سوڈانی مسلم رہنما ڈاکٹر حسن ترابی کے افکار کا مطالعہ (آخری قسط)

ذکی الرحمن فلاحی مدنی

صورت ِ مسئلہ کی تحدید

        ترابی اور ان کے ہم نواؤں کے یہ افکار و نظریات اس بات پر صراحتاً دلالت کرتے ہیں کہ یہ حضرات شریعت ِ اسلامیہ کے روایتی حصار سے کسی طرح بھی نکلنا چاہتے ہیں۔ حالات کی سنگینی اور امتِ مسلمہ کی حدِ حساسیت کو پہونچی ہوئی روایت پسندی ان کو اس بات سے مانع ہے کہ وہ شرعی وتاریخی حصار کو یک دم پھلانگ سکیں یا ’’مصطفی کمال اتاترک‘‘ کی طرح اس حصار کو یک دم سبوتاژ(Sabotage) کردیں۔ اسلامی ورثے کو ا ز سر نو جانچنے کی ترابی کی اصلاحی کوششوں کو بعض ناقدین (جیسے محمد ارکون وغیرہ) اگرچہ روایتی مصلحانہ طریقۂ کار کی حیثیت سے رد کردیتے ہیں، لیکن قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا تنقیدی جائزہ اور خود صاحب ِ رسالتﷺ کے بعض مواقف پر علامت ِ استفہام رکھنے کی بے جا جرأت وجسارت پرعام روایت پسند امت ِ مسلمہ کی جانب سے جو شدید رد عمل سامنے آیا ہے، وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایسا کوئی بھی لغو نظریہ عمومیت کے ساتھ امت کے سوادِ اعظم میں کھپ نہیں سکتا ہے۔ قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ ترابی کی طرح خود کو روایتی عالمِ دین بتانے والے کسی مفکر کامذہبی اصلاح وترقی کے نقاب میں تحریف وانحراف پر مبنی کوئی رویہ بے دینی کی کن کن سرحدوں تک جاسکتاہے۔

        قرآنی تفسیرات کے سوال پر ترابی نظریے سے گزر کر عمل کے میدان میں آتے ہیں اور آج کل اپنی تفسیر لکھنے میں مصروف ہیں جس میں یقینا کچھ چونکا دینے والے نظریات سامنے آئیں گے، لیکن یہاں آکر بھی مسئلہ جوں کا توں باقی رہتاہے۔ آخر ان نئی تفاسیر وتشریحات کو مرجع ماننے یا قابل قبول سمجھنے کی دلیل کیا ہوگی؟ ان جدید افکار و نظریات کے خلاف مسلم دنیا کے شدید رد عمل کو دیکھتے ہوئے کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگاکہ دین کے ان نام نہاد شارحین و ترجمان حضرات کا اپنے ہی افکار و نظریات کی صحت وصالحیت پر اتنا زور دینا، شرعی تناظر میں اسلاف پسندی اور روایت پرستی کے لیے وجہ ِ جواز فراہم کرتا ہے؟ کیوں کہ جب شریعت میں کوئی حاکمانہ اور فیصلہ کن منصب- جس کے بعد دلیل اور مباحثے کی گنجائش نہ رہے- اتنا ہی ضروری ہے تو کیوں نہ اس بابت امت کے صدیوں کے تعامل کو ترجیح دی جائے۔

         اگرجمیع اسلافِ امت نے قرآن کو اپنے زمانے کی آنکھوں سے مطالعہ کیا تھااور اپنے حالات و ظروف کے مطابق اس کی تشریح وتفسیر کی تھی، تو کیا دلیل وبرہان ہے کہ موجودہ زمانے کی تشریح و تفسیر زمانے اور وقت کے حدود سے بالاتر متصور کی جائے اور شریعت کی ترجمانی میں اپنے حالات و ظروف سے متأثر نہ خیال کی جائے؟ شریعت ِ اسلامیہ کی کوئی جدید تشریح اس قدر معتبر کیوں قرار دی جائے، خصوصاً جب کہ وہ پورے تاریخی اسلامی سرمایے سے صرف نظر کررہی ہو؟ اور کیوں نہ یہ مان لیا جائے کہ قدیم اسلامی ورثہ پر ان حضرات کا یہ اعتراض کرناکہ ماضی کا تمام فکری سرمایہ، اجتماعی حالات اور شخصی میلانات کا پروردہ رہا تھا، خود ان لوگوں پر بھی صادق آتا ہے۔ ایسا جدید طر زِ فکر اور طریقِ تدبر اس صورت میں مزید خطرناک اور شر پسند عناصر کا بازیچہ بن سکتاہے، جب کہ اس کی پشت پر کوئی واضح طریقۂ کار اور روشن نظریاتی وفکری بنیادیں کار فرما نہ دکھائی پڑتی ہوں۔

        ترابی اور ان کے ہم خیالوں کا تجدیدِ شریعت کا یہ نظریہ اسلامی حدود وتعزیرات کے مسئلہ پر مزید مسترد ہوجاتاہے کیوں کہ بقولِ ترابی قرآن کریم میں ایسی آیات موجود نہیں ہیں جن کی روشنی میں حدود بیان کرنے والی واضح اور دو ٹوک آیات کو منسوخ یا ان کے مفہوم کو محدودماناجاسکے۔ اس سلسلہ میں ان کامخلصانہ لیکن منحرفانہ مشورہ یہ ہے کہ ان حدود کے نفاذ و تطبیق کو عملاً موقوف کردینا چاہیے۔ ترابی اور ان کے متبعین کے اس فکری موقف سے متعلق بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس پورے منظر نامے میں ارشمیدس کا وہ مقامِ مشاہدہ (Vantage Point) کہاں ہے جس پر کھڑے ہوکر ہم اسلامی تاریخی ورثے کی جامعیت و شمولیت کا درست اندازہ کرسکتے ہیں۔ اس تعلق سے شیعی اسماعیلی مفکر ’’محمدارکون‘‘ کا نظریہ اور ترابی کا عمل جو کچھ نظر آتاہے وہ یہ ہے کہ ہمیں قرونِ اولیٰ اور ما بعد کی مسلم نسلوں کا محاکمہ اس طور سے کرنا چاہیے کہ آیا وہ پیغامِ الٰہی کو سمجھنے اور اسے آئندہ نسلوں کو منتقل کرنے میں صدق و راستی اور شعوروتعقل کے اوصاف سے متصف تھیں یا نہیں ؟

        لیکن یہاں اشکال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس تعدیل وتجریح یا محاکمے کی بنیادیں کیا ہوں گی؟ کیوں کہ ہم جن بنیادوں پر بھی فیصلہ کرناچاہیں گے وہ فی نفسہ انھی سابقہ نسلوں کا محفوظ و منقول کردہ تاریخی سرمایہ ہوگا۔ اسلامی عقیدے اورشریعت کی تعبیرِ نوکاکام بے نظیر کرشماتی شخصیات ہی کرسکتی ہیں جو کہ صرف اورصرف انبیاء و رسل ہوتے ہیں، لیکن خوش قسمتی سے ترابی کو ابھی ختمِ نبوت کے عقیدے پر اصرار باقی ہے۔

        اس قسم کے انقلابی نظریات پیش کرنے والوں کے لیے ضروری ہوتاہے کہ وہ عوام الناس کو اپنا ہم خیال و ہم فکر بنائیں۔ کیوں کہ اس سلسلے میں ماضی کے اسلامی ورثے کے محافظ کی حیثیت رکھنے والے طبقۂ علمائے دین سے کسی قسم کی تائید و حمایت کی توقع کرنا عبث ہوگا، لیکن ترابی اور ان کے ہم شاکلہ جدید مسلم مفکرین کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اسلام اور لادینیت کے ملغوبے سے تیار شدہ ان کے افکار و نظریات کا معجونِ مرکب، امت کے دونوں دھڑوں یعنی روایت پسنداکثریت اور سیاسی میدان میں مؤثر لادینی اقلیت، دونوں کے نزدیک نا قابل اعتباراورمہمل قرار پاتارہاہے۔ مزید برآں بعض قائدین کے اسی قسم کے افکار و نظریات، جدید اسلامی تحریکات کو ان کے عزیز ترین اثاثے یعنی جمہوری قوت (Democrecy Potential)سے محروم کردیتے ہیں۔ جدت پسند اسلا می تحریکات کا مسلم ممالک میں جمہوریت واستحکام کا خواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہوسکتاہے جب کہ ان کو اپنے قابلِ عمل تجدیدی منصوبے کے لیے جمہور الناس کی تائید و حمایت حاصل ہوجائے۔ لیکن اگر ان کے منصوبے حریف لا دینی تحریکات کے منصوبوں کی طرح عوام الناس میں نا مقبول ہوں تو ان تحریکات کو بھی خلاف ِ جمہوریت ہی سمجھاجاناچاہیے۔

        سوڈان کے مسئلے پر فی الواقع ایسا ہوا بھی ہے۔ ترابی کے اس مجموعی اصلاحی منصوبے نے ان کے قابل اعتماد روایتی مذہبی طبقے میں ان کے تئیں شکوک و شبہات پیدا کردیے تھے۔ مزید برآں صدر نمیری کے جابرانہ دورِ حکومت میں اسلامائیزیشن کی قراردادوں کی تائید و معاونت نے ترابی کی تحریک کو حریت پسند مسلم طبقے کی ہمدردی سے بھی محروم کردیا۔ اس صورتِ واقعہ نے سوڈان میں اسلامی کاز کو بھی بڑا نقصان پہنچایا ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے عوام الناس کو جو سبق ملا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت ِ اسلامیہ کی تنفیذوتعمیل صرف ظلم و جبر کے سائے میں ہی روبہ عمل لائی جاسکتی ہے۔

        نتائج

        پیچھے ذکر کیا جاچکا ہے کہ ترابی کے افکار نہ صرف یہ کہ بذات خود مشکلات اور پیچیدگیوں سے پُر ہیں، بلکہ عملی دنیا میں ان کی تعمیل و تنفیذ بھی یکساں طور پر از قبیلِ محال ہے۔ 1989ء کے بعد فوجی حکومت کی سرپرستی میں ترابی کی پارٹی نے قوت واقتدار حاصل کیا تھا، لیکن ترابی کا منصوبہ پھر بھی منصوبہ ہی رہا اور عملی زمین پرروبہ تعمیل (Implemented) نہ لایا جاسکا۔ ترابی پر اپنے سابقہ مواقف سے انحراف کا الزام بھی ہے، خصوصاً جمہوریت و اصلاح سے متعلق ان کی نظریاتی قلابازیوں کا ذکر گزشتہ صفحات میں ہوچکا ہے۔ مجموعی طور پر اقتدار اور حکومت کا ان کا تجربہ ایک مکمل بلائے ناگہانی ثابت ہوا تھا۔ کم از کم ترابی کی ذات کے سلسلے میں تو یہ کہا ہی جاسکتاہے، کیوں کہ اس کے بعد ترابی نے نہ صرف سوڈانی عوام میں اپنا اعتبار کھودیا بلکہ اپنی آزادی اورتحریکی طاقت کو بھی گہرا صدمہ پہنچایا ہے۔ اس عرصۂ اقتدار کے دوران ان کے بیشتر طاقتور حلیف ان کے خلاف صف بستہ ہوگئے تھے۔ دسمبر 1999ء میں ملکی فوجی بغاوت نے ان کے اختیارات کا خاتمہ کردیا اور فر وری 2001ء میں ان کو دو سال سے زائد مدت تک کے لیے قید کردیاگیا۔ 2003ء کے آخر آخر میں ان کو رہائی نصیب ہوئی، لیکن مارچ 2004ء میں ان کو فوجی بغاوت کی سازش کے الزام میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔

        دورانِ اقتدار متعدد اہم ایشوز( مثلاً کثیر الجماعتی سیاست اور آزادئ صحافت )پر ترابی کی آراء میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئیں اور عالمی پیمانے پر ان کا تنقیدی نوٹس بھی لیا گیا۔ اپنے سقوط کے بعد سے ترابی نے اپنے افکار پر متعدد بار نظر ثانی کی ہے لیکن بہ ظاہر اس کے نتیجے میں کوئی بڑا فکری تغیر رونما نہیں ہوسکا۔ غالباً اس کی وجہ ان کی بامقصد خود احتسابی سے گریز کی روش رہی ہے، بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ اُن کی فروعی فکری ونظریاتی تبدیلیوں کی وجہ کلی بنیادی تفکیرِ نو سے زیادہ مخالفین کے مقابل مناظراتی ومجادلاتی ہتھکنڈوں کا بخوبی استعمال کرنادکھائی پڑتا ہے۔ حکومت میں باقی ان کے متبعین نے ان کے فکری چوکھٹے اور عملی طریقۂ کار کے تئیں وفاداری نبھائی ہے، لیکن سیاسی میدان میں یہ اتباع اورعقیدت کا تعلق کسی بار آور تبدیلی کا شاخسانہ نہیں بن سکا۔ بہر حال ترابی کی تحریک ان کی علیحدگی اور عزلت نشینی سے فکری و نظریاتی خلا سے دوچارہو گئی ہے۔

         جدید اسلامی فکر اور نو اسلامائزیشن کے عمل میں ترابی کا کردار، جدید اسلامی اصلاح پسندی کے دائرہ کا ر کی محدودیت کو اُجاگر کرتاہے۔ امتِ مسلمہ میں تلقّیٔ قبول کا مرتبہ حاصل کرچکی تشریح و تفسیر کے خلاف، اسلامی عقیدے کی مجموعی تفکیرِ نو کا دم بھرنے والے جدید مسلم مفکرین دانستہ یا نا دانستہ طور پر جدید اسلامی بیداری کی لہر کو اس کی قوت و طاقت کے اصل سرچشمہ یعنی جمہور المسلمین کی حمایت و تائید سے محروم کررہے ہیں۔ اسلامی شریعت اورعقیدے کی تعبیر نو کرنے والے مفکرین، مسلم عوام سے اپنی دوری وبیگانگی میں لادینی مفکرین کے ہم پلہ و ہم رکاب ہیں۔ اس منظرنامے میں ترابی کی حالت بے حد خستہ ہے کیوں کہ وہ دینی وشرعی بنیادوں پر روایت پسند علماء و عوام کے معتوب ہوئے اور سیاسی وفکری بنیادوں پر حریت پسند وجدیدیت پرست حلقوں کا ہدف ِ ملامت بنے۔ میدانِ سیاست میں ان کی جولانیوں نے ان کے قابلِ عمل یا کم از کم قابلِ غور اصلاح جاتی افکار و نظریات کے نفوذ و تاثیر کو سست گام کردیا۔ ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے ان کو کئی ایسے کام کرنے پڑے جو کم و بیش ان کے پیش کردہ افکار و تصورات سے متصادم تھے۔

         مصلحت پرست سیاست اور اصلاح پسند افکار کا گٹھ بندھن اکثر و بیشتر تانا شاہی اور جابرانہ طرزِ حکومت کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کیوں کہ ایک مصلح کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کی پسند و ناپسند سے بالا تر ہوکر اپنی فکری و اصلاحی ذمہ دار ی انجام دے، جبکہ اس کے برعکس ایک سیاسی قائد اپنے پروگرام میں ہزار تبدیلیاں اورمصالحت و رعایت پیدا کرتے ہوئے عوام کے میلانات کا پاس و لحاظ کرتا ہے۔ اصلاح وتجدید اور سیاست وحکومت دونوں کی الحاقی صورت میں اگر اول اول عوامی تائید اوراخلاقی استناد مل بھی جائے، لیکن کچھ عرصہ بعد ناگزیر ہوجاتا ہے کہ اس لقاح و قران کے نتیجے میں ہولناک قسم کا جبر وتشدد جنم لے بیٹھے۔

        عصر جدید کے حقائق کے بالمقابل روایت پسند عوام وخواص کا طرز ِ عمل بھی بڑی حد تک تشویشناک ہے۔ اب روایت پسند عوام و خواص کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ماضی کے افکار و نظریات میں کھوئے رہنا اور اسلاف پرستی کی رو میں ہر تاریخی میراث کو -خواہ وہ کتنی ہی نا قابل عمل ونالائقِ اعتبار ہو- درجۂ استناد بخشتے رہنا، امت مسلمہ کے مفاد ِ عامہ کے لیے بھی مضرت رساں ہے۔ کیوں کہ اس کا سیدھا نتیجہ عملی دورخی (Practical Dichotomy)   کی صورت میں برآمد ہوگا۔ یعنی شریعت کو نظریاتی سطح پر محفوظ رکھاجائے، اگرچہ زائچۂ عمل تمام تر اس کے خلاف بھرا جاتا رہے۔ آج روایت پرستی کے تنگ گلیاروں سے نکل کر زمینی و واقعی حقائق ومسلّمات کی روشنی میں قدیم روایتی مفروضات کی اصلاح و ترمیم کی جانی چاہیے، تاکہ رہتی دنیا تک کے لیے رشد و ہدایت کا سرچشمہ دینِ اسلام نئی ضروریات وتصورات کا کما حقہ مقابلہ کرسکے۔ لہٰذا روایت پسندی یااسلاف پرستی پر مسرفانہ اصرار خود امتِ مسلمہ میں جمود و تعطل اور اس کے رد عمل میں لادینیت پرستی کا سبب بن سکتا ہے۔

        بہر حال ان جدید مکاتب ہائے فکر کی ناکامی بڑی حد تک اسلامی فکر کے جمود و تعطل کا سبب بنی ہے جس کے نتیجہ میں اسلامی ممالک میں جابرانہ نظام حکومت اور فوجی انقلابات کا سرطان سا پھیلتا چلا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت بالجبر ایک پُرخطر مہم ہے جس کی خطرناکیاں اپنوں اور غیروں کی تقسیم سے نا آشنا ہوتی ہیں۔ ماضی قریب میں سوڈان میں رونما ہونے والے تغیرات اس کی واضح نشاندہی کررہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ حسن ترابی کے لیے یہ ایک بے حد مہنگا سبق ثابت ہوا ہے جو سیکھا گیا، لیکن بہت دیر سے۔

مراجع ومصادر

عربی:

(1)    قضایا الوحدۃ الاسلامیۃ :حسن الترابی

(2)    تجدید اصول الفقہ :حسن الترابی

(3)    تجدید الفکر الاسلامی :حسن الترابی

(4)    الاشکال الناظمۃ لدولۃ اسلامیۃ معاصرۃ :حسن الترابی

(5)    تجدید الدین :حسن الترابی

(6)    منہجیۃ التشریع :حسن الترابی

(7)    المصطلحات السیاسیۃ فی الاسلام :حسن الترابی

(8)    الدین والفن :حسن الترابی

(9)    المرأۃ بین تعالیم الدین وتقالید المجتمع :حسن الترابی

(10) السیاسۃ والحکم :حسن الترابی

(11)  التفسیر التوحدی :حسن الترابی

(12)  عبرۃ المسیرلاثنی عشر السنین :حسن الترابی

(13)  الصلوۃ؟ عماد الدین :حسن الترابی

(14)  الایمان واثرہ فی الحیاۃ :حسن الترابی

(15)  الحرکۃ الاسلامیۃ : التطور والنہج والکسب :حسن الترابی

(16)  مآزق الشریعۃ وتحدیات التحریف :عاطف احمد عاطف

(17)  ازمۃ الاسلام السیاسی: الجبہۃ السیاسیۃ القومیۃ النموذجیۃ :ابراہیم حیدر علی

(18)  الدکتور الحسن ترابی وفساد نظریات تطویر الدین :عبد الفتاح محجوب ابراہیم

(19)  الفجرالکاذب: نمیری وتحریف الشریعۃ :الدکتور منصور خالد

(20)  الحرکۃ الاسلامیۃ فی السودان :حسن المکی

(21) الصارم المسلول فی الرد علی الترابی شاتم الرسول :ابو عبد اللہ احمد بن مالک

(22)  مشروع القانون الجنائی المخالف للشریعۃ :اواد الکریم موسیٰ

انگریزی :

        (1)  The Multiple Marginality of Sudan by Mazrui Ali

        (2)  Islamic Law, Reform & Human Rights: Challanges & Responses by Ishtiaque Ahmad

        (3)  Towards an Islamic Reformation: Civil Libarties, Human Rights and International Laws by:Ahmad Abdullah An Naim

        (4)  Towards an Islamic Reformation. Responses and Refolections by Ahmad Abdulla Annaim

        (5)  Counstitutional Discourse and Civil war in Sudan by Ahmad Abdullah Annaim

        (6)  Civil war in Sudan by M.W. Daly

        (7)  Turabi’s Revolution: Islam and Power in Sudan by Abul Wahid Elafandy

        (8)  The Looming Tower by Lawrence Wright

        (9)  The Future of Political Islam by Graham Fuller

        (10)  Jihad: The Trial of Political Islam by Gilles Kepel

        (11)  Inside Sudan: Political Islam, Conflict and Catastrothe by Gilles Kepel

        (12)  Revolutionary Sudan: Hasan Atturabi and the Islamist State by Millard  Burr

        اردو:

        (1)    ادراک زوالِ امت(جلد اول ودوم): راشد شاذ

تبصرے بند ہیں۔