الوداع اسٹین سوامی : نظام سیاست کی سفاکیت  بے نقاب

ڈاکٹر سلیم خان

کورونا نے زندگی کو گراں باراور موت کو ارزاں  کررکھا ہے۔ آئے دن اپنوں کے موت کی خبر  دل کو غمگین کردیتی ہے جن میں  شہنشاہِ جذبات یوسف خان کے سانحۂ ارتحال سے سارا عالم سوگوار  ہے۔ ان بچھڑنے والوں میں بہت سارے ایسے لوگ تھے جن کے ساتھ زندگی گزری تھی۔ ان سے بالمشافہ  ملاقات ہوئی  تھی، بہت کچھ سیکھا تھا، سنا تھا  اور دل  بات سنائی تھی۔ ان میں  ایسے بھی تھے کہ جن سے ملاقات  کا شرف حاصل نہیں ہوسکا مگر ان کو پڑھ کر بہت ساری  علم ومعرفت  کی باتیں سیکھنے کو ملی  یا جن  سے ذرائع ابلاغ کے توسط سے رابطہ ہوا۔ وہ سارے لوگ  جب  اس دنیا سے لوٹ گئے تو اپنے پیچھے ایک  بہت بڑا خلا چھوڑ گئے۔ ان میں ایک استثناء  عیسائی راہب اسٹان سوامی کا ہے۔ ان کو کبھی نہیں دیکھا، نہ سنا اور نہ پڑھا۔ گرفتاری سے قبل نام تک  سے واقفیت نہیں  تھی۔ اس کے باوجود ان کے موت کی خبر نے پورے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا  اور احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر یاد آگیا ؎

ا تنی ارزاں تو نہ تھی درد کی دولت پہلے

جس طرف جایئے زخموں کے لگے ہیں انبار

اسٹان سوامی کے انتقال سے بے ساختہ یہ  سوال  ذہن میں آیا کہ یہ  کیا ہوگیا؟ اور دل نے جواب دیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ موت کی گھڑی کو ٹالا  تو نہیں جاسکتا لیکن اس سے قبل وہ  یقیناً بہتر سلوک کے حقدار تھے۔ اس سیاسی نظام کی سفاکی  نے انہیں اس حق سے محروم کردیا اور یکبارگی یہ سوال پیدا ہوگیا کہ  کیا یہ   انسانی سماج ہے  یا ہم وحشی  درندوں کے درمیان  کسی جنگل میں جی رہے ہیں۔ فادر اسٹین سوامی جاتے جاتے ہمیں جو آئینہ دکھا گئےاس  میں سیاسی نظام کا سفاک چہرہ دیکھ کر ہر باضمیر انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ مہاراشٹر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بھیما کورے گاوں  میں ہونے والی یلغار پریشد کے بعد فساد کس نے بھڑکایا اور کون اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے پیش پیش تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے گرو سمبھاجی  بھڈے اور ملند ایکبوٹے کا نام  2؍ جنوری 2018 کی ایف آئی آر میں درج ہے۔ 1980 تک بھڈے آر ایس ایس کے ہمہ وقتی کارکن تھے مگر پھر شیوپرتشٹھان ہندوستان نام کی الگ سے تنظیم بنا لی۔ سمبھاجی کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن وزیر اعظم سے قربت کے سبب فردنویس کی صوبائی سرکار نے انہیں رہا کردیا۔

اس کے بعد حکومت ny یلغار پریشد کی آڑ میں دائیں بازو کے دانشوروں اور جہد کاروں کو ٹھکانے لگانے کا گھناونا منصوبہ بنایا اور ان  لوگوں پر وزیر اعظم کے قتل کی سازش کا الزام لگا دیا گیا۔  فادر اسٹان سوامی  اسی سازش کا شکار ہوئے اور عدالتی حراست میں  ان کی موت ہوگئی۔ یہ بالکل وہی صورتحال ہے کہ دہلی فساد کی آڑ میں اس کے اصل ملزمین کے بجائے سی اے اے اور این آر سی کی تحریک چلانے والے مظاہرین کو حکومت کا تختہ پلٹنے کے الزام میں گرفتار کرلیا  گیا۔ فادر  اسٹان سوامی    نے نہ تو یلغار پریشد میں شرکت کی تھی اور نہ ان کا نام ابتدائی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ اس وقت تک یہ معاملہ مہاراشٹر ایس آئی ٹی کی نگرانی میں تھا۔ مہاراشٹرمیں مہا  وکاس اگھاڑی کے اقتدار  میں آتے ہی ان ملزمین کی رہائی کی بات شروع ہوئی تو  فوراً مرکزی حکومت حرکت میں آگئی اور اس کو این آئی اے یعنی قومی تفتیشی ایجنسی نے اپنے قبضے میں لیا۔

  این آئی اے کے حرکت میں آنے پر اسٹان سوامی کا نام شامل کیا گیا۔ اس نے جھارکھنڈ جاکر سوامی سے  تفتیش کی اور پانچ گھنٹوں کے بعد واپس آگئی۔ اس کے بعد انہیں گرفتار کرکے مہاراشٹر لایا گیا اور ماو نوازوں کی مدد کے الزام میں ان پر یو اے پی اے لگا دیا۔ 84سالہ اسٹان سوامی مختلف امراض میں مبتلا تھے۔ پارکنسن  میں  رعشہ کے سبب  کپ بھی پکڑ نہیں سکتے تھے مگر ان کو ایک نلی تک نہیں دی گئی۔ اس سے انتظامیہ کا ظالمانہ غیر حساس چہرہ سامنے آتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے این آئی اے نے گرفتاری کے بعد ایک مرتبہ بھی ان سے تفتیش نہیں کی اس لیے انہیں عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا مگر ہر بار ان کی ضمانت کی مخالفت کرتی رہی۔ اس دوران جیل کے اندر  وہ کورونا سے متاثر ہوگئے لیکن ان کو مناسب سہولتوں سے محروم رکھا گیا۔ بیماری کے سبب انہیں  جے جے اسپتال لے جایا جاتا اور پھر جیل پہنچا دیا جاتا۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس طرح جیل میں میرا انتقال ہوجائے گا۔

ہائی کورٹ نے بالآخر  انہیں اسپتال لے جانے کا حکم دیا تو ہولی فیملی میں بھرتی کرکے علاج   شروع کیا گیا۔  ان کی حالت نازک تھی اس لیے وینٹی لیٹر پر رکھنا پڑا اور دوران علاج  انتقال ہوگیا۔ یہ سلوک ایک ایسے شخص کے ساتھ کیا گیا  جس نے  اپنے آبائی وطن  تمل ناڈو سے  سیکڑوں کلومیٹر دور جھارکھنڈ کو اپنا وطن ثانی بنایا  تاکہ قبائلی عوام   کی خدمت کرسکے۔ سرمایہ داروں کی دلالی کرنے والی سرکاروں نے اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کرنے والے قبائلیوں کو ماو نواز قرار دے کر جیلوں میں ٹھونس دیتی تھی۔ فادر اسٹان سوامی ان تین ہزار لوگوں کو قانونی مدد کرتے تھے اور ان کے تعلیم و صحت جیسے دیگر مسائل  حل کرتے تھے۔ عوام  پر توڑے جانے  والے  مظالم کی مخالفت کرتے تھے۔ اس لیے سرکار نے انہیں لپیٹ لیا۔ یہ شرم کی بات ہے قبائلی عوام کا جذبات کا ستحصال کرنے والےپرتاپ چندر  سارنگی جیسے لوگ مرکزی وزیر بنے   ہوئے ہیں اور ان کی خدمت کرنے والے اسٹان سوامی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا جاتا ہے۔ انہوں نے جاتے جاتے انصاف پسندمزاحمت کاروں کو   ڈاکٹر نواز دیوبندی کے الفاظ میں  یہ  پیغام دیا ہے ؎

جلتے گھر کو دیکھنے والوں پھوس کا چھپّر آپ کا ہے

آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے، آگے مقدر آپ کا ہے

اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا

میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

فادراسٹان سوامی کی رحلت کے بعد حزب اختلاف کی 10 جماعتوں کے رہنماؤں نے صدر رام ناتھ کووند کو خط لکھ کرانہیں جعلی  مقدمات میں  جیل بھیجنے اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا یہ  خوش آئند ہے۔ اس خط پر کانگریس کے صدر سونیا گاندھی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار، مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے دستخط ہیں لیکن جس یو اے پی اے قانون  کے سبب اسٹان سوامی کو جیل میں رکھا گیا اس کو وضع کرنے کا سہرہ انہیں لوگوں کے سر ہے۔ ممبئی دھماکوں کے بعد 2008 میں یہ قانون وضع کیا  گیا تو وزیر داخلہ چدمبرم نے صاف لفظوں میں اعتراف کیا  کہ ہم ضمانت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی  کررہے ہیں۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے جب حراست کی مدت 90سے 180 دنوں تک بڑھانے پر اعتراض کیا چدمبرم نے اس کا جواز پیش کیا کہ پوٹا کی  لامتناہی مدت کو ہم 180دنوں تک محدود کرکے گویا احسان عظیم کیا ہے۔ بی جے پینے اس وقت اس کا  خیر مقدم کیا اور اب  اسے خوب استعمال کررہی ہے۔

احتیاطی حراست کی یہ مدت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ برطانیہ میں کسی 46دن سے زیادہ حراست میں نہیں رکھا جاسکتا۔ کینیڈا میں تو ایک دن کے اندر اگر فردجرم داخل نہ ہوتو ملزم ضمانت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ امریکہ میں اس کے لیے دو دن اور روس میں پانچ دن دیئے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے اندر اس کے لیے 180دن کی مہلت اور اس میں اضافہ کا امکان دراصل انتظامیہ کی نااہلی اور حکومت کے ذریعہ  زیادتی کی نیت کا  اشارہ ہے۔  اسٹان سوامی یلغار پریشد میں انفرادی طور پر ملوث نہیں تھے اس کے باوجود ان کو جیل بھیجنے کا راستہ بھی یو پی اے سرکار نے اس بدنامِ زمانہ  قانون کے اندر  ترمیم کے ذریعہ 2012 میں ہموار کیا۔ اس طرح  افراد پر مشتمل ایسے اداروں جن کا اندراج ہو یا نہہو اس قانون کے تحت شامل کرلیے گئے۔  موجودہ حکومت نے اسٹان سوامی کی مقہور قیدیوں کی حمایت والی تنظیم ’پی پی ایس سی‘ کو سی پی آئی (ماونواز) کا حامی قرار دے کر گرفتار کرلیا۔ ہندوستانی آئین میں انسانی حقوق کی ساری  ضمانتوں کو میسا، ٹاڈا، پوٹا اور این ایس اے جیسے قوانین کی مدد سے سلب کردیا جاتا ہے۔ اپنے مخالفین کی زبان بندی کے لیے ان کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ حزب اختلاف کو جب اس کی مار پڑتی ہے تو وہ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے مگر اقتدار میں آکر پھر قانون وضع کردیتا ہے یا  اس کا سیاسی فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسٹان سوامی کے حراستی قتل نے پھر ایک بار یہ احساس دلایا ہے کہ اس طرح کے قوانین کو منسوخ کیا جانا چاہیے۔ یہ احساس کتنی دیر تک رہے گا اور کتنی دور تک جائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔