امریکہ کے ساتھ اتحاد یا تجدید بیعت؟

شاہد کمال

 لفظ اتحاد ہماری روز مرہ کی زبان میں استعمال ہونے والاایک بہت ہی انفرادی معنی رکھنے والالفظ ہے۔یہ اپنی عوامی حیثیت رکھنے کے باوجود اس کا تعلق براہ راست عوام سے نہیں ہے۔چونکہ موجودہ عہد میں کچھ ایسے الفاظ ہیں جو عوام کے لئے بولے جاتے ہیں ، لیکن اس کا تعلق عوام سے دور دور تک نہیں ہوتاجیسے سکولرازم، سماج واد،فلاح و بہبود، امن و شانتی،جمہوریت وغیرہ ۔ ان لفظوں کی تخلیق عوام کی ترجمانی کے لئے ضرور کئے گئے ہیںلیکن ان کا تعلق محض سیاست سے ہے،لہذا یہ عوامی ہونے کے باوجود بھی بڑے وی وی آئی پی لفظ ہیں،جس پر آج پوری دنیاکی سیاست کا انحصار ہے۔ اس لفظ کا استعمال اپنے مفاد کے لئے اس طرح کیا جاتا ہے جیسے ہماری جمہوریت میں ایک ماہر سیاستدان عوام کے ووٹ کا استعمال محض اپنے ذاتی حق کے لئے کرتا ہے۔ گویا لفظ اتحاد آج ہمارے عالمی معاشرے میںآپسی خیر سگالی کے بجائے اپنی غلامی کی سند توثیق کے لئے کیا جاتا ہے۔

  جہاں تک غلامی کی بات ہے تو غلامی کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسانی سماج کی ایک بہت قدیم رسم ہے۔جس کا تاریخی تجزیہ اس مختصر سے کالم میں ممکن نہیں ۔لہذا میں یہاں پر شعوری طور پراس موضوع کی تفصیلات سےانصراف کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔لیکن اگر اس کے ضمن میں ایک بات کہی جائے تو غلط نہ ہوگی، کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کو اپنا غلام بنانا یہ اپنی انا کی خود مختاری اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا ایک ایسا احساس ہے ،جو آمریت پسند ذہنیت رکھنے والے افراد کا محبوت ترین وطیرہ رہا ہے۔وہ اپنی اس اَنا کی تسکین کے لئے ہر ا س اقدام کو جائز سمجھتا ہے جسے دنیا کا ہر مذہب اس عمل کو ناجائز اور غلط قرار دیتا ہے۔یہاں تک کی ہمارے انسانی سماج میں بھی غلامی کی رسم کو درست نہیں مانا جاتا ۔ اس کرہ ارض پر غلامی انسان کے لئے سب سے بڑا عذاب ہے،اور ایک باضمیر شخص کے نزدیک غلامی کی زندگی موت سے کہیں زیادہ بدتر ہوتی ہے۔

 لیکن آمر و ڈیکٹیٹر شخص اپنے انانیت پسند مزاج کی تسکین کے لئے کسی بھی تخریب کاری ،سیاسی عیاری ،قتل و غارت گری اور دہشت گردی جیسے بھیانک عمل کو بھی انجام دینے میں ذرا بھی پس و پیش نہیں کرتا۔اس لئے کہ اُسے لوگوں کے مفاد سے کہیںزیادہ اپنے ذوق کی آسودگی عزیز ہوتی ہے۔ویسے تو غلامی کی رسم دنیا کے ہر ممالک میںپائی جاتی رہی ہے۔،لیکن پوری دنیا میں سب سے زیادہ غلامی کی رسم ایتھوپیا کے قبائلی علاقے مصر و یونان و روم اور خاص کر عرب کے بادیہ نشینوں میں پائی رائج تھی۔عرب کے بدووں سے متعلق دو چیزین زیادہ مشہور تھیں ایک لوگوں کو اپنا غلام بنانااور دوسری اُن کی جہالت۔

  لیکن جب عرب میں اسلام کا سورج طلوع ہوتو سب سے پہلے داعی اسلام یعنی جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے،عرب کے دور جاہلیت کی سب سے مذموم رسم غلامی پر قدغن لگانے کا کام کیا کیونکہ غلامی کی رسم نے عرب کے معاشرے میں انسانی اقدار کو انتہائی تذلیل کی منزل تک پہونچا دیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ اسلام میں غلاموں کی آزادی کے حوالے سے بہت زیادہ اجر وثواب کا ذکر کیا گیا ہے، چونکہ یہ رسم قدرت کے بنائے ہوئے قانون کے منافی ہے۔اس لئے کہ اللہ نے سب کو آزاد پیدا کیا ہے لہذا اس کے بندوںکو اپنا غلام بنانا اور اس پر زیادتی کرنا توہین قانون الہی کے مترادف ہے۔

 لیکن غلامی کی سب سے بدترین قسم یہ ہے کہ ایک ایسا انسان جو آزاد و خود مختار ہونے کے باوجود اپنے سخت ترین حریف اورآبائی دشمن کے سامنے اپنی استقامت کا مظاہرہ کئے بغیراس کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک کر انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ اپنے جان و مال اور تخت و تاج کے تحفظ کی بھیک مانگے  ایسے شخص یا قوم کے لئے اس بڑھ کر افسوناک صورت حال اور کچھ نہیں ہوسکتی۔

جس کی تازہ مثال حجاز مقدس پر قابض آل سعود کی خود ساختہ حکومت نے گزشتہ دنوں دنیا کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر اور تانا شاہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا خیر مقدم کرکے یہ ثابت کردیا کہ ریاض حکومت اپنے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتی ،اور انھیں خدا کی غیبی استعانت سے زیادہ امریکہ جیسی حکومت پر زیادہ بھروسہ ہے۔ریاض حکومت کا یہ رویہ اسلامی تعلیمات اور اس کے احکام کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہے ،ریاض حکومت کے اس عمل نے مسلمانوں کی ایک بڑی قیادت کی زمام یہودیت اور صیہونیت کے ہاتھوں میں دیدی ۔گویا انھوں نے ایک بار پھر عرب کی اس دور جاہلیت کی اس تاریخ کو تازہ کردیا کہ ایک غلام باپ کے چند بزدل بیٹوں نے اپنے نافرمان اور ظالم آقا کے ہاتھوں پر اپنی موت کے خوف سے تجدید بیعت کرلی ۔ یہودیت اور صہیونیت کے ہاتھوں پر تجدید بیعت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ریاض حکومت نے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اپنی وفاداری کے ثبوت میں تجدید بیعت کی ہے۔لیکن موجودہ تجدید بیعت کا یہ عمل اسلام کی غیر و حمیت کے خلاف ایک ایسا بزدلانہ اقدام ہے جس نے پورے عالم اسلام کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔ اس لئے کہ اسلام کی یہ تاریخ رہی ہے کہ اپنی فوجی قلت کے باوجود اپنے مخالفین کے سامنے اپنی استقامت کا بھر پور مظاہر ہ کیا اور خدائی فوج نے میدان جنگ میں اپنی فتح و کامرانی کے پرچم کو بلند رکھا ،اور اسلام کی حرمت و تقدس کو پائمال ہونے سے بچایا۔

لیکن خود کو عالم اسلام کا قائد بتانے والے آل سعود نے ایسی غیر سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا جس سے عالم اسلام کا سر ہمیشہ کے لئے باطل قوتوں کے سامنے سرنگوں ہوگیا۔ریاض میں ہونے والی سمٹ کانفرنس اصل میں شامل ہونے والے عرب اور غیر عرب ممالک کی حیثیت غلاموں کی ایک بھیڑ سے زیادہ اور کچھ نہیں تھی۔اس لئے کہ ساری دنیا ریاض حکومت اور امریکہ و اسرائیل کے عدل و انصاف کی حکمرانی کے بارے میں پہلے سے ہی جانتی ہے۔اس مرتبہ سعودیہ عرب میں ہونے والی امریکہ و عرب کانفرنس میں بھی اس عدل و انصاف کی مکمل رعایت کی گئی۔ اس کانفرنس میں دوست ممالک کے علاوہ غلام ملکوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق کانفرنس میں دوست ممالک اور غلام ممالک کے درمیان پائے جانے والے فرق کی بھرپور رعایت کی گئی۔ کچھ اسلامی ممالک اپنی پشتہنی غلامی کے اعزاز سے سرفراز ہونے کے لئے اپنی شرکت بھی درج کروائی محض اس بات کے لئے کہ ہمارا شمار بھی سعودی عرب اور امریکہ کے دوست ممالک میں ہوجائے ۔حالانکہ انھوں یہ نہیں معلوم تھا کہ آقا کے آگے غلاموں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔

 مملکت خداد پاکستان نے بھی اپنا شمار انھیں غلاموں کی فہرست میں درج کروانے کے لئے ریاض حکومت کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہاں حاضر ہوگیا۔لیکن وہاں پہونچنے کے بعد انھیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہوا کہ غلام صرف غلام ہوتا ہےاس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے اس عمل سے پاکستانی عوام میں افسوس کے ساتھ غم و غصہ کی ایک شدید لہر پائی جاتی ہے ۔وہاں کی بعض پارٹیوں کے سربراہوں نے پاکستانی صدر نواز شریف کے اس غیر سیاسی اقدام کی کھل کر مذمت کی ۔ایک خبررساں ایجنسی کے مطابق نواز شریف اس کانفرنس میں شریک ہونے کے لئے اتنے پُرعزم تھے کہ اس اجلاس کو خطاب کرنے کے لئے  انھوں نے اڑھائی گھنٹہ تیاری بھی کر رکھی تھی ۔ لیکن اس کے باوجود انھیں اس کانفرنس میں تقریر کرنے کا موقع تک نہیں دیا گیا۔مزید ذلت و رسوائی کا سامنا انھیں اسوقت کرنا جب عرب ممالک کے غلاموں کے آقا ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان کو اس لائق بھی نہیں سمجھا کہ انھیں اپنی تقریرکے کسی حصہ میں اپنا موضوع سخن بناتے۔پاکستان کے ساتھ ہونے والے اس ذلت آمیز رویہ کے خلاف وہاں کے میڈیا نے نوازشریف کا خوب جم کر میڈیا ٹرائل کیااور میڈیا وفد کی اکثریت نے بہت ہی کھل کر اپنے خیال کا اظہار کیا۔

 بعض اسلامی ممالک کے سربرہان نے اسلام ممالک کے سرپرست و قائد ڈونالڈ ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھنے میں کوئی کسر نہیں باقی رکھی۔ مصر کے صدر جنرل فتاح  السیسی نے کہا ’’امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ ناممکن کو ممکن بنانے میں کافی دسترس رکھتے ہیں اس بات کی تائید کرتے ہوئے فور ی طور پر‘‘ ٹرمپ ’’ نے جواب دیا میں آپ کی اس بات سے اتفاق رکھتا ہوں۔’’ڈونالڈ ٹرمپ‘‘ کے اس برجستہ جواب پورا ہال قہقہوں کی آواز سے گونج اٹھا۔اور ایک قطری شہزادے نے اپنی دیرینہ خواہش کے اظہار میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہم ’’ آپ کے خوب صورت ہتھیار خریدنا چاہتے ہیں۔اس ہتھیار کی خریدی کا مقصد کیا ہے آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔کمال تو تب ہوا جب اس پس منظر میں اپنی صدارتی تقاریر میں بلاامتیاز مسلمانان عالم کے خلاف صدر ٹرمپ نے کھل کر تبرّا کیا۔ گزشتہ روز ریاض میں انسداد ِعالمی دہشت گردی پر ’’امریکہ عرب اسلامی کانفرنس‘‘ میںخطاب کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ تسلیم کرنا کہ اسلام بہترین مذہب ہے اور میں اسلام میں دہشت گردی کا حامی نہیں ہوں ،اور دہشت گردی کے خلاف جنگ  صرف تہذیبوں کا تصادم نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف امن کا راستہ صرف سعودی عرب سے ہی نکلتا ہے۔میں ڈونالڈ ٹرمپ ‘‘ کی اس بات سے اتفاق رکھتا ہوں اس لئے کہ یہ بات درست ہے کہ اگر چوری کا خطرہ ہوتو چور کو اس عہدے پر مامور کردو تو چوری کا امکان کم ہوجاتا ہے۔

 ریاض کی جانب سے منعقد کی جانے والی اس اکانفرنس کا انجام کیا ہونے والا ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔لیکن اس کانفرنس سے یہ بات تو طے ہوگئی ،کہ ریاض حکومت نے تمام اسلامی ممالک کی موجودگی میں ایک بار پھر اپنے آقا کے ہاتھو ں پر تجدید بیعت کرکے اپنی پشتہنی وفاداری کا بین ثبوت پیش کیا ہے کہ ہم آ پ کے آبائی غلام ہیں،اور ہماری جان ومال تخت و اقتدار سب آپ کے مرہون کرم ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔