ عبدالحکیم ہیں، جن کاایک کتابچہ ’’اقبال اورمُلا ‘‘ ہے، جس میں انھوں نے کلامِ اقبال کی آڑمیں کھل کر مسلمانوں کے مذہبی طبقے کی بھداڑائی ہے،’’فکرِ اقبال ‘‘کی ضخامت 865صفحات ہے۔ایک توشورش کااسلوب بذاتِ خودرنگینی وسنگینی کاآمیختہ ہے، مگراقبال سے ان کی قلبی وابستگی اورمذکورہ کتابوں کے مشمولات کی’بوالعجبیوں ‘‘ نے ان کے تبصروں کواور بھی طرح داربنادیاہے اور کتاب کی ہر سطر ان کے اسلوب کے بانکپن اور مطالعۂ اقبالیات کی وسعت کا سحرانگیز نمونہ پیش کرتی ہے۔

شورش کی دوسری کتاب ہے ’’فیضانِ اقبال‘‘اسے پہلی بار پاکستان کے معروف صحافی مجیدنظامی نے اپنے ادارہ’’نظریۂ پاکستان ‘‘ٹرسٹ کے تحت1968میں شائع کیا تھا، اس کتاب میں ’’آستانۂ اقبال ‘‘ کے زیرِ عنوان معروف محقق وناقدڈاکٹرسیدعبداللہ کادلچسپ تعارفی مضمون شامل ہے،جبکہ شورش نے اپنے پیش لفظ میں اقبال کی فکروشاعری کاتجزیہ کرتے ہوئے اقبالیات کے مختلف گوشوں کی توضیح کی ہے،اقبال کے فکری وشعری عناصر اورمسلمانوں کے اجتماعی شعورپرکلامِ اقبال کے اثرات کا جامع جائزہ لیاگیاہے،اُس زمانے تک پاکستان میں اقبالیات پرمعرضِ وجودمیں آنے والے تصنیفی سرمایے کے تعلق سے ان کانقطۂ نظریہ تھاکہ:

’’اقبال کاصحیح مطالعہ اب بھی پاکستان سے باہرہورہاہے، ایشیائی مسلمانوں میں اقبال کے افکارکی امنگ توہے؛ لیکن ترنگ نہیں، اس کی وجہ ان ملکوں کے مسلمان حکمرانوں کاغیر اسلامی وجود ہے، ہندوستان میں اگر اقبال پر ڈاکٹریوسف حسین خان، مولاناعبدالسلام ندوی، پروفیسررشیداحمد صدیقی اورسیدابوالحسن علی ندوی نے قلم اٹھایاہے، تواس کی بنیاد علم پرہے، ان کے سامنے کسی حکومت کامفاد نہیں اورنہ وہ کسی سیاسی مصلحت کوملحوظ رکھتے ہیں، اس کے برعکس پاکستان میں اقبال کاچرچاتو ہمہ گیرہے، اکثریومِ اقبال بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں، ان کے ذکروفکرسے منسوب کتابوں کاڈھیرلگاہواہے؛لیکن آزادی کے ان اکیس برسوں میں اقبال اکادمیوں کی کثرت کے باوجود ابھی تک کوئی ایسی کتاب نہیں چھپی، جس سے یہ معلوم ہوکہ اقبال جوکچھ چاہتے تھے، وہ اس میں موجودہے یااس کے افکارکی عصری روح اس سے جھلکتی ہے‘‘۔ (ص: 23)

اصل کتاب میں سیکڑوں عناوین کے تحت مختلف کتابوں، متعددشخصیات کے نام اقبال کے خطوط اور دسیوں فیض یافتگانِ اقبال کی روایات وحکایات کے اقتباسات کے ذریعے فکرِ اقبال کوواضح کیاگیاہے، اس سے براہِ راست اقبال کے ذریعے اقبال کو سمجھنے میں مددملتی ہے۔

اس حوالے سے ایک تیسری کتاب ہے ’’اقبالیاتِ شورش ‘‘384 صفحات پرمشتمل اس کتاب کے مرتب مولانامشتاق احمدہیں اور اس کی پہلی اشاعت احرارفاؤنڈیشن،پاکستان کے ذریعے اکتوبر2003 کوعمل میں آئی ہے، اس کتاب کے شروع میں سیدمحمدکفیل بخاری، ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہاں پوری، سیدمحمدیونس بخاری اورپروفیسرجاوید اقبال کی مختصر تقریظات ہیں، جبکہ مرتب نے اپنے مقدمے میں شورش کی ہشت پہلوشخصیت کومختلف علمی، فکری وسیاسی شخصیات کے اقوال وتحریرات کی روشنی میں اُجالنے کی کوشش کی ہے،’’اقبال اورشورش‘‘کے زیرِ عنوان اقبالیات کی ترویج واشاعت کے حوالے سے شورش کی خدمات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔اصل کتاب کے کل سات ابواب ہیں، پہلے باب میں اقبالیات سے متعلق شورش کے اخباری اداریوں اورشذرات کوجمع کیا گیاہے، دوسرے باب میں ’’اقبالی مجرم‘‘والے موادکے علاوہ ”اقبال کے آخری دوسال ”، ”اوراقِ گم گشتہ ”، ”تلمیحاتِ اقبال ”، ”اقبال اورمغربی تہذیب ”،”عطیہ فیضی کے خطوط ”،”اقبال اوربھوپال ”،”اقبال اورحیدرآباد ” جیسی کتابوں پرشورش کے بے حد دلچسپ ومزے دار تبصرے جمع کیے گئے ہیں، تیسرے باب میں اقبالیات پر شورش کے اکیس مضامین ہیں، چوتھے باب میں مجلسِ اقبال میں پیش کیے گئے شورش کے آٹھ خطبات جمع کیے گئے ہیں، پانچواں باب اقبال اورقادیانیت کے متعلقات کی حوالے سے شورش کے مضامین پرمشتمل ہے، چھٹے باب میں 1956سے لے کر1974 تک پاکستان بھرمیں یومِ اقبال کی مناسبت سے منعقدہونے والے پروگراموں پرتبصرے شامل کیے گئے ہیں، ساتویں باب میں مختلف عناوین سے شورش کے ذریعے اقبال کوپیش کیے گئے منظوم خراجِ عقیدت کوجمع کردیاگیاہے، جوکل چوبیس نظموں اورچھ متفرق اشعارکوشامل ہے۔

اس طرح اگر اقبالیات پر لکھی گئی شورش کی تمام تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ انھوں نے اکیلے اقبالیات پر اتنا لکھا ہے اور ایسے ایسے پہلووں سے لکھا ہے کہ جن سے بہت سے ادارہ ہاے اقبالیات کابھی دامن خالی ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    علامہ اقبال مسلم کو "حقیقی مسلم” دیکھنا چاہتے تھے.
    اقبال نے علم کے دو زرائع ” حسی و عقلی” اور "وحی و جدان” پر زور دے کر نئی نسل کو یہ پیغام دیا ہے کہ روایتی مذہبی علم جمود ، اور جدید دنیا سے بے خبری کے سوا کچھ نہیں دے رہا ہے . اپنی شاعری میں زور دے کر تنقید کی ہے…..
    تو دوسری طرف مغربی تعلیم کو الحاد قرار دیا ہے______
    اقبال انسان کو "اخلاقی وجود ” جو متحرک اور روحانی ہو ..کا درس دیتا ہے. اور اسی روحانی وجود کو جدید علوم (حسی و عقلی) سے لیس ہو کر دیکھنا چاہتے ہیں________
    اب ظاہربات ہے کہ اگر بنیادی تربیت و تعلیم ہی اعلی ہو تو "زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری” تو بننا ہی بننا ہے…. یہی انسان دنیا کی
    "حقیقی امامت ” کر سکتا ہے.

    اب معاشی انقلابات فرانس و اشتراکیت اقبال نے اپنی زندگی میں دیکھے تھے . مزدور کی بے بسی ان کے سامنے تھی….
    یہی وجہ ہے وہ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اسلام کا "ماذا ینفقون قل العفو” جیسے اعلی اصول سے معاشی استحکام مسلم دنیا کو دے سکتے ہیں.
    خطبات اقبال کے چھٹے خطبے کی ابتدا میں بھی اقبال خونی رشتے کی بجائے انسانیت کو "وحدت کی خالص نفسیاتی بنیاد روحانی وجود کو قرار دیتے ہیں” . جب تک یہ وجود نہ ہو اور قل العفو کے اصول نہ ہو ، مسلم دنیا استحصال سے نجات، اور محنت کشوں کادفاع نہیں کر سکتی_ اس لیے ایک طرف اقبال اسلامی تعلیمات سے معاشی فکر دے رہے تھےتو دوسری طرف محنت کش کے استحصال پر تنقید کر رہے تھے …
    یہی اقبال نے شرط لگائی ہے کہ "جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی” انہیں پر تنقید کر رہے ہیں…. میرے خیال میں درست باتہے کہ غریب کو خون پسینہ بہاکر بھی روزی میسر نہ ہو تو کیا ان کا یہ فعل درست ہے ؟؟؟
    مختصر اقبال "خودی کے زندہ انسان” کو زندگی کی ہر میدان سماجی سیاسی معاشی…. میدان میں دیکھنا چاہتے ہیں… اگر یہ اخلاقی وجود حاصل نہ ہو …تب ہی دہقان کی روزی سوالیہ نشان بنتی ہے.
    اقبال معاش میں محنت کشوں کے منہ سے نوالےچھیننے کی حوصلہ شکنی کر تےہیں…

تبصرے بند ہیں۔