امت شاہ – نریندر مودی کے سنجے گاندھی 

عبدالعزیز
بہت سے سیاسی تجزیہ نگار نریندر مودی کا موازنہ اندرا گاندھی سے کرتے ہیں۔ دونوں میں بہت سی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یوں بھی دنیا بھر کے آمروں کی خصوصیت اور خصلت بالکل ملتی جلتی ہے۔ آمر عام طور پر سب کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کی پسند کے صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو کبھی بھی کسی معاملے میں نہیں نہ کہیں، ہمیشہ ہاں سے کام لیں اور اس کیلئے ہر وقت دل و جان سے تیار رہیں۔ اس کی ایک چنڈال چوکڑی ہوتی ہے، اس کا اسی سے سروکار ہوتا ہے۔ وہ کم و بیش اس کے مشورے پر عمل کرتا ہے یا کراتی ہے۔ اسی چنڈال چوکڑی میں سے کوئی ابھر کر سامنے آتاجو چاپلوسی اور خوشامد میں سب سے زیادہ آگے ہوتا ہے۔ اس کیلئے دوسروں کو مرنے مارنے پر اتارو ہوتا ہے۔ بس ایسا آدمی اس کا دست راست ہوجاتا ہے۔ اس وقت امت شاہ نریندر مودی ناک کے بال ہیں۔ امت شاہ کہتے بھی ہیں کہ وہ اپنے صاحب کیلئے سب کچھ کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ایک گھنٹہ نہیں چوبیس گھنٹے۔ ظاہر ہے جو مودی پرستی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہو آخر کیوں نہ مودی کیلئے سب سے پیارا اور دلارا ہو۔
امت شاہ پیشے سے تاجر ہیں اور جینی ہیں۔ امت شاہ نریندر مودی کے یار غار ہیں۔ گجرات میں وہ وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔ بہت سے جعلی انکاؤنٹر موصوف کے حکم سے ہی ہوئے ہیں۔ امت شاہ کو جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی مگر اپنے ہمدردوں اور دوستوں کی وجہ سے چھ سات ماہ بعد ہی جیل سے باہر آگئے۔ مگر جرم ان کا پیچھا کر رہا ہے لیکن حکومت ان کی گجرات میں بھی ہے، مرکزمیں بھی تو اب ان کا کون کیا بگاڑ سکتا ہے؟ مودی انہی پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ پہلے جب وہ وزیر اعظم کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد ہوئے تو بہتوں کی مخالفت کے باوجود امت شاہ کو اتر پردیش کے الیکشن کا چارج دلانے میں کامیاب ہوگئے۔ مودی کو معلوم تھا کہ فساد و فتنہ برپا کرکے یہی شخص ہندو مسلمان کے اندر Polirization کرسکتا ہے۔ امت شاہ نے مودی جی کے خاکہ میں رنگ بھرنے کیلئے الیکشن سے چھ ماہ پہلے مظفر نگر کا فساد بی جے پی کے فسادیوں سے کرایا پھر انھیں انعام کے طور پر لوک سبھا کا ٹکٹ دلوایا اور ان کے اعزاز میں جلسہ کروایا۔ اس میں مودی جی نے مجرموں کو پھولوں کا ہار پہنایا اور شاباشی دی۔
اتر پردیش کا اسمبلی الیکشن آنے والا ہے۔ الہ آباد سے امت شاہ اور نریندر مودی نے فرقہ پرستی کا بگل بجادیا ہے اور کیرانہ جہاں امن و شانتی تھی اسے بھنگ کرنے کا پورا منصوبہ بنالیا ہے۔ ان کے مجرم ایم پی اور ایم ایل اے یہاں کے ہندوؤں کی نقل مکانی کی جعلی لسٹ لے کر گھوم پھر رہے ہیں۔ ملائم سنگھ کے بیٹے کی حکومت ان سب کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کیونکہ سماج وادی پارٹی کو معلوم ہے کہ بی جے پی کے فرقہ پرستی کے پھیلاؤ، دھمکی اور دھونس کا وہ کرارا بظاہر زبانی جواب دیں گے جس سے مسلمان خوش ہوکر سماج وادی کے قریب آئے گا۔ یہ دونوں کا گٹھ جوڑ اندرون خانہ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملائم سنگھ سیکولر طاقتوں سے دوری بنائے ہوئے ہیں۔ وہ بہار میں بی جے پی کی کامیابی کا اعلان کرچکے تھے مگر ان کی آرزو پوری نہیں ہوئی۔
اندرا گاندھی کے اندر آمریت پہلے نہیں تھی، جمہوری ماحول میں انھوں نے آنکھ کھولی تھی مگر اقتدار کا چسکا جیسے جیسے ان پر غالب آتا گیا، ان کے اندر آمرانہ رویہ پیدا ہوگیا۔ ان کی چنڈال چوکڑی تھی جو ان کے آگے پیچھے لگی رہتی تھی۔ جب وہ الہ آباد میں مقدمہ ہار گئی تھیں تو انھیں سدھارت شنکر رائے نے ایمرجنسی کی صلاح دی جو نہایت خراب صلاح تھی جس کی وجہ سے ایمرجنسی نافذ ہوئی اور ہندستان میں ایمرجنسی کی سیاہ رات بہت دنوں تک طاری رہی۔ اس دوران سنجے گاندھی کا عروج ہوا ۔سنجے گاندھی نے ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھااور ان کو تسلی دی کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آئیں گی۔ ایمرجنسی میں حکمراں کا دو مرکز ہوگیا۔ ایک اندرا گاندھی اور دوسرا سنجے گاندھی۔ جتنا لوگ اندرا گاندھی کے پاس جانے میں کانگریسی خائف نہیں ہوتے ہیں ا س سے کہیں زیادہ سنجے گاندھی کے قریب جانے میں خوف زدہ ہوتے تھے۔
ریاستوں میں جو وزراء اعلیٰ تھے وہ سنجے گاندھی کا چپل اٹھانے اور پیر تک دھونے میں اپنی عزت اور ترقی دیکھنے لگے تھے۔ مسٹر سدھارت شنکر رائے اس درجہ گرنے کیلئے تیار نہ تھے جس کی وجہ سے سنجے ناراض ہوئے تو محترمہ اندرا گاندھی کے ماتھے پر شکن آگیا۔ ایمرجنسی میں آمریت نے پوری جگہ بنالی۔ سنجے گاندھی کی انتھک کوششوں اور ان کی بیوی مینکا گاندھی کی تدبیروں اور منصوبوں اور اندرا گاندھی کی پرکشش شخصیت اور جنتا پارٹی کے اندر خلفشار و انتشار کی وجہ سے اندرا گاندھی دوبارہ اقتدار میں آگئیں۔ ایمرجنسی میں جو شرمناک شکست ہوئی تھی اس کی وجہ سے وہ زیادہ دنوں تک باہر نہیں رہیں۔ جنتا پارٹی کے اندر خلفشار، انتشار، گالی گلوچ اتنا بڑھا کہ حکومت وقت سے پہلے ہی گرگئی۔ کچھ دنوں مرار جی ڈیسائی وزیر اعظم رہے پھر چرن سنگھ کے وزیر اعظم بننے کا شوق پورا ہوامگر وہ بھی زیادہ دنوں تک حکومت نہیں چلا سکے۔ جنتا پارٹی کے عدم استحکام نے اندرا گاندھی کیلئے راستہ ہموار کردیا۔ اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی کا راج واپس آگیا۔ سنجے گاندھی ملک کے شہزادہ بن گئے اور اندرا گاندھی رانی۔ جمہوریت کانگریس کے اندر پہلے ہی دم توڑ چکی تھی باہر بھی دم توڑ دیا۔ قدرت نے سنجے گاندھی کو جلد ہی اٹھالیا۔ وہ ہیلی کوپٹر اڑا رہے تھے یا سیکھ رہے تھے کہ اسی دوران ہیلی کوپٹر سمیت وہ زمین پر گرے اور ان کے پرخچے اڑگئے۔ ساری شان و شوکت ہواؤں میں تحلیل ہوگئی۔
امت شاہ کا اورمودی کا کوئی خونی رشتہ نہیں ہے مگر دونوں خونی رشتہ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ دونوں نے مل کر بی جے پی کے بڑوں کو کنارے کر دیا۔ ان کو سیاست سے بالکل ریٹائرڈ ہی ہونا پڑا۔ ایل کے ایڈوانی کبھی مودی کے استاد ہوا کرتے تھے۔ اب گرو گڑ رہ گیا اور چیلا شکر ہوگیا۔ مرلی منوہر جوشی اور یشونت سنہا کو بھی مودی نے کنارے لگا دیا۔ وینکیا نائیڈو اور سُشما سوراج جو کبھی ایڈوانی کے گروپ میں تھیں وہ بھی مودی کے پرستاروں میں شامل ہوگئیں۔ وینکیا نائیڈو تو اب مودی کے دربا میں ان کے اچھے برے کاموں کی وجہ سے وہی حیثیت حاصل ہے جو دھون کو اندرا گاندھی کے دربار میں حاصل ہوا کرتی تھی۔ملک کی بدقسمتی ہے کہ ماضی میں سنجے گاندھی ملک کے سیاسی کلچر کی تباہی کا سبب بنے تھے۔ یوتھ کانگریس کا وقار مجروح ہوا تھا۔ غنڈہ گردی اور بدمعاشی کا ایسا زور تھا کہ غنڈوں اور بدمعاشوں کا سنجے گاندھی سپہ سالار بن گئے تھے۔
ٹھیک یہی حال ہے کہ امت شاہ کیلئے بجرنگ دل، ہندو مہا سبھا، جیسی تنظیمیں دست و بازو ہیں۔ ان کے علاوہ یوگی ادتیہ ناتھ، ساکچی مہاراج، سنجیب بالیان، مہیش شرما، سنگیت سوم جیسے شرپسندوں کے اس وقت امت شاہ سردار ہیں۔ اپنے بریگیڈ کے ذریعہ جو چاہتے ہیں کرا دیتے ہیں۔ ریاستی حکومتیں بھی کان میں تیل دھرے بیٹھی رہتی ہیں۔ حکم سنگھ شاہ بریگیڈ میں نئے رنگٹوٹ شامل ہوئے ہیں۔ سارے ہندستان کی میڈیا نے تحقیقی اور تفتیشی رپورٹ کے ذریعہ ثابت کر دی حکم سنگھ کی طرف سے نقل مکانی کی فہرست جھوٹوں کا پلندہ ہے، پھر بھی وہ اڑے ہوئے ہیں کیونکہ امت اور مودی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سنجے گاندھی تو آئے گئے، فسانہ ختم ہوا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ شاہ کب تک ظلم و جبر کا تماشہ دکھاتے رہیں گے۔ شاہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ مالک کل کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے ؂
ظلم ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔۔۔ خون خون ہے ٹپکے گا تو مٹ جائے گا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔