امریکہ سے قربت- ہندوستان کو کتنا فائدہ؟

رویش کمار

دو سال میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی چوتھی بار امریکہ میں ہیں. اوباما اور مودی کی یہ ساتویں ملاقات ہے. یاد کیجئے ان کا پہلا دورہ جب میڈیسن اسکوائر میں دھوم دھڑاکے سے ہوا تھا اور انہیں ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے راک اسٹار مودی کا نام دیا تھا لیکن اس بار وہ صرف وزیر اعظم کے کردار میں ہیں. معاہدوں کو لے کر عمل داری کی بات ہو رہی ہے. ان کے دورے میں ہندوستانی امریکی تعلقات کے کچھ پرکشش عناصر بھی ہیں. جیسے وہ امریکی پارلیمنٹ کے ایک خصوصی مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کرنے والے ہیں. انڈین ایکسپریس نے ایک مکمل فہرست بنائی ہے کہ اب تک کن وزرائے اعظم نے امریکی پارلیمنٹ کو خطاب کیا ہے.

– 13 اکتوبر 1949 کو جواہر لال نہرو

– 13 جون 1985 کو راجیو گاندھی

– 18 مئی 1994 کو پی وی نرسنها راؤ

– 14 ستمبر 2000 کو اٹل بہاری واجپئی

– 19 جولائی 2005 کو منموہن سنگھ خطاب کر چکے ہیں.

میں وہاں کے اخبارات میں وزیر اعظم کے پہلے دورے اور اس بار کے دورے پر شائع رپورٹیں دیکھنے لگا. نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے تب کافی حوصلہ افزا سرخیاں لگائی تھیں. اس بار بھی جوش ہے مگر وہ سارے سوالات ہیں جن کے بارے میں اب ہندوستانی میڈیا نے بات کرنا بند کر دیا ہے. ایسا نہیں ہے کہ امریکی میڈیا سے وزیر اعظم مودی کا رشتہ نہیں رہا ہے. وزیر اعظم مودی نے اپنے دور اقتدار کے دو سال مکمل کئے تھے تو انہوں نے اپنا اکلوتا انٹرویو امریکہ کے ہی اخبار وال سٹریٹ جرنل کو دیا تھا. 2014 کے دورے پر نیویارک ٹائمز کی سرخی کیا تھی.

New York Times: "Defying Expectations in India, Modi begins key trip to US” (September 25)

فسادات کو لے کر الزام میں سزا کے طور پر جس رہنما کو ایک دہائی تک امریکہ نے ویزا نہیں دیا، وہی مودی اب نیویارک آئے ہیں اور وہ بھی ایک مقبول رہنما کے طور پر اور اس کے ساتھ ہی ایک ضروری شراکت دار کے طور پر، جو چائنا کے بڑھتے ہوئے اثرات کو بیلنس کرنے کے قابل ہے.

The Washington Post: Obama’s opportunity with India and its new leader (September 28): Nicholas Burns

کسی بھی اور چیز سے زیادہ مودی چاہتے ہیں کہ امریکہ ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرے اور کاروبار بڑھے جس سے ہندوستانی معیشت راستے پر لائی جا سکے جو کہ گزشتہ 2 سال میں الارمنگ ترقی درج کرا رہی ہے.

New York Times: At Madison Square Garden, Chants, Cheers and Roars for Modi (September 28): Vivian Yee
Los Angeles Times: India’s prime minister gets rock-star reception in New York (September 28): Steven Zeitchik

بنیادی طور پر ماضی کے کام مستقبل کی باتیں زیادہ تھیں. اس بار واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے نہ صرف اوباما اور مودی کی فطری دوستی پر سوال اٹھائے ہیں بلکہ ان کے متنازع ماضی میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لی ہے. انہیں لے کر ہندوستانی میڈیا اور سیاست نے بھی قریب قریب بات ہی کرنا بند کر دیا ہے.

واشنگٹن پوسٹ کی سرخی ہے

Indian PM, once a pariah to US, set to address Congress।

ہندی والا پرایا نہیں، انگریزی کے پرایا کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص جسے پسند نہ کیا جاتا ہو. دو سال میں چوتھی بار وزیر اعظم امریکہ گئے ہیں اور وہاں کے اخبار کو یہ سرخی لگانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی.

4 جون کو میتھیو پیننگٹن نے اپنی رپورٹ کی پہلی سطر میں لکھا ہے کہ کئی سال تک امریکہ نے ویزا نہیں دیا مگر اب ہندوستانی وزیر اعظم کا مہمان کے طور پر استقبال ہو رہا ہے. مجھے واشنگٹن پوسٹ کی یہ رپورٹ پڑھتے ہوئے حیرانی اس لیے ہو رہی تھی کہ یہ سب باتیں ابھی کیوں ہو رہی ہیں؟ پھر کیوں ہو رہی ہیں؟ اخبار لکھتا ہے کہ مودی نے مسلم مخالف فسادات میں شمولیت کے الزامات کو اتار پھینکا ہے. ہو سکتا ہے کہ امریکی اراکین پارلیمینٹ ان سے ان کے حقوق انسانی کے ریکارڈ کے بارے میں سوال کر دیں.

ہندوستان اور بی جے پی کا امریکہ پر خاصا فوکس رہا ہے اس کے بعد بھی وہاں کا ایک بڑا اخبار برسر اقتدار پارٹی کا نام نہیں لکھتا ہے بلکہ لکھتا ہے کہ مئی 2014 میں جب سے ان کی ہندو قوم پرست پارٹی اقتدار میں آئی ہے تب سے ان کا یہ چوتھا دورہ ہے.

2005 سے 2013 کے درمیان گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر امریکی حکومت نے ان سے رسمی رابطہ بنانے سے گریز کرنا چاہا کیونکہ اسے شک تھا کہ ان کا ان فسادات میں کردار ہے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے.

واشنگٹن پوسٹ نے ان کے دورے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا ہے، ان امکانات پر بات کی ہے لیکن ماضی کے صفحات الٹنے کا کیا مطلب ہے. کیا وہاں کی میڈیا ہندوستانی امریکی تعلقات میں آئی اس تازگی کو لے کر تشویش میں ہے. ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان بن رہے ان تعلقات کو لے کر کافی جوش و خروش دکھائی دیتا ہے. 5 جون کے نیویارک ٹائمز میں گارڈنر ہیرس اس دورے کی اہمیت کے امکانات پر بات کرتے کرتے اچانک لکھنے لگتے ہیں کہ ‘دونوں کی دوستی کا تذکرہ ہے مگر یہ دوستی فطری نہیں لگتی.’

نیویارک ٹائمز اوباما اور مودی کی دوستی کو لے کر ہی سوال کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں کا موازنہ کرنے لگتا ہے کہ اپنے اپنے ملک میں اقلیتی کمیونٹی میں ان کی تصویر کیا ہے. نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوباما نے اقلیتوں کے تحفظ کو تو اپنا مقصد ہی بنا لیا ہے. وہ مانتے ہیں کہ تنقید اور اختلاف جمہوریت کی روح ہے. دوسری طرف مودی نے اپنی زندگي کا بڑا حصہ سنگھ کے کارکن کے طور پر گزارا ہے. آر ایس ایس ایک دائیں بازو والی تنظیم ہے جو ہندوستان کی ہندو اکثریت کے لئے مہم چلاتی ہے. مودی گجرات کے سربراہ تھے جب 2002 میں فسادات ہوئے  اور ان فسادات میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی موت ہوئی تھی. پچھلے ہی ہفتہ ایک فساد میں شامل ہونے کے الزام میں 24 لوگوں کو سزا بھی ہوئی ہے.

نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ ہندوستان میں 14 فیصد مسلمان ہیں اور اتنے ہی افریقی امریکن امریکہ میں ہیں. ہندوستانی مسلمانوں میں مودی کی تصویر کا موازنہ اخبار میں 1950 کی دہائی میں امریکہ میں ابھرے سدرن سگريگیسنسٹ سے کیا گیا ہے. یہ جماعت وہائٹ یعنی سفید کی بالادستی کی بات کرتی تھی مگر ان دہائیوں میں ابھر کر ختم بھی ہو گئی.

میں اس کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ نیو یارک ٹائمز ایک ایسے نامعلوم جماعت سے ہندوستان کے وزیر اعظم کی تصویر کا موازنہ کیوں کر رہا ہے. یہاں تک کہ نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ اوباما ایک اچھے شوہر ہیں، باپ ہیں، بچوں کے ساتھ دوستی ہے، مگر مودی کی کسی سے عوامی دوستی نہیں ہے اور انہوں نے اپنی بیوی کو بھی چھوڑ دیا ہے.

نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے پرانے قوانین کا استعمال کرکے اختلاف کو دبانے کی کوشش کی اور گرین پیس جیسے این جی او کا منہ بند کیا. ان اخبارات نے اپنی رپورٹ میں کئی تھنک ٹینک کی رائے لی ہے، جن کے بارے میں سینئر صحافی اشوک ملک نے ٹویٹ کیا ہے کہ ‘ڈی سی میں جن لوگوں کو میں جانتا ہوں وہ باقی آدھے بچے لوگوں کا انٹرویو لے رہے ہیں.’

کانگریس اور سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹیوں کی استقبالیہ تقریب میں حصہ لینا، پارلیمنٹ سے خطاب کرنا، کیا امریکی اراکین پارلیمنٹ، سینیٹروں اور وزیر اعظم مودی کے لئے ایک دوسرے کو قریب سے جاننے کا موقع نہیں ملے گا. ہندوستان میں جب صدر کلنٹن کا دورہ ہوا تھا تو ان سے ہاتھ ملانے کے لئے ہندوستانی اراکین پارلیمنٹ بے چین ہو گئے تھے. وزیر اعظم مودی امریکی کانگریس کے رہنماؤں کے ساتھ لنچ بھی کرنے والے ہیں. پر سب کی نظر ہوگی بزنس ڈیل پر.

اس سفر کے دوران ہندوستان اور امریکہ کے درمیان کئی دفاعی معاہدے ہو سکتے ہیں. دونوں ممالک کے درمیان دفاعی سودے کا کاروبار 14 ارب ڈالر کا ہو گیا ہے. جیٹ انجن اور ایئر کرافٹ کیریئر کی ٹیکنالوجی کی ترقی میں شراکت ہو سکتی ہیں. امریکہ اور ہندوستان دونوں ہی چین کی ترقی کو لے کر فکرمند ہیں. اس لئے واشنگٹن نئی دہلی سے رسمی اتحاد کرنا چاہتا ہے.

ہندوستان اور امریکہ کے درمیان جوہری ڈیل ہوئی تھی تو یہ اس کا حصہ تھا کہ امریکہ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں ہندوستان کو شامل کرانے میں تعاون کرے گا. کیا یہ سوال پوچھنے کا وقت نہیں آ گیا ہے کہ امریکہ نے کیا کیا. جب این ایس جی میں سول نیوکلیئر كوآپریشن کے بہانے ہندوستان کو خصوصی رعایت ملی تھی تب صدر جارج بش نے چین سے بات چیت کی تھی. کیا اوباما ایسا کریں گے؟ کیا ایسا کرنے کی پوزیشن میں وہ ہیں؟ چین اعتراض کر رہا ہے. ہندوستان کو 20 ہزار میگاواٹ کے نیوکلیئر ری ایکٹر خریدنے ہیں. پلو باگلا کے الفاظ میں لڈو بہت بڑا ہے. کیا امریکہ ہندوستان کے ساتھ اتنے بڑے مفاد کو نظر انداز کر سکتا ہے؟

امریکی میڈیا کے مطابق کچھ کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لئےبے قرار ہیں تو کچھ اب بھی تشویش میں ہیں. امریکہ چاہتا تھا کہ ہندوستان 2010 لائیبلٹی ایکٹ بدل دے لیکن سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور موجودہ وزیر اعظم مودی دونوں نے تبدیل کرنے سے انکار کر دیا. گزشتہ ماہ خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ باب كاركر نے کہا تھا: ہندوستان امریکہ تعلقات میں حقیقی حاصل سے زیادہ، امیدیں کچھ زیادہ کھیںچ گئی ہیں. اس دورے میں کیا ایٹمی شعبے کے کاروبار میں کوئی پیش رفت ہوگی. کیا یہ دورہ اس بنیاد پر ہی پرکھا جانا ہے. ہندوستان کو بھی اپنے ری ایکٹر فروخت کرنے ہیں. ہندوستان کو خریدنے بھی ہیں. فرانس، روس اور امریکہ اس بازار کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیں گے. اب سوال ہے کہ امریکہ ہندوستان کو این ایس جی کی رکنیت دے گا؟ بدلے میں ہندوستان کیا دے گا؟ 2010 کے لائیبلٹی ایکٹ سے چھٹکارا یا کچھ اور؟؟؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔