نصابِ تعلیم میں دینی و عصری توازن

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

تعلیم کے سلسلے میں نصابِ تعلیم کی غیر معمولی اہمیت ہے۔اس کا شمار مقاصدِ تعلیم کے حصول کے اہم ذرائع میں کیا جاتا ہے۔تعلیم کے مثلث– استاد ،طالب علم اور نصاب– کا یہ اہم زاویہ ہے۔اس کا دیگر دو زاویوں سے بڑا گہرا تعلق ہوتاہے۔ نصاب تعلیم کے ذریعے منصوبہ بند طریقے سے مناسب درجہ بندی کے ساتھ طلبہ کو تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔اس کے لیے اسے طلبہ کی ضروریات کے پیش نظر مختلف مضامین اور تدریسی عناصر پر مشتمل ہونا چاہیے۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جن چیزوں کی مدد سے متعین تجربوں کے ذریعے طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے،ان کا نام نصاب تعلیم ہے۔نصاب تعلیم افراد کی شخصیتوں کو نشوونما دینے، ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور زندگی میں آئندہ پیش آنے والے مراحل میں ان کی رہ نمائی کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’یہ ایک مسلّم اور معروف حقیقت ہے کہ نصابِ تعلیم کو نئی نسل کی ذہنی تشکیل و تعمیر اور ملت و ملک کی قیادت و رہ نمائی کی صلاحیت عطا کرنے اور قدیم ذخیرۂ علوم و تصنیفات سے فائدہ اٹھانے اور فائدہ پہنچانے،بلکہ ملک و ملت کی رہ نمائی و ذہن سازی کی صلاحیت پیدا کرنے میں خاص اور بنیادی دخل ہے۔‘‘
(مقدمۂ کتاب’ ہمارا نصاب تعلیم کیا ہو؟ ‘از مولانا سلمان حسینی ندوی،ص25)
دینی مدارس کے نصابِ تعلیم میں تبدیلی اور اصلاح کی آوازیں گزشتہ چند سالوں سے پوری شدت کے ساتھ اٹھائی گئی ہیں اور اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔مدارس کی افادیت کا انکار کرنے والوں کی جانب سے برابر مضامین چھپتے رہتے ہیں۔ان کی جدید کاری (Modernization)کی دعوت دینے والوں کے خیالات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔دینی مدارس کے مسائل اور نصاب تعلیم کی اصلاح کے موضوع پربعض مدارس کے زیر اہتمام متعدد سیمینار منعقد کیے گئے ہیں۔اس تعلق سے دو قسم کے رویے سامنے آتے ہیں۔بہت سے مدارس کے ذمہ داروں نے نصابِ تعلیم میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت سے انکار کیا ہے۔ وہہ موجودہ حالات میں بھی اس کی افادیت کا دعوی کرتے ہیں،جب کہ دیگر بہت سے مدارس کے ذمہ داروں نے نصاب میں اصلاح اور تبدیلی کی ضرورت کو تسلیم کیا اور اس میں نئے مضامین شامل کیے ہیں۔ملک کی متعدد یونیورسٹیوں نے طلبۂ مدارس کے لیے اپنے دروازے کھولے اور اس کے لیے شرط رکھی کہ ان مدارس کے نصاب میں عصری مضامین شامل کیے جائیں ۔بعض مدارس نے اس مطالبے کو قبول کرتے ہوئے اپنے نصاب تعلیم میں خاطر خواہ تبدیلیاں کیں۔
اسلام کا تصورِ علم
اسلام علم کی تقسیم کا قائل نہیں ہے۔وہ علوم اور نصابِ تعلیم کو دینی اور دنیاوی دو حصوں میں تقسیم نہیں کرتا ۔اس نے علم نافع اور علم غیر نافع کی تقسیم کی ہے۔جس علم سے اللہ کی معرفت حاصل ہو اور خلقِ خدا کو فائدہ پہنچے وہ محمود و مطلوب ہے اور جو علم انسان کو گم راہی اور فسق و فجور میں مبتلا کردے اور خلقِ خدا کے لیے ضرر رساں ہو وہ مذموم اور غیر مطلوب ہے۔مسلمانوں کے دور عروج میں تعلیم گاہوں میں خالص دینی اور شرعی علوم کے ساتھ طبیعیاتی اور سائنسی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے اور ان سے تعلیمی،تربیتی،تمدنی ، انتظامی اور سیاسی شعبوں کے لیے افراد تیار کیے جاتے تھے۔ یہی صورت حال ہندوستان میں بھی عرصہ تک جاری رہی اور مسلمانوں کے پورے دور اقتدار میں انہی تعلیمی اداروں سے زندگی کے ہر میدان کے لیے ماہر افراد فراہم ہوتے رہے۔
ہندوستان میں طریقۂ تعلیم اور نصابِ تعلیم کی تاریخ پر اجمالی نظر
ہندوستان میں طریقۂ تعلیم اور نصابِ تعلیم کے ارتقائی منازل کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
* پہلا دور ساتویں صدی سے نویں صدی ہجری تک تقریباً دوسو سال پر محیط ہے۔اس دور کے نصاب میں فقہ،اصول فقہ،منطق،علم کلام، صرف و نحو،بلاغت،تصوف،تفسیر اور حدیث وغیرہ شامل تھے، البتہ حدیث کو زیادہ اہمیت حاصل نہ تھی۔
* دوسرا دور نویں صدی سے شروع ہوتا ہے۔اس میں شیخ عزیز اللہ اور شیخ عبداللہ کے طریقۂ تدریس کو شہرت حاصل ہوئی۔ اس دور کے آخر میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کوششوں سے نصابِ تعلیم میں حدیث کو اہمیت دی جانے لگی۔
* تیسرا دور فتح اللہ شیرازی اور شیخ وجیہ الدین علوی گجراتی سے شروع ہوتا ہے۔اس میں حدیث کے علاوہ فلسفہ ، منطق، طبیعیات اور حساب جیسے مضامین کو بہت زیادہ اہمیت دی جانے لگی۔
* چوتھے دور کا آغاز ملا نظام الدین سے ہوتا ہے۔ان کا تیار کردہ نصاب’ درسِ نظامی‘ کے نام سے موسوم ہے۔اس میں حساب ،الجبراء،علم نجوم اور علم طبیعیات جیسے سائنسی مضامین کو بھی شامل کیا گیا تھا۔پچھلے تین سو سال سے یہی درس نظامی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ دینی مدارس میں رائج ہے۔

نصابِ تعلیم کی دوئی
لیکن اس کے بعد جب عالم اسلام پر مغربی استعمار کا تسلط ہوااور اس نے اپنا مخصوص نظامِ تعلیم جاری کیا تو یہ صورت حال برقرار نہ رہ سکی۔ خاص طور پر جب مصر پر فرانسسیوں ا ور انگریزوں اور ہندوستان پر انگریزوں کا اقتدار قائم ہوا تو نصابِ تعلیم میں دینی اور دنیاوی علوم کی جامعیت برقرار نہ رہ سکی۔اس موقع پرعلماء نے شرعی علوم کی حفاظت کو اپنا فریضہ گردانا اور دیگر علوم کی جانب وہ اتنی توجہ نہ دے سکے۔مصر میں جامع ازہر اور ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند نے قدیم اور روایتی نصاب تعلیم کو برقرار اور محفوظ رکھنے کی کوشش کی،جب کہ مصر میں جامعۂ قاہرہ اور ہندوستان میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے عصری و دینی علوم کو ترجیح دی۔ اس کے نتیجہ میں مسلم معاشرہ دو طبقوں میں تقسیم ہوگیا: ایک طبقہ علماء کا تھا اور دوسرا جدید تعلیم یافتہ افراد کا۔اس تقسیم نے دونوں طبقوں کے درمیان اجنبیت بلکہ منافرت کی خلیج پیدا کردی۔
اصلاحِ نصاب کی انقلابی تحریک اور اس کی ناکامی
اس صورتِ حال میں علماء کا ایک طبقہ سر گرمِ عمل ہوا، جس نے اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی اور اصلاحِ نساب کا ایک عمدہ تخیل پیش کیا۔یہ گروہ ’ ندوۃ العلماء‘ کے نام سے موسوم ہوا۔ لیکن یہ بر صغیر ہند کی تاریخ کا المیہ ہے کہ اس گروہ کی کوششیں ثمر بار نہ ہو سکیں اور بہت جلداختلاف و تنازع کا شکار ہو گئیں۔اس پر تحریک ندوۃ العلماء کے مؤرخ پروفیسر شمس تبریز خاں کا تبصرہ ملاحظہ کیجیے:
’’ندوۃ لعلماء کے روشن خیال اور اصلاح پسند بانیوں میں مولانا محمد علی مونگیریؒ اور مولانا شبلیؒ نے اصلاحِ نصاب کے لیے بہت عمدہ تخیل اور لائحۂ عمل پیش کیا اور اس کے لیے قابلِ قدر کوشش بھی کی، لیکن ان کے مطلوب نتائج و مقاصد علماء کے باہمی اختلاف کے سبب پورے طور سے حاصل نہ ہو سکے اور ان کی جزئی اصلاحات مکمل اور وحدانی اور علوم دینیہ و علوم عصریہ کا جامع نصاب و نظام نہیں تیار کر سکیں اور اس میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لا سکیں، جو ملک کو بہ یک وقت دینی و عصری علوم سے آشنا کرکے اسے مثالی ’خیر امت‘ بنا سکے اور وہ اقوامِ عالم کے درمیان اپنا قائدانہ کردار ادا کر سکے۔‘‘ (ہمارا نصابِ تعلیم کیا ہو؟ص37)
علامہ شبلی کے تعلیمی افکار
سب سے پہلی شخصیت، جس نے درسِ نظامی میں اصلاح کی آوز بلند کی اور مسلم معاشرہ کی ضروریات و مقتضیات کے لحاظ سے نیا نصاب تیار کرنے کی وکالت کی ،وہ علامہ شبلی نعمانی(1857ء۔1914ء )کی ہے۔مصر میں جب شیخ رشید رضا نے جامعۃ الازہر کے نصاب تعلیم میں اصلاح کی مہم چلائی تو انھوں نے جن شخصیات کا حوالہ دیا ان میں ایک نام علامہ شبلی کا بھی تھا۔
علامہ شبلی قدیم اور جدید دونوں طرح کے تعلیمی اداروں سے منسلک رہے ہیں اور ان کی پالیسی سازی میں سرگرم حصہ لیا ہے۔وہ 1883ء میں سرسید علیہ الرحمۃ(1817ء۔1898ء) کے قائم کردہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (M.A.O.College) علی گڑھ سے بہ حیثیت استاد وابستہ رہے اور 1898ء تک سولہ سال وہاں تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ وہ وہاں محض ایک استاد نہ تھے، بلکہ انھوں نے سر سید کی تعلیمی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاسوں میں برابر شرکت کی۔ایم ۔اے۔او کالج کو یونیورسٹی بنانے کی تحریک میں شامل ہوئے۔دوسری طرف وہ تحریکِ ندوۃ العلماء کے سرگرم داعیوں میں سے تھے۔1894ء میں اس کے اجلاس اول سے لے کر اپنی وفات تک وہ اس کے تمام اجلاسوں میں برابرشریک رہے۔ انھوں نے تحریک ندوۃ العلماء کے تحت ایک دارالعلوم کے قیام کی تجویز کی بھر پور تائید کی اور اس کے قواعدوضوابط تحریر کیے۔پھر جب دارالعلوم قائم ہوگیا تو اس کا دستور العمل تیار کیا ۔ انھیں 1905ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا معتمد تعلیم بنایا گیا تو انھوں نے وہاں نیا نصابِ تعلیم نافذ کیا ۔ان کی تعلیمی سرگرمیاں محض انہی دونوں تعلیمی اداروں تک محدود نہ تھیں، بلکہ ملک کے دیگر تعلیمی اداروں نے بھی ان سے فیض اٹھایا ۔1898ء میں وہ بھوپال کے عربی مدارس کی تنظیم نظارۃ المعارف اور 1910ء میں اصلاح مدارس کمیٹی مشرقی بنگال و آسام کے رکن منتخب ہوئے۔1901ء میں ان کا تقرر سررشتہ علوم و فنون سرکار آصفیہ حیدر آباد کے ناظم کی حیثیت سے ہوا۔1908ء میں انھوں نے دار العلوم حیدرآباد کا نصاب تیار کیا۔
تعلیم کے موضوع پر علامہ شبلی کی تحریروں کا مجموعہ مقالات شبلی(جلد سوم)میں جمع کر دیا گیاہے۔ اس میں ایک مقالہ’ مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم‘ کے عنوان سے ہے۔یہ اصلاً وہ مقالہ ہے جسے انھوں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس لکھنؤ 1887ء میں پیش کیا تھا۔دو مقالات درس نظامی اور اس کے بانی ملا نظام الدین پر اور ایک مقالہ ندوہ کے نصاب تعلیم پر ہے۔ریاست حیدرآباد نے مولانا سے اپنے یہاں مشرقی یونی ورسٹی(دار العلوم) کے لیے نصاب تیار کر نے کی گزارش کی تھی۔ایک مقالہ میں اس نصاب کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ دیگر مقالات میں بھی جدید اور قدیم تعلیم پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اصلاح کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔علامہ شبلی کی ایک تصنیف سفر نامۂ روم و مصر و شام کے نام سے ہے۔ اس میں جا بہ جا ان کے تعلیمی افکار کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ جہاں بھی تشریف لے گئے وہاں کے تعلیمی اداروں، علمی مراکز اور کتب خانوں کا دورہ کیا، ان کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کا برملا اظہار کیا۔خطبات شبلی میں تعلیم نسواں کے موضوع پر ان کا ایک مبسوط مضمون شامل ہے۔ اس کے علاوہ مکاتیبِ شبلی میں علامہ کے تعلیمی افکار سے متعلق خاصا مواد موجود ہے۔ انھوں نے اپنے احباب اور شاگردوں کو جو خطوط لکھے ہیں ان میں تعلیم کے بارے میں نظری مباحث بھی ملتے ہیں اور علی گڑھ اور ندوہ کے پس منظر میں اصلاح نصاب کی تجاویز اور مشورے بھی۔
علامہ شبلی کو احساس ہے کہ جدید مغربی تعلیم مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔اگر وہ اس میدان میں پیچھے رہ گئے تو ترقی کی دوڑ میں بھی پیچھے رہ جائیں گے۔فرماتے ہیں:
’’مسلمان اس وقت کش مکشِ زندگی کے میدان میں ہیں۔ ان کی ہم سایہ قومیں مغربی تعلیم ہی کی بہ دولت ان سے اس میدان میں بڑھ رہی ہیں۔ اگر خدانہ خواستہ مسلمان مغربی تعلیم میں ذرا بھی پیچھے رہ جائیں تو ان کی ملکی اور قومی زندگی دفعتہ برباد ہو جائے گی۔‘‘
(مقالات شبلی،مطبع معارف اعظم گڑھ،جلد سوم، ص 146۔147)
لیکن انھیں اس کا بھی احساس ہے کہ جدید تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم کا انتظام نہیں ہے۔یہ ایک بہت بڑی کمی ہے،جس کی تلافی ضروری ہے:
’’ظاہر ہے کہ اس (جدید) طریقۂ تعلیم میں ہماری مذہبی اور قومی خصوصیات کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس میں نہ مذہبی تعلیم ہے نہ قومی تاریخ سے کچھ واقفیت ہو سکتی ہے،نہ اسلامی اخلاق اور مسائلِ اخلاق کا علم ہو سکتا ہے۔‘‘ (حوالہ سابق، 156)
وہ ان اداروں میں تعلیم پانے والے طلبہ کے لیے دینیات کے ایک ایسے نصاب کی ضرورت محسوس کرتے ہیں جس سے وہ دین کی بنیادی تعلیمات اور ضروری مسائل سے واقف ہوجائیں:
’’ یہ ظاہر ہے کہ انگریزی تعلیم یافتہ لوگوں سے ہم کو مذہبی خدمات یعنی امامت، وعظ،افتاء کا کام نہیں لینا ہے، بلکہ غرض یہ ہے کہ وہ خود بہ قدرِ ضرورت مسائلِ اسلام اور تاریخِ اسلام سے واقف ہوں۔ اس کے لیے صرف ایک مختصر اور جامع و مانع سلسلۂ کتب دینیات کی ضرورت ہے، جس میں سلسلہ بہ سلسلہ اسکول سے کالج تک کے قابل کتابیں ہوں۔ اس سلسلے میں تین قسم کی کتابیں ہونی چاہییں: فقہ، عقائد، تاریخ اسلام۔‘‘ (حوالۂ سابق،ص141)
علامہ شبلی قدیم طریقۂ تعلیم سے بھی مطمئن نہیں ہیں ۔اس سلسلہ میں انھوں نے درسِ نظامی پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نصاب میں وقتاً فوقتاً حسبِ ضرورت اصلاح کرکے اسے up to date کرنا چاہیے۔انھوں نے لکھا ہے کہ نصابِ درس میں ہمیشہ تبدیلی ہوتی رہی ہے ۔ اصلاحِ نصاب کا عمل متقدمین سے بغاوت نہیں ہے، بلکہ عین ان کی روایت ہے۔درسِ نظامی ابتداء میں مکمل اور جامع نصاب تھا،لیکن بعد کے ادوار میں وقتاً فوقتاً اس میں تبدیلی ہوتی رہی ہے، اس لیے اگر موجودہ دور میں اس پرنظر ثانی کی جائے ،ایسے مضامین اور کتابیں ،جن کی اب کوئی افادیت باقی نہیں رہی، خارج کر دی جائیں اور نئے مضامین، جن کی موجودہ دور میں ضرورت ہے، اس میں شامل کردیے جائیں تو یہ علمائے سلف کی ہی روایت کا تسلسل ہوگا ۔ (ملاحظہ کیجیے: مقالات شبلی، جلد سوم میں ان کے مقالات(1)ملا نظام الدین بانی درس نظامیہ( 2)درس نظامیہ)۔
علامہ شبلی کے نزدیک مسلمانوں کے لیے جدید یعنی مغربی تعلیم بھی ضروری ہے اور قدیم یعنی دینی تعلیم بھی۔وہ چاہتے ہیں کہ دونوں طریقہ ہائے تعلیم کی خامیوں کی اصلاح کر دی جائے۔جدید تعلیم کے ساتھ کچھ مذہبی تعلیم لازمی کردی جائے ،تاکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ بچوں کا اپنے مذہب سے تعلق باقی رہے اور قدیم تعلیم کے ساتھ کچھ جدید مضامین بھی طلبہ کو پڑھائے جائیں، تاکہ ان کے کچھ معاش کا بھی نظم ہو سکے ۔ فرماتے ہیں:
’’یہ مناسب نہیں کہ مشرقی تعلیم سے بالکل بے اعتنائی اختیارجائے، البتہ اس کی ضرورت ہے کہ اس کو زیادہ بہ کار آمد بنایا جائے اور مذہبی حصے کو چھوڑ کرباقی چیزوں میں ایسی ترقی اور اصلاح کی جائے کہ مشرقی تعلیم یافتہ لوگوں کی معاش کے لیے کچھ وسائل پیدا ہو سکیں۔‘‘
( مقالات شبلی،سوم ،ص150)
ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’یہ ہم نے بار بار کہا ہے اور اب پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے لیے نہ صرف انگریزی مدرسوں کی تعلیم کافی ہے نہ قدیم عربی مدرسوں کی۔ ہمارے درد کا علاج ایک ’معجون مرکب‘ ہے، جس کا ایک جز مشرقی اور دوسرا مغربی ہے۔‘‘ (حوالہ سابق ، ص3 16)
علامہ شبلی نے علماء کے لیے انگریزی زبان سیکھنے پر بہت زور دیا ہے۔وہ تحریک ندوۃالعلماء سے وابستہ ہوئے اور اس کے تحت دارالعلوم کے قیام کی تجویز کی تائید کی تو ساتھ ہی نصاب میں انگریزی شامل کرنے پر زور دیا۔پھر جب وہ دارالعلوم کے معتمد تعلیم بنائے گئے تو انھوں نے عملًا انگریزی کو نصاب میں شامل کروایا۔دراصل وہ چاہتے تھے کہ ایسے علماء تیار ہوں جو انگریزی جاننے والوں کے درمیان انگریزی میں گفتگو کر سکیں اور اسلام کی تعلیمات ان کے سامنے پیش کرسکیں۔ایک موقع پر انھوں نے فرمایا:
’’عالم یا فاضل کے درجے کے بعد ضرور ہے کہ چند طلبہ کو دو برس تک خالص انگریزی زبان سکھائی جائے، تاکہ انگریزی زبان میں تحریر اور تقریر کا ملکہ ہو اور ایسے علماء پیدا ہوں کہ یورپ کی علمی تحقیقات کو اسلامی علوم میں اضافہ کر سکیں اور انگریزی داں جماعت کے مجمع میں انہی کی زبان اور خیالات میں اسلامی عقائد اور مسائل پر تقریر کر سکیں۔‘‘
(مقالات شبلی، سوم ص 160۔161)
مولانا مودودی کا تصورِ تعلیم
دوسری شخصیت جس نے تعلیم کے میدان میں انقلابی تصورات پیش کیے ہیں، مولانا سید ابو الاعلی مودودی( 1903۔1979ء) کی ہے۔ان کا ابتدائی تعارف ایک متکلم اسلام کی حیثیت سے ہوا۔مغرب کے فکری وسیاسی غلبہ و تسلّط کے نتیجے میں مسلمانوں اور بالخصوص ان کی نوجوان نسل کا ایمان اسلامی عقائد واقدار سے متزلزل ہو رہا تھا۔انھوں نے اپنی طاقت ور اور موثر تحریروں کے ذریعے کمیونزم،سرمایہ داری اور دیگر غیر اسلامی نظریات پر زبردست حملے کیے اور اسلامی اقدار و تعلیمات کی حقانیت اور معقولیت ثابت کی۔ انھوں نے ’جماعت اسلامی‘ کی تشکیل کی ،جس نے دین کی اقامت کو اپنا نصب العین بنا یا اور جو سماج میں اس کے نفاذ کے لیے برابر کوشاں ہے۔انھوں نے اسلام کا ایک جامع اور ہمہ گیر تصور پیش کیا، جس کے تحت نظامِ تعلیم بھی آجا تا ہے۔ انھوں نے جدید اور قدیم دونوں طرح کے تعلیمی اداروں میں جاکر ان کے ذمہ داروں کے سامنے اپنا یہ تصور تعلیم پیش کیا۔انھوں نے 1936ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک مقالہ پیش کیا، جس میں جدید نظام تعلیم کے نقصانات بیان کیے۔ ایک دوسری تحریر کے ذریعے مسلم یونیورسٹی کی مجلس اصلاحِ نصابِ دینیات کے استفسارات کا جواب دیا۔ اسی طرح 1941ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کی انجمن اتحاد الطلبہ میں ایک مقالہ پڑھا،جس میں قدیم نظامِ تعلیم کے نقائص پر روشنی ڈالی۔تقسیم ملک کے بعد اصلاح تعلیم کے سلسلہ میں پاکستان کے قومی تعلیمی کمیشن کے سوال نامے کے جواب میں اسلامی نظام تعلیم کا مفصل خاکہ پیش کیا۔
مولانا مودودی جدید اور قدیم دونوں نظام ہائے تعلیم کے ناقد ہیں۔انھوں نے جدید تعلیم کے اداروں پر سخت تنقید کی ہے۔اپنے ایک خطبے میں انھوں نے ان کو’ قتل گاہ‘ قرار دیا ہے:
’’ در اصل میں آپ کی اس مادر تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیم کو درس گاہ کے بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں یہ در اصل موت کے صداقت نامے DEATH CERTIFICATES) ( ہیں جو قاتل کی طرف سے آپ کو دیے جا رہے ہیں۔‘‘ (تعلیمات،ص52)
اسی طرح وہ قدیم طریقۂ تعلیم کے بھی سخت ناقد ہیں ۔ کہتے ہیں:
’’ اب جو لوگ اس نظام تعلیم کے تحت پڑھ رہے ہیں اور اس سے تربیت پاکر نکل رہے ہیں ان کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ہماری مسجدوں کو سنبھال کر بیٹھ جائیں، یا کچھ مدرسے کھول لیں یا وعظ گوئی کا پیشہ اختیار کریں اور طرح طرح کے مذہبی جھگڑے چھیڑتے رہیں، تاکہ ان جھگڑوں کی وجہ سے قوم کو ان کی ضرورت محسوس ہو۔‘‘(اسلامی نظام تعلیم، ص6)
لیکن ساتھ ہی ان کا خیال یہ بھی ہے کہ اصلاحِ نصاب سے اس کی بنیادی خامی دور نہیں ہو سکتی ہے۔ انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں جو مقالہ پڑھا تھا،اس میں اصلاح نصاب کی کوششوں پر ان الفاظ میں تنقید کی تھی:
’’ لوگ اس گمان میں ہیں کہ پرانی تعلیم میں خرابی صرف اتنی ہی ہے کہ نصاب بہت پرانا ہوگیا ہے اور اس میں بعض علوم کا عنصر بعض علوم سے کم یا زیادہ ہے اور جدید زمانہ کے بعض علوم اس میں شامل نہیں ہیں۔اس لیے اصلاح کی ساری بحث اس حد تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے کہ کچھ کتابوں کو نصاب سے خارج کرکے کچھ دوسری کتابوں کو شامل کر دیا جائے۔۔۔۔۔اور بہت زیادہ روشن خیالی پر جو لوگ اتر آتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ صاحب ہر مولوی کو میٹرک تک انگریزی پڑھاکر نکالو ، تاکہ کم از کم تار پڑھنے اور لکھنے کے قابل تو ہوجائے۔‘‘
(تعلیمات:ص55۔56)
آگے مزید فرما تے ہیں:
’’لیکن یہ جدت جو آج دکھائی جا رہی ہے یہ اب بہت پرانی ہوچکی ہے۔اس کی عمر اتنی ہی ہے جتنی آپ کے دار العلوم ندوۃ العلماء کی عمر ہے۔اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ پہلے سے کچھ زیادہ کامیاب قسم کے مولوی پیدا ہوجائیں جو کچھ جر منی اور امریکہ کی باتیں بھی کرنے لگیں ،اس ذرا سی اصلاح کا یہ نتیجہ کبھی نہیں نکل سکتا کہ دنیا کی امامت و قیادت کی باگیں علمائے اسلام کے ہاتھ آجائیں اور وہ دنیا جو آج آگ کی طرف چلانے والے ائمہ(Leaders) کے پیچھے چل رہی ہے،جنت کی طرف بلانے والے ائمہ کی رہبری قبول کرلے۔‘‘ (حوالہ سابق،ص56)
مولانا مودودی کے نزدیک’’علوم کو دینی و دنیوی دو الگ الگ قسموں میں منقسم کرنا دراصل دین اور دنیا کی علیٰحدگی کے تصور پر مبنی ہے اور یہ تصور بنیادی طور پر غیر اسلامی ہے۔اسلام جس چیز کو دین کہتا ہے وہ دنیا سے الگ کوئی چیز نہیں ہے ۔ ‘ ‘ (تعلیمات، ص0 7) انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصاب میں دینی تعلیم کی شمولیت پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:
’’ میری نظر میں مسلم یونی ورسٹی کی دینی و دنیاوی تعلیم بہ حیثیت مجموعی بالکل ایسی ہے کہ آپ ایک شخص کو از سر تا پا غیر مسلم بناتے ہیں، پھر اس کی بغل میں دینیات کی چند کتابوں کا ایک بستہ دے دیتے ہیں۔‘‘ (تعلیمات، ص24)
وہ واضح الفاظ میں کہتے ہیں:
’’درحقیقت اب یہ ناگریز ہو چکا ہے کہ وہ دونوں نظام تعلیم ختم کر دیے جائیں جو اب تک ہمارے یہاں رائج ہیں۔پرانا مذہبی نظام تعلیم بھی ختم کیا جائے اور یہ موجودہ نظام تعلیم بھی، جو انگریز کی رہ نمائی میں قائم ہوا تھا۔ان دونوں کی جگہ ہمیں ایک نیا نظام تعلیم بنانا چاہیے جو ان نقائص سے پاک ہو اور ہماری ان ضرورتوں کو پورا کرسکے جو ہمیں ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے اس وقت لاحق ہیں ۔‘‘ (اسلام کا نظام تعلیم:ص13)
موجودہ دور کی اہم ضرورت
1۔دینی مدارس اپنے نصاب میں انقلابی تبدیلیاں کرکے ضروری عصری علوم کو بھی اس میں شامل کریں، تاکہ ان کے فارغین تمام شعبہ ہائے حیات میں سر گرمِ عمل ہوں اور تمام طبقات کی قیادت و رہ نمائی کر سکیں۔
2۔ کالجوں اور یو نی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو ضروری دینی علوم اور اسلامی ثقافت و تربیت سے آراستہ کیا جائے۔
اس طرح دونوں طبقات میں ایک دوسرے سے واقفیت، باہمی احترام اور اتحاد و اتفاق کا جذبہ پیدا ہوگا اور وہ مل جل کر اپنا ملی کردار ادا کر سکیں گے۔
3۔ ایسے تعلیم ادارے قایم کیے جائیں جن میں دینی علوم اور عصری علوم پر مشتمل ایک جامع نصاب تیار کرکے اس کا تجربہ کیا جائے۔
اس کی عملی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہائی اسکول یا انٹر میڈیٹ کی سطح تک دینی و عصری علوم ساتھ ساتھ پڑھائے جائیں۔ اس کے بعد دونوں کی تعلیم کا الگ الگ انتظام کیا جائے اور طلبہ اپنے ذوق، رجحان، پسند اور اہلیت کے مطابق اپنی لائن ( دینی یا عصری ) کا انتخاب کر سکیں۔
سفارشات
1۔ نصابِ تعلیم ایسا ہو جو فرد اور معاشرہ کی ضروریات و مقتضیات سے ہم آہنگ ہو،ملی روایات،تہذیب و تمدن اور اقدار عالیہ پر مبنی ہو اور اس میں ملک و قوم اور ملت کی فلاح و بہبود بنیادی عناصر کی حیثیت سے شامل ہوں۔
2۔ علم سماجیات ،علم سیاسیات ،علم معاشیات اور علم نفسیات کی جدید ترین تحقیقات کی اہمیت کے پیش نظر ان کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔
3۔ مراسلتی کورس اور اوپن اسکول کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
4۔ تعلیم اور ملازمت کی ایک دوسرے سے وابستگی کو روایتی مسلم سماج میں پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا،جب کہ ملک میں رائج تعلیمی نظام طلبہ کوملازمت کے سلسلے میں سہولیات فراہم کرتا ہے۔اس صورت حال میں ہمیں کوئی اعتدال کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔
5۔ بنیادی انگریزی اورہندی کی تعلیم کا لازماً انتظام کرنا چاہیے۔
6۔ مدارس کے اعلیٰ درجات میں’تقابل ادیان‘ کے مضمون کا بھی ضرور اضافہ کیا جانا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔