تعدد ازواج کے مسئلہ کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

دین اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظام میں انسانی طبائع، بشری تقاضوں، میلانات اور رجحانات کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ اس کا ہر حکم وفرمان نہ صرف مبنی بر مصلحت و حکمت ہے بلکہ غایت درجہ معتدل، متوسط اور افراط و تفریط سے پاک بھی ہے۔انہی امور میں سے ایک مسئلہ تعدد زوجات کا بھی ہے جس پر بعض جدید ذہن رکھنے کا دعوی کرنے والے کج فہم حضرات بے جا اعتراضات کر رہے ہیں اور نیشنل میڈیا میں اس مسئلہ کو غیر ضروری طور پر اچھالا جارہا ہے باوجود اس حقیقت کے کہ تعدد ازواج اسلام کا دیا ہوا کوئی نیا نظام نہیں ہے بلکہ یہ زمانہ قدیم سے تقریباً ہر مذہب کا حصہ رہا ہے۔ تعدد ازواج حضرات سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا یعقوبؑ، سیدنا دائود، سیدنا سلیمان، سیدنا موسیٰؑ، تاجدار مدینہ سیدنا محمد مصطفی ﷺ جیسے جلیل القدر انبیاء و مرسلین کی سنت رہی ہے۔ سابق شرائع اور امتوں میں کثرت ِازواج کی اجازت تھی۔

 زمانہ جاہلیت میں تو مرد حضرات کو لاتعداد نکاح کرنے کی اجازت تھی جس کا لوگ غلط فائدہ اٹھاتے اور مالدار مگر بدصورت یتیمہ بچیوں کے کفیل و سرپرست ان سے نکاح کرتے اور ان کی دولت اپنے نام منتقل کرنے کے بعد بے رغبتی کی وجہ سے ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے اور ان کا مال دیگر ازواج پر خرچ کرتے یا انہیں طلاق دیکر زوجیت سے خارج کردیتے۔ علاوہ ازیں ان یتیمہ بچیوں سے شادی کرنے کے بعد انہیں حقوق زوجیت سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ معاشرے کو اس ناسور یعنی یتیمہ بچیوں کودھوکہ دہی سے بچانے، ان کے حقوق کی پاسداری کرنے اور اس مسئلہ کے مستقل تدارک کے لیے دین اسلام نے مسئلہ تعدد ازواج میں ترمیمات، اصلاحات کرنے کے بعد عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ تعدد زوجات کو چار تک محدود کردیا۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اسلام نے چار شادیاں کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ چار کی حد سے تجاوز کرنے سے منع فرماکر معاشرہ میں رائج سماجی مسئلہ کا سد باب اور خواتین بالخصوص یتیمہ بچیوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے۔

جیسا کہ اس آیت پاک سے مترشح ہورہا ہے۔ رب کائنات ارشاد فرماتا ہے ترجمہ: اور اگر ڈرو تم اس سے کہ نہ انصاف کرسکوگے تم یتیم بچیوں کے معاملہ میں (تو ان سے نکاح نہ کرو) اور نکاح کروجو پسند آئیں تمہیں (ان کے علاوہ دوسری) عورتوں سے دو دو تین تین اور چار چار اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہوکہ تم ان میں عدل نہیں کرسکوے گے تو پھر ایک ہی‘‘ (سورۃ النسآء آیت 3)۔ یعنی اتنی عورتوں سے نکاح کرو جن کا خرچہ تم خود اٹھا سکتے ہو یتیمہ بچیوں کا مال ہڑپنے کی نوبت نہ آئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یتیمہ بچیاں جو اپنے سرپرستوں کی نگرانی میں ہوا کرتی تھیں ان کے سرپرست ان کے مال اور جمال کی وجہ سے ان کو اپنی زوجیت میں لے لیتے اور باپ کا سایہ اٹھ جانے کے بعد کیونکہ ان کے حقوق کا محافظ اور ان کے دُکھ درد میں ان سے ہمدردی کرنے والا کوئی نہ ہوتا اس لیے عام طور پر نہ تو ان یتیمہ بچیوں کے ساتھ نکاح کرتے وقت ان کو ان کی حیثیت کے مطابق مہر دیا جاتا اور نہ نکاح کے بعد ان کے حقوق ادا کیے جاتے۔ اس لیے اللہ تعالی نے یہ حکم نازل فرمایا کہ جب تمہیں اندیشہ ہو کہ تم ان بے سہارا بچیوں کے حقوق کی نگہداشت نہیں کرسکوگے تو ان کے ساتھ نکاح نہ کرو بلکہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں چار تک نکاح کرسکتے ہو۔ (تفسیر ضیاء القرآن)

 پیر طریقت حضرت العلامہ ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی حفظہ اللہ تعالی سجادہ نشین بارگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی محققؔ امام پورہ شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اسلام میں مرد حضرات کے لیے چار شادیاں اس لیے مباح نہیں کی گئیں کہ وہ جنسی جذبات کی تسکین، نفسانی خواہشات کی تکمیل اور صنفی تلذذ حاصل کرے بلکہ دینی، معاشرتی اور سماجی مصالح جیسے مطلقہ خواتین اوربیوائوں کا سہارا بننے اور یتیم بچوں کی کفالت کی ذمہ داری سنبھالنے کی غرض سے انہیں یہ اختیار دیا گیا ہے تاکہ جرائم سے پاک نیک اور صالح معاشرے کی تشکیل عمل میں آسکے‘‘۔

ایک تحقیق کے مطابق خواتین کی شرح پیدائش مرد حضرات سے زیادہ ہوتی ہے۔ ہر شخص خاتون سے نکاح کرنے کے بعد جو خواتین بن بیاہی رہ جاتی ہیں ان کے سامنے تین ہی راستہ ہوتے ہیں یعنی (1) زندگی بھر نکاح نہ کریں جو کہ غیر فطری امر ہے (2) ناجائز طریقہ سے اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرے جس کا تصور کسی بھی مہذب سماج میں نہیں کیا جاسکتا (3) شادی شدہ مرد سے نکاح کرلے جو عدل و انصاف کے ساتھ ازدواجی ذمہ داریاں نبھانے کا اہل ہو۔ ان تینوں صورتوں میں آخری صورت ہی ایسی ہے جو کسی بھی غیرت مند عورت کے لیے پسندیدہ صورت ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی زوجہ بانجھ واقع ہوئی ہے تو عموماً مرد حضرات ایسی خواتین کو طلاق دے کر دوسری خاتون سے نکاح کرتے ہیں اور پہلی بیوی دوسروں کے رحم و کرم پر پوری زندگی گذارنے کے لیے مجبور ہوجاتی ہے ایسے ہی معاشرتی مسائل کو معقول انداز میں حل کرنے کے لیے شریعت نے تعدد ازواج کی رخصت مرحمت فرمائی ہے۔ جنگ احد میں 70 صحابہ کرام شہید ہوچکے تھے جن میں نمایاں نام تاجدار کائنات ﷺ کے عم محترم حضرت سیدنا حمزہؓ کا ہے۔

 اس کے دوسرے معنی یہ تھے کہ ان کی بیویاں بیوہ اور ان کے بچے یتیم ہوچکے تھے یہ ایک سنگین مسئلہ مسلمانوں کو درپیش تھا ایسے سنگین حالات میں اس معاشرتی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے قرآن مجید نے تعدد ازواج کی مشروط اجازت دی ہے۔ ہمیں یہاں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ شادی عاقدین (یعنی دولہا اور دلہن ) کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں اگر کوئی خاتون معلوم ہونے کے باوجود دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی بننے کے لیے تیار ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ نکاح اس کے حق میں ظلم نہیں بلکہ اس کی ایک اہم معاشرتی ضرورت کی تکمیل کا سبب ہے تب ہی تو وہ برضا و رغبت یہ قدم اٹھارہی ہے۔ ہندوستان جیسے عظیم تہذیب و تمدن والے ملک میں بغیر رشتہ ازواج سے منسلک ہوئے آشنا خواتین سے جنسی خواہشات کی تکمیل کا رواج آہستہ آہستہ عام ہورہا ہے جس کو عام زبان میں Live-in-Relationship کہا جاتا ہے۔نفسانی آوارگی، حرارت شہوانیہ اور مہیجاتِ نفسانیہ سے مغلوب نوجوان نسل سفاح (معاشقہ) کی تیزی سے شکار ہورہی ہے۔

اس طرح کے رشتہ میں نہ لڑکے پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ لڑکی کو اختیار رہتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے حقوق کا مطالبہ کرسکے۔ اس رشتہ سے پیدا ہونے والے ناجائز بچوں سے نہ صرف معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ یہ بچے ریاستی و مرکزی حکومت کے کیے درد سر میں اضافہ کا سبب بن جاتے ہیں چونکہ ان کے لیے یتیم خانوں کی تعمیر کرنا پڑے گا، وہاں قیام پذیر بچوں کو غذا و تعلیم کے لیے انتظام کرنا پڑے گااگر ایسا نہیں کیا گیا اور ان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے تو پھر مہذب سماج میں جرائم کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے گا جس کی وجہ سے ہر شہری کا جینا محال ہوجائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا ہم ا س اہم و سنگین مسئلہ اور لا محدود ناجائز تعلقات والے اس قبیح فعل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے لیکن مسلم دشمنی کے تعصب نے مخالفین اسلام کو اس قدر اندھا بنادیا کہ وہ اس حساس مسئلہ کو یکسر نظر انداز کرکے اس مسئلہ یعنی تعدد زوجات پر بحث و مباحثہ کررہے ہیں جس کا عملاً وقوع پذیر ہونا بہت ہی شاذ و نادر ہے۔ ایسے مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے جنہوں نے بیک وقت چار شادیاں کیں ہوں۔

 ہندوستان میں تعداد ازواج کے مسئلہ پر وہ لوگ سب سے زیادہ اعتراض کررہے ہیں جن کے مذہبی رہنمائوں یعنی شری رام چندر جی کے والد کی تین، شری کرشن جی کی اٹھارہ اور راجہ پانڈو کی دو بیویاں تھیں۔ علاوہ ازیں یہ لوگ اسی مذہب کو ماننے والے ہیں جن کے پاس ’دروپدی‘کا تصور ملتا ہے جو پانچ پانڈوئوں کی مشترکہ اہلیہ تھیں۔ ان چشم کشا حقائق کو بیان کرنے کا قطعی مقصد یہ نہیں کہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹہیس پہنچائی جائے ایسا کرنا سراسر تعلیمات اسلامی کے مغائر ہے اس حقیقت کو بیان کرنے کا صرف اور واحد ہدف ان لوگوں کے تعصب کو ظاہر کرنا ہے جو بلا وجہ و معقول دلیل تعدد ازواج کے مسئلہ پر اعتراضات کررہے ہیں۔

 آج کے اس برق رفتاری سے بڑھتے ہوئے مہنگائی کے دور میں ایک نکاح کے اخراجات اور ذمہ داریاں نبھانا ہی از خود مشکل امر بن گیا ہے تو ایسے حالات میں عدل و انصاف کے ساتھ چار چار نکاح کرنے کا امکان کہاں باقی رہ جاتا ہے؟ آج کے دور میں ایک آدمی کو ایک ذاتی گھر بنانے میں عمر لگ جاتی ہے اگر کسی کی چار بیویاں ہوں اور ہر ایک علاحدہ مکان کا مطالبہ کرے تو وہ کہاں سے پورا کرے گا؟ ہندوستان کے بعض فرقہ پرست ذہنیت کے حامل اور مخالفین اسلام تعدد ازواج کے مسئلہ پر دوسرا غیر ذمہ دارانہ الزام یہ لگاتے ہیں کہ مسلمان چار چار شادیاں اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اکثریت میں آجائے اور غیر مسلموں پر اپنا تسلط جمالے۔ مخالفین اسلام کے اس اعتراض سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ انہیں خواتین سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اصل مدعی یہ ہے کہ انہیں حکومت ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خدشہ ستارہا ہے۔مخالفین اسلام کا مذکورہ بالا الزام سراسر غلط ہے۔جنگ بدر اور میدان کربلا میں اسلام کو ماننے والوں کی تعداد مخالفین سے بہت کم تھی یعنی مسلمان اقلیت میں اور مخالفین اکثریت میں تھے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے کامیابی و کامرانی کی عدیم النظیر تاریخ رقم کرتے ہوئے حکومتیں قائم کیں جو آج بھی سنہری لفظوں میں مرقوم ہے۔

ہندوستان پر جب مسلمانوں نے حکومت کی تھی اس وقت بھی مسلمان اقلیت میں اور غیر مسلم اکثریت میں تھے۔ اسلام میں مخصوص حالات میں مشروط تعدد ازواج کی اجازت کے پس پردہ کوئی سیاسی محرکات نہیں ہے جیسا کہ مخالفین اسلام کی جانب سے باور کروانے کی بار بار کوشش کی جارہی ہے بلکہ تعداد زوجات کا مقصد وحید سماجی برائیوں کا تدارک ہے اور کچھ نہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سخت قیودات سے مقید اور سنگین شرائط سے مشروط دین اسلام میں چار شادیوں کی رخصت مغرب کے مکارانہ اور فریب دہندہ تعداد ازواج سے کہیں زیادہ بہتر اور شائستہ ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔