محرومی مقدر ہوجائے تو بندہ کیاکرے؟

حفیظ نعمانی

            کسی بھی معاملہ میں معذرت اس وقت کی جاتی ہے جب کسی نے بلایا ہو، اس کا دعوت نامہ نہ مل سکا ہو، ملا ہو تو کوئی دوسری ایسی بات پیش آگئی ہو جو رکاوٹ بن گئی ہو لیکن ان میں سے کچھ بھی نہ ہو تو بد نصیبی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے؟

            کئی دن سے اودھ نامہ کے پہلے صفحہ پر گوشۂ شارب ردولوی -کا نام جلی حروف میں چھپ رہا تھا، اس میں یہ کہیں نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟ اور جب کوئی اہم بات ہونے والی ہے تو جناب وقار رضوی جو ان کے اور میرے دوست ہیں وہ کیوں خاموش ہیں ؟ اور اگر ایسی کوئی تقریب ہے جس میں دوستوں اور محبت کرنے والوں کو بلایا جارہا ہے تو حفیظ سے کوئی ذکر کیوں نہیں ہے؟ کل صبح اخبار دیکھا توڈاکٹر رائے کے انتقال کی خبر پر نظر پڑی، اور برسوں کے تعلقات اور ان کے احساسات کی مووی دماغ میں چلنے لگی، اور جو خبر پروفیسر شارب رودولوی ’’بک کارنر‘‘ کے افتتاح کی چھپی تھی وہ پڑھی ہی نہیں، آج اخبار دیکھا تو معلوم ہوا کہ شارب نے اپنے گھر سے علمی بیٹیوں کو رخصت کیا ہے، میرے اور شارب کے تعلقات بیان کرنے کے محتاج نہیں، وہ میرے بچوں اور بچیوں کی شادیوں میں برابر شریک ہوتے رہے ہیں اور بچیوں کی شادی میں رسم کے طور پر نہیں صرف اس لیے کہ یہ بچی ان کی بھی کچھ ہے ایک بند لفافہ دیتے رہے ہیں۔

            اگر شارب بے تکلف مجھے بتا دیتے کہ وہ ۲۹ اگست کو اپنی جگری علمی چہیتیوں کو رخصت کررہے ہیں تو میں خود تو حاضر نہ ہوتا اس لیے کہ وہ علی گنج میں ہیں اور خواجہ چشتی یونیورسٹی اس لیے جانے کی ہمت نہ کرتا کہ وہ میری گرفت سے بہت دور ہے، لیکن ایک بکس لفافہ کی طرح تو بھیج دیتا کہ گوشۂ شارب میں ایک دوپٹہ کا حق ادا کرتا رہتا۔

            یہ شکایت نہیں حکایت ہے، شارب کنجوس کبھی نہیں رہے، اور یہ بھی وہی جانتے ہوں گے جو میری طرح ان کے ساتھ رہے ہیں کہ اللہ نے سلیقہ انھیں بہت دیا ہے اور وہ جو مجھے بالکل نہیں دیا اور باربار میں اپنے کو جو پھوہڑ کہتا رہا ہوں تو شاید میرے حصہ کا بھی سلیقہ شارب کو ہی مل گیا، میں جن کتابوں کو اپنی ضرورت سے دیکھتا رہتا ہوں ان میں اگر کوئی ایسی بات سامنے آتی ہے جس کی پھر ضرورت پڑے گی تو میں اس صفحہ کا کونہ موڑ دیتا ہوں، بعض کتابوں میں تو پچاس پچاس مڑے ہوئے ملیں گے، کہیں لائن کھینچ دیتاہوں یا کتاب کے کورسے پہلے سادہ صفحہ پر نمبر لکھ لیتا ہوں، کبھی کبھی سوچتا بھی ہوں کہ میں اگر شارب کا شاگرد ہوتا اور وہ میری کتابیں دیکھ لیتے تو شاید مجھے کلاس سے نکال دیتے۔

            بس یہ اللہ کا کرم ہے کہ اپنی بیٹیوں، نواسیوں اور پوتیوں کو میں نے ایسے ہی رکھا جیسے شارب نے شفا فاطمہ کو رکھا اور پھر اپنی کتابوں کو رکھا، جن کی تعداد ۵ہزار سے زیادہ تھی اور جنھیں شارب نے رخصت کرکے انتہائی مناسب ہاتھوں میں دے دیا۔ یہ جملہ پڑھ کر کہ پروفیسر شافع قدوائی نے بھی اپنی کتابیں دینے کا اعلان کیا ہے، اس لیے خوشی ہوئی کہ ان کے نانا حضر ت مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے اپنی ہزاروں کتابیں ندوہ کے کتب خانہ کو دے دیں اوروہاں وہ گوشۂ عبدالماجد دریابادیؒ کی زینت بنی ہوئی ہیں اور دارالعلوم کے طلبہ ان سے اکتسابفیض  کررہے ہیں، جبکہ حضرت مولانا دریابادی کے وارثوں میں ان سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کافی تھی، اب وہ حضرات جن کے گھر میں اردو یا علم ہے، مگر وہ ان کتابوں سے فائدہ اٹھانے کے اہل نہیں، یہی کرنا چاہیے۔

            شارب اور ہم اب زندگی کی آخری سیڑھیوں پر آگئے ہیں، یہ خالق و مالک کو علم ہے کہ وہ کسے پہلے بلائے، کسے بعد میں، جب یہ منزل آگئی ہے تو آج ایک بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرے سامنے شارب کا وہ مقالہ بھی ہے جس کے بعد وہ ڈاکٹر شارب ردولوی کے نام سے پکارے جانے لگے، اور وہ کتاب بھی ہے جو 2015ء میں چھپی ہے، دونوں میں آدھی صدی کا فرق ہے، پہلی کتاب جو 1968ء میں چھپی تھی، اسے ایک بار ایک ضرورت سے سنجیدگی سے پڑھنے کی ضرورت پیش آگئی ہے اور اسے پڑھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ پروفیسر احتشام حسین جواپنے شاگردوں میں سب سے زیادہ شارب سے تعلق رکھتے تھے انھوں نے شفقت اور محبت کے چشمے سے مقالہ کو دیکھا اور شارب پی ایچ ڈی ہوگئے؟

            شارب ایم اے کرکے دہلی چلے گئے تھے، اور وہاں دہلی یونیورسٹی میں انھوں نے پڑھانا بھی شروع کریا تھا، لکھنؤ میں وہ دوستوں کی مروت میں بہت وقت خراب کرتے تھے، انجمن ترقی پسند مصنّفین اور لکھنؤ میں ادبی سرگرمیاں، مشاعرے، سیمینار اور مذاکرے اور بہت زیادہ وقت میری مصروفیات میں تعاون، لیکن دہلی جا کر شاید انھیں اس کا احساس ہوگیا کہ اب انھیں احتشام حسین بننا ہے، میں ایک بار دہلی گیا تو انھیں اطلاع اس لیے نہیں کی کہ مجھے ڈاک کا پتہ نہیں معلوم تھا، یہ معلوم تھا کہ وہ یہاں کس بلڈنگ میں رہتے ہیں۔ میں نے دروازہ پر ہلکی سی دستک دی تو آواز آئی کہ آجائیے، شاید ان کو کسی کا انتظار ہوگا، میں دروازہ کھول کر داخل ہوا تو ٹانگوں پر لحاف پڑا تھا، دیوار سے ٹیک لگائے گھٹنوں پر ایک موٹی سی کتاب رکھے پڑھنے میں مصروف تھے۔

            ظاہر ہے کہ اس قدر اچانک میرے جیسے دوست کی آمد، وہ پاگل ہوئے جارہے تھے کہ کیا کردیں ؟ مگر اس بلڈنگ سے دور دور تک کوئی ہوٹل نہیں تھا، پھر میں کئی دن رہا اور ہر شام دونوں کی ساتھ گذری، شارب کی کتاب تنقیدی عمل گزشتہ سال چھپی ہے، اسے میں نے بہت غور سے پڑھا اور اسے پڑھنے کے بعد کسی کو اچھا لگے یا برا میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے استاذوں سے آگے نکل گئے ہیں اور وہ جو ہر بڑے کے گذرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ اب وہ جگہ ہمیشہ خالی رہے گی، اسے تو شارب نے پورا کردیا، لیکن شارب کے بعد ضرور یہ کہا جائے گا کہ ان کی جگہ شاید پوری ہونا آسان نہیں ہوگی۔

            تنقیدی عمل کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے شارب خام مال تو لکھنؤ سے لے گئے تھے لیکن دہلی جا کر انھیں محسوس ہوا، اب عمارت بنانا ہے، اور یہ سب دہلی اور جواہر لال یونیورسٹی کا فیض ہے، جو تنقیدی عمل کے ہر مضمون میں نظر آرہا ہے۔

            یہ پروفیسر خان مسعود صاحب کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو صرف شارب کی کتابیں دیکھنے یا ان سے ’’کیسے پڑھو اور کیسے پڑھائو‘‘ کے گر بھی سیکھیں گے۔ پروفیسر شارب کی صحت میرے لیے فکر کی بات ہے۔ خواجہ اجمیریؒ یونیورسٹی میں کم از کم چار لکچر ایک ایک ہفتہ کے وقفہ سے کرادئے جائیں تو یہ دوسرا بڑا تحفہ ہوگا، ہر چند کہ شارب کے لیے زحمت کا باعث ہوگا لیکن ان کے شاگردوں سے واقف ہونے کے بعد مجھے محسوس ہورہا ہے کہ یہ بچوں کے لیے بہت مفید ہوگا، جن کو بہت ضرورت ہے اساتذہ کے بارے میں اب جو سننے کو ملتا ہے اس کے بعد ڈر لگتا ہے کہ کہیں آگے اندھیرا ہی اندھیرا نہ ہو۔

مراسلہ

            بات صرف شرک سے بچنے کی ہے

            مکرمی!

            برسوں سے اودھ نامہ میں جیسا تیسا لکھتا رہتا ہوں، کوئی بات کسی عزیز کو گراں بھی گذرتی ہے تو میں فوراً معافی مانگ لیتا ہوں، اس لیے کہ میں کم علم آدمی ہوں، ممبئی کی حاجی علی درگاہ کا جو فیصلہ ہائی کورٹ سے آیا اس نے ہلا کر رکھ دیا، دستور نے بیشک مرد و عورت کو برابر کے حقوق دئے ہیں، عورتوں نے ایک مندر میں عورتوں کے ہر اس جگہ جانے کے لیے مقدمہ جیتا جہاں جانے پر پابندی تھی، وہی فیصلہ درگاہ اور مسجدوں کے لیے نظیر بنے گا، یہ دیکھے بغیر کہ کسی مندر میں کوئی بہت بڑے دھرم گرو دفن ہیں یا صرف کسی کا سیکڑوں برس پرانا بنوایا ہوا مندر ہے، جبکہ مسلمانوں کے بزرگوں کے جتنے بھی مزار ہیں ان میں کوئی نہ کوئی اللہ والا دفن ہے اور ان کی تعداد سیکڑوں ہے۔

            یہ صحیح ہے کہ قبر کے بعد جو اس پر عمارت بنی ہے اسے اللہ کے بندوں نے بنایا ہے (ہر بات قرآن میں نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے اس کے بعد سنت اور جماعت صحابہ ہے)اور ہندوستان کے کروڑوں مسلمان مدینہ منورہ جا کر روضۂ اطہر کے سامنے ہی ’’جنت البقیع‘‘ نام کے قبرستان میں ضرور جاتے ہیں جہاں جا کر فاتحہ پڑھتے ہیں، ان میں حضرت عثمانؓ بھی دفن ہیں اور نہ جانے کتنے صحابہؓ تابعین تبع تابعین بھی دفن ہیں، مگر سب کی قبر کچی ہے۔

            دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا اس لیے منع ہے کہ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ کچھ مانگا جارہا ہے، جبکہ کسی دوسرے سے مانگنا شرک ہے، میری پریشانی کا سبب یہ ہے کہ دستور کی رو سے صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ اور ہر عدالت کی جج جب عورت ہوسکتی ہے تو درگاہوں کی سجادہ نشین مجاور، عیدگاہ کی ا مام، جامع مسجد اور ہر مسجد کی امام شہر کی قاضی مفتی عورت کیوں نہیں ہوسکتی؟ اب یہ ہر مسلمان کے سوچنے کی بات ہے کہ مندر اور درگاہ امام اور جج کو اگر ایک مان لیا جائے گا تو کیا ہوگا؟ میں نے ہتھیلی مارنے کی بات دیکھی نہیں سنی ہے، ایسا ہی اس وقت ہوتا ہے جب عورتوں کی باری آتی ہے اور وہ کوشش کرتی ہیں کہ اپنا دوپٹہ روضہ اطہر کی جالی سے لگا دیں، جبکہ ہر تعلیم یافتہ جانتا ہے کہ جالی، دروازہ، دیوار، ان کی حیثیت وہی ہے جو مسجدنبوی کے درو دیوار کی ہے، ایک حدیث ہے کہ تہمت کی جگہ سے بچو، اور یہ سب چیزیں تہمت نہی تہمت کی جگہ ہیں جن سے شرک کا شبہ ہوتا ہے، اور جس طرح کی عورتوں نے مقدمہ جیتا ہے کیا انھیں دیندار کہا جاسکتا ہے؟ اور اس کا جو نتیجہ نکلے گا کیا انھیں اس کا شعور ہے؟ میرے کسی بھی لفظ سے کسی کا دل دکھے تو وہ معاف کردے، میرے پڑھنے والے سب میرے اپنے اور سگے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔