امریکہ  سے سمجھوتے  اور  انیمی  پراپرٹی  آرڈینینس- حُبّ علی  یا بغض معا ویہ؟

تسنیم  کوثر

ایک  تھا بادشاہ۔ تیرا میرا  خدا  بادشاہ۔ نام تھا  اسکا  بلبن۔ ہندوستان کی تاریخ  کھنگالیں تو  التمش کے ترکان چہلگانی  میں وہ  بھی  دکھ  جائے گا۔ غلام نسل کا  شہنشاہ  ہند  ایک  احساس  کمتری  میں مبتلا تھا۔ اسے  اسکی کم نسلی کچوکے لگاتی تو وہ  تلملا جاتا۔ اسے  اس بات کی فکر تھی کہ کہیں  رعایا  اسے کمتر جان بغاوت نہ کر دے  یا  اس کی پیٹھ  پیچھے اس کے ہی امراٗ اسکا  مزاق نہ اُڑایں۔ سو اسنے ایک تدبیر ڈھونڈھ ہی  لی۔ پہلے تو اپنا  شجرہ  نسب بنوایا  اور اپنا  خاندان ایران  کے  افراسیاب سے جا  ملا یا۔ پھر  اپنا  لباس کچھ اس طرح  کا بنوایا  کے اس کے چوغے  کا  نرغا  محل کے آدھا  کلو میٹر تک  وسیع ہوتا  کسی کی  مجال جو  اس کے دائرے  کے قریب بھی  پھٹک  سکے۔ سر  پر  رکھی  ٹوپی کوئی معمولی نہ  تھی  اسکی اُنچائی  اتنی کہ پھنگ پر رکھی کلغی  کو  دیکھنے کی کوشش  کرنے  والے  کو  بلبن کی  آنکھوں کو  پار کرنا پڑے  ااور کس کی مجال  صاحب۔ داڑھی کا عالم یہ کہ ناف  سے نیچے  فرش سے ذرا  اوپر۔ اس پر طرہ  کورنش کی ایجاد۔ گویا  غلامی کے  طوق کو رعایا  پرکچھ  اس طرح سے  تھوپا کہ طویلے  کی  بلا  بندر کے سر بھی  ڈال دی  اور رند رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ آج  اس بات کو  یاد کرنے  کی کئی  وجہیں  ہیں۔

1۔ آج  کا ہندوستان  جس اندیکھی غلامی میں ہے اس کا  احساس

2۔ ہندوستانیوں  کے خودارادیت  کے حقوق کی پامالی

3۔ کشمیر  سے  کنیا کماری  تک  میں کئے گئے  عوامی  احتجاج  کی نوعیت  اور  اس کے اثر کا  توڑ

4۔ سنگھ پرچارک  سے شہنشاہ ہند  تک  کی  موجودہ  حکمراں کی کہانی

5۔ خارجہ پالسی میں  ٹائیٹینک  ردوبدل

6۔ داخلی  حکمت عملی  میں نیرو  پالیسی

7۔ امریکہ  اور اسرائیل  کی  اکانمی  کو تقویت دینے کے لئے  عوامی ٹیکس  سے حاصل کی گئی  دولت ہتھاروں کی خریدوفروخت  کے عوض مائل بہ گامزن

8۔ پروانہ  غلامی  پر حالیہ  مہر

ان  کے علاوہ بھی  بہت  کچھ  غورطلب ہے۔ مصر کے فوجی ڈکٹیٹر کی  آمد۔ کشمیر  کا  52 دن کا کرفیو۔ باہر سے  صرف  دس کروڑ کا  انویسٹمنٹ   لانے  والے کو  ویزا  میں  رعا یت، پراپرٹی خریدنے کی آزادی، بال بچوں  کو  نوکری تک دئے جانے کا بھروسہ ( چین  اور پاکستان  اسمیں شامل نہیں ہیں )  اینیمی پراپرٹی آرڈینینس ۔ کیبنیٹ کے  یہ  تاریخی فیصلے  انتہائی اہم اور پوسٹ مارٹم کرنے کے لائق ہیں مگر مجھے  لگتا ہے میری آواز نقار  خانے میں طوطی جیسی ہے۔ باقی  سے تو  اور بھی  ماہرین نمٹ لیں گے مگر  انیمی پراپرٹی  بل کو کیسے بخش دیں ؟

اس آرڈینینس کی ذرا سی تفصیل ضروری ہے۔

’دشمن کی جائیداد‘ سے متعلق ترمیم شدہ آرڈیننس 2016 کو صدر جمہوریہ کی منظوری ملنے کے بعد تقریبا 2050 املاک کا مالکانہ حق اب حکومت ہند کو حاصل ہو گیا ہے۔

1968 کے ’دشمن کی جائیداد ایکٹ‘ کے مطابق ایسی کسی جائیداد کی سرپرست حکومت ہوتی ہے۔

ـــ  ـ””اتر پردیش کے راجہ محمود آباد کے نام سے معروف محمد امير محمد خان کے علاوہ وہ ہندوستانی شہری جن کے رشتے دار تقسیم ہند کے بعد یا پھر 1965 یا 1971 کی جنگ کے بعد بھارت چھوڑ کر پاکستان کے شہری بن گئے تھے، ان کی جائیداد ’دشمن کی جائیداد‘ کے زمرے میں آ گئی ہے۔ اب وہ ایسی جائیداد کو نہ تو فروخت سکیں گے اور نہ کسی کو دے سکیں گے۔ ترمیم شدہ آرڈیننس کے تحت یہ مالکانہ حق سنہ 1968 سے تصور کیا جائے گا۔ پاکستان سے سنہ 1965 میں ہونے والی جنگ کے بعد سنہ 1968 میں ’دشمن کی جائیداد (تحفظ اور رجسٹریشن) ایکٹ‘ منظور ہوا تھا، جس کے مطابق جو لوگ تقسیم ہند یا 1965 اور 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان چلے گئے اور وہاں کی شہریت لے لی تھی ان کی ساری جائیداد دشمن کی جائیداد قرار دے دی گئی ہے۔ اس ایکٹ کی دفعات کو راجہ محمود آباد نے عدالت میں چیلنج کیا تھا اور سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ لیکن ’دشمن کی جائیداد کے ترمیم شدہ آرڈیننس 2016‘ کے نفاذ اور ’دشمن شہری‘ کی نئی تعریف کے بعد ایسی املاک پر ان کے وارث بھارتی شہریوں کا مالکانہ حق ختم ہو گیا ہے۔

لکھنؤ، ممبئی اور حیدرآباد سمیت کئی مقامات پر دشمن جائیداد کا مالکانہ حق اب حکومت ہند کو حاصل ہے۔ راجہ محمودآباد کے والد سنہ 1957 میں پاکستان چلے گئے تھے۔ نئے آرڈیننس کے بعد ان کی لکھنؤ، سیتاپور اور نینی تال میں واقع کروڑوں کی جائیداد پر ایک بار پھر کسٹوڈین (سرپرست) کا مالکانہ حق ہو گیا ہے۔ محمود آباد لکھنؤ کے نزدیک سیتاپور ضلع کی بڑی تحصیل ہے۔

لکھنؤ میں راجہ محمود آباد کی املاک میں بٹلر پیلس، محمود آباد ہاؤس اور حضرت گنج کی بہت سی دکانیں شامل ہیں۔ وہیں سیتاپور کے ضلع مجسٹریٹ، سینیئر پولیس سپرنٹنڈنٹ اور چیف میڈیکل افسر کی رہائش بھی بادشاہ محمود آباد کی جائیداد کا حصہ ہیں۔ راجہ محمود آباد کی اس طرح کی کل جائیداد کی تعداد 936 ہے۔ سنہ 1973 میں اپنے والد کی موت کے بعد راجہ صاحب محمود آباد، اودھ زمین ایکٹ 1869 کے تحت اس کے وارث ہوئے اور انھوں نے ان پر اپنا حق طلب کیا تھا۔ طویل مقدمے کے بعد سنہ 2005 میں راجہ آف محمود آباد سپریم کورٹ میں اپنی اور دیگر ایسی املاک سے ’دشمن‘ لفظ ہٹوانے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد ان کو اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں موجود ان کی جائیداد پر مالکانہ حق ملا تھا۔ راجہ محمود آباد کہتے ہیں : ’اس جنگ میں ہم اکیلے نہیں ہیں اور کئی دوسرے لوگ ایسے ہیں جو اس نئے آرڈیننس کے بعد اپنی جائیداد پر مالکانہ حق کھونے سے اپنے ملک میں دوسرے درجے کے شہری ہو جائیں گے۔ ‘امير محمد خان کے بیٹے علی خان کہتے ہیں کہ یہ بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ علی خان کہتے ہیں : ’آرڈیننس تو ہنگامی صورت حال میں لایا جاتا ہے۔ ایسی کون سی ہنگامی صورتِ حال تھی کہ آرڈیننس کا سہارا لینا پڑا۔ راجہ محمود آباد کا الزام ہے کہ اس قانون کے پس پشت غلط نیت کار فرما ہے۔ (بی بی سی)

ہم بھی  یہ مانتے ہیں کہ وہ  بجا  فرما رہے ہیں اگر آپ نہیں مانتے تو مت مانئے مگر  جو آپ وقف کی ہوئی جائداد  کے محافظ ہیں تو  ہوشیار ہو جائئے اگلا نمبر آپکا ہی ہے۔ ۔ ۔ کوئی شک؟

کچھ بھی کہئے 2014  آنے والے دنوں میں 2002 کی طرح  ان داغوں  کی مثال  بنے گا  جس کے مالک  کہتے پھرتے ہیں کہ داغ اچھے ہیں۔

2002 کے داغ لئے آج کے دور کا بلبن امریکہ  کے ویزا  کے لئے اتنا  بیچین  تھا کہ  اسنے اس ویزے کے حصول کے لئے  پورے ہندوستان کے  حق خودارادیت کے سودے کا وعدہ  کر لیا۔ اور  بلآخر اپنے  ارکان  چہلگانی ۔ ڈووال، سشما، جیٹلی اور پاریکر  کے  توسط  سے اسے وفا کیا۔ ہمیں مان لینا چاہے کہ ہم  اپنے  پردھان سیوک  کے  ذریعے  دنیا کے سب سے بڑے آتنک وادی امریکہ کو  کورنش  بجا لانے پر مجبور کر دئے گئے ہیں۔ اور ہم سے بہتر کون جانتا ہے کہ  درپردہ  یہ سب کس کے خلاف ہو رہا  ہے۔ سامنے والے کو اسکا ادراک ہے کہ اگر کوئی قوم اسکی جارحیت کو چیلینج کر سکتی ہے تو  وہ مسلمان  ہے مگر وہ  یہ بھی جانتا ہے کے  اسنے کس طرح سے عیاش  عربوں کی نسوں میں سے غیرت  کا انش نکال کر  حکمرانیت کا نشہ سرائت کر دیا ہے وہ  دھونس دینے پر حق بجانب  ہے کہ اسنے  بہار عرب کو  روک دیا ہے۔ پاکستان، افغانستان، عراق، سیریا، لیبا، یمن  اور اب ترکی  پہ آفت ہے۔ ویسٹ ایشا کو یرغمال  اور  ایران کو  ایٹمی پاور بنوانے  کی کہانی کے پیچھے کونسے راز چھپے  ہیں یہ ہم سے زیادہ کون جانتا ہے۔ گریٹر ایران اور گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کروانے  کا  وعدہ  تو اسے پورا کرنا ہوگا  ورنہ  اس بار  ہوائی جہاز  ٹریڈ ٹاور کی جگہ وہائیٹ ہاوٗس سے  ٹکرا  دئے جائیں گےاورجہادی جان، البغدادی  اور  اسامہ  واشنگٹن ڈی سی میں نمودار ہونگے۔

ہماری حکومت نے  امریکہ سے  وہ  وہ  سمجھوتے کئے ہیں کہ  ایک ویزہ  مودی جی کو دے کر  مانو  بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا ہے ۔ امریکہ تو  ہمارے چاروں طرف اپنے اڈے بنا  چکا تھا  مگر چین کو  اوقات بتانے کے لئے اسے ہندوستان سے اسٹراٹیجک  سپورٹ کی ضرورت عرصے سے تھی ۔ ہماری  خارجہ  اور دفاعی پالیسی ایسی تھی کے ہم  غیر جانبدار رہ  کر اپنی  خودمختاری اور خود ارادیت کو بچانے  میں کامیاب تھے مگر اب  شا ئد یہ ممکن نہ ہو۔ ہماری حکومت نے  اپنی  نکیل خود  اس  دہشت گرد ملک کے ہاتھ میں دے دی ہے کہ جو  جہاں جہاں  گھسا  ملک کے ملک ویران کر دئے۔ ہماری  سرکار کو چلانے  والے جب  ہاف پینٹ سے فُل پینٹ  پرآ گئے  ہیں تو ہمیں بھی  خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا  اگر پھوڑے پر نشتر کی ضرورت ہے تو اس سے اجتناب آنے والی نسلوں کو  گینگرین میں مبتلا کر دے گا۔ ساری باتوں کو اگر اللہ کی مرضی، راضی بہ رضا کہہ  کر  ٹال دیں گے تو  یہ دشمن کے آگے سپر ڈالنے جیسا ہے مگر  اپنی  شجاعت  و  عدالت  و  امامت  کے  قصہٗ پارینہ  کی  کتابوں سے دُھول  جھاڑے کون۔ بوسیدہ  ہوچکی  اس  تاریخ کو دھوپ  دکھائے کون  ؟زنگ  لگ چکی  زلفقار کو  سان دے کون ؟ رہنے دو  کہف  ابھی  سحر میں دیر ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔