امن، ترقی اور نجات کا باہمی تعلق

ڈاکٹر سلیم خان

انسان جسم، روح اور نفس کا حسین ترین امتزاج ہے۔ قرآن حکیم میں تخلیق انسانی کے مراحل اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ ’’اس نے جو چیز بنائی بہترین بنائی اور انسان کی خلقت کی ابتداء گیلی مٹی سے کی پھر اس کی نسل کو ایک حقیر پانی (نطفہ) کے نچوڑ سے قرار دیا۔ آدم کو جسمِ خاکی سے نوازنے کے بعد خالق کائنات نے ’’  پھر اس کو درست کیا (اس کی نوک پلک سنواری) اور پھر اس میں اپنی روح پھونک دی‘‘ اس طرح گویا انسان کو حیات جاوداں  بخش دی گئی۔ آگے فرمانِ ربانی ہے کہ ’’ اورتمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل (دماغ) بنائے  مگر تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے رہو‘‘۔سمع و بصر اوردل ودماغ کی قوتوں کو بروئے کار لاکرانسان اپنی  شخصیت یعنی نفس و ذات  کی علمی و فکری  تعمیر کرتا ہے۔

نفس انسانی کی اولین ضرورت امن و سکون ہے۔ جو شخص اپنے آپ سے برسرِ پیکار ہو وہ اطمینان قلب کا حامل  نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کے اندرامن و امان وہی قائم کرسکتا ہے جس  کااپنا قلب و ذہن، امن و سکون کا  مسکن ہو  ورنہ سینےمیں چھپا کبر وغرور،حرص و ہوس، بغض و حسد اورنفرت و عناد کا زہر جب باہر آتا ہے تو پورے سماج کو ظلم و فساد سے بھر دیتا ہے۔ اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے ربانی انتظام یہ ہے کہ ’’ اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا،پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی۔ یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔ اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا‘‘۔ یہی الہام اعلی انسانی ا قدار کا مرجع و منبع ہے۔ یہ انسانی ضمیر خیر پر خوش ہوتا ہے اور شر کو ٹوکتا ہے۔ اس کے علاوہ رب کائنات کا عظیم ترین احسان انبیاء کرام کا روشن سلسلہ ہے۔ انسان جب انفرادی و اجتماعی زندگی میں رسولوں  کی پیروی کرتا ہے تو سماج  علمی، فکری، سائنسی اور معاشی ترقی کی راہوں پر گامزن ہوجاتا ہے۔

ترقی وارتقاء  کا یہ سفرمادی و خوشحالی کے دروازے کھول دیتا ہے۔ سائنسی وتکنیکی ایجادات  انسانی زندگی  آرام دہ بناتی ہیں ۔ اس کے جسمانی وجود کو ہر طرح کی راحت و فرحت سے ہمکنار کرتی ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ابن آدم  دنیا کے عیش و آرام میں پڑ کر اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ  ’’ آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہری فریب کی چیز ہے‘‘۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کا ذکر ملاحظہ فرمائیں  ’’اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے۔ جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا رزق اسے وسیع مقدار میں پہنچ رہا تھا‘‘ یعنی  امن وامان کے ساتھ ترقی و خوشحالی بھی تھی لیکن ’’پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تواللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب) مسلط کردیا‘‘۔افلاس وفاقہ  دراصل ترقی و خوشحالی کی ضد ہے اور امن کوخوف غارت کردیتا ہے۔

انسان اللہ کی عطاکردہ  نعمتوں  کا مالک نہیں بلکہ امین ہے۔ اللہ کی مرضی کے مطابق  نعمتوں کا استعمال  دنیا میں اضافہ کا سبب بنتا ہے اور اخروی نجات  کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر نعمتِ خداوندی کو  فلاح و بہبود کے بجائے تباہی و بربادی کے کام میں لایا جائے تو وہ دنیوی و اخروی خسران کا سبب بن جاتی ہیں ۔ روح کی کامیابی دراصل رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی نجات ہے۔ فلاح پانے والی سعید روحوں  کو بشارت دی گئی ہے کہ  ’’ اے اطمینان پانے والی روح!  اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جااور میری بہشت میں داخل ہو جا‘‘۔ روحانیت کی اس معراج  کو علامہ اقبال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ؎

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے       

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

تبصرے بند ہیں۔