الیکشن میں ہماری ذمہ داری

حفیظ نعمانی
الیکشن کمیشن کے ہلکے سے اشارہ کے مطابق اتر پردیش میں کسی بھی وقت الیکشن ہوسکتے ہیں۔ صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے تو جس دن میٹرو کا ٹرائل دیا تھا اسی دن کہہ دیا تھا کہ ہم الیکشن کے لیے تیار ہیں۔ اترپردیش میں دوسری پارٹی یوں تو بی ایس پی ہے لیکن مرکز میں حکومت کی وجہ سے یہ مقام بی جے پی نے حاصل کرلیا ہے اور الیکشن کمیشن اس فیصلہ میں اسے بھی شریک کرنا چاہے گا۔ اور اس کے اشاروں سے اندازہ ہورہا ہے کہ وہ اچھے دن کے انتظار میں الیکشن کرانے میں جلدی نہیں چاہتی، جبکہ اس کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ وہ مہینوں میں نہیں برسوں میں بھی سنبھل جائے تو بڑی بات ہے۔
ہمیں سب سے زیادہ مسلمانوں کی فکر ہے۔ ہماری ذرا سی غفلت سے2014ء میں بی جے پی کو 73 سیٹیں مل گئیں اور انسان کے علاوہ گدھے، گھوڑے جس کو بھی ٹکٹ دے دیا وہ جیت گیا۔ اس وقت اصل مقابلہ کانگریس سے تھا کیوں کہ مرکز میں اس کی حکومت تھی لیکن صوبہ میں حکومت ہونے کی وجہ سے ملائم سنگھ نے اسے اس طرح لڑا جیسے جیتنے کے بعد وہی حکومت بنائیں گے۔ اور مسلمانوں نے جو ان کے ساتھ تھے اسی طرح ان کا ساتھ دیا۔ ہم بھی ان میں تھے جو کانگریس کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن یہ ضرور چاہتے تھے کہ حکومت کانگریس کی بنے تو ایسی بنے کہ اختیارات سب اس کے پاس نہ ہوں۔ لیکن یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ایس پی اور بی ایس پی میں سے ایک کو نظر انداز کردیں۔ یہ بات طرفداری کی نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ2014ء میں مایاوتی کی پوزیشن ملائم سنگھ کے مقابلہ میں کافی کمزور تھی۔ اور یہ بات اس الیکشن کے بعد ووٹوں کی تعداد سے بھی معلوم ہوگئی تھی کہ ایس پی کے مقابلہ میں ان کے ووٹ کافی کم تھے۔ لیکن وہ یہ بھی برداشت نہیں کر پارہی تھیں کہ ملائم سنگھ ان سے آگے نکل جائیں۔اس کے بعد ایک الیکشن دہلی کا ہوا جس میں اروند کجریوال نے دونوں نیشنل پارٹیوں کو دھودیا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ بی جے پی کے ہرلیڈرنے یہ کہا کہ جتنے ووٹ ہمیں 2014ء میں ملے تھے اور ہم نے دہلی کی ساتوں سیٹیں جیتی تھیں اتنے ہی ووٹ ہمیں اب ملے ہیں اور ہم صرف 3 ممبر جتا پائے۔2014ء کے الیکشن میں پورے ملک میں مودی کو 33 فیصدی ووٹ ملے اور وہ 280سیٹوں پر جیت گئے لیکن پورے ملک میں33 فیصدی نہیں ملے بلکہ کہیں 10 فیصدی ملے کہیں 90 فیصدی ملے۔ جیسے بنگال میں وہ صرف ایک سیٹ جیت پائے یاتمل ناڈو میں 40 سیٹوں میں سے37 سیٹیں جے للتا نے جیتیں۔ لیکن یوپی، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، آندھرا پردیش جیسے صوبوں نے مودی کی جھولی بھر دی اور ان ریاستوں کی کمی پوری کردی۔
بی جے پی کا ہر جگہ جتنا ووٹ تھا وہ اب بڑھنے کے بجائے کم ہوا ہے۔ مسلمانوں کو یہ فیصلہ نہیں کرنا ہے کہ وہ کس پارٹی میں شامل ہوجائیں بلکہ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس سیکولر کہے جانے والی پارٹی کے ذریعہ ہم بی جے پی کو اترپردیش میں آنے سے روک سکتے ہیں؟ بی جے پی نے اگر مرکز میں حکومت بنانے کے بعد وہ کردار ادا کیا ہوتا جو ایک انصاف پسند حکومت کو کرنا چاہیے تو ہم پاگل نہیں تھے جو اس کے ہرانے کی ذمہ داری اپنے سر لیتے لیکن وہ حکومت کے بجائے آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔ اور مسلمانوں کو پوری طرح اس نے نشانہ بنالیا۔ ہم اگر ا س حال میں ہوتے کہ خود پارٹی بنا کر مقابلہ کرسکتے تو ہمارے قدم سب سے آگے ہوتے ہمارا قلم سب سے آگے ہوتا لیکن ہم اگر اپنی پارٹی بنا کر خود لڑتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بی جے پی کا راستہ صاف کرتے ہیں۔ بی جے پی کا جتنا ووٹ ہے وہ آر ایس ایس کا ہے اس کی حیثیت سیاسی سے زیادہ مذہبی ہے۔ اور جو سنگھ کا ووٹ نہیں ہے اس کا ذہن گندہ نہیں ہے۔ وہ کہیں کانگریس کے ساتھ جاتا ہے کہیں علاقائی پارٹیوں کے ساتھ۔ ہم اسے ساتھ ملالیں تو وہ ہمارے ساتھ مل کر کسی بھی پارٹی کو جتا سکتا ہے۔ لکن وہ ہمارے ساتھ آکر ہمیں نہیں جتائے گا۔ اور اس کا برا نہ ماننا چاہیے۔
ہمارے بیٹے تو اب نوجوانی اور جوانی کی منزل سے آگے نکل گئے۔ اب نواسے اور پوتے اس مقام پر آگئے ہیں کہ انہیں بتانا پڑ رہا ہے کہ ہم نے وہ کیا دیکھا ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی پارٹی کے اتنے مخالف ہیں۔وہ سب بھتیجے اور بھانجے جن کے بال کالے ہیں ہم انہیں یہ بتانا فرض سمجھتے ہیں کہ ملک میں جو چاہے کرنا بس یہ غلطی نہ کرنا جو مسٹر جناح نے کی تھی۔ 1942سے 46تک ہم بریلی میں تھے۔ ہر سڑک اور ہر گلی میں مسلمان لڑکوں کے جلوس نکلتے تھے جن کے نعرے ’دھتیا راج نہیں چلے گا‘چٹیا راج نہیں چلے گا لٹھیا راج نہیں چلے گا‘۔ جیسے ہوتے تھے۔ مسلم لیگ کے مقابلہ میں ہندوؤں کی پارٹی کانگریس تھی۔ کانگریس کے جلسوں میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ، مولانا حفیظ الرحمن سیوہاروی اور سیکڑوں عالم اور مولانا ہوتے تھے تو کانگریس کے ہندو لڑکے کیسے نعرے لگاتے کہ داڑھیا راج نہیں چلے گا ٹوپی راج نہیں چلے گا یا روزہ راج نہیں چلے گا؟
ہم دیکھتے تھے کہ وہ دم گھوٹ کر رہ جاتے تھے۔ لیکن اس لیے خاموش تھے کہ ان کا خیال تھا کہ بڑے بڑے مولانا ہمارے ساتھ ہیں تو ملک تقسیم نہیں ہوگا۔ لیکن الیکشن کا نتیجہ یہ نکلا جیسے چھ بھائیوں میں سے ۵ بھائی پاکستان کے حق میں نکلے اور ایک ہندوستان نہیں بٹے گا کے حق میں ۔ ہم جو آج ہندوستان میں ہیں وہ سب ان کی نسل سے نہیں ہیں جنھوں نے پاکستان کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا بلکہ اکثریت ان کی ہے جنھوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا مگر گئے نہیں۔ اس لیے جن کے باپ دادا نے ملک کو تقسیم کرایا انھیں اخلاقی حق بھی نہیں ہے کہ وہ اس ملک میں حکومت کا خواب دیکھیں اور یہ بات بحث کی نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں خود محسوس کرنا چاہیے کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے۔ البتہ ایک فرق ہے کہ بعض ہندوچاہتے ہیں کہ ہم رہیں اور با عزت طریقہ سے رہیں لیکن ان کی بھی تعداد کافی ہے جو ہمیں ملک پر بوجھ سمجھتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ حکومت کس کے ہاتھ میں رہے؟ ہم کسی پارٹی کی حکومت بنوا کر اس پر احسان نہیں کرتے بلکہ ان کو حکومت سے محروم کردیتے ہیں جو ذہنیت کے اعتبار سے ہمارے مخالف ہیں۔ اور مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ متحد ہو کر ان کے ہاتھ میں حکومت نہ آنے دیں جن کا تجربہ باربار ہوچکا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔