امت مسلمہ اور عصری چیلنج

 امت مسلمہ کو بلکہ ہر مسلمان ملک کو آج ایک انتہائی سنگین چیلنج درپیش ہے۔ مسلمان اس چیلنج سے کس طرح عہدہ برآ ہوتے ہیں ،اسی  پر اس بات کا انحصار ہے کہ اس کا مقدر عزت و سربلندی ہوگا یا ذلت و غلامی۔ وہ اپنی تہذیب کی نقشہ گری اپنے ایمان و اقدار اور تصورات کے مطابق کریں گے یا انھیں خود کو نقش فرنگ میں رنگنا ہوگا؟ وہ اپنے انتہائی قیمتی وسائل و ذرائع سے خود ترقی کی منازل طے کریں گے یا ان کا دسترخوان دنیا کی بھوکی قوموں اور لوٹ کھسوٹ کیلئے ایک تر نوالہ بنا رہے گا؟

 چیلنج کا ادراک : یہ چیلنج اندرونی بھی ہے اور بیرونی بھی، لیکن دونوں در اصل ایک ہی چیلنج کے دو پہلو ہیں ۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں کیا جاسکتا اور ایک کا مقابلہ دوسرے کو نظر انداز کرکے کرنا ممکن نہیں ۔ ایک طرف دنیا کی غالب مغربی طاقتیں اور ان کی حلقہ بگوش قومیں ہیں ۔ ان طاقتوں نے اسلام اور مسلمانوں کو اپنے لئے مستقبل کا سب سے بڑا خطرہ قرار دے لیا ہے۔ اسی لئے وہ ان کو مغلوب رکھنے اور اپنے رنگ میں رنگنے کو اپنا اولین ہدف بناکر کام کر رہی ہیں ۔ یہ طاقتیں ہر قسم کی سیاسی، عسکری، فنی، معاشی اور ابلاغی قوتوں سے لیس ہیں ۔ مسلمانوں کی قوتوں کا ان کی مذکورہ قوتوں سے کوئی تناسب ہی نہیں ۔ ان قوتوں کے بل پر مغربی طاقتوں نے مسلمان ممالک کو ایک ایسے عالمی شکنجے میں کس لیا ہے،خصوصاً خلیجی جنگ [1991ء اور پھر نائن الیون] کے بعد تادم تحریر کسی ملک کی یہ مجال نہیں کہ ان کی مرضی، ان کے عزائم اور ان کے مفادات کے خلاف ذرا سی بھی جنبش کرسکے۔

 پہلے وہ صرف فضا میں اڑنے والے ہوائی جہازوں کی مدد سے سن گن لے سکتی تھیں ، ان کا کوئی فوجی اڈا نہ تھا، ان کی فوجوں کے موقعہ واردات پر پہنچنے کیلئے ہفتوں کی مدت درکار تھی۔ اب مشرق وسطیٰ [پاکستان اور وسطی ایشیا] کی زمین پر ہر کونے میں ان کا ایک فوجی اڈا موجود ہے اور پلک جھپکنے میں ان کی فوجیں جہاں کارروائی ضروری ہو، وہاں پہنچ سکتی ہیں ۔ سیاسی طور پر تقریباً ہر مسلمان ملک عدم استحکام کا شکار ہے، جس کی آگ سلگائے رکھنے میں مغربی طاقتوں کا بڑا حصہ ہے۔ عدم استحکام کے اس آتش فشاں پر زمام کار سنبھالے ان کا کوئی نہ کوئی مہرہ بیٹھا ہوا ہے، کچھ اس آتش فشاں کے پھٹ پڑنے کے ڈر سے اور کچھ اپنی طبیعت اور مزاج کی رغبت کی بنا پر، یہ سنہرے ان طاقتوں کا ہر حکم بجا لانے کیلئے دست بستہ تیار ہیں ۔ معاشی طور پر عالمی بینک، عالی مالیاتی فنڈ (IMF)، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)، اقتصادی بائیکاٹ وغیرہ جیسے ہتھیاروں سے، انھوں نے ہر ملک کو اپنا محکوم بنا رکھا ہے۔ ان اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ریاستی خود مختاری کو ایک حرفِ بے معنی بنا دیا ہے۔

 مغربی حکمت عملی:ابلاغی قوتوں کے ذریعے وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرسکتے ہیں ۔ اپنی ان قوتوں کو مغربی طاقتیں صرف اپنے سیاسی و معاشی مفادات آگے بڑھانے ہی کیلئے استعمال نہیں کر رہی ہیں بلکہ تہذیبی و ثقافتی غلبے کیلئے کھلم کھلا استعمال کر رہی ہیں ۔اپنے تصور کے مطابق ناپسندیدہ حکومتوں کا تختہ الٹنے کیلئے ’’خفیہ‘‘ کارروائیوں سے بھی انھیں کوئی عار نہیں (خواہ وہ بالکل آشکار ہوں ) اور ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر بین الاقوامی اچھوت بنانے کی تلوار بھی وہ ہر وقت لہراتی رہتی ہیں ۔

عراق کا بائیکاٹ، ایران کا اقتصاری بائیکاٹ اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے بجٹ، سوڈان کا بائیکاٹ اور اس کو الٹی میٹم، چیچنیا میں مسلمانوں کے قتل عام پر مکمل خاموشی، بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی، عصمت دری اور تباہی و بربادی کی کھلم کھلا پشت پناہی اور پھر ایک ایسے معاہدے کو مسلط کرنا، جس میں قاتل و خونی سر آنکھوں پر بٹھائے جارہے ہیں ۔ فلسطین میں خود فلسطینیوں کے ذریعے جدوجہد آزادی کا استیصال، پاکستان پر توہین رسالتؐ، جیسے قوانین کے انسداد کیلئے دباؤ، سلمان رشدی جیسے شاتم رسول کے خلاف آیت اللہ خمینی مرحوم [م: جون1989ء] کے فتویٰ کو ختم کرنے کیلئے ایران پر ساری سیاسی و تجارتی قوت کا دباؤ … یہ صرف چند نمونے ہیں مسلمانوں کے خلاف مغربی طاقتوں کی یلغار کے۔

  تاریخ کا سفر:  دوسری طرف مسلمان ہیں ۔ تین سو سال کی غلامی سے تن ہمہ داغ داغ اور سارا جسم زار ونزار ہے۔ خود وہ حکمراں ، جو مغربی طاقتوں کی شطرنج کے پیادوں کا کام کر رہے ہیں ، اسی غلامی کا ورثہ ہیں ۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی بھی انہی کا ترکہ ہے۔ مغرب کا تعلیمی اور ثقافتی غلبہ بھی اسی دور کی یادگار ہے اور تعلیمی و علمی پس ماندگی بھی انہی کے منصوبوں کا نتیجہ۔ چنانچہ آج مسلمان ہر جگہ افتراق، انتشار، محاذ آرائی اور باہم خوں ریزی کا شکار ہیں ۔ ایک طرف حکمراں اور عوام، دوسری طرف قوموں کے دیگر طبقات باہم متصادم ہیں ۔ اندرونی محاذ آرائی میں بہترین انسانی وسائل ضائع ہورہے ہیں اور مادی وسائل رائیگاں جارہے ہیں ۔

 لیکن مسلمانوں کے مسائل کی ساری ذمہ داری اغیار کے سر ڈالنا صحیح نہیں ۔ اگر تین سو سال پہلے مغربی اقوام نے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کی تقریباً ساری مسلمان حکومتوں کو سرنگوں کرلیا تو اس کی اصل وجہ مسلمانوں کی اپنی کمزوریاں تھیں اور اگر آج مغربی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہورہی ہیں تو اس کی بھی اصل وجہ مسلمانوں کی اپنی کمزوریاں ہیں ؛ چونکہ وہ بے مقصد بے سمت ہیں ، اس لئے متفرق و منتشر ہیں اور کیونکہ کوئی سمت نہیں ہیں ، اس لئے جوش و ہوش اور حکمت و ولولے کے ساتھ سرفروشانہ جدوجہد اور قوتِ عمل سے تہی دامن ہیں ۔

 آج کے اس سنگین چیلنج کا جواب دینے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے سامنے ہمارا لائحہ عمل واضح ہو۔ اس مقصد کیلئے گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے اور غور و فکر کیلئے ایک مناسب ایجنڈا بھی ضروری ہے۔ پہلے قدم کے طور پر ہم ان نکات کا تعین کرنا چاہتے ہیں ، جن پر غور و فکر یہ ایجنڈا اور لائحہ عمل تیار کرنے کیلئے ناگزیر ہے:

(1  مغرب کا صلیبی مزاج: اسلام اور مغرب کے درمیان کشمکش کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی جزیرہ عرب میں ظہور کے بعد اسلام کی تاریخ۔ مغرب سے ہماری مراد مغرب کی عیسائی سیکولر تہذیب ہے، جو ماضی میں بظاہر بالکل عیسائی اور ایک چرچ کے ماتحت ہونے کے باوجود ایک سیکولر تہذیب تھی اور آج بظاہر بالکل سیکولر ہوجانے کے باوجود اندر سے ایک عیسائی تہذیب ہے ۔ مغرب سے ہماری مرادی وہ مغربی حکومتیں اور طاقتیں بھی ہیں جو کسی نہ کسی طور مسلمانوں سے آویزش و پیکار میں مشغول رہیں ، خواہ بحیرہ روم کے ساحلوں پر، یا خود یورپ کی سر زمین پر، اسپین (وسط فرانس تک) سسلی اور مشرقی یورپ (وسط جرمنی) میں ۔

 آج اہل مغرب کے ذہن میں اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر ہے، ان کے خلاف دشمنی اور تعصب و مزاحمت کی ان کی جو نفسیات ہے اور ان کے پروپیگنڈے کے جو نکات اور اسلوب ہیں ، ان سب کی جڑیں اسی تاریخ میں پائی جاتی ہیں ؛ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ’’کل‘‘ اور ’’آج‘‘ میں کوئی بڑا فرق نہیں واقع ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ رسالت محمدیؐ کا معاملہ ہو، تشدد اور جنگ جوئی کا الزام ہو، عورتوں کے مقام کا مسئلہ ہو، یہ سب اسی تاریخ کا ورثہ ہیں ۔

  اس تاریخ کا اور تاریخ کے اس دور میں مغرب میں نے اسلام کی جو تصویر بنائی اور اس کے خلاف اس کی نفسیات کی جو تشکیل ہوئی، ان سب کا مطالعہ اور تعین سب سے پہلا کام ہونا چاہئے۔ ساتھ ہی اس صورت حال کے اسباب کا کھوج لگانا بھی ضروری ہے۔ ان اسباب میں جہاں حق ہو، وہاں اپنی غلطیوں کے اعتراف میں بھی کوئی تامل نہ ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ خود احتسابی اور استغفار کو امت مسلمہ کا سب سے نمایاں شعار بنایا گیا ہے۔

 (2  مغربی د ورِ تسلط کا حقیقت پسندانہ مطالعہ: اس تاریخ کا پہلا باب ایک ہزار سال تک کا وہ دور تھا، جب اسلام مغرب کیلئے خطرہ بنا رہا ۔ اس کے بعد تاریخ کا ورق پلٹا اور مغرب نے بالاتری حاصل کی۔ پھر دو سو سال میں وہ اس مقام پر پہنچ گیا کہ 1920ء میں ترکی، سعودی عرب [حجاز]، یمن اور افغانستان کے چار چھوٹے چھوٹے بظاہر آزاد ممالک کے علاوہ کوئی مسلمان ملک مغرب کے تسلط سے آزاد نہ تھا۔ اس صورت حال کے تین پہلو ہمارے غور و فکر کے محتاج ہیں ۔

  ایک یہ کہ مغرب کے تسلط کے اس دو رمیں مسلمانوں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ جو کچھ کھویا اس پر بہت کچھ بولا اور لکھا گیا ہے، لیکن یہ پہلو اب بھی مزید تحقیق و تنقیح چاہتا ہے تاکہ جذبات سے بالا ہوکر واضح طور پر متعین ہوسکے کہ جسد ملی کو کس کس پہلو سے کیا زخم لگے۔ نفسیات اور سوچ میں کس طرح بگاڑ پیدا کیا گیا۔ اپنے علوم اور تعلیم سے رشتہ کاٹا گیا، بے معنی و بے مقصد اور لاحاصل تعلیم سے رشتہ جوڑا گیا۔ اداروں کو تباہ کیا گیا، نئے ادارے جو اقدار و ثقافت سے مغائرت پر مبنی تھے، قائم کئے گئے۔ ذہن و فکر کو مغرب کا غلام بنایا گیا۔ اسلام کے بارے میں ریب و تشکیک اور احساس کمتری کو فروغ دیا گیا۔ اسی طرح یہ بھی تعین کرنا ضروری ہے کہ جو کچھ نقصان پہنچایا گیا وہ کن طریقوں سے پہنچایا گیا۔

 کوئی تہذیبی تبادلہ یک طرفہ نہیں ہوتا اور اس سے انکار ممکن نہیں کہ مغرب کے تسلط کے اس زمانے میں مسلمانوں نے کچھ پایا بھی ہے۔ تصادم اور دشمنی کی فضا میں اس پہلو سے سوچنا بھی مشکل ہوتا ہے، کجا کہ اس کا اظہار، لیکن اس کا بھی تعین ضروری ہے۔ پھر یہ بڑے بنیادی سوالات ہر مسلمان صاحب دانش کے غور و فکر کے محتاج ہیں :

  مغرب کے اس غلبے کے اسباب کیا تھے؟

   مغرب کی وہ کیا خوبیاں تھیں اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی کیا کمزوریاں تھیں ، جن کے نتیجے میں یہ تسلط حاصل ہوا؟

   مغرب نے جو کاری زخم لگائے اور نقصان پہنچایا، اس میں وہ کیوں کامیاب ہوا؟

 مسلمانوں نے مغرب کے تہذیبی، فکری اور سیاسی غلبے کو روکنے کیلئے کیا حکمت عملیاں اور تدابیر اختیار کیں ؟ ان میں کیا خوبیاں تھیں اور کیا خامیاں ؟ ان میں کہاں تک کامیابیاں ہوئیں اور کیا ناکامیاں ہوئیں ؟ اور ان کے اسباب کیا تھے؟

 آج مغرب کی اس وقت سے کہیں زیادہ بھر پور یلغار اور اس کے مقابلے کیلئے مسلمانوں کی موزوں حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے، ان تمام پہلوؤں کے بارے میں علم کی ضرورت ہے۔ (جاری)

تحریر: انجینئر خرم مرادؒ … ترتیب: عبدالعزیز  

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔