الفاظ کی طاقت

مسعود جاوید

لفظوں کے انتخاب میں انسان کو بہت محتاط رہنا چاہیئے اور موقع کی مناسبت کو مد نظر رکھتے ہوئے تقریر و تحریر میں الفاظ ور اصطلاحات کا استعمال کرنا ہی دانشمندی ہے ورنہ نیت خواہ کتنی بهی اچهی کیوں نہ ہو آپ کے مخالفین آپ کے الفاظ کو غلط معنی پہناکر آپ کے خلاف استعمال کریں گے۔ راہل گاندھی نے خواہ کسی سیاق و سباق میں ہو یہ کہہ کر کہ ہاں کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے، مخالف پارٹیوں کو کانگریس پر حملہ کرنے کا جواز فراہم کردیا اور ٹی وی چینلز کو ہندو مسلم ڈیبیٹ کا مواد مل گیا۔ صورتحال کی نزاکت، مسئلہ کی حساسیت اور توقیت کی اہمیت اگر پیش نظر نہ ہو گی  تو ایسی لغزشیں کرکے آپ خود اپنے لئے مصیبت کو دعوت دیں گے۔

 پچھلے دنوں بورڈ کے ایک ذمہ دار شخص پورے ملک میں شریعت بورڈ قائم کرنے کا باضابطہ میڈیا  کے سامنے اعلان کرکے ملک میں خواہ مخواہ کی بحث چهیڑنے کا سبب بن گئے۔ ان کی تنقید اس لئے ہو رہی ہے کہ انہوں نے ایسے وقت میں یہ مسئلہ اٹھایا ہے جب انتخابات عامہ کی تیاری شروع ہوچکی ہے اور جیسا کہ ہر شخص اس سے واقف ہے کہ اب انتخابات کے لئے ہندو مسلم کےنام پر لام بندی پولرائزیشن جزء لا یتجزاء ہے اور یہ صرف ہمارے یہاں نہیں ہے اس بار تو فخر جمہوری اقدار اور علمبردار انسانی حقوق، امریکہ میں بهی اسلام، عرب اور مہاجرین مخالف مدعوں پر ہی لام بندی کی گئی تهی۔

 اس لئے موقع کی نزاکت کے پیش نظر نعرے بازی سے ہمیں باز انا چاہیئے۔ ہمارے رہنماؤں نے وقت پر اس طرف توجہ نہیں دی جب حالات سازگار تھے اور ماحول اتنا زہر آلود نہیں تها۔ دارالقضاء یا شریعہ کورٹ کا قیام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ قائم ہوتے رہے ہیں ہاں مگر اس کے لئے کبهی ڈھنڈورا نہیں پیٹا گیا۔  پرسنل لاء بورڈ کے قیام 1973 میں عمل آنے کے بعد سے ہی دارالعلوم کے سابق مہتمم قاری طیب صاحب رحمہ اللہ بورڈ کے صدر رہے انہوں نے بورڈ کے تحت پورے ملک میں شریعہ کورٹ قائم کرنے کی تجویز رکھی تھی۔ سوال یہ ہے 1973 سے اب تک بورڈ نے اس سفارش پر عمل کیوں نہیں کیا اور تقریباً 45 سالوں کے بعد اس کی ضرورت کا احساس کیونکر ہوا؟

بورڈ کے ممبر موصوف نے میڈیا کے سامنے اگر مناسب الفاظ کا استعمال کرکے شریعت کورٹ کا محدود میدان عمل (نکاح طلاق فسخ خلع وراثت وصیت اور اوقاف) کی وضاحت کردی ہوتی اور ایجنسی کو بتادی ہوتی کہ کوئی متوازی عدالت نہیں ہے بلکہ محض ایک ثالثی کرانے کا ادارہ ہے اور وہ بهی ان کے لئے جو خود اس ادارہ کے پاس اپنی مرضی سے آئے اس کے فیصلوں کی تنفید کے لیے کوئی سزا دینے والی ایجنسی پولیس یا قید خانہ نہیں ہوتا  تو شاید بحث کا موضوع نہیں بنتے۔

دراصل ہہ دور نعرہ بازی اور مقابلہ آرائی کا نہیں ہے۔ ہم ایک سیکولر ملک کے شہری ہیں جہاں مذہب کا تعلق ہر انسان کی ذات سے ہے ضروری نہیں کہ ہم اس کا اعلان کرتے پهریں یا ایسا رویہ اختیار کریں کہ مدمقابل کو مقابلہ آرائی نظر آئے- آسام کی مثال لیں

1- وہاں  مولانا بدرالدين اجمل صاحب نے پہلے زمینی کام کیا صحت اور تعلیم کے مراکز قائم کئے جن میں بلا تفریق مذہب سب مستفید ہوتے ہیں۔

2- انہوں نے اپنی پارٹی کا نام جماعت المسلمین، اسلامی پارٹی مسلم مجلس یا علماء پارٹی نہیں رکھا۔بلکہ ایک عام نام نہ ہندو نہ مسلمان بلکہ AIUDF آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ رکھا جس کے امیدوار غیر مسلم بهی ہوتے ہیں

3- غیر مسلموں کے ساتھ الائنس کیا اور بہترین اسٹریٹجی بناکر ڈیل کیا  کہ تم اپنی اکثریت کے علاقے میں ہمارے مسلم امیدوار کو ووٹ کراؤ اور ہم اپنی اکثریت والے علاقوں میں تمہارے امیدوار کو ووٹ کرائیں گے۔

مجهے یاد ہے ایک بار ٹائم اور نیوزویک کی طرح ایک میگزین عربوں کے پیسے سے لندن سے نکالی گئی تهی۔ اس کے پروموشن کے لیے اس کے ایڈیٹر فتحی عثمان جو پہلے نیوزویک میں کام کرتے تھے انڈیا آئے۔  تعارف کے بعد دوران گفتگو میں نے سوال کیا کہ جب دنیا کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی رویٹر یہودی کا ہے لیکن نام سے کسی کو پتہ نہیں چلتا جب تک کہ تحقیق نہ کرے ٹائم اور نیوزویک یہودی اور مسیحی کے ہیں لیکن نام سے پتہ نہیں چلتا تو آپ نے اپنی انگریزی میگزین کا نام "العربيه ” کیوں رکھا۔ کیا کوئی بهی شخص جو غیر جانبدار خبر کا متلاشی ہے اسے پڑهنا چاہے گا؟

اس لئے ہمیں اس علامتی فخر اور خلافت عثمانیہ والی شان و شوکت کی دنیا سے نکلنا ہوگا۔ میٹروپولیٹن کلچر میں سرینڈر نہیں  ایڈجسٹ کرنا ہوگا اپنی شناخت تہذیب اور دین کی سلامتی کے ساتھ درمیان کا راستہ نکالنا ہوگا ایک ایسا راستہ جس میں حتی الامکان ہم آہنگی ہو تصادم نہیں۔ یہ میرا نظریہ ہے اور ضروری نہیں کہ ہر شخص اس سے اتفاق کرے۔

کچھ لوگوں کی رائے اس سے بالکل مختلف ہے اور میں اس سے اتفاق تو نہیں کرتا مگر ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔ ان کا ماننا ہے کہ میں نے جس انداز فکر کی روشنی میں باتیں لکهی ہیں وہ آج کے بدلے ہوئے حالات کے لئے اسٹریٹجی نہیں بزدلی کی تلقین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ” ہم اپنے حقوق کے تحت اپنے مذہب کا اعلان کرتے ہیں اب اس سے اگر کسی کو الرجی ہے تو کیا ہم اپنی تشخص چهوڑ دیں”؟ میں نے کہا کہ میں نے یہی کہا ہے کہ سرینڈر نہیں ایڈجسٹ کرنے کی روش اختیار کی جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔