اخترؔ الایمان کی شخصیت کے چند نقوش

ابراہم افسر

اخترؔالایمان(۱۹۱۵ء۔۱۹۹۶ء)کا شمار بیسویں صدی کے نما ٰیندہ نظم گو شاعروں میں ہوتا ہے۔فیضؔـ‘جوشؔ‘ن۔م۔راشدؔ اور میراجیؔ کے بعد جس شاعر نے اردو نظم نگاری کو نئی پہچان‘ جہت ‘ سمت و عروج بخشا وہ  اخترؔالایمان ہے۔اخترؔالایمان نے اپنے دور کی کسی بھی تحریک سے وابستہ ہو کر شاعری نہیں کی۔ حالاں کہ ایک طرف ان کے تعلقات ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں سے تھے تو دوسری جانب حلقہ ارباب ذوق سے بھی ان کی دوستی تھی۔میراجی کے ساتھ ساتھ سردار جعفری‘ سجاد ظہیر‘ ملک راج آنند‘ کیفی اعظمی‘ شہر یار‘ مجروح سلطان پوری جیسے نام ور ادیبوں اور  شاعروں سے اچھے مراسم تھے۔

  دورِ حاضر میں اگر نظم نگاری پر گفتگو کی جایَ تواخترالایمان کے بغیر بات ادھوری ہے۔کیوں کہ نظم نگاری  اخترؔالایمان کا اوڑھنا اور بچھونا تھی۔اس صنف سخن میں انھوں نے اپنی ایک علاحدہ پہچان بنایٔ۔ ان کی نظموں کے چھے مجموعے’ گرداب ـ ‘(۱۹۴۳ء)‘ ’تاریک سیاّرہ‘(۱۹۴۶ء)‘ایک منظوم تمثیل سب رنگ‘ (۱۹۴۸ء)‘آبِ جو‘ (۱۹۵۹ء)‘ ’یادیں ‘ (۱۹۵۰ء)‘ ’بنتِ لمحات‘ (۱۹۶۹ء)اور‘ نیا آہنگ‘ (۱۹۷۷ء)‘ منظرِعام پر آ چکے ہیں۔ ان کا کلیات ’سروسا ماں ‘(۱۹۸۴ء) میں شا ئع ہوا۔’ یادیں ‘ پر انھیں ساہتہ اکادمی انعام ملا۔اخترؔالایمان کوملک کی مختلف اردو اکادمیوں نے اردو ادب کی خدمات انجام دینے کے لیے انعامات اور اعزازات سے نوازا۔ان میں اردو اکادمی لکھنؤ‘ میر اکادمی لکھنؤ‘ غالب اکادمی لکھنؤ‘ اردو اکادمی دہلی‘ مدھہ پردیش اردو اکادمی ‘ مہاراشٹرا اردو اکادمی وغیرہ کا نام سرِفہرست ہے۔ ان کے کلیات ’سروسا ماں ‘ پر مدھہ پردیش اردو اکادمی نے اقبال سماّن سے انھیں سرفراز کیا۔

  اردو ادب میں خود نوشت لکھنے کا رواج کافی پرانا ہے۔ادیبوں اور شاعروں نے جہاں ایک جانب اپنی آپ بیتیاں لکھیں تو دوسری طرف دوسرے لوگوں کی سوانح بھی سپرد قلم کیں۔ آج دورِ حاضر میں یہ صنف کافی مقبول ہے۔جن اردو ادیبوں اور شاعروں نے اس جانب توجہ مرکوز کی ان میں عبدالغفور نساخ(آپ بیتی‘۱۸۸۶ء)‘  جعفر تھانسری (کالاپانی‘۱۸۸۷ء)‘میر تقی میرؔ(ذکرِ میر)سر رضا علی(اعمال نامہ)‘سر ظفراللہ(تحدیث نعمت)‘ عبدالمجید سالک(سرگزشت)‘ذدالفقار علی بخاری(سرگزشت)‘ عبدالماجد دریابادی(آپ بیتی)‘ یوسف حسین خاں (یادوں کی دنیا)‘ رشید احمد صدیقی(آشفتہ بیانی میری)‘ مرزا ادیب (مٹّی کا دیا)‘ خواجہ غلام الدیں (مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان سے)‘ اخترؔ حسین رائے پوری(گردداں )‘ جوش ملیح آبادی(یادوں کی بارات)‘ جاوید شاہین(میرے ماہ و سال)‘ کشور ناہید(بری عورت کی کتھا)‘ قدرت اللہ شہاب(شہاب نامہ)‘ وزیر آغا(کل)‘ احسان دانش(جہانِ دانش)‘ فقیر عبدالمجیدسروری قادری(الہامات)‘ شاد عظیم آبادی(شاد کی کہانی شاد کی زبانی)‘ شورش کاشمیری(بوے گل‘ نالۂ دل‘ رو چراغِ محفل)‘ سید محمد عقیل(گئودھول)‘ وزیر آغا(شام کی منڈیر پر)‘ زبیر رضوی(گردش پا)‘ وارث کرمانی(گھومتی ندی)‘ ممتاز مفتی (الکھ نگری)‘ قرۃالعین حیدر(کارِ جہاں دراز ہے‘ گیان سنگھ ساطر(گیان سنگھ ساطر)‘ حمیدنسیم(ناممکن کی جستجو)‘ مشتاق احمد یوسفی(زر گذشت)‘ محمد حسن مگھیانہ (انوکھا ڈلا)‘ آل احمد سرور (خواب باقی ہیں )‘ کلیم الدیں احمد (اپنی تلاش میں )‘ کلیم عاجز (ابھی سن لو مجھ سے)‘ عصمت چغتائی(کاغذی پیرہن)‘ معین حسن جذبی (سچ کہتا ہوں کہ)‘ حمیدہ بیگم اختر رائے پوری(ہم سفر)‘ صالحہ عابد حسین  (سلسلہ روزوشب)‘ مسعود حسن خاں (دردو مسعود)‘  ادا جعفری (جو رہی سو بے خبر رہی)‘  غلام جلانی برق(میری داستان حیات)‘ عبدالسلام خورشید(روہیں ہیں رخش عمر)‘ عشرت رحمانی(عشرت خانی)‘ مبارک علی (درد رکی ٹھوکر کھائے)‘اطہر صدیقی (میں کیا میری حیات کیا) قاضی جلیل عباسی (کیا دن تھے) امرتا پریتم (رسیدی ٹکٹ) کے علاوہ اختر الایمان کی سوانح خودنوشت،’ اس آباد خرابے میں ‘سر فہرست ہے۔ نظم نگاری کے علاوہ اختر ؔالایمان کی شہرت میں چار چاند لگانے والی نثری کتاب یہی خودنوشت ہے۔اسی خودنوشت کے حوالے سے میں اخترؔایمان کی شخصیت کے چند نقوش پر گفتگو کرنے کی سعی کروں گا۔

  شروع میں اس خودنوشت کا نام’چلتے چلاتے‘، ’آپ بیتی‘ اور ’ایک جہاں گرد کی کہانی‘ تجویز کیا گیالیکن اخترالایمان کے دیرینہ دوست ’سوغات ‘ اخبار کے مدیر ’’محمود ایاز‘‘ نے ’یادیں ‘‘ کا ایک مصرع

 دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں

سے اس کا نام ’’اس آباد خرابے میں ‘‘ رکھا۔ یہ خودنوشت  ۱۵ / ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کا مقدمہ اخترؔالایمان کی شریک حیات (ثانی) سلطانہ ایمان نے چار صفحات میں تحریر کیا ہے۔ دو صفحات پر محیط پیش لفظ خود اخترؔالایمان نے لکھا۔ اخترؔالایمان جب بستر مرگ پر تھے اور لکھنا پڑھنا تقریباً بند ہو چکا تھا تو سلطانہ ایمان نے ہی اس خودنوشت کے پندرھویں باب کے آخری صفحہ کو مکمل کیا۔ اخترؔالایمان نے اس خودنوشت میں اپنی زندگی کے تمام گوشوں کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ انتہائی ذاتی باتوں کو بھی انھوں نے کسی سے چھپایا نہیں۔ بلکہ بے باک انداز میں اپنی ذاتی رائے کے ساتھ انھیں قلم بند کیا۔ اپنی خودنوشت لکھنے کا اخترالایمان کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ایک دن اچانک ان کے ذہن میں اسے قلم بند کرنے کی بات آئی۔ اسی وقت سے صفحہ قرطاس پر اپنا زندگی نامہ تحریر کرنا شروع کیا۔شروع میں چند صفحات’’سوغات‘‘ میں شائع ہوئے۔ پھر محمود ایاز کی فرمائش پر اسے باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔

 اس خودنوشت کے مطابق اخترؔالایمان نے ابتدائی تعلیم کی شروعات ایک مدرسہ سے کی کیوں کہ ان کے والد فتح محمد حافظ قرآن اور مسجد میں پیش امام تھے وہ اپنے بیٹے کی تعلیم قدیم طرز پردلانا چاہتے تھے جہاں ان کے والد اپنے پیشے کے مطابق گئے، اخترؔالایمان بھی انھیں کے ساتھ رہے اس طرح یہ جگہ جگہ گھومتے رہے، کبھی مدرسہ اور کبھی اسکول۔ دونوں جگہ پر اخترالایمان کا دخل برابر رہا۔ ۱۹۳۰ء میں اخترؔالایمان کو دہلی کے ایک ریفارمیٹری اسکول موئدالاسلام (ایک طرح کا یتیم خانہ) میں ان کی خالہ نے داخل کرایا یہاں پر انھوں نے چار سال گزارے اس یتیم خانے کے استاد عبدالواحد نے اخترؔالایمان کی ذہنی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس جگہ پر انھوں نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی۔ کیونکہ اسکول میں طلبا کی جب بھی شہر سے کوئی دعوت ہوتی تو تمام طلبا کا گزر جامع مسجد کی سیڑھیوں سے ہوتا تھا۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر استاد شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا اور شاعر حضرات اپنے اشعار پر خوب داد لیتے اور دیتے تھے۔ انھیں شاعروں میں ’’اشفاق‘‘ نامی شاعر پھول بیچنے کے لیے اپنی شاعری کا استعمال کرتا تھا۔ اشفاق کے اشعار سن کر اخترؔالایمان نے برجستہ کہا کہ ’’ ایسی شاعری تو میں بھی کر سکتا ہوں ‘‘۔ یہیں سے اخترؔالایمان کے اندر شاعری کا ذوق و شوق پیدا ہوا۔

  ریفارمیٹری اسکول موئدالاسلام سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اخترؔالایمان نے فتح پوری مسلم ہائی اسکول(دہلی) میں ایک مختصر سے انٹرویو کے بعد داخل ہو گئے۔ ۱۹۳۸ء میں انھوں نے یہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اینگلو عربک کالج دہلی میں داخلہ لیا۔ کالج کے تعلیم ان کے ذہن اور شخصیت سازی میں اہم رول ادا کیا۔ اپنے کالج کی جانب سے انھیں ہندوستان کے نمائندہ کالجوں میں مقابلہ تقریر کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ یہ ہمیشہ اول مقام حاصل کرتے تھے۔ کالج کے تعلیم کے دوران ہی ان کے اہل خانہ نے اخترؔالایمان کا نکاح بغیر ان کی اجازت سلمہ نامی لڑکی سے کردیا گیا۔ اس شادی سے اخترؔالایمان ہمیشہ پریشان رہے۔ شادی، پڑھائی میں رکاوٹ نہ بنے اس لیے انھوں نے اپنی بیوی سے کبھی کوئی خانگی رشتہ ہی نہ رکھا۔ شادی کے بعد یہ سیدھے دہلی آ گئے۔ اخترؔالایمان دہلی کے قیام کے دوران دوسرے لڑکیوں میں خوب دلچسپی لینے لگے تھے۔ اسی دوران اخترؔالایمان دہلی کے ایک معزز خاندان کی لڑکی سلطانہ پر مر مٹے۔سلمہ سے طلاق لینے کے بعد اخترؔالایمان نے ۳ مئی ۱۹۴۷ء کو سلطانہ سے نکاح کر لیا۔ عربک کالج میں تعلیم کے دوران ہی مشاعروں میں جانا اور طلبا کو اپنی شاعری سے محظوظ کرنا ان کاشغل بن گیا تھا۔ ایک دور ایسا بھی آیا جب کالج میں ان پر نظمیں پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ کالج انتظامیہ کو ان کی نظموں میں فحش باتوں کی بو آتی تھی۔ طلبا یونین نے اخترالایمان کی حمایت میں کالج میں ہڑتال کی۔ آخرکاراخترؔالایمان اور طلبا یونین کی باتوں کو کالج انتظامیہ نے مان لیا۔

 زمانۂ طالب علمی کے دوران اخترالایمان نے کئی افسانے بھی لکھے۔ ’’جھلی والا‘‘ اور ’’وطن‘‘ ان کے اہم افسانے ہیں۔ رسالہ ’ساقی‘ میں ان کے افسانے شائع ہوتے تھے ان کی ادبی صلاحیتوں کے مد نظر کالج میگزین کا انھیں مدیر بنایا گیا۔ دہلی کے کئی استاد شاعروں نے ان کی شاعری پر سخت تنقید کی۔ نئی شاعری بتا کر ان کی شاعری کو خارج کیا گیا۔ لیکن کئی شاعروں نے ان کی شاعری کی تعریف کی۔اسی دوران ان کے مراسم ملک کے نامی اور مشہور شاعروں سے ہو گئے۔ اس طرح ان کی شاعری کے چرچے چاروں طرف ہونے لگے اور ان کی شاعری قبول عام کے زمرے میں آنے لگی۔ ساغر نظامی نے ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر انھیں اپنے رسالے ’ایشیا‘ میں کام کرنے کی دعوت دی۔ ساغر نظامی اس رسالے کو میرٹھ سے نکالتے تھے۔ اخترؔالایمان دہلی سے میرٹھ آ گئے۔ میرٹھ میں رسالہ ’ایشیا‘ کی ادارت کرنے کے ساتھ ساتھ میرٹھ کالج میرٹھ میں ’ایم۔اے فارسی‘ میں داخلہ لے لیا۔ تقریباً سال بھر بعد اخترؔالایمان ’ ایشیا‘ اور میرٹھ کالج میرٹھ دونوں کو خیراباد کہہ دہلی واپس آ گئے۔کچھ دن بعد ان کی تقرری اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر ریڈیو میں ہو گئی۔ ریڈیو میں ملازمت کے بعد ان کے تعلقات کا دائرہ سیع سے وسیع تر ہونے لگا۔ سعادت حسن منٹوؔ، کرشنؔ چندر، راجندر سنگھ بیدیؔ،اپیندر ناتھ اشک،ن۔م راشد وغیرہ ادیبوں اور شاعروں سے اکثر ان کی ملاقات ریڈیائی پروگراموں میں ہونے لگی۔ احسان دانش، اختر شیرانی،میراجی اور فیض بھی اکثر ریڈیو پر مشاعرے میں شرکت کرنے آتے تھے۔

 ریڈیو کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اخترؔالایمان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔ یہاں پر ان کی تربیت میں رشید احمد صدیقی کا اہم رول رہا۔ علی گڑھ آنے سے قبل ہی ان کی شاعری کا مجموعہ ’’گرداب‘‘۱۹۴۳ء میں منظر عام پر آ چکا تھا۔ اس مجموعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فراق گورکھپوری نے کہا تھا’’شاید شاعر ناگ پھنی نگل گیا ہے۔‘‘ علی گڑھ میں انھوں آل احمد سرورجیسا کمالِ فن استاد ملا۔ یہاں پر انھیں کلاسیکی شاعری اور فاؤسٹ شاعری میں فرق سمجھنے کا موقع ملا۔ ایم اے سال اول میں اخترؔالایمان نے پوری یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔ زیر تعلیم تھے کہ اپنے استاد آل احمد سرور کے ساتھ ترقی پسند تحریک کی حیدرآباد کانفرنس (۱۹۴۴ء) میں شامل ہونے کے لیے گئے۔

علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اخترؔالایمان پونا فلموں میں بطور اسکرپٹ رائٹر کام کرنے کے لیے چلے گئے۔ پونا میں فلم پروڈیوسروں اور ڈائرکٹروں کے دفاتر کے چکر لگانا ان کا معمول بن گیا تھا کیونکہ فلمی دنیا میں ان کا کوئی گاڈ فادر نہ تھا۔ یہاں ان کی ملاقات جدن بائی، یوسف خان جیسے لوگوں سے ہوئی۔ جوش ملیح آبادی کے ساتھ انھوں نے پونا میں کئی مشاعروں میں شرکت کی۔ شاہد لطیف(عصمت چغتائی کے شوہر ) سے بھی ان کی ملاقات پونا میں ہوئی۔ دراصل پونا میں ان دنوں کافی فلمیں بنتی تھیں۔ کرشن چندر کی رہائش بھی پونا میں ہی تھی۔ اخترالایمان کوڈائری لکھنے کا شوق بھی پونا میں ہی ہوا۔ اپنی خودنوشت میں انھوں نے اپنی ڈائری کے چند اوراق اور ماضی کے تلخ تجربات قاری کے ساتھ ساتھ اردو دنیا کے سامنے رکھے۔ ان کی لکھی ہوئی ڈائری میں کئی واقعات تاریخی ہیں۔ اس طرح یہ ڈائری ایک دستاویز ڈائری بن گئی ہے۔جوش ؔملیح آبادی کے بارے میں اخترؔالایمان نے انکشاف کیا ہے کہ’’وہ پہلے سنّی تھے بعد میں شعیت اختیار کی، والد کے لاکھ سمجھانے کے بعد بھی جوش نے شیعت کو ترک نہ کیا، اخترؔالایمان نے اپنی ڈائری میں ملک کے تقسیم ہونے کے بعد کے حالات کا جائزہ بھی طائرانہ انداز میں لیا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات نے ملک کو کس قدر نقصان پہنچایا۔ اور خود ان کی شریک حیات سلطانہ ایمان کو ان فسادات نے کس طرح متاثر کیا، معاشرے میں یہ آگ کہاں تک پہنچی، کا بھی جائزہ بڑے دل دوز انداز میں لیا ہے۔

پونا میں آنے کے بعد اخترالایمان کو سب سے پہلے ’غلامی‘ فلم کے لیے مکالمے لکھنے کا موقع ملا اس کے بعد دوسری فلم نجم نقوی کے ساتھ’’ پرتھوی راج، سنجوگتا‘‘ کی۔ پونا میں فلمی لوگوں نے اخترالایمان کے ساتھ اچھا مذاق نہ کیا۔ کئی پروڈیوسروں نے ان کا واجب محنتانہ بھی نہ دیا۔ جب بھی یہ روپیوں کا تقاضہ کرتے توفلمی دنیا کے عیار اور مکار لوگ حیلہ بازی سے کام لیتے۔ اس طرح اخترالایمان پونا سے بد دل ہو کر ممبئی آ گئے۔ جہاں پر ان کی شہرت ملک گیر ہو گئی۔

 ممبئی میں ٓانے کے بعد ان کی ملاقاتیں اس وقت کے مشہور ادیبوں اور شاعروں سے ہونے لگی۔ میراجی بھی ان دنوں بمبئی میں ہی قیام پذیر تھے۔ ویسے بھی میراجی سے ان کا تعلق خاص تھا۔ اکثر شام کو میراجی اخترالایمان کے گھر پر آتے تھے۔ جام و ساغر کا دور دورہ ہوتا تھا۔کثرت مے نوشی سے میراجی کی صحت خراب رہنے لگی۔ اسپتال میں میراجی کو بھرتی کیا گیا۔ طویل علالت کے بعد میراجی کا انتقال ممبئی میں ہوا۔ میراجی کی موت کی خبر اردو ادب کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھی۔ لیکن میراجی کی میت کی تجہیز و تکفین میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ لوگ شریک نہ ہوئے کیونکہ ترقی پسندوں نے میراجی پر ۱۹۴۴ء کی حیدرآبادککانفرنس میں رجعت پسند ہونے کا فتویٰ صادر کیا تھا۔

 اخترالایمان کو ممبئی میں ایک ایسے مکان کی تلاش تھی جہاں پر وہ بیٹھ کر اپنا ادبی اور فلمی کام کر سکیں۔ کیوں کہ ان کے چاریچوں کی دھما چوکڑی کی آواز ہمیشہ ان کے کانوں میں گونجتی رہتی تھی۔لکھنے پڑھنے کے لئے سکون درکارتا ہے۔اخترؔالایمان کے مکالموں کو شہرت کی بلندی پر لے جانے والی فلم ’’پاکیزہ ‘‘ تھی۔کمال امروہی نے پاکیزہ کی کہانی اور مکالمے لکھنے کاایک تحریری مہایَدہ کیا تھا۔ لیکن جب فلم منظرِعام پر ٓائی تو اس میں سے اخترؔالایمان کا نام غائب تھا۔اس نازیبا حرکت سے اخترؔالایمان بہت پریشان ہویَ۔اس کے بعد اخترؔالایمان  بی۔آر چوپڑا کیمپ سے منسلک گئے۔اس پروڈکشن ہاوَس میں بغیر گانوں والی فلم(جو صرف مکالموں پر مبنی تھی)’قانون‘ بنی۔ اخترؔالایمان کے لکھے مکالموں نے پورے ملک میں دھوم مچا دی۔ فلم زبردست کامیاب رہی۔’قانون کے بعد اخترؔالایمان نے فلم ’وقت‘ لکھی۔(اس فلم میں بھی مکالموں کا اہم کردار رہا)یہ بھی زبردست کامیاب فلم رہی۔’اپرادھ‘ ’میرا سایہ‘ ’آدمی‘ ’مجرمـ‘ ’پھول اور پتھر‘ اور پتھر کے صنم وغیرہ فلموں نے اخترؔالایمان  کو ایک کامیاب اسکرپٹ رأٹرکے زمرے میں لا کر کھڑا کر دیا۔وقت فلم کا ایک ڈایٔلاگ ــــ’’جس کے گھر شیشیے کے ہوں وہ دوسروں پر پتھر نہیں پھینکتے ِ،، بہت مشہور ہوا۔ گمراہ، اتفاق،ہمرازاور دھرم پترکامیاب فلمیں یسی دور کی ہیں۔ دھرم پتر کے لکھے بہترین مکاکلمے نگاری پر۱۹۶۳ء میں اور ۱۹۶۶ء میں فلم وقت کے لٔے’بیسٹ ڈایٔلاگ رأٹر‘ کا انعام اخترؔالایمان کودیا گیا۔در اصل ۱۹۶۰ء سے ۱۹۸۵ء تک کا دور اخترؔالایمان  کے لئے فلموں اورب ادبی سرگرمیوں کا سنہرا دور رہا ہے۔اس دوران ان کے ادبی اور فلمی کاوشیں پروان چڑھیں۔ اپنی ان تمام کامیابیوں کا صلہ اخترؔالایمان  نے حضرت خواجہ نظام الدینؒ کو دیا ہے۔دہلی میں جب یہ بے روزگار تھے تو انھوں نے نظام الدین اولیا سے اپنے حق میں دعا مانگی تھی۔ بقول اخترؔالایمان۔ ۔۔

 ”    میں نے سوچا روز اپنے گھر سے حضرت نظام الدین کی درگاہ پیدل جایا کروں گا کیسا ہی موسم یا صورت حال کیوں نا ہواور میں اپنی اس نیت پر بہت دن تک قایٔم رہا۔روز شام کو گھر سے  نظام الدین تک جانا اور آنا۔ایک روز خیال میں آیا  روز ان بزرگ کے مزار پر آکر پلٹ جاتا ہوں کبھی ایک بار بھی فاتحہ نہیں پڑھی۔ میں نے مزار پر جا کر فاتحہ پڑھی۔ ساتھ   ہی ذہن میں کچھ اس طرح کے فقرے بھی آئے۔’’اے بزرگ خواجہ آپ کے فیض سے خسروؔ خسرو ہو گیٔے۔میں  اچھی  شاعری کرنا چاہتا ہوں مگر میرا نہ کوئی استاد ہے نہ رہنما نہ مجھے معلوم ہے کہ اچھی شاعری کیا ہو سکتی ہے۔ آپ کا  فیص روحانی کچھ میرے حصّے میں بھی آ جاے تو شاید میں کامیاب ہو جاؤں اس کے بعد میں نے دہلی چھوڑ دی۔” (اس آباد خرابے میں ‘ صفحہ241  تا 242  اردو اکادمی دہلی‘2015ء)

 اس طرح اخترؔالایمان کی دعا قبول ہوئی اوروہ فلمی دنیا میں اسکرپٹ رأٹر اور مکالمہ نگار کے علاوہ اپنی نظم نگاری کے سبب اردو ادب میں محترم ہوگیا۔ آج ملک کی مختلف یونیورسٹیوں  نے اخترؔالایمان کی نظموں کو اپنے نصاب میں شامل کیا ہوا ہے۔اس کے علاوہ کئی صوبوں میں اخترؔالایمان کی نظمیں ثانویں سطح تک اردو کو رس میں شامل ہیں۔ کیٔ یونیورسٹیوں   نے ان پر تحقیقی کام بھی کرائے ہیں۔ اخترؔالایمان اپنے آخری دنوں میں سخت بیمار ہوگئے تھے۔ امریکہ میں کیٔ ماہ تک زیرِ علاج رہے۔ ان کے دل کی by pass  سرجری کرائی گیٔ۔امریکہ کے اسپتال کے اخراجات نے انھیں اندر تک سے توڑ کر رکھ دیا۔مالی دشواریاں پریشانی کا سبب بنی۔انھیں اپنے کیٔ مکان فروخت کرنے پڑے۔کیوں کیاخترؔالایمان کو گردوں کی بیماری نے جکڑ لیا تھDIALYSISپر جیتے رہے آخر کار ۹مارچ۱۹۹۶ء میں ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے اخترؔالایمان نے اس سرائے فانی کو الوداع کہا۔ ان کی تدفین باندرا ایسٹ کے باندرا قبرستان (ممبیٔ) میں ہوئی۔

  اخترالایمان کی وفات کے بعد اس خودنوشت کے آخری صفحے کوان کی شریک حیات سلطانہ ایمان نے لکھا۔اس آخری صفحہ کی سطریں جب پڑھتے ہیں تومعلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ سلطانہ ایمان نے تحریر کی ہیں۔ کیوں کی سلطانہ ایمان نے بات کو وہیں سے شروع کیا ہے جہاں پر اخترؔالایمان نے چھوڑا تھا۔سلطانہ ایمان نے صرف ۱۷ سطریں اس خودنوشت کے لیے تحریر کیں۔ لیکن پوری خودنوشت پڑھ لینے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ گویا شروع سے لے کر آخر تک اخترؔالایمان کے ساتھ سلطانہ ایمان ساے کی طرح رہی ہیں اس خودنوشت کی مقبولیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو اکادمی دہلی نے اسے۱۹۹۶  ‘  ۱۹۹۹  ‘  ۲۰۱۰  اور  ۲۰۱۵ میں شایٔع کیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔