الیکشن 2019: ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد

خالد سیف الدین

ریاستِ پنجاب کے ضلع روپار کے متوطن، بہوجن سماج پارٹی کے بانی کانشی رام سکھ فرقہ کے پسماندہ طبقہ رام داسیہ کے سپوت تھے۔ بی ایس سی تک اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ محکمہ دفاع کے ڈ- آر- ڈی شعبہ پونے (مہاراشڑ) میں بحیثیت جونیر سائنٹسٹ بر سر روزگار ہونے کے باوجود وہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کو متحد کرنے کی خاطر اپنی ملازمت کے علاوہ اس سماجی کام میں اپنا فاضل وقت لگاتے رہے۔ 1978 میں اپنی ان درینہ کاوشوں کو عمل جامہ پہناتے ہوئے کانشی رام نے با ضابطہ ایک خیراتی (Charitable) تنظیم قایم کی جو ملک میں بسنے والے تمام اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے بر سرروزگار سرکاری ملازمین کی غیر سیاسی اور غیر مذہبی وفاقی تنظیم Backword and Minority Communities Employees Federation کہلائی اور پھر یہ تنظیم اپنے مخفف بام سیف (BAMSEF) کے عنوان سے ملک کے گوشہ گوشہ تک پھیل گئی جبکہ مہاراشڑ، اتر پردیش اور بہار میں اس تنظیم کو خاظر خواہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ سرکاری ملازمتوں میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے مسلم سرکاری ملازمین کا ایک بڑا طبقہ اس تنظیمی ڈھانچہ میں شامل لفظ اقلیت) (Minority سے متاثر ہوکر اس تنظیم کا حصہ بن گیا۔ جبکہ اس تنظیم میں شامل لفظِ اقلیت ) (Minority سے مراد خالصتاً مسلمان یا پھر ملک کی دیگر اقلیتیں نہیں ہیں بلکہ ملک میں بسنے والی موجودہ تمام اقلیتوں سے وابستہ وہ طبقات ہیں جو پچھلے زمانوں میں غیر مسلم پسماندہ طبقات کا حصّہ رہی ہوگی۔ کانشی رام کا یہ فلسفہ و منطلق انکے نظریہ (Ideology) کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نظریہ کے منتظر عام پر آتے ہی اس تنظیم میں شامل اقلیتیں اور خصوصاً مسلم سرکاری ملازمین آہستہ آہستہ اس تنظیم سے دور ہوتے چلے گئے۔

1981 میں کانشی رام نے DS4 نامی ایک دوسری سماجی تنظیم قایم کی جسکا مقصد صرف اور صرف مظلوم دلت سماج کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ اس تنظیم کو بھی ملک کی اکثر پسماندہ اقوام نے سر آنکھوں پر اُٹھایا۔ 1982 میں کانشی رام نے چمچہ گری (Chamcha Age)کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے اُس وقت ملک کے قدآور دلت لیڈر جگ جیون رام (سابق اسپیکر میرا کماری کے والد) اور بہار کے ابھرتے ہوئے دلت نوجوان لیڈر رام ولاس پاسوان پر طعٰن و تشنیع کی تھی اور ملک کے دلت سماج کو مشورہ دیاتھا کہ وہ سیاسی طور پر متحد ہوکر خود کے سماج کی بقاء کے لیئے کام کریں ناکہ دوسروں کو فائدہ پہنچائیں اور ہاں وقت ضرورت دوسروں کو ضرور استعمال کریں۔ دلت سماج کیلئے یہ اشارہ تھا کہ عنقریب کانشی رام عملی طور پر میدانِ سیات میں حصّہ لینے والے ہیں اور پھر 1984 میں بہوجن سماج پارٹی (BSP) کا قیام عمل میں آیا اور کانشی رام نے یو پی کو اپنا مرکزی میدان عمل بنا یا۔ جسکا راست اثر یوپی کی مسلم قیادت پر پڑا جہاں 1980 میں یوپی سے 17 مسلم نمائندے منتخب ہوکر پارلمنٹ میں پہنچھے تھے یہ تعداد 1984 کے عام انتخابات میں گھٹ کر11 سیٹوں پر سمٹ گئی اور یوپی میں کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی وجہ سے مسلم وو ٹوں کی مسلسل تقسیم نے مسلم قیادت کی تعداد کو 2014 لوک سبھا کے عام انتخابات میں صفر تک پہنچا دیا۔

سیاسی اقتدار کامیا بی کی کنجی ہے، وہ سماج جس کا کوئی اپنا نمائندہ اقتدار میں نہیں ہے سمجھ لو کہ وہ سماج مردہ ہے، پہلا الیکشن ہارنے کیلیئے ، دوسرا الیکشن ہرانے کیلئے اور تیسرا الیکشن جیتنے کیلئے لڑنا چاہیے۔ اسطرح کے نظریات لے کر کانشی رام آگے بڑھتے گئے اور یوپی کی ریاستی حکومت کا اقتدار حاصل کرتے گئے۔ ادھر دوسری طرف ملایم سنگھ نے 1992 میں سماج وادی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ مسلمانوں میں مولانا ملایم سنگھ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اقتدار حاصل کیا اور آخرکار اپنے سگّے بھائیوں سمیت تمام رفقاء کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی گدّی ایک پوشیدہ سازش کے تحت اپنے بیٹے اکھلیش یادو کو سونپ دی۔ جسطرح بی ایس پی کے قیام کے بعداس پارٹی کو مقبول عام بنانے میں کانشی رام اور مایا وتی کے شانہ بہ شانہ انتھک کوشیشیں کرنے والے بی ایس پی کے سینئر لیڈر مسعود احمد نے کچھ عرصہ پہلے اس پارٹی کو مسلم دشمن پارٹی قرار دیتے ہوئے بی ایس پی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

اُسی طرح اُدھر سماج وادی پارٹی کے اکثر قائد بھی اکھلیش یادو کے پارٹی صدر بن جانے کے بعد سے اکھلیش کے رویہّ اور والد (ملائیم سنگھ)سے مل رہی پوشیدہ حمایت سے ناراض نظر آتے ہیں۔ پارٹی میں آپسی اتحاد کے لئے ہمیشہ کوشاں رہنے والے، پارٹی کو اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے والے، ملایئم سنگھ یادو کے برادرِحقیقی اور اکھلیش کے چاچا شیوپال سنگھ یادونے پارٹی صدر کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیے جانے پر دلبرداشتہ ہوکر پارٹی سے علحیدگی اختیار کرلی ہے اور اپنی نئی پارٹی سیکولر سماج وادی پارٹی (لوہیا) بنالی ہے اور اکھلیش پر مزید یہ الزام بھی لگایا کہ وہ اپنے بڑوں کی عزت کرنا نہیں جانتے۔ سماج وادی پارٹی کے دوسرے اہم ستون، اتر پردیش میں مسلم قیادت کا چہرہ "اعظم خان” جنہیں شمالی ہند کے ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام مسلمان اپنا قائد مانتے ہیں اور اُنکی جانب محبت اور عزّت کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ بھی نیتاجی (ملائیم سنگھ) کے اکرام میں اندرون پارٹی چل رہی سازشوں کے خلاف کھل کر لب کشائی نہیں کرپاتے۔ لیکن انکا چہرہ اُنکے دل کی کیفیت بتا ہی دیتا ہے۔

ملائیم سنگھ یادو نے موجودہ پارلیمانی اجلاس کے آخری دن خوش آمد سے بھر پور اپنی تقریر کے دوران جسطرح وزیرِ اعظم نریندر مودی کی منہ بھر کر تعریف کی ، اُنہیں کامیاب وزیرِ اعظم کی زبانی سند سے نوازہ اور دوبارا وزیرِ اعظم بن جانے کی اپنی نیک خواہشات کا کھلے عام اظہار کیا ، یہ تمام باتیں انکی اور انکے پارٹی کی نیک نیّتی پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں اور بے شمار خدشات کو جنم بھی دیتی ہیں اُنکی اس تقریر نے جہاں اُنکی اپنی پارٹی کے سیکولر سینیئر قائیدین کے علاوہ ملک کی دیگر سیکولر پارٹیوں کو حیرانی میں مبتلاء کر دیا وہیں دلت اور مسلماناں اُتر پردیش کے دلوں پر ایک کاری ضرب بھی لگائی ہے۔ بہوجن سماج اور سماج وادی پارٹیوں نے عام انتخابات 2019کیلے کانگریس کو حاشیہ پر رکھتے ہوئے احساس برتری کے تیءں آپسی اتحاد کر بھی لیا اور بطور عطیہّ کانگریس کو رائے بریلی اور امیٹھی لوک سبھا سیٹیں چھوڑ دیں اور بقیہ تمام سیٹیں آپس میں بندر بانٹ کرلیں۔ اس اتحادکے لیے مذاکروں کے دوران اکھلیش یادو مایاوتی کو لبھانے کی خاطر اُنہیں بُوا (پھوپھی) کہتے رہے۔ اُنکے اس قاشق گری رویہّ پر اُنکے چاچا شیوپال سنگھ یادو نے طنز کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ مایاوتی کو ملائیم سنگھ یادو نے اور نہ کبھی خود شیوپال یادو نے بہن کے لقب سے مخاطب کیا تو پھر کس طرح اکھلیش انکو پھوپھی کہہ سکتے ہیں … ؟ جب کہ مایاوتی کے گرو سورگیہ کانشی رام نے معروف صحافی رجت شرما سے ایک انٹرویو کے دوران ملایئم سنگھ کو غنڈا کہا تھا۔ ماضی کی بے شمار چپقلشوں اور رسہّ کشی کے باوجود کانگریس کے بغیر یہ اتحاد چہ معنٰی….. ؟ اور آپ دیکھیں گے کہ یہ اتحاد یوپی تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ دونوں پارٹیاں ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اپنے اُمیدوار کھڑا کرتے ہوئے بی جے پی کو بالواسطہ(Indierctly) فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں مسلمانانِ اُتر پردیش اور دیگر سیکولر سماج کو چاہییے کہ وہ ان موقع پرست پارٹیوں کی سازشوں کا شکار نہ بنیں ، انکی لچھہ دار اور جذباتی تقریروں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ ماضی اورحال کا جائزہ لیں اورمستقبل میں (نتائج کے بعد ) ان پارٹیوں کی جانب سے خود غرضی پر مبنی متوقع لایحہ عمل کا اندازہ لگائیں۔ ہو سکتا ہے انتخابات کے بعد ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد قائم بھی نہ رہے کیونکہ ان دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کی فطرت میں وفاء کم اور جفاء ذیادہ ہے . ہو سکتا ہے خوش فہمی میں مبتلاء ان پارٹیوں کا اس الیکشن میں شیرازہ ہی بکھر جائے۔

تم نہ توبہ کرو جفاؤں سے

ہم وفاؤں سے توبہ کرتے ہیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔