اللہ جانے کیا ہوگا آگے؟

ممتازمیر

   دھولیہ مہاراشٹر کا ایک ضلعی شہر ہے جہاں ایک مدرسہ ہے۔ مدرسۂ سراج العلوم، غالبا ۱۹۸۵یا ۱۹۸۶ کے سالانہ جلسے میں شاید صدر مدرس نے اپنی تقریر میں کہا تھاکہ ہندوستان سے ایک غیر سرکاری وفد اسپین گیا تھایہ مطالعہ کرنے کے لئے کہ اسپین والوں نے کس طرح اسپین کو مسلمانوں سے ’’پاک‘‘ کیا تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے مدرسے کے صدر مدرس کو یہ خبر ہو اور ہمارے ملک کے بڑے بڑے جبہ و دستار والے دگجوں کو خبر نہ ہو۔ مذکورہ صدر مدرس کو بھی یہ خبر عرب دنیا سے آنے والے رسائل سے حاصل ہوئی تھی تو پھر بڑے بڑے مدرسوں کے بڑے بڑے مہتمم، ناظم و مدرسین بدرجہء اولیٰ اس خبر سے واقف ہونگے۔ مگر وہ تو پرسنل لاء کی حفاظت کے لئے ایک بورڈ بنا کر قوم کے تئیں سارے فرائض ادا کرچکے تھے ۔ بعد میں بابری مسجد کی حفاظت کو بھی اسی بورڈ کے فرائض میں شامل کر لیا گیا گیا۔ اور وہ نہ پرسنل لاء کی حفاظت کر سکے نہ بابری مسجد کی۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ وہ غیر سرکاری وفد کس کا ہوگا؟بہرحال وہ غیر سرکاری وفداسپین سے واپس آیا اور اپنے مطالعے کے نتائج پر عمل پیرا ہونے میں لگ گیا۔ اور ہمارے بڑے بڑے علماء و دانشورکانگریس پر، سماجوادی پر، بہوجن سماج  جیسی پارٹیوں پر بھروسہ کرکے قوم کی لٹیا ڈبوتے رہے۔ اب جب کہ تلوار گردن پر رکھی جاچکی ہے تو ہماری پوری قیادت شاک کی کیفیت میں ہے۔ اب قیادت کے فرائض فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے انجام دے رہے ہیں ۔ بلکہ ہمیں یقین ہے نصیر الدین شاہ کی وارننگ جو انھوں نے شرپسندوں کو دی تھی، پڑھ کر تو ہمارے بہت سے لیڈروں کی چڈی گیلی اور پیلی ہو گئی ہوگی۔

   انسانی زندگی کے کیسے ہی احوال ہوں یہ ناممکن ہے کہ قرآن و حدیث و سیرت میں ہمیں اپنے مسائل کا حل نہ ملے۔ ہمارا دین ہمیں ہر مسئلے کا حل فراہم کرتا ہے شرط یہ ہے کہ ہم پوری نیک نیتی کے ساتھ مکمل ایمان کے ساتھ دین کے فراہم کردہ حل پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہوں ۔ مثال کے طور پر ۷۵ سال پہلے مولانا مودودی ؒ نے کہا تھا کہ اب وہ مسلمان جو ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں انھیں چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ملک کی سیاسی کشمکش سے الگ کر لیں ۔ اور من حیث القوم دعوت دین کا کام کریں ۔ ایک دن ایسا آئے گا کہ سارا ہندوستان ہی مسلمان ہو جائے گا۔ مگر ان کی باتوں پر توجہ دینا تو دور ان کا مذاق اڑایا گیا۔ ہمارے بڑے بڑے علما نے اترا اترا کر آئینی ضمانتوں اور دستوری تحفظات کے لالی پاپ انھیں دکھائے۔ اب آج تو یہ حال ہے کہ خود مولانا مودودی کی قائم کردہ جماعت نے ان کی ہدایات کو طاق پر رکھ دیا ہے۔

 ہم گذشتہ ۱۵ سالوں سے لکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو اصحاب کہف کی طرح جنگلوں اور پہاڑوں میں جا بسنا چاہئے۔ آخری زمانے کی احادیث بھی یہی کہتی ہیں۔ مگر عام مزاج اسے نا ممکن سمجھتا ہے۔ دنیا کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی، سب سے زیادہ خطرناک، سب سے زیادہ نقصاندہ ہجرت بر صغیر کے مسلمانوں نے کی تھی مگر انہی کی اولادیں اسے ناممکن کہتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں خوش ہو کر تالیاں بجارہے ہیں مگر عمل کرنے کو تیار نہیں ۔ ۲۱ سال پہلے جب امریکہ نے حملہ کیا تو طالبان بھی رہنے کے لئے، مجتمع ہونے کے لئے پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ انھیں بھی ان تمام مسائل سے نپٹنا پڑا ہوگا جن مسائل سے ڈر کر ہم پہاڑوں اور جنگلوں میں نہیں جاتے۔ ان پر دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے جدیدجنگی مشینری وہاں بم برسا رہی تھی۔ کچھ شہید بھی ہوئے ہونگے مگر جو زندہ بچے ان کے سر پر خدائے بزرگ و برتر نے دنیا کی سب سے بڑی سب سے جدید جنگی مشینری کو شکست دینے کا سہرہ بھی باندھا۔

   ہم توعام لوگ ہیں خود نبی ﷺ اور صحابہؓ کرام کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ صد فی صد مشرکانہ ماحول میں وحدانیت کے پرستار بنے تھے۔ مگر مشرکین مکہ کا ظلم و ستم سہتے سہتے برسوں گزر گئے۔ یہاں تک کہ تنگ آکر صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا۔ متیٰ نصراللہ۔ مگر حضور نے انھیں کوئی خوش خبری نہ سنائی۔ الٹا یہ کہا کہ تم جلدی مچاتے ہو ۔ ابھی تو تم پر وہ وقت نہیں آیا جس سے تم سے پہلے کی امتیں گزر چکی ہیں ۔ ابھی تو نہ آروں سے چیرنے کی نوبت آئی ہے نہ لوہے کی کنگھیوں سے گوشت نوچے جانے کی ۔ اس کے باوجود ایک بھی صحابی حضور ﷺ کو چھوڑ کر نہ گیا۔ ہمارا حال کیا ہے ؟عوام نہین ہمارے علما، ہمارے لیڈر بغیر وہ وقت آئے، بغیر اس کی وارننگ آئے وقت کے بو جہل اور بو لہب کے قدموں میں جا جا کر گر رہے ہیں ۔

   بڑی حیرت کی بات ہے کہ ۱۹۲۵ میں آر ایس ایس کی بنیاد رکھی گئی۔ رکھنے والے اکثر کانگریسی تھے ۔ مگر ہمارے کسی مہارتھی کی سمجھ نہ آئی کہ ہندو مہا سبھا کی طرز پر آر ایس ایس کی بنیاد کیوں رکھی گئی۔ یہ ہمارے لئے نعمت ثابت ہوگی کہ زحمت۔ یہ تحریک آزادی میں حصہ کیوں نہیں لیتے ؟اور انگریز حکومت کو کیوں استحکام بخشنا چاہتے ہیں ؟ہمارے علما کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس دنیائے رنگ و بو میں جو جس کام کے لئے محنت کرتا ہے سنت اللہ اسے دنیاوی کامیابی عموما عطا کرتی ہے ۔ بس اسی سنت کے تحت سنگھ کو بھی کامیابی ملی ۔ ہم نے کچھ کیا ہی نہیں تو یہ نوبت تو آنی تھی۔

   راجیشور دیال پنڈت گووند ولبھ پنت کی وزارت علیا میں پہلا ہوم سیکریٹری تھا۔ وہ اپنی یادداشت’’ اے لائف آف اور ٹائمس‘‘ مین لکھتا ہے کہ آر ایس ایس سپریمو فرقہ وارانہ تشدد کے بڑے بڑے منصوبے بناتے ہوئے پکڑا گیا تھا جس کے ساتھ اس کے جرم کے ثبوت بھی تھے ۔ مگر پنڈت گووند بلبھ پنت نے ہمارے اصرار کے باوجود اس کے خلاف کسی طرح کی کوئی کاروائی نہ کی ۔ کیا یہ تمام واقعات ہماری قیادت کے علم میں نہ آئے ہونگے؟مگر اس نے ہوش کے ناخن نہ لئے۔ وہ کانگریس کے کام آتے رہے اور کانگریس ان کے ذاتی مفادات کے حصول میں کام آتی رہی ۔ اس وقت کسی کو دین و ملت کی نہ پڑی تھی۔ آج ان کے گناہوں کی سزا قوم تو بھگت ہی رہی ہے خود ان کی اولاد بھی ان کی غفلت کی سزا بھگت رہی ہے۔ اسپین اسلئے ہمارے ہاتھوں سے نکلا تھا کہ وہاں ہمارا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا تھا ۔ ہمیں بھی یہاں اتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے کہ ’’ملت ‘‘ کا تصور کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

 یہ بات اب عوام میں بہت مشہور ہو چکی ہے کہ ہمارے وہ علما و لیڈر جو اسٹیج پر بیٹھ کر خدا اور رسول کی قسمیں کھا کر اتحاد اتحاد کی باتیں کرتے ہیں اپنے اپنے گروہوں میں واپس جا کراپنے لوگوں کے سامنے دوسروں کو پھر گالیاں دینے لگتے ہیں۔ ہم سب نے اپنے اپنے متبعین کو اس اسٹیج پر پہونچادیا ہے کہ وہ کافروں سے تو خوشی خوشی اتحاد کر لیں گے کلمہ گو بھائیوں سے اتحاد انھیں بہت شاق گزرتا ہے اور وہ اس راہ میں روڑے اٹکانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضرت مولانا توقیر رضا خان صاحب ہیں ۔ ان کی مخلصانہ اتحاد کی کوششوں کو خود ان کے ہی لوگوں نے سخت نا پسند کیا تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔