اسلام کے فروغ میں سوشل میڈیا کا کردار

 محمد صادق جمیل تیمی

انسانی احساسات و جذبات کے ارسال و ترسیل، ابلاغ و تبلیغ اور پیغام رسانی کا کام زمانہ قدیم ہی سے ہوتا رہا ہے۔ یہ کام اس زمانہ میں کبوتر، مخبر و ایلچی اور خطوط کے ذریعہ سے لیا گیا۔ قرون مفضلہ کے عہد زریں میں بھی کفار و مشرکین اور وقت کے امرا و شاہان تک دعوت اسلام پہنچانے کے لیے ان وسائل کا استعمال کیا گیا۔ بعد کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ ایک عرصہ درازتک چلتا رہا۔ حالت بدلی۔ وقت نے نیا موڑ لیا۔ گردش ایام کے ساتھ دنیا ترقی کی ایک نئی کروٹ لی۔ اخبارات و رسائل کا دور آیا، جس سے پیغام رسانی کا کام بہت آسان ہوگیا۔ لوگ اب ان کے ذریعہ سے اپنی بات لوگوں تک پہنچانا شروع کیا۔ اس سے جہاں آپسی روابط و تواصل میں اـضافہ ہوا وہیں پردین کی اشاعت و ترویج بھی خاصا آسان ہوگئی۔ اسلام دوست افراد اور اس کی ترویج و اشاعت کے خواہاں اشخاص اپنے اخراجات سے رسائل و جرائد اور مجلات کا اجرا کیا اور کتابیں تالیف کیں۔ شیر پنجاب ثناء اللہ امرتسری کا ’’اخبار اہل حدیث، ، امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا ’’الہلا ل و البلاغ، ، اسی طرح نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کی سینکڑوں کتابیں اس کی کھلی و واضح مثالیں ہیں۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا یہاں تک الکٹرونک دنیا نے انسانی دنیا کو کمپیوٹر جیسی بیش بہا کھلونا دیا جس سے ارسال وترسیل کا کام مزید آسان ہوگیا۔ یکم جنوری ۱۹۸۳ء کو انٹرنیٹ کی ایجادنے اسے ایک قدم آگے بڑھایا اور آن لائن کی دنیا نے ۱۹۹۰ء کے بعد اس وقت ترقی میں چارچاند لگایا جب ماہرین کمپوٹر نے ورلڈ وائیڈ ویب (www)کی ایجاد کامیابی سے حاصل کرلی۔ اس کے ذریعہ سے مختلف ویب سائٹس اور بلاگس بنا کر اس میں مزید سہولتیں پیدا کی گئیں۔ انسانی روابط و تواصل کے لئے نت نئے آلات و سائل مہیا کئے گئے، بند و مسدود راہوں کی قلعی کھول دی گئی۔ اب گھربیٹھے ایک انسان دنیا کی ساری معلومات، دنیا میں رونما واقعات و قوانین او ر ترقیات چشم زدن ہی میں حاصل کرنے لگا۔ ان چیزوں کے اندر جہاں الکٹرونک دنیا کے کمپوٹر، ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ نے آسانیاں پیدا کیں وہیں پر ان سے جڑے چند ایسے سماجی رابطے کے وسائل و ذرائع ہیں جنہیں عرف عام میں سوشل میڈیا کہا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا فیس بک، واٹس ایپ، ٹیوٹر، انسٹاگرام، گوگل پلس اور مختلف بلاگس کو کہتے ہیں۔ ان وسائل و ذرائع سے لوگوں کو ایک ڈگر مل گئی ہے ان پر چل کر بہت کچھ اپنے دین اور اپنی قوم کے لئے کر سکتے ہیں۔ ا ن وسائل سے جہاں ہم متعلقین سے رابطہ کر سکتے ہیں وہیں پر ا ن کے ذریعہ ’’بلغوا عني و لو آیۃ، ، (صحیح ترمذ ی للالبانی :۲۶۶۷)کی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہو سکتے ہیں۔ اس کے صحیح و مناسب استعمال سے ’’أدع الی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و جادلھم بالتی ھی أحسن، ، (النحل :۱۲۵)کا فریضہ بحسن خوبی اور عمدگی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔ اسی طرح ’’Islamic Groups، ، کے نام سے مختلف گروپس بناکر ’’ولتکن منکم أمۃ یدعون الی الخیر یأمرون بالمعروف و ینھون عن المنکر، ، (آل عمران :۱۰۴)پر عمل درآمد ہویا جاسکتا ہے۔ الغرض سوشل میڈیا کے صحیح استعمال سے فروغ اسلام میں کارہائے نمایاں انجام دیا جا سکتا ہے۔

سماجی رابطے کے وسائل و ذرائع میں سب سے کارآمد و مفید ذریعہ فیس بک ہے جس میں دنیا کے تقریبا دو ارب لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ کیلیفورنیا کے شہری مارک زکر برگ اپنے ہارورڈ یونیورسٹی کے ساتھیوں اور ہمنشینوں سے بات چیت کرنے کے لیے ۴فروری ۲۰۰۴ء کو شروع کیا تھا تاہم ان کا یہ ذرریعہ مواصلت لوگو ں کو اتنا پسند آیا کہ چودہ سال کی قلیل مدت میں صارفین کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ اور مرورایام کے ساتھ اس کا استعمال اپنے افکار و خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے کیا جانے لگا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں اس سے بڑے و کبار مصنفین و مترجمین جڑ گیے اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی پذیرائی خوب خوب کی۔ گویا اس نے جدید و قدیم لکھاری، نوآموز قلم کار اور نوواردان صحافت، داعیان اسلام اور مبلغین کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کردیا ہے۔ جس کے توسط سے اسلام کی واضح تعلیمات اور روشن فرمودات کو پورے سلیقے اور خوش اسلوبی کے ساتھ اغیار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ پچھلے چند سالوں میں اس سے کچھ ایسی شخصیات جڑگئے ہیں جو اسلام اور اس کی اشاعت کے تئیں حساس و خیر خواہ ہیں جو اپنی تنظیم یا اسلام کی جانب منسوب ’’Facebook Page، ، بنا کر اپنے مشن میں پوری کامیابی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ زمانے کے تقاضے کے مطابق یہ اچھا قدم ہے کیوں کہ فیس بک کے صارفین اس کے قارئین اور ا س کے لکھاری کی تعداد بھی روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ BBC کی ایک رپورٹ کے مطابق فیس کے صارفین کی تعداد دو ارب تک پہنچ گئی ہے۔ اب اگر ہم وسیع پیمانے میں اس کا استعمال کرکے اس میں اسلامی تعلیما ت اس کے اصول و ضوابط کو دنیا کی زندہ زبانوں میں نشر کرتے ہیں تو گویا ہماری آواز دنیا کے دو ارب افراد تک پہنچے گی، اس اعتبار سے یہ ـذریعہ ہمارے لیے نہایت ہی کارآمد ہے۔ اس وجہ سے نوجوانان اسلام کو اس کا صحیح استعمال کرنا چاہیے اور اسے امت کی بھلائی اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے صرف کرنا چاہیے۔

اسی طرح وٹس ایپ، گوگل پلس، ٹیوٹر، انسٹاگرام، اورمختلف بلاگس و نیوز پورٹل بھی اہم سماجی رابطے میں سے ہیں۔ ما ضی میں جہاں اسلام کے فروغ میں کتب و رسائل کا اہم کردار رہا ہے (جو تاحال برقرارہے )وہیں پر آج کے اس الکٹرنک دور میں اغیار کا اسلام سے مانوس ہونے اور اس کے حکم و مصالح، اسرار و رموز سے واقف ہونے میں سوشل میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ انسان کے دل میں گردش کرتے خیالات و جذبات اور سماج میں پھیلی برائیوں کے لیے اصلاحات پر مشتمل تحریرات و نگارشات کو چند لمحوں میں دوسروں تک پہنچاے جاسکتے ہیں۔ اس کے ذریعہ سے پو پھوٹنے سے قبل ہر نئی صبح قرآن وحدیث کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، ان کے تراجم مع مفاہیم اختصار کے ساتھ نشر کر سکتے ہیں۔ وقت و حالات کی مناسبت سے نئے و جدید مسائل کا حل، شرعی دلائل و براہین اور اپنے درست اجتہادات سے موجودہ دورمیں درپیش بہت سارے پیچیدہ مسائل کے جوابات دے سکتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں سماجی رابطے کے وسائل کے ذریعے مرد و زن کا اختلاط اور ان کے غلط تعلقات سامنے ضرور آئے ہیں تاہم اس کے اچھے اور قابل تحسین نتائج سے چشم پوشی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ وہ آدمی جو معلومات اسلامی کا ذخیرہ لیے گھر میں محبوس تھے، جن کی زبان ان کے علم کی نشر و اشاعت میں حائل تھی آج وہ اللہ کے فضل سے پوری خاموشی کے ساتھ اسلامی احکامات و فرمودات اور تاریخی واقعات و عقائد سے جڑے اہم ابواب کوگاہ بہ گاہ وا کر رہے ہیں۔ ان کا یہ عمل ترویج اسلام اور ا س کی اشاعت کے لیے خوش آئند اور قابل تحسین کہا جا سکتا ہے۔ یہ و ہ افراد و شخصیات ہیں جو صرف اور صرف اسلامیات و دینیات سے پر مسائل کی اشاعت پر انحصار کرتے ہیں۔ رسمی و سطحی ’’Comment، ، (تاثر ) سے اجتناب کرتے ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق پوری دنیا میں سوشل میڈیاکے صارفین کی تعداد ایک ارب آٹھ کروڑ انٹھاون لاکھ اڑسٹھ ہزار چھ سو ساٹھ ہے(1’858’680’860)جس میں سب سے زیادہ صارفین یوروپی ممالک کے ہیں جہاں ۴۶ فیصد صارفین کا ہے۔ اب اگر ہم مذکورہ وسائل و ذرائع کا صحیح اور دنیا کے مختلف زندہ زبانوں میں اسلامی مواد و مـضامین نشر کرتے ہیں تو گویا اسلام کی دعوت اور اس کی آواز اربو ں تک پہنچتی ہے۔ ایسے میں جہاں اس کا صحیح استعمال کرنا ہے وہیں پر دنیا کے مختلف زبانوں میں دسترس حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔ ساتھ میں زبان و بیان کی چاشنی و مٹھاس، بیان و تبیین اور کسی بھی فکر کو پیش کرنے کا دلچسپ و متاثرین کن انداز پر بھی دھیان دینا بھی ناگزیر ہے۔

  اسلام و مسلمانووں کے سب سے بڑے دشمنان مستشرقین اور یہودیوں کے گہرے تعلقات انٹرنیٹ، بلاگس اور سوشل میڈیا سے شروع ہی سے رہے ہیں۔ اس کے ذریعہ اسلام و مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں طرح طرح کی افواہیں، پروپیکنڈے اور تعلیمات اسلامی کو توڑ مروڑ کا پیش کر تے ہیں۔ ا س کا استعمال اپنے مفادات کے لیے کرتے ہیں اوراور اس کا دائرہ کار میں اضافہ کے لیے کثرت سے لوگوں کو جوڑتے ہیں۔ ا س کے برے نتائج ا س وقت بر آمد ہوتے ہیں جب نسل نو کے معصوم صارفین اسلام کے بارے میں کسی بھی چیزکے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو یہودیوں و مستشرقین کے سلجھے اور لچھے دار اسلوب و اندازسے متاثر ہو جاتے ہیں اور اسی کو حقیقی اسلام تصور کرنے لگتے ہیں اوراپنی زندگی کو انہیں کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ ان کا معصوم ذہن اس چیز کا ادراک کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ حاصل شدہ مواد و مضامین افکار خیالات خام اور تعلیمات اسلامی کے بالکل منافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نسل نو کے نوخیز نوجوانان فکری و عقلی انحراف کے زیادہ شکار ہیں اور ان کے ذریعہ سے وہ ان جماعتوں میں بھی اپنی گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں جن کی دین اسلام سخت نکیر کر تا ہے۔

 ایک بات جو بالکل حقیقت کو چھوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں میں بہت سی ایسی جماعتیں ہیں جو اپنی اپنی ویب سائٹس بنا کر اسلام کے بجائے اپنے امام اور اپنے پیر ومرشد کے افکار کو پروان چڑھاتے ہیں اور ان کے نظریاتی و تصوراتی دنیا کی جولانیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اپنے مسلک و مذہب کی تائید و حمایت میں پوری ایڑی چوٹی کا زور لگا تی ہیں۔ اپنے ائمہ و علما کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملاتی ہیں۔ یہ ساری سرگرمیاں اور ان کے یہ اعمال دین و مذہب کے لیے نہایت ہی نقصاندہ ہیں۔ اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایک اسلام کا متلاشی کی علمی تشنگی بجھ نہیں پاتی اور وہ اسی تذبذب میں رہ جاتا ہے اور نفس مسئلہ کو سمجھ نہیں پاتا۔ اسلام کی حقانیت و روحانیت تک رسائی بھی حاصل نہیں کرپاتا۔ اس وجہ سے الکٹرونک دنیا کے ماہرین افراداور علما و وفضلا جوسوشل میڈیا سے اپنا ربط بنائے ہوئے ہیں، اپنی مستعار حیات کے قیمتی اوقات کوسوشل میڈیا کے ذریعہ اسلام کے تئیں متعفن و گدلا اذہان کے تعفن و گدلاپن کو دور کریں۔ تاہم ذیل میں اس کے صحیح استعمال اور ترویج اسلام کے لئے اسے سود مندبنانے کے لئے چند تدابیر پیش خدمت ہیں۔

انٹر نیٹ، بلاگس اور نیوز پورٹل کے بیشتر صارفین غیر مسلموں ہیں اور ان پرمکمل مہارت بھی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے غلط خبریں، ہندوں مسلم فسادات کو بڑھوا دینے والے ویڈیوز نشر کرسکتے ہیں۔ اس پر اپنا رد عمل اور کسی قسم کا کوئی تاثر نہ دیں بلکہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے جس سے خود بہ خود وہ ردی کی ٹوکری میں چلے جائیں گے۔۔ انتہا پسندانہ تنظمیں اور ان کے نظریات سے ہوشیار رہیں۔ انہیں کچھ گھاس بھی نہ ڈالیں۔

سوشل میڈیا کا استعمال اپنے متعلقین و اقربا سے رابطے اور وقت گزاری کے لیے نہ کیا جائے بلکہ ہر نئی صبح و شام اسلام سے جڑے اہم پیغامات کو نشر کیا جائے اور ان پیغامات کو زیادہ سے زیادہ نشر کرنے کے لیے مختلف افراد سے روابط رکھے جائیں۔ ا س کے لیے سوشل میڈیا کے ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو ہمیشہ اپنے اہداف و مقاصد میں لگے رہیں اور اس میں نشر کیے گئے مفاسد پر نظر رکھیں۔

اس میں کبھی ایسی تحریر یا نگارش شئیر نے کی جائے جس کا خمیازہ بعد میں اسلام و مسلمانوں کو اٹھانا پڑے، جس کے نتیجے میں دنیا کے سامنے اسلام ومسلمانوں کی شبیہ بگڑ جائے۔ صارفین سوشل میڈیا انجانے یا عدم علم کی بنا پر اسلام کے تعلق سے کبھی کوئی غلط فکرہ نہ ڈالیں بلکہ ہمیشہ اسلام کو واضح و سلجھے ہوئے انداز میں پیش کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ میں عقائد سے جڑے مسائل بہت ہی کمیاب ہیں اس وجہ نوجوانان نسل جو کمپوٹر و موبائل کے ماہر ہیں وہ علما و دعاۃ کی مدد لے کر اللہ کی وحدانیت، مسائل توحید، اسما و صفات کے اثبات میں قرآن و حدیث کی دلائل و براہین اسی طرح عقائد کے باب میں گمراہ فرقوں کے اعتقادات اور ان کے موشگافیوں کا علاج جیسے اہم موضوعات پر اپنے اشہب قلم کو حرکت دے کر مضامین تیار کریں اور سوشل ویب سائٹس پر نشر کرکے  اس خلا کو پر کریں اور سعادت دارین کی حصول میں اپنا نام ثبت کریں۔

سوشل میڈیا میں کچھ عریاں تصاویر و و یڈوز ووغیرہ خوب سرکیولیٹ ہو رہے ہیں جو ایک مہذ ب معاشرہ کے اقدار کے خلاف ہے۔ اسلامی معاشرے کی بہت ساری ایسی چیزیں جن کی پردہ داری بے حد ضروری ہے آج ان وسائل کے ذریعہ سے ان پر سے پردہ اٹھ رہا ہے۔ چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے اسلامی اصول پر مبنی ویڈوز بنا کر اس کا جواب اوراس کی اصلاح سلیقے کی جائے اور دینی معاشرہ کا تانا بانا کو بکھیرنے سے بچایا جائے۔

 قصہ مختصر یہ ہے کہ فروغ اسلام اور اس کی اشاعت میں سوشل نیٹ ورک سائٹس کا بہت بڑا کردار اور اچھے نتائج کے امکانات ان کے صحیح استعمال پرانحصار ہیں۔ سماج کا ہر تعلیم یافتہ فرد اسی فکر میں میں لگ جائیں کہ ان وسائل کے ذریعہ ہر دن اسلامی تعلیمات و پیغامات اغیار تک پہنچا ئیں گے تو پھر یہ کام آسان ہوجائے گا جب تک اس کو اجتماعی طور پر انجام نہ کیا جاے تو اس میں خاطر خواہ فوائد سامنے نہیں آسکتے۔ کیوں کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ اس وجہ سے نسل نو جوانان و علما و فضلا اس جانب توجہ دیں اور اس کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ اسلام کی ترویج و اشاعت میں حصہ لے کر اپنی شراکت کا ثبوت دیں۔ اللہ ہمیں حسن عمل کی توفیق دے۔ (آمین )

تبصرے بند ہیں۔