امت مسلمہ کا المیہ اور نجات کا راستہ

الطاف جمیل شاہ ندوی

دورِ حاضر کا المیہ یہ ہے کہ امت مسلمہ میں اکثر احساسِ برتری، تکبر و تنگ نظری بدگوئی کے رجحانات کے پنپنے کے سبب نے ملت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ ہر کوئی انانیت کا شکار ہے۔ کم قابلیت مگر زیادہ ڈگریاں رکھنے کا تصور خودی کو پامال کر رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ میں ماہرِ تعلیم ہوں، میں ماہرِ تنقید ہوں حالانکہ اس طرح کی صلاحیتوں سے بہت دور ہیں۔

اسلام کے نام کی روٹی کھاتے ہوئے بھی اسلامی مزاج و کردار سے دور بہت دور اسلام کی بقاء و فروغ کی باتیں کرنے کے بجائے اس کی تجہیز و تکفین کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اسلام تو سکھاتا ہے کہ مسلم وہ ہے جو دوسروں کے محاسن پر نظر رکھے، قدر شناسی اور اکرام مسلم کرے، خود کو کمتر اور دوسروں کو برتر سمجھے۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہاں ہر کوئی دوسرے سے برتری کی کوشش میں محوِ پرواز ہے۔ انسان کی صحیح عکاسی اس شعر سے کیا جا سکتا ہے۔

ہر کوئی کہتا ہے میں ہوں دوسرا کوئی نہیں
اس صدی کا اس سے بڑھ کر حادثہ کوئی نہیں

حدیث شریف میں آیا ہے کہ سبھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک بھائی کا اخلاق و کردار جب تک دوسرے بھائی کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوگا، وہ بھائی کہلانے کا کسی طرح بھی مستحق نہیں ہوگا۔ اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ اخلاق کرنے کا درس دیا ہے تاکہ دوسرا کمزور بھائی بھی زندگی امن و سکون کے ساتھ گزار سکے۔ آپسی بھائی چارہ، اخوت و محبت، اتحاد و اتفاق یہ وہ ہتھیار ہیں کہ جس سے ہم دوسروں پر غالب آ سکتے ہیں۔ مگر آج ہم آپس کے انتشار کے سبب دوسروں کے محتاج بنے ہوئے ہیں، ہماری طاقت بکھر چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ہمیں دبانے کی کوشش کررہا ہے، یہاں تک کہ ہمارے اپنوں کے ساتھ مل کر ہمارے ہی لیے خنجر لیے ہماری کی شہ رگ کو کاٹنے پر آمادہ ہیں، اغیار کا شکوہ نہیں ہم اپنوں کی کرم فرمائیوں سے خوف زدہ ہیں، وحشت و درندگی کے وہ کارنامے انجام دے رہے ہیں کہ جن کی مثال بھی ملنا محال ہے۔ بحیثیت مسلم ملت کے ہم کب کے مر گئے ہیں، اب تو انانیت کے بت ہیں یا ان کے پجاری امت مسلمہ جسے اتحاد و اتفاق کا درس دیا گیا تھا، اس قدر بکھر گئی ہے کہ مساجد نمازیں حج و عمرہ کی ادائیگی پر بھی ہماری صفیں نہیں ملتیں، ہمارے لیے عبادات میں جس اتحاد و اتفاق بھائی چارے کا درس تھا، وہ بھی اب قصہ پارینہ بن گیا ہے۔

اسلام نے تو درس دیا تھا کہ گر افریقہ کے صحرا میں کسی مسلمان کے تلوے میں کانٹا چبھے تو اس کی کسک ہم اپنے دلوں میں محسوس کریں۔ پوری دنیا آج مسلمانوں کا مقتل بنی ہوئی ہے، خون مسلم کی ارزانی پر آسماں بھی ماتم کناں ہے۔ عراق لٹ گیا، لیبیا تباہ ہو گیا، شام مسلم کی لاشوں سے بوجھل ہے، کہاں کہاں ندائے مظلوم بلند نہیں ہوتی، کہاں بیٹیوں کی چیخیں بلند نہیں ہوتیں، یتیم و بیوائیں کہاں نہیں سسکتیں، بھوک پیاس کی شدت سے کتنے بچے بوڑھے پیر و جوان ایڑیاں رگڑ رگڑ مرتے ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھیے، اپنے دل و دماغ پر زور ڈالیے، اپنی غیرت سے سوال کیجیے، اپنے ایمان سے سرگوشی کیجیے، اپنی مسلمانی کا واسطہ دے کر اپنے آپ سے پوچھیے، قرآن کریم سنن نبوی علیہ السلام کو پڑھ کر اور اصحاب نبوی علیہ السلام کی داستان عزیمت پڑھ کر سوچیے کہ اپنے بھائیوں کی لاچاری و بیکسی کو سوچ کر کتنی بار آپ کی آنکھوں میں آنسو آئے۔ کتنی بار آپ کی غیرت ایمانی نے آپ کو پکارا کہ آپ اپنے عیش و عشرت کے گہواروں سے نکل کر اپنی مظلوم ملت کے فرزنداں کی مدد کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ ایک سال کی مدت میں آپ نے کتنا وقت اپنی ملت اسلامیہ کے سسکتے بلکتے لوگوں کی خبرگیری کے لیے نکالا، ہفتوں مہینوں کا حساب کیجیے، گزرے لمحات کا حساب کیجیے، ایک بڑی تعداد ہم مسلمانوں میں ایسی ہوگی کہ جس کے پوری زندگی میں دن تو چھوڑے چندگھنٹے بھی اپنے بھائیوں پر صرف نہیں ہوئے ہوں گے، کیا یہ شرم و عار کی بات نہیں ہے۔ کیا آپ بھول گئے اپنے نبی کے فرمان کو کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کیا بھائی ایسے ہوتے ہیں، کیا بھائی بھائی کی خبر گیری، اس کی مدد ،اس کے لیے کچھ نہ کرنے سے بھائی رہتے ہیں، ہرگز بھی نہیں تو سوچیے نا ہم کون ہیں، ہم کہاں ہیں، ہماری ماضی جتنا تابناک ہے، اسی قدر ہمارا حال بھیانک اور وحشت زدہ ہے، مستقبل کی بات نہیں کرنی۔

ہمارا المیہ

آج جس ڈگر پر ہماری زندگی گزر رہی ہے، کیا قرآن و حدیث کا ایسی ہی زندگی گذارنے کا ہم سے مطالبہ ہے؟ کیا ہم اس طرح کی زندگی گزار کر اپنے رب کے یہاں سرخرو ہو پائیں گے۔ آج ہماری زندگی صرف اپنے مفادات اور منافع پر منحصر ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارا مسلمان پڑوسی بھوکوں مر رہا ہو، ہمارے محلے میں یتیم بچے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوں، بیوائیں سسک سسک کر اپنی دکھ بھری زندگی کاٹ رہی ہوں۔ ہمارے محلے میں کوئی مریض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے موت کے انتظار میں ہو، مفلس و قلاش اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوئی سبیل نہ نکال پا رہا ہو، بیواؤں کی جوان بیٹیوں کی جوانی و شادابی مرجھا رہی ہو، ہماری قوم کے ہونہار نوجوان جیلوں کی سلاخوں میں اپنی مسکراتی ہوئی جوانی کو بکھرتی ہوئی دیکھ کر اپنے مستقبل سے مایوس ہوں، کمزور مسلمانوں کے خون سے ہولیاں کھیلی جا رہی ہوں۔ ماؤں اور بہنوں کی عزت تار تار ہو رہی ہوں، یہ ہمارے گردو پیش اور ہمارے محلے اور ہمارے شہر میں ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن ہم اپنی غفلت کے کھول سے باہر نکل نہیں پاتے، تب بھی ہم کو یہ دعوی ہے کہ ہم مسلمان ہیں، اے کاش ہم کو کچھ بھی پیغام محمدی کا پاس و لحاظ ہوتا۔ اے کاش ہم نے رحماء بینھم کا نسخہ اپنے سینے سے لگا رکھا ہوتا اور اس کے مطالبے کو پورا کرنے کا اپنے آپ کو عادی بنایا ہوتا۔ ہائے ہماری تباہی و بربادی کا یوں سرعام تماشہ نہ ہوتا، اب تو صورت حالت ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔

کرنے کا کام

ہمیں چاہیے کہ ایک دردمند دل سینے میں رکھ کر انتہائی پیار و محبت و خلوص سے اسلامی تعلیمات کا نقشہ پیش کریں، اسلام بحیثیت دستور العمل پیش کریں، اسے طرز زندگی کے طور بیان کریں، ہر خواہش، شوق، تمنا، انا کا جنازہ کر کے خود کو اللہ تعالی کے سامنے خود سپردگی کریں، اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت کو اپنی زبان کی زینت بنانے کے بجائے دل کی دھڑکن روح کی تسکین بنا لیں، اصحاب نبوی علیہ السلام کے بتائے اسباق کو روح کی غذا بنا لیں، مطالعہ کتب کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا قرار بنائیں اور دوسروں کے لیے دل میں محبت کے جذبات رکھیں، اختلافی تبصروں مسائل سے بچ کر صرف اللہ تعالی و رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی آبیاری کریں تو یقین کریں دنیا آپ کے قدم چومے گی، بس یکسوئی سے منہاج نبوی علیہ السلام کو دل و جان سے اپنانےکی ٹھان لیں۔

ایک عرض ہے کہ براہ کرم غلو سے بچیں۔ ہمیں غلو کرنے سے نفرت ہونی چاہیے، ہماری اوقات کچھ بھی نہیں، بس امید ہے کہ اللہ تعالی اپنی رحمتوں کا سایہ عطا فرمائے گا، اس لیے خاموشی سے سب کی سنا کریں اور کسی کی دل آزاری کرنا پسند نہ کریں، ہاں یہ اور بات ہے کہ ہر کسی کا کہا کہ لازمی طور ماننا ہمارے لیے کوئی فرائض میں سے نہیں ہے۔

آخری بات

ملت کے عروج اور عزت کی بحالی کے لیے مسلمانوں کا دین سے قلبی و عملی وابستگی ضروری ہے، روحانی تعلق لازمی ہے، والہانہ محبت و احترام کے ساتھ یہ تصور رکھنا عین اسلام ہے کہ تمام مسلمان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں، قرآن کو ایک کتاب ہدایت مانتے ہیں، کعبہ کی طرف رخ کر کے اللہ کی عبادت بجا لاتے ہیں اور تمام مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھ کر اپنے آپ کو امت کا ایک حصہ گردانتے ہیں۔ اسلام دنیا کے تمام انسانوں کو ایک گروہ قرار دے کر اُن کو اللہ کی بندگی اور اطاعت کی طرف دعوت دیتا ہے، لیکن اسلام کی علمبرداری کا دعویٰ کرنے والے کو کہاں یہ زیب دیتا ہے کہ ایک اللہ اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اور قرآن کو رہنما کتاب تسلیم کرنے والے کے خلاف کسی فروعی اختلاف کی بنیاد پر اسلام سے خارج قرار دیں، ان کی گردن اڑانے پر تل جائیں، ان پر ہاتھ اٹھائیں، ان کی تضلیل و تحقیر کریں، ان کی املاک کو نقصان پہنچائیں جو بھی فرد یا گروہ اس قسم کی تبلیغ کرتا ہے، وہ سب سے بڑا جاہل ہے کیونکہ اصلاح کے نام پر فساد پھیلانے کی اسلام کسی کو اجازت نہیں دیتا ہے۔ موجودہ نازک حالات میں مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق سے رہنا ہی سب سے بڑی دعوت اسلامی کا کام ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔