اسماء حسنی

مولانا عبدالبر اثری فلاحی

’’وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوْہُ بِھَا وَ ذَرُوْا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ ٓ اَسْمَآءِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘۔(الاعراف:۱۸۰)
’’ اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑدو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے‘‘۔
اس آیت میں دو احکامات دیئے گئے ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کو اسماء حسنیٰ کے ذریعہ پکارو ۔(۲) اللہ کے اسماء میں کجروی اختیار کرنے والوں کو چھوڑدو۔
پہلے حکم پر عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ’’اسماء حسنیٰ ‘‘ کا علم حاصل کریں اور دوسرے حکم پر عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کجروی کے طریقوں کو معلوم کریں اور پھر اسے اختیار کرنے والوں کو پہچاننے کی کوشش کریں۔
’’اسماء حسنیٰ‘‘ کے معنی ہیں ’’بہترین نام ‘‘ اللہ تعالیٰ کی ’’عمدہ صفات‘‘ کو اسماء حسنیٰ کہتے ہیں۔ ’’حسنیٰ‘‘ کا لاحقہ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ کے نام عمدہ اور بہترین ہی ہوسکتے ہیں ۔ عیوب و نقائص پر دلالت کرنے والے اسماء کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ تعالیٰ کے ’’اسماء حسنی‘‘ بے شمار ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود اعلان فرماتا ہے ’’قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِءْنَا بِمِثْلِہِ مَدَداً‘‘(الکہف:۱۰۹) ’’اے نبی ! کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لئے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے ‘‘۔
اللہ کے رسول ﷺکی یہ دعا بھی اس پر دلالت کرتی ہے ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ بِکُلِّ اِسْمٍ ھُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَداً مِنْ خَلْقِکَ اَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ‘‘۔ اے اللہ میں آپ سے ہر اس نام کے حوالے سے سوال کرتا ہوں جو آپ کے لئے ہیں۔ جو آپ نے اپنی ذات کے لئے تجویز فرمایا ہے اور جسے آپ نے اپنی مقدس کتاب میں نازل فرمایا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی سکھایا ہے یا آپ نے اسے اپنے علم غیب کے خزانہ میں رکھا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے معلوم ہوکہ ’’اسماء حسنیٰ ‘‘ کیا کیا ہیں اور ہم کن ’’اسماء حسنیٰ‘‘ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پکاریں؟ اس ضمن میں بخاری و مسلم کی ایک روایت ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں پس جس نے انہیں یاد کیا وہ جنت میں داخل ہوگا ‘‘ لیکن وہاں ننانوے ناموں کی فہرست نہیں نقل کی گئی ہے۔ البتہ ترمذی میں یہ روایت نقل کی گئی ہے اور وہاں ان ننانوے ناموں کی فہرست بھی موجود ہے۔ ناموں کی فہرست ابن ماجہ، المستدرک حاکم میں بھی نقل ہوئی ہے البتہ بعض اسماء کے ذکر میں فرق ہے۔ سارے فرق کو بالترتیب بیان کیا جائے تو وہ 162 اسماء بن جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا ذکر مختلف پیرائے میں قرآن مجید کے اندر بھی آیا ہے۔ گویا قرآن و حدیث سے ہمیں یہ 162 ؍اسماء متعین طور پر معلوم ہوتے ہیں جنہیں ’’اسماء حسنیٰ ‘‘ میں لامحالہ شامل سمجھا جاسکتا ہے اور جن کے ذریعہ اللہ کو پکارا جاسکتا ہے۔
ان اسماء میں سے بعض اسماء کو اسم اعظم کہا جاتا ہے اور ان کے خصوصی فضائل آئے ہیں لہٰذا ان اسماء کے ذریعہ پکارنا زیادہ نفع بخش ہے مثلاً سعد بن ابی وقاصؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے ’’اسم اعظم ‘‘ کے ساتھ جب دعا مانگی جاتی ہے تو وہ قبول کرتا ہے اور جب اس کے ذریعہ سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ دیتا ہے اور وہ اسم اعظم’’لَااِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ‘‘میں ہے (رواہ الحاکم فی المستدرک)
ایک دوسرے صحابی یزیدؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو ان الفاظ میں دعا مانگتے ہوئے سنا ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ بِأَنِِیْ اَشْھَدُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ کُفُوْاً اَحَدٌ‘‘ تو آپؐ نے مَعاً ارشاد فرمایا اس شخص نے اللہ تعالیٰ سے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی ہے ۔ یہ اسم اعظم ایسا بابرکت ہے کہ جب اس کے وسیلے سے پروردگار سے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول فرماتا ہے (احمد، ابن حبان، حاکم )
اسی طرح اسماء بنت یزیدؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے ’’وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَاحِدٌ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الَّرْحْمٰنُ الرَّحِیْمُ‘‘ اور دوسری آیت ’’اَللّٰہُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیُّالْقَیُّوْمُ‘‘ (ترمذی، ابودؤد، ابن ماجہ، دارمی)
یہاں پریہ بھی سمجھتے چلیں کہ آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے ’’اسماء حسنیٰ‘‘ ہی کے ذریعہ پکارنے کا حکم کیوں دیا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ واقعی معرفت الٰہی اس کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ’’اللہ‘‘ کہنے سے اللہ کی ذات و صفات کا ایک عمومی تصور ذہنوں میں آتا ہے ۔ لیکن ’’اسماء حسنیٰ ‘‘ کے تذکرے سے ذات و صفات کی وضاحت ہوجاتی ہے اور معرفت الٰہی گنجلک اور مبہم نہیں رہتی۔ اسی طرح ’’اسماء حسنیٰ ‘‘ کی واقعی معرفت اور اس کا استحضار رہے تو انسان کے اخلاق و کردار پر بہت مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ مثلاً جو شخص گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے یا مصائب و آلام میں گھر جاتا ہے تو وہ بسا اوقات ناامید ہو کر یا عاجز آکر خود کشی کرلیتا ہے لیکن اگر وہ یہ شعور رکھتا ہے کہ اللہ ’’غفور رحیم ‘‘ اور ’’ارحم الراحمین‘‘ ہے تو وہ کبھی ایسا اقدام نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ پر امید رہتا ہے اور کبھی بے لگام نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص اللہ کو ’’رازق ‘‘مانتا ہے وہ تجارت کے فیل ہونے یا فصل کے خراب ہونے پر بھی رزق رسانی کے پہلو سے اس طرح پریشان نہیں ہوتا جس طرح تجارت و کھیتی کو ہی رزق کا ذریعہ سمجھنے والے پریشان ہو تے ہیں؟ یا باپ و شوہر کے مر جانے پر واویلا کرتے ہیں کہ اب ان کی روزی روٹی کا انتظام کیسے ہوگا کیونکہ وہ اسے ہی ’’رازق ‘ سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں۔
اللہ کے ’’اسماء حسنیٰ‘‘ کا استحضار نہ ہو تو اچھے اچھے لوگ لڑکھڑا نے لگتے ہیں آپ ذرا اس واقعہ پر غور کریں جب رسول اللہ ﷺ اللہ کو پیارے ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے تلوار سونت لی کہ اگر کسی نے کہا کہ رسول اللہﷺ انتقال فرما گئے ہیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا ۔ دراصل اس وقت حضرت عمرؓ کی نظروں سے اللہ تعالیٰ کی صفت ’’حی ‘‘ اور ’’قیوم‘‘ کا ذھول ہوگیا تھا۔ یعنی یہ کہ ہمیشہ زندہ رہنے والی ذات ’’حی‘‘ اور ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی ذات ’’قیوم‘‘ تو صرف اللہ کی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے جب انہیں قرآن مجید سے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر۱۴۴سنائی تو انہیں فوراً یاد آگیا اور اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ۔ اس آیت میں یہی حقیقت واضح کی گئی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ ’’حی ‘‘ اور ’’قیوم ‘‘ نہیں ہیں۔ اسی لئے ان کے بارے میں یہ تصورقائم نہیں کیا جاسکتا۔ اس واقعہ سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ’’اسماء حسنیٰ ‘‘ انسان کو کہاں کہاں سہارا دیتا ہے اور راہ راست پر قائم رکھتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسے ’’اسماء حسنی ‘‘ کے ذریعہ پکارا جائے تاکہ انسان راہ راست پا جائے اور اس پر قائم رہ سکے ۔
رہا اللہ کے ناموں میں کجروی اختیار کرنے والوں کو چھوڑنے کا حکم تو اس سلسلے میںیہ جاننا چاہئے کہ کجروی کے درج ذیل طریقے معروف ہیں اور ان طریقوں کو اپنانے والوں سے الگ رہنا چاہئے ۔
(1) بعضوں نے تو ہر اسم کے لحاظ سے الگ الگ معبود ہی بنالئے ہیں جیسا کہ ہندو مذہب میں ہے۔ پیدا کرنے والا الگ معبود ہے ۔ روزی دینے والا الگ معبود ہے ۔ مارنے والا الگ معبود ہے گویا جتنی صفات ہیں اتنے معبود ہیں۔ اس طرح خدائی تقسیم ہوکر رہ گئی ہے اس سے جو انارکی پیدا ہوگی وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
(2) بعضوں نے وہ چیزیں اسماء اللہ تعالیٰ سے منسوب کردئیے ہیں جو اللہ کے شایان شان نہیں ہیں مثلاً عیسیٰ علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ماننا، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں ماننا، اور معبودوں کو ماں کا درجہ دینا وغیرہ۔
(3) بعض وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے مختص اسماء کو دوسروں کے اندر بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ مثلاً کسی کو عالم الغیب ،داتا، مشکل کشا، گنج بخش اور کار ساز سمجھتے ہیں۔
(4) بعض وہ ہیں جو غیرضروری موشگافیاں کرتے ہیں مثلاً اللہ کی صفت ’’قادر ‘‘ ہے تو کیا وہ جھوٹ پر بھی قادر ہے یا جادو کے علم پر بھی قادر ہے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس ضمن میں دو تین بنیادی حقیقتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ تبھی ہم ان کجرویوں سے بچ سکتے ہیں اور کجروی اختیار کرنے والوں کے شر سے اپنی حفاظت کرسکتے ہیں۔
(1) انسان کی صلاحیت محدود اور اللہ کے ’’اسماء حسنیٰ ‘‘ کی وسعت لامحدود ہے اس لئے اس کا ادراک انسان کے بس میں نہیں ’’لاَ تُدْرِکُہٗ الْاَبْصَارُ‘‘(الانعام:103) اسی لئے اللہ کی کنہ (حقیقت) کے بارے میں احادیث میں سوال کرنے سے روکا گیا ہے۔
(2) اللہ کی مثال کسی چیز سے نہیں دی جاسکتی۔ چاہے ذات کے معاملہ میں۔ چاہے صفات کے معاملہ میں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئیٌ‘‘ (الشوریٰ:11)اس لئے ہمیں مثال دینے سے بچنا چاہئے جب بھی ہم مثال دینے کی کوشش کریں گے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اسی لئے کہا گیا ہے ’’فَلاَ تَضْرِبُوْالِلّٰہِ الْاَمْثَالَ‘‘۔(النحل :74) پس اللہ کے لئے مثالیں نہ گھڑو۔

تبصرے بند ہیں۔