امت شاہ: وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

ڈاکٹر سلیم خان

این آر سی کے آسام کو آرڈینٹر پرتیک ہجیلا سے سپریم کورٹ نے پوچھا کہ  آپ کو عدالت کی توہین  کرنے کے لیے جیل کیوں نہ بھیجا جائے؟  ہجیلا کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے انڈین ایکسپریس کو ایک انٹرویو دے دیا جس میں این آرسی کے متعلق معلومات دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ حتمی نہیں ڈرافٹ رپورٹ ہے۔ اس کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کی جائیگی۔ جن  لوگوں کے نام  چھوٹ گئے ہیں انہیں  اپنا دعویٰ پیش کرنے کا موقع دے کراس کے نقائص کو دور کیا جائے گا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں  ہوگی۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے  ناراض ہوکر ان سے   کہا کہ  ہم آپ کو جیل بھیج سکتے تھے۔ لیکن ہم نے خود کو روکا ہے۔ ہجیلا نے معافی مانگتے ہوئے صفائی دی کہ وہ آر جی آئی کی صلاح کے بعد میڈیا میں  گئے تھے۔ اس کے بعد رجسڑار جنرل کے ساتھ ہجیلا نے معافی مانگی اور عدالت کو یقین دلایا کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی تب جاکر خلاصی ہوئی ۔

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ پرتیک ہجیلا نے نہ تو کوئی اشتعال پھیلایا  تھا اور نہ سیاست کی  تھی۔ اس کے  باوجود عدالت کاپھٹکار سنائی اور مستقبل میں ہوشیار رہ کر کام کرنے کی قابلِ تحسین تلقین کی  مگر اس صورتحال میں  بی جے پی کے صدر کی بیان بازی سے آنکھیں موند لینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ امت شاہ نے اس نازک مسئلہ پر ایوان پارلیمان میں نہ صرف  اشتعال انگیزی کی   بلکہ راجستھان کی انتخابی مہم میں بھی اس پر سیاست بازی کرنے سے باز نہیں آئے۔ جن شہریوں  کا نام  اس ناقص فہرست میں آنے سے چھوٹ گیا ہے ان کو بڑی ڈھٹائی سے  امت شاہ نے تو بنگلادیشی درانداز قرار دے دیا۔ ایوان بالا میں یو پی اے حکومتوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کردیاکہ آسام میں غیر قانونی مہاجرین کی شناخت و نشاندہی  کرنےکی کانگریس میں ہمت نہیں ہے۔ حالانکہ یہ عمل ۱۹۸۵ ؁  میں سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کی دستخط سے کئے گئے معاہدہ کا ایک حصہ ہے۔ امت شاہ نے اس مسئلہ پر  کانگریس سے سوال کیا کہ  کیا وہ  مشرقی ریاست میں ’غیر قانونی بنگلہ دیشیوں‘ کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔

امت شاہ کی یہ جملہ بازی  ایوان تک محدود نہیں رہی  بلکہ وہ اسے سڑک پر لے آئے۔ انہوں راجستھان کے اندر انتخابی مہم کے موقع پر بھی یہ راگ چھیڑ دیا۔ امت شاہ نے عوام سے سوال کیا کہ کیا ہمارےپاس  شہریوں کا رجسٹر ہونا چاہیے؟ یہ ایسا بے تکا سوال ہے جس کی توقع کسی قومی جماعت کے صدر سے نہیں کی جاسکتی۔ ہندوستان میں لوگوں کے پاس  شناخت کے لیے راشن کارڈ ہوا کرتا تھا پھر پاسپورٹ عام ہوگیا۔ آگے چل پین کارڈ کو ضروری قرار دیا گیا اس کے بعد ووٹنگ کارڈ آیا اور پھر آدھار کارڈ بھی آگیا۔ آخر شہریوں کے لیے کتنے رجسٹر بنائے جائیں گے اور  ان کی شناخت ہی کی جائے گی یا ان کے لیے فلاح و بہبود کا کوئی کام بھی کیا جائے گا؟امت شاہ نے پوچھا ہم کانگریس سے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا غیر قانونی بنگلادیشی تارکین وطن کو واپس نہ بھیجا جائے ؟ جب راہل گاندھی   راجستھان آئیں تو ان سے یہ سوال کیجیے۔کانگریس اگر بنگلادیشیوں کو نکالنا نہیں چاہتی تو راجیو گاندھی ۱۹۸۵؁ میں آسام معاہدہ کیوں کرتے؟

  امت شاہ نے کہا یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اب امت شاہ سے سوال یہ ہے کہ سڑکوں پر نکل کر پہلو خان اور راکبر کو شہیدکردینے سے کیا قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ ان جرائم کا رتکاب کرنے والوں کو دیش بھکت قرار دینا۔ ان کی  سیاسی پشت پناہی کرنا۔ ان کے جبر و تشدد کو جواز فراہم کرنا اور انتظامیہ پر دباو ڈال کر  انہیں  رہا کروادینا کیا قومی خدمت  ہے؟ آسام کے لیے فکرمند امت شاہ راجستھان کے ان واقعات پر کیوں نہیں بولتے۔ امت شاہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسی صوبے کے راجسمند  میں ایک بنگالی شخص کو  مارپیٹ کر جلا دیا گیا۔ اس  درندگی کی ویڈیو بناکر اسے پھیلایا گیا  اور اس کو چھڑانے کے لیے عدالت کے آگے مظاہرہ کیا گیا جبکہ وہ خود عصمت دری کا مجرم تھا۔ یہ سب اسی لیے ہوا کہ ایسے بدمعاشوں کی امت شاہ جیسے لوگوں کی  سیاسی  حمایت حاصل ہوجاتی  ہے۔ ووٹ کی سیاست میں کوئی  اپنے بھکتوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا؟

 سرکاری اعدادوشمار کے مطابق راجستھان میں کل ۱یک ہزار بنگلا دیشی غیر قانونی طور پر رہتے ہیں جبکہ وزارت داخلہ کا خیال ہے کہ ان کی تعداد ایک لاکھ ہے۔ سوال یہ ۱۰۰ گنا کا فرق کیوں ہے؟ ویسے اگر ایک لاکھ بھی ہوں تب بھی ۲۰۱۲؁ میں صوبے کی آبادی ۶ کروڈ ۸۹ لاکھ تھی اب تو ممکن ہے سات کروڈ پچاس  لاکھ  سے تجاوز کرچکی ہوگی۔امت شاہ صاحب کو ایک ہزار بنگلا دیشیوں کی فکر ستاتی ہے لیکن پاکستان سے آکر بسنے والے ۲۵ ہزار ہندو مہاجرین کا خیال نہیں آتا اور وہ اس بابت لب نہیں کھولتے۔ کیا یہ ووٹ بنک کی سیاست نہیں ہے؟ حیرت ہے کہ یہ پہاڑ جیسی  غلطی عدالتِ عظمیٰ کو نظر  نہیں آتی  اور وہ  امت شاہ کی  شرارت کو نظر انداز کردیتی ہے۔ جس طرح پرتیک ہجیلا سے  پوچھا  جاتا ہےکہ آپ کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے کہ تازہ دستاویز  جمع کی جائیں؟ آپ نے یہ کیسے کہا کہ کافی مواقع  دیئے جائیں  گے؟ امت شاہ سے کوئی سوال نہیں ہوتا۔ عدالت کو ہجیلا کے اخباری بیان پر اعتراض تو ہوتا ہے مگر امت شاہ کی تقاریر پر نہیں ہوتا۔

 عدالتِ عظمیٰ  نے جس طرح پرتیک  ہجیلا کے بیان  کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سماعت شروع کی اگر اسی طرح  امت شاہ کی بھی گرفت کرتی تو وہ ۴۰ لاکھ شہریوں  کو ابھی سے  تارکین وطن قرار دے کر اپنی پیٹھ  نہیں تھپتھپا تے۔ ہجیلا اگر توہینِ  عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں تو امت شاہ  نے عوام کے حقوق پامال کرکے دستور کی توہین کا ارتکاب کیا ہے اور ان پر لگام کسی جانی چاہیے۔ عدالت سے بجا طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے میں بڑے اور چھوٹے مراتب کا فرق نہیں کرے گی۔ امت شاہ جیسے مردِ ناداں سے یہ توقع کرنا  کہ وہ پرتیک ہجیلا کی ڈانٹ  ڈپٹ سے عبرت پکڑیں گے دیوانے کا خواب ہے۔ ایسے خودسر اور مغرور  لوگوں پر زبان نرم نازک بے اثر ہوتی ہے۔ عدالت کی اس کارروائی کے بعد جب   پرتیک ہجیلا اپنا موازنہ امت شاہ سے کرتے ہوں گے  تو انہیں اپنے میں ان لوگوں میں جن کا نام این آر سی میں آنے سے رہ گیا کوئی فرق نہیں نظر آتا ہوگا۔ ان کی حالت زار پراکبر الہ بادی کا یہ  شعر صادق آتا ہے کہ؎

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام   

  وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔