اقلیت پر مودی کا بیان نیک نیتی پر مبنی؟ 

جاوید جمال الدین

لوک سبھا 2019میں ہوئے عام انتخابات میں بی جے پی کو دوسری مرتبہ کامیابی حاصل ہوگئی ہے اور اس مرتبہ واضح اکثریت بھی ملی ہے ،انتخابی مہم کے دوران حزب اختلاف اور مخالفین کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کے بعد 23مئی کے نتائج نے دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے نریندردامودرداس مودی کے رویہ میں ظاہری طورپراچانک حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی ہے اور انہوںنے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں بی جے پی اور این ڈی اے میں شامل دیگر پارٹیوں کے منتخبہ ممبران پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں اقلیت کے دل ودماغ سے ڈروخوف نکالنا ہے اور اس کی اشد ضرورت ہے ،کیونکہ سابقہ حکومتوں نے انہیں ایک طرح کے دھوکہ میں رکھا ہے،جس میں سے انہیں باہر نکالنا ہوگا ،ہم سب کی ذمہ داری ہوگی کہ ہم اسے ختم کریں اور اقلیت کا اعتماد بحال کیاجائے ۔حزب اختلاف نے ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہوئے ، اقلیتوں کو خوف و ہراس میں رہنے پر مجبور کیا، بہتر ہوتا کہ اقلیتوں کی تعلیم پر توجہ دی جاتی، بہتر ہوتا کہ ان کے درمیان سے ہی سماجی و سیاسی قائد پیدا ہوتے اور ان کی سماجی و اقتصادی ترقی اسی رفتار سے ہوتی جس رفتار سے معاشرے میں دوسرے فرقوں اور طبقوں کی ہوئی ہے۔ملک کے غریبوں کے ساتھ جس قسم کا دھوکہ کیا گیا وہی دھوکہ اقلیتوں کے ساتھ بھی کیا گیاہے، لیکن اب ان کے اعتماد کو جیتنے، اس دھوکے کو ختم کرنے اور سب کو ترقی کے راستے پر لے جانے کی ضرورت ہے۔“

وزیراعظم نریندر مودی کے اس اہم ترین بیان کی بہت زیادہ مخالفت نہیں ہوئی بلکہ دبی زبان یں اس بیان کا مسلمانوں کی لیڈرشپ نے خیر مقدم کرتے ہوئے اس طرح کا مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم مودی اس بیان کی روشنی میں نیک نیتی سے اقادمات بھی کریں ۔ان پانچ برسوںمیں ان کا دوسرا اہم ترین بیان ہے ،اس سے قبل انہوںنے کہا تھا کہ ”ہم چاہتے ہیں مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن شریف اور دوسرے کمپیوٹر ہو۔“لیکن اگر پانچ سال کا جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس سمت میںکوئی خصوصی توجہ نہیں دی گئی ہے ،بلکہ بیف ،موب لنچنگ ،ٹوپی پہننے پر اور پارک اور میدانوں میں نماز کے مسئلوں میں انہیں الجھائے رکھا گیا ،ان کے کئی اہم لیڈر بلکہ کابینی رفقاءمسلمانوں کے خلاف اشتعالانگیز بیان سے باز نہیں آئے ،اس لیے انہیں مودی کے بیان پر کتنا یقین کیا جائے ،یہ فی الحال کہنا قبل از وقت ہوگا ،البتہ انہیں مسلمانوں میں سے یہ مشورہ دیا جانے لگا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بیان بازی کے بجائے وزیراعظم نیک نیتی سے عملی اقدامات کرتے بلکہ اس سلسلہ میں رہنماءاصول بھی جاری کیے جاتے ،کیونکہ بی جے پی کی لوک سبھا انتخابات میں جیت اور مودی کے مذکورہ بیان کے دوتین دن بعد ہی ہریانہ ،بہاراور اترپردیش میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں جن میں مسلمانوں کو ان کے مسلمان ہونے کی بناءپر نشانہ بنایا گیا ،کہیں بیف کے جھوٹے معاملہ میں،کہیں ٹوپی پہننے اور بہار میں توایک نوجوان کا نام پوچھ کر اسے گولی ماردی گئی ،یہ سب انتہائی سنگین معاملات ہیں۔

وزیراعظم نریندرمودی نے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں اپنے خطاب اور اس طرح کے ایک حوصلہ افزاءبیان سے قبل ڈائس پر احترام سے رکھی گئی دستورہند کی کاپی پر سرجھکا کر ’نم ‘کیا اور اسے آنکھوں سے لگاکر اس کا بوسہ بھی لیا اوراسی خطاب میں مودی نے اپنے پچھلے نعرہ ”سب کا ساتھ ،سب کا وکاس “کے ساتھ ہی ”سب کا اعتماد‘میں اضافہ کرتے ہوئے ،اس میں توسیع کی ہے،حالانکہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کی حکومت ان کی پانچ سالہ حکومت کے دوران اقلیت کا اعتماد جیت نہیں سکی ،اور یقین دلایا کہ ان کی حکومت اس سمت میں ایک جامع وٹھوس قدم اٹھا ئے گی تاکہ اقلیت کا بھروسہ حاصل کیا جائے اور ملک کی تعمیر وترقی میں انہیں ساتھ لیا جائے۔ورنہ اس ترقی کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ایک طبقہ کی دوری سے ملک کی ترقی پر اثر پڑے گا۔

بقول سنیئر وکیل اورراجیہ سبھا ایم پی ایڈوکیٹ مجید میمن اگر بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی پانچ سالہ حکومت کا جائزہ لیا جائے تو دوسرے دورکی شروعات میں مودی نے ایک اچھابیان ضرور دیا ہے ،لیکن اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت کے گزشتہ پانچ سالہ دورحکومت میں اقلیتوںاور خصوصاً مسلمانوں کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ،حالانکہ 2014میں نریندرمودی کی قیادت میں مرکزی حکومت نے ’سب کا ساتھ ،سب کا وکاس ‘کا نعرہ دیا تھا اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں عام طورپر ترقی وکامرانی کے ساتھ ساتھ فلاح وبہبود کے لیے کئی جانے والے اقدامات کا فائدہ انہیں بھی پہنچا ہو،لیکن یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ ان سب میں دلتوں اور مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ،خصوصی طورپر مسلمانوں کوایک نئے ڈروخوف میں مبتلا کردیا گیا،تقریباًچار سال سے بیف کے نام پریک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی اور منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اورموب لنچنگ کی پُرتشدد وارادتوںمیں زبردست اضافہ ہوگیا ،جن کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا،2015۔2019کے درمیان موب لنچنگ کے متعدد معاملات ملک بھر میں پیش آئے اور کئی بے قصورمسلم نوجوانوں کو گائے کے تقدس کے نام پر قتل کردیا گیا ،مودی حکومت ،بلکہ انہوںنے خود ان سنگین وارداتوں کی کبھی کھل کر مذمت نہیں کی اور نہ سخت کارروائی کی گئی، بلکہ جھاڑکھنڈ کے رام گڑھ علاقہ میں علیم الدین انصاری نامی ایک نوجوان کواکتوبر 2015میں مشتعل بھیڑ نے قتل کردیا تھااور اس معاملہ میں ملوث آٹھ شرپسندوں کی گرفتار ی کے بعد رانچی کورٹ نے انہیں فردم جرم کی بنیاد پرمجرم قراردیا،لیکن انہیں سزا ملنے کے باوجود مرکزی کابینہ میں شامل وزیر جینت سنہا نے ان مجرموں کا ہارپھول پیش کرکے ان کا استقبال کیا تھا۔جس پر وزیراعظم نے چپی سادھ لی تھی ،فی الحال انہی جینت سنہا کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔

اقلیت کو اعتماد میں لینے کی بات پر کس طرح بھروسہ کیا جائے کیونکہ موب لنچنگ یا ہجمومی تشدد میں موت کا شکار بننے والے ان بے قصورمسلم نوجوانوں کے گھر جاکر پسماندگان کوکبھی دلاسہ دینے کی توفیق نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے لیے عبوری راحت کا کوئی اعلان کیا گیا جبکہ سپریم کورٹ نے موب لنچنگ پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہاتھا کہ یہ سنگین معاملات ہیں اور ان کے دوران قانون کی حکمرانی غیر حاضرنظرآتی ہے۔

وزیراعظم کے ذریعہ دستورہند کے احترام میں سرجھکانے اور اسے بوسہ دینے کا عمل قابل تعریف ہے ،لیکن مستقبل میں اسی دستورپر عمل ممکن ہے جس کے باب سوم میں ایک شہری کے بنیاد حقوق کی بات واضح انداز میں کہی گئی ہے اور آرٹیکل 21کے تحت انسانی زندگی کی حفاظت اور اختیارات کی واضح تشریح کی گئی ہے،سپریم کورٹ نے بھی ان وارداتوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ ” زندہ رہنے کا حق سبھی کو حاصل ہے ،زندہ رہنا صرف سانسوں کا تسلسل نہیں ہے،زندگی صرف معمول کے طورپر کاٹنے کے لیے نہیں بلکہ اس زندگی کوبہتر انداز میںگزارنے کے لیے ہے،مثال کے طورپر خوشحال زندگی ،باوقار زندگی اور بے خوف زندگی کا اختیار ایک جہوری ملک میں رہنے والے کو دیا گیا ہے ،جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس کی تفصیل پیش کردی ہے۔

 ان سب باتوں سے سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا مسلمان کیا دنیاکے سب سے بڑے جمہوری ملک میں ،جس کی ہم دہائی دیتے ہیں ،خوشحال ،باوقار اور بے خوف زندگی گزاررہا ہے ، سچائی آئینہ دکھا رہی ہے ،جمہوری حقوق کے بجائے ، مسلمان اس کے برعکس زندگی گزار رہا ہے ،ماضی کی باتیں کرنے سے پہلے مودی کو پانچ سال کا جائزہ بھی لے لینا تھا۔بلکہ ان کے اس اہم اور سلگتے ہوئے موضوع پر بیان کے آس پاس کے دنوں میں ملک کی کئی ریاستوںمیں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں ،جن میں ٹوپی پہننے ،جے شری رام کا زبردستی نعرہ لگائے جانے سے انکار کرنے پراور نام پوچھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور یہ سب مودی کے مسلمانوں کو اعتماد میں لینے کے بیان کے بعدرونما ہوا ہے۔ایسے واقعات میں پولیس خاموش تماشائی بنی نظرآرہی ہے۔کیونکہ پولیس کو ان واقعات کو روکنے کے لیے کیا کرنا ہے اور کیا کارروائی کرنا ہے ،اس سلسلہ میں کوئی ہدایات نہیں ملی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ چشم پوشی کرنے کے ساتھ ساتھ ان معاملات کو نجی اور ذاتی رنجش سے وابستہ کردیتی ہے۔

وزیراعظم مودی کی باتیں سننے میں تو بہت اچھی ہیں مگر گزشتہ پانچ برسوں میں مودی حکومت کے اقدامات اس کے برعکس رہے ہیں۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں اس بیان کو مثبت انداز میں لینا چاہیئے۔کیونکہ ایک جمہوری ملک کا سربراہ یہ باتیں کررہا ہے ،مگرگزشتہ پانچ برسوں میں حکومت کرنے کا مودی کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔2002گجرات تشدد کا جائزہ لیا جائے تو بحیثیت منتظمین وہ ناکام رہے تھے، جس طرح ہجوم کی سیاست شروع ہوئی اور مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر مارا گیا تو یہ بھی حکومت کی ناکامی ہے۔ یہ جو خوف کا ماحول ہے اسے ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے، لیکن اس نے پچھلے پانچ برسوں میں اس سمت میں کچھ نہیں کیا۔آزادی کے بعد1950کے عشرہ میں مسلمانوں میں خوف و ہراس کا جو ماحول تھا وہی واپس آتا نظرآرہا ہے ،لیکن اس وقت حکومت اس ماحول کو ختم کرنے کی کوشش کرتی تھی اور آج اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

ایک بات اور کھٹکتی ہے کہ مودی کو مسلمانوں کا نام لینے میں بھی تکلف ہے اور انہوںنے اپنے خطاب میں’ اقلیت ‘کہہ کر اپنی بات پیش کی اور جہاں تک وہ اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کی بات کرتے ہیں تو کچھ عجیب محسوس ہوتا ہے کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دوسرے مسلم تعلیمی ادارے،موجودہ حکومت کی سرگرمیاں ان تمام کے خلاف رہی ہےں۔ سپریم کورٹ میں مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کوسرکارنے چیلنج کر رکھا ہے۔ تو پھر کیسے سمجھ لیا جائے کہ وہ اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے حامی ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ہجومی تشدد اور گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں میں خوف و ہراس کس نے پیدا کیا۔ وزیر اعظم مودی نے گائے کے تحفظ کے نام پر ہجومی قتل کے واقعات پر خاموشی اختیار کر کے شرپسندوں کی حوصلہ افزائی کی۔

مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کو ان کے حقوق سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جوکہ دستور ہند کی سراسر خلاف ورزی ہے جس کا وزیراعظم صدق دل سے احترام کرتے ہیں اور اقلیتوں کے تحفظ اور انہیں اعتماد میں لینے کےلئے اسی دستوراور آئین کی قسم کھاتے ہیں۔ مسلمان دستورہند کے تحت اپنے حقوق چاہتے ہیں اور انہیں منہ بھرآئی کے نام پر کچھ نہیں چاہئے ،اس ملک اور اس کے دستور نے انہیں جو حقوق دیئے ہیں ،بس وہی انہیں عنایت کردیئے جائیں ،اگر مسلمانوں کو ایک ساتھ لانے یعنی قومی دھارے میں شامل کرنے اور اعتماد میں لینے کے لیے دلچسپی دکھائی جارہی ہے تو حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو امیدواری کیوں نہیں دی گئی۔اور مختار عباس نقوی کی شکل میں ایک ہی وزیر بھی نظرآتا ہے ،ایسے کئی معاملات ہیں جن پر ارباب اقتدار کو غورکرنا ہوگااور نیک نیتی سے عمل کرنا چاہئے اور س کے بعد ہی اقلیت کو اعتماد میں لیا جاسکے گا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعظم نے ایک پہل کردی ہے ،جس کو مثبت انداز میں لیا جاسکتا ہے ،لیکن بیجنٹوں کو دور رکھ کرراست میں رابطہ بنانے کی کوشش کی جائے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔