الوداع جسٹس دیپک مشرا

منصور قاسمی

ہندوستان کے چیف جسٹس مسٹر دیپک مشرا اپنے عمل کی مدت پوری کرنے کے بعد ۲؍اکتوبر کو سبک دوش ہو گئے۔ موصوف پہلے ایسے چیف جسٹس تھے جو اپنے فیصلے اور کارکردگی کی وجہ سے ہمیشہ متنازع رہے۔ ان کے خلاف سپریم کورٹ کے چار سینیرججز نے پریس کانفرنس بلائی، حزب اختلاف کے ۷۱ اراکین پارلیامنٹ نے تحریک مواخذہ چلائی۔ انہوں نے طلاق ثلاثہ کو کالعدم، ہم جنس پرستی اور ایڈلٹری(زنا) جیسے فعل قبیح کو درست قرار دیا۔ آیئے دیپک مشرا کے حالات زندگی اور کارکردگی پر تھوڑی تفصیلی نظر ڈالتے ہیں۔

  دیپک مشرا ۳؍اکتوبر ۱۹۵۳ میں صوبہ اڑیسہ کے ضلع کٹک میں پیدا ہوئے، والد محترم رگھوناتھ مشرا سیاسی لیڈر تھے لیکن دیپک مشرا نے وکالت کا شعبہ اپنایا، ۱۹۹۶ میں اڑیسہ ہائی کورٹ کے عارضی جج بنے، ۱۹؍ دسمبر ۱۹۹۷میں مدھیہ پردیش کے مستقل جج بنائے گئے، بعد ازاں ۲۰۰۹ میں پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے، پھر دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنائے گئے جہاں ۲۰۱۱ تک منصف اعظم بن کر رہے، اس کے بعد دیپک مشرا کے لئے سب سے خوشگوارلمحہ تب آیا جب انہوں نے عدالت عالیہ کے پینتالسویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف لیا، حالانکہ ان کا نام پیش ہوتے ہی کچھ صحافی  اور دانشوران نے تحفظ کا اظہار کیا تھا۔ منتخب ہونے کے چند ماہ بعد ہی ۱۲؍جنوری ۲۰۱۸ میں عدالت عظمیٰ کے چار سینئر ججز جسٹس چیلیمشور، رنجن گو گوئی، مدن لوکر اور کورین جوزف نے ایک کانفرنس طلب کر کے دیپک مشرا کے طرز و انداز اور مقدمات کی تعیین اور طریقہء کار پر سخت تنقید کی۔ ججز نے کہا: سپریم کورٹ میں انتظامی امور درست نہیں ہے، چیف جسٹس کا رویہ ملک کے لئے خطرہ ہے، سب سے بڑی عدالت میں کیسوں کا بٹوارہ صحیح طریقے سے نہیں ہو رہا ہے، کچھ ججز متعدد آئینی بینچ میں شامل ہیں جبکہ کچھ کو اب تک کسی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، جسٹس چیلیمشور نے کہا : چیف جسٹس اہم کیسیزاپنے پاس ہی رکھتے ہیں، آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہے جب کسی موجودہ چیف جسٹس کے خلاف ا ن کے ہی سینیر ججوں نے آواز اٹھائی ہو، ہونا تو یہ چاہئے تھا کے الزامات کے بعدخود مستعفی ہو جاتے یا کام سے رک جاتے مگر انہوں نے کسی کو خاطر میں نہیں لایا۔

اس کے بعد ۲۰؍ اپریل ۲۰۱۸ ؁کو سات حزب مخالف کے ۷۱ اراکین پارلیامنٹ نے نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈوکو ایک پیٹیشن دے کر دیپک مشرا کے مواخذہ کا مطالبہ کیا۔ لیکن مسٹر نائیڈو نے ارکان پارلیامنٹ کی  پیٹیشن کو مسترد کردیا۔ بے شک دیپک مشرا کے بعض فیصلے بہت اہم اور تاریخی رہے ہیں، جیسے نربھیا کے مجرمین کو پھانسی کی سزا، پرائیویسی کے حقوق، ماب لینچنگ پر سرکار سے سوال، آدھار ہر جگہ ضروری نہیں لیکن بعض فیصلے بہت متنازع رہے ہیں جیسے :یعقوب میمن کی پھانسی، فلم ہال میں قومی ترانہ، نماز کے لئے مسجد ضروری نہیں، تاہم ان کے وہ تین فیصلے جن سے عوام میں بے چینی بڑھی اور سب نے عدم تحفظ کا اظہار کیا ہے، ہم ان کا  سرسری اور تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ تین طلاق

۲۲؍ اگست ۱۷کو تین طلاقیں دینے کے شرعی قانون کو یہ کہتے ہوئے دیپک مشرانے غیرآئینی قرار دیا کہ یہ عورتوں پر سراسر ظلم اور انصاف ومساوات کے خلاف ہے۔ طلاق دینے والے شوہر کوناقابل ضمانت مجرم قراردیتے ہوئے تین سال قید بامشقت کا حکم صادر فرما کر اس کو کریمنل ایکٹ بنا دیا۔ ٹھیک ہے مگرمنصف وقت نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اگر شوہر جیل چلا گیا تو اس کے اہل و عیال کے اخراجات کون اٹھائے گا؟انہوں نے اخراجات کے لئے نہ ہی حکومت ہندکو پابندبنایا اور نہ کوئی دیگرراہ دکھائی۔ حالانکہ چیف جسٹس صاحب زیادہ جانتے ہیں کہ اس کا تعلق مسلم پرسنل لاء سے ہے اور آئین ہند تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر مکمل عمل کی اجازت و اختیار دیتے ہیں۔ ویسے اس کو قانون نہیں، قانون کے ساتھ مذاق کہہ سکتے ہیں، کیونکہ جرم (طلاق) بھی صادر نہیں ہوا اور شوہر کو مجرم قرار دے کر پابند سلاسل بھی کیا جا رہا ہے۔  ؎حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

1۔ ہم جنس پرستی :

جسٹس دیپک مشرا نے دو بالغ افراد خواہ دونوں مرد ہوں یا عورت، ان کے درمیان جنسی تعلق کو قانونا درست قرار دیا، انہوں نے بھارتی پینل کوڈ کے سیکشن ۳۷۷ کو ختم کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ جو بھی جیسا ہے اس کو اسی طرح قبول کیا جائے، ہم جنس کو بھی عزت کے ساتھ جینے کا حق ہے، ا ن کے تئیں سوچ بدلنا ہوگا، ، مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ اس فیصلے میں دیپک مشرا نے مشرقی تہذیب و اقدار کو پس پشت ڈال کر مغربی جنسی بے راہ روی کو ہندوستانیوں پر تھونپ دیا ہے، جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے نہ مسیحی مذہب اور نہ ہی ہندودھرم۔ تمام ادیان و مذاہب نے اس کو جرم عظیم کہا ہے۔ حتیٰ کہ مذہب بیزار بھی ہم جنسی پرستی جیسے فعل کو شنیع تصور کرتا ہے لیکن جسٹس مشرا نے اس کی اجازت د ے دی اور یہ نہیں سوچا کہ انسانی وجود کے تمام ڈھانچے پر اس کا کیا اثرپڑے گا؟

 3۔ ایڈلٹری:

۱۵۸ سال قدیم دفعہ ۴۹۷ جس کے تحت شادی شدہ عورت کے ساتھ اس کے شوہر کی مرضی کے بغیر کسی مرد کے جنسی تعلقات کو جرم مانا جاتا تھا، عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ جس کی سربراہی جسٹس مشرا کر رہے تھے، نے یہ کہتے ہوئے کہ عورت ملکیت نہیں ہے، یہ قانون دستور آرٹیکل ۱۴ اور ۲۱ کے منافی ہے اس کو جرم سے خارج کردیا، مطلب اب کوئی بھی شادی شدہ عورت اور شادی شدہ مرد آپسی رضامندی سے زنا کرتا ہے تو یہ اب جرم نہیں کہلائے گا۔ جسٹس مشرا سے سوال پوچھا جانا چاہئے تھا کہ پھر شادی کا مطلب اور جواز کیا رہ جاتا ہے ؟افسوس ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ سوچنے کی مطلق زحمت نہیں کہ اس سے معاشرہ اور خاندانی نظام بگڑ ے گا، ملک کے سماجی سسٹم اور اجتماعی ڈھانچے کو سخت نقصان پہنچے گا۔

اس فیصلے کا تازہ اثر یہ ہے کہ چننئی میں ایک عورت پشپ لتا نے اپنے شوہر کو غیر عورت سے ناجائز رشتہ ختم کرنے کوکہا تو شوہر نے سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر کہا: اب یہ کوئی جرم نہیں رہا اور مجھے نہ ہی تم روک سکتی ہے اور نہ میرا کچھ بگاڑ سکتی ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ پشپ لتا نے خودکشی کرلی۔ کوئی بھی غیرت مند مرد یا عورت اپنے شریک حیات کے اس حیا سوز عمل کو برداشت نہیں کرے گا۔ مرد یا تو طلاق دے گا یا قتل کرے گا، عورت یا تو خودکشی کرے گی یاشوہر کو منصوبہ بند طریقے سے مرڈر کروائے گی۔ صاف ہے، یہ قانون جرم کو مزیدفروغ دے گا نہ کہ معاشرے کی اصلاح کرے گا۔

 جسٹس دیپک مشرا کے یہ تین فیصلے ایسے ہیں جن سے سماج کے تانے بانے بکھر یں گے، آنے والی نسلوں میں اضطراب اور بے چینی بڑھے گی، آوارہ مزاج تو خوش ہوگا مگر شریف النفس اور مہذب انسان مایوس ہوگا اور گھٹن محسوس کرے گا۔ الوداع دیپک مشرا ! آپ یاد رکھے جائیں گے مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔