ہندوستانی عدلیہ کا سب سے بڑا بحران

ڈاکٹر قمر تبریز

ہندوستان کی تاریخ میں ہم پہلی بار یہ دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے میڈیا کے سامنے آکر یہ بات کہی ہے کہ عدالت عظمیٰ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ ان لوگوں نے خاص کر موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا، جسٹس دیپک مشرا کے بعض اقدام پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا اور ہندوستانی عوام کو واضح الفاظ میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ جمہوریت کو بچانے کے لیے آگے آئیں ، کیوں کہ اگر عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا، تو پھر ہماری جمہوریت محفوظ نہیں رہے گی۔ یہ واقعی میں ہمارے ملک کے لیے بڑی خطرناک بات ہے۔ سپریم کورٹ کے چاروں سینئر ججوں کی اس پریس کانفرنس کے بعد نہ صرف ہم ہندوستانی شہری حیران ہیں ، بلکہ پوری دنیا کی نظر بھی اب اس خبر پر لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ، مودی حکومت کے مرکز میں آنے کے بعد عدلیہ اور مقننہ کی لڑائی طول پکڑنے لگی تھی، لیکن آج ایسا پہلی بار ہوا ہے، جب خود سپریم کورٹ کے ججوں نے سامنے آکر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور ہمیں آگے کے خطرات سے آگاہ کیا ہے۔

ہندوستانی جمہوریت کے تین بنیادی ستون ہیں  –  مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ۔ ملک کا پورا ڈھانچہ انھیں تینوں ستونوں پر مضبوطی سے کھڑا ہے۔ عوام نے میڈیا پر بھروسہ کرتے ہوئے خود سے اسے چوتھا ستون مان لیا اور کہا کہ عمارت اگر چار ستونوں پر قائم ہو، تو اس کی مضبوطی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ عملی طور پر دیکھا جائے، تو یہ بہت حد تک صحیح بھی ہے۔ لیکن، آئین ہند میں جمہوریت کے صرف تین ستونوں کا ذکر ملتا ہے۔ عوام نے میڈیا کو چوتھے ستون کی جو ذمہ داری بخشی تھی، موجودہ پس منظر میں وہ ستون اگر پوری طرح گرا نہیں ہے، تو کم از کم اس میں بری طرح شگاف ضرور پڑ گیا ہے اور اسے مرمت کی فوری ضرورت ہے۔

بہرکیف، ہمارے آئین سازوں نے جمہوری اصولوں پر ملک کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کے لیے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے کام بہتر انداز میں بانٹ رکھے ہیں اور اس کی پوری صراحت آئین ہند میں موجود ہے۔ تینوں کو انفرادی طور پر مکمل آزادی دی گئی ہے کہ وہ بلا خوف و خطر صرف اور صرف ملک کی بہتری کے لیے کام کریں ۔ لیکن، بعض دفعہ ان تینوں میں بالادستی کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمارت کی چھت تبھی صحیح سلامت رہ سکتی ہے، جب تینوں ہی ستون برابر کھڑے ہوں ۔ ان میں سے ایک بھی ستون کو اگر چھوٹا یا بڑا کیا گیا، تو چھت جھکے گی، جس کی وجہ سے اس کے گرنے کا امکان بھی پیدا ہوگا۔

یہی بات، آج گندی سیاست کی وجہ سے ملک کی جمہوریت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ عوام کے ذریعہ منتخب ہوکر پارلیمنٹ یا اسمبلیوں میں پہنچنے والے قانون ساز خود کو ہندوستان کا مالک سمجھنے لگے ہیں ۔ عوام کو تو وہ اپنا غلام سمجھ ہی رہے ہیں ، آئینی اداروں کی خود مختاری کو بھی چھین لینا چاہتے ہیں ۔ آئینی زبان میں انھیں ملک و عوام کا ’خدمت گار‘ کہا گیا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ وہ ’پردھان منتری‘ نہیں ’پردھان سیوک‘ (سب سے بڑا خدمت گار) کہلانا زیادہ پسند کریں گے۔ اس کے علاوہ کئی بار وہ خود کو سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کا ’چوکیدار‘ بھی کہہ چکے ہیں ۔ انتظامیہ یا ایگزیکٹو سے وابستہ افراد بھی خود کو ’پبلک سروینٹ‘ (عوام کی خدمت کرنے والا) کہلانا ہی پسند کرتے ہیں ۔ ان کی تقرری ’یونین پبلک سروِس کمیشن‘ کے ذریعہ ہوتی ہے، جس میں ’پبلک سروِس‘ (عوامی خدمت) کا لفظ شامل ہے۔

اسی طرح عدلیہ میں کام کرنے والے وکیل اور جج حضرات نا انصافی کو دور کرنے اور جھگڑوں کو نمٹانے کا کام کرتے ہیں ۔ عدالتیں وہ جگہ ہیں ، جہاں ضرورت پڑنے پر ملک کا ہر باشندہ پہنچتا ہے، چاہے وہ لیڈر ہو، پولس والا ہو، فوجی ہو، سرکاری افسر ہو، عام آدمی ہو یا کوئی اور۔ وکیل جج کے سامنے معاملے کی نوعیت کے مطابق، ثبوت و شواہد کی بنیاد پر بحث کرتے ہیں اور پھر پوری جانچ پڑتال اور غور و فکر کے بعد صرف اور صرف انصاف کو نظر میں رکھتے ہوئے جج اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ اور اسے یہ اختیار ہندوستانی آئین نے دیا ہے۔ لیکن، آج اسے یہ خوف ستا رہا ہے کہ سیاسی لیڈر، جو مقننہ کے ارکان ہیں ، ان سے ان کی اس آزادی کو چھیننے کی فراق میں ہیں ۔

سیاست داں چاہتے ہیں کہ جس طرح انتظامیہ کا بیشتر حصہ ان کے اشاروں پر اور ان کی خواہش کے مطابق کام کرتا ہے، اسی طرح عدلیہ سے وابستہ افرادبھی ان کے حکم کو مانیں ۔ عدلیہ اس کے لیے تیار نہیں ہے، خاص کر سپریم کورٹ۔ اور یہیں سے مقننہ اور عدلیہ کا ٹکراؤ شروع ہوتا ہے۔ فی الحال، ملک بھر کی عدالتوں میں لاکھوں معاملے لٹکے ہوئے ہیں ۔ عدالتوں کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ دوسری طرف، ملک بھر کی جیلوں میں استطاعت سے زیادہ قیدی بھرے ہوئے ہیں ۔ جیل کی جس سیل میں تین قیدیوں کو رکھنے کی جگہ ہے، وہاں دس یا بارہ قیدیوں کو ٹھونس دیا گیا ہے۔ ان میں سے کتنے واقعی مجرم ہیں اور کتنے بے قصور، اس بات کا فیصلہ کرنے میں عدالتوں کو کافی وقت لگ رہا ہے۔ معمولی سے معمولی کیس کے نمٹارہ میں کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ لوگ انصاف ملنے کے انتظار میں کئی دفعہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔

ان تمام باتوں کا احساس ججوں اور خاص کر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کو تھا، تبھی وہ بار بار مرکزی حکومت سے فریاد کر تے رہے کہ ججوں کے خالی پڑے عہدوں کو بھرا جائے، تاکہ کیسوں کا نمٹارہ کرکے عدالتوں کے بوجھ کو جلدی کم کیا جائے اور لوگوں کو وقت پر انصاف مل سکے۔ یہی نہیں ، انھوں نے ایک پروگرام کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے عدالتوں کی مجبوری اور بے کسی کا ذکر کر تے ہوئے آنسو بھی بہائے۔ اس کے بعد شاید حکومت پر تھوڑا بہت فرق پڑا اور ججوں کی تقرری ہونی شروع ہوئی۔

مقننہ ہو، عدلیہ ہو یا پھر انتظامیہ، ملک کے ہر شہری کا ان تینوں پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے۔ اور ظاہر ہے، یہ اعتماد تبھی برقرار رہے گا، جب ہماری جمہوریت کے یہ تینوں ستون مضبوطی سے کھڑے رہیں گے، لڑکھڑائیں گے نہیں ۔ لیکن، حالات انھیں متزلزل کر رہے ہیں ، جس کی وجہ سے ان تینوں آئینی اداروں کے تئیں ہمارے اعتماد میں بھی کمی آئی ہے۔ موجودہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔ اگر جمہوریت کمزور ہوئی، تو ملک منتشر ہو جائے گا۔ سرکاروں کے اوپر سے عوام کا بھروسہ ٹوٹ رہا ہے۔ لوگ عدالتوں سے انصاف پانے کی امید کرتے ہیں ، لیکن کئی معاملوں میں نچلی عدالتوں سے ایسے فیصلے آئے، جن سے ان کی امیدیں ٹوٹیں ۔ خاص کر تب، جب بڑی عدالتوں نے نچلی عدالتوں کے فیصلوں کو پلٹ دیا۔

ججوں کی تقرری کے معاملے میں لوگوں کی نبض ٹٹولیں ، تو دبی زبان میں وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ موجودہ مرکزی سرکار اپنی پسند کے ججوں کی تقرری کرنا چاہتی ہے، تاکہ عدالتوں سے وہی فیصلے آئیں ، جیسے فیصلے وہ کرانا چاہتی ہے۔ اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کو اس سے ڈر لگ رہا ہے۔ مذہبی منافرت کا ماحول ملک میں پہلے سے گرم ہے۔ بے قصور لوگ مارے جا رہے ہیں ۔ شرپسندوں پر لگام کسنے والا کوئی نہیں ہے۔ ملک کا چین و سکون غارت ہو چکا ہے۔ ایسے میں بھلا ہم ترقی کی باتیں کیسے سوچ سکتے ہیں ۔ جب جان ہی محفوظ نہیں ہوگی، تو باقی چیزیں کیا معنی رکھتی ہیں ۔

مودی حکومت کے مرکز میں آتے ہی مقننہ اور عدلیہ کے درمیان ٹکراؤ سب سے پہلے تب شروع ہوا، جب موجودہ پارلیمنٹ نے آئین ہند میں 99 ویں ترمیم کرتے ہوئے ’نیشنل جیوڈیشیل اپوائنٹ منٹ کمیشن‘ (این جے اے سی) ایکٹ بنایا، جس کے تحت کہا گیا کہ ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری صرف اور صرف کولجیم کے ذریعہ نہیں ہوگی، بلکہ اس سلیکشن کمیٹی میں سیاسی لیڈر اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ لیکن، اکتوبر، 2015 میں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے اس نئے قانون کو ماننے سے صاف طور پر انکار کر دیا۔ ظاہر ہے، مرکزی حکومت بھی آسانی سے سپر ڈالنے کو تیار نہیں ہے۔ اس نے کہا ہے کہ کولجیم سسٹم پوری طرح درست نہیں ہے اور اسے ٹھیک سے کام کرنے کے لیے درست کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا، اس نے دسمبر، 2015 میں پانچ ججوں کی ایک بینچ سے صلاح و مشورہ لینے کے بعد ’میمورنڈم آف پروسیجر‘ تیار کیا، لیکن تب کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے اسے بھی ماننے سے منع کر دیا۔

موجودہ ’میمورنڈم آف پروسیجر‘ کے مطابق، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس پوری کارروائی کا تحریری ریکارڈ حکومت ہند کے پاس جمع کرانا ہوگا کہ کسی امیدوار کے بارے میں خود اس کی اور دوسرے ججوں کی رائے کیا ہے۔ لیکن، اگر صلاح و مشورہ کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا یا ’کولجیم‘ کے دوسرے رکن جج کسی کی رائے (خاص کر اس کی جو جج نہ ہو) کو خارج کرتے ہیں ، تو اسے تحریری ریکارڈ میں درج نہیں کیا جائے گا، البتہ حکومت ہند کو اس کی اطلاع ضرور دی جائے گی۔ ان تمام کارروائیوں کے مکمل ہونے کے بعد، مرکزی وزیر قانون و انصاف اور کمپنی امور اس لسٹ کو وزیر اعظم کے پاس بھیجے گا، جسے اچھی طرح دیکھنے پرکھنے کے بعد وہاں سے صدرِ جمہوریہ ہند کو فائل بھیج دی جائے گی۔

جہاں تک سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کا معاملہ ہے، تو عدالت عظمیٰ میں جب جب پوسٹ خالی ہوتی ہے، چیف جسٹس آف انڈیا ان خالی عہدوں پر تقرری کے لیے ناموں کی تجویز مرکزی وزیر قانون و انصاف کو بھیجتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے، چیف جسٹس کو اپنے سے جونیئر اور سپریم کورٹ کے دیگر چار سب سے سینئر ججوں پر مبنی ’کولجیم‘ سے صلاح و مشورہ کرکے ان ناموں کی حتمی فہرست تیار کرنا ضروری ہے۔ ان چار ججوں کی سلیکشن کمیٹی یا ’کولجیم‘ میں موجودہ چیف جسٹس سے جونیئر اور سپریم کورٹ کا کوئی ایسا سب سے سینئر جج شامل نہیں ہے، جو آئندہ چیف جسٹس بنے گا، تو اسے بھی اس ’کولجیم‘ کا حصہ بنانا لازمی ہوگا، کیوں کہ وہ اپنی مدتِ کار میں انھیں ججوں کی مدد سے کام کرے گا۔

سپریم کورٹ میں وہی لوگ جج بنائے جاتے ہیں ، جو پہلے ہائی کورٹ میں کام کر چکے ہیں ۔ اس لیے، چیف جسٹس کسی ہائی کورٹ کے امیدوار کا نام فائنل کرنے سے پہلے اسی ہائی کورٹ میں پہلے کام کر چکے سپریم کورٹ کے موجودہ سب سے سینئر جج سے صلاح و مشورہ کرے گا، لیکن اگر سپریم کورٹ کے اس جج کو اس امیدوار کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے، تو پھر ویسی صورت میں چیف جسٹس اسی ہائی کورٹ سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے موجودہ کسی دوسرے سب سے سینئر جج سے صلاح و مشورہ کرے گا اور اس کے بعد ہی اس امیدوار کا نام فائنل کرے گا۔لیکن یہ صلاح و مشورہ صرف سپریم کورٹ کے جج تک ہی محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس صلاح و مشورہ میں اس ہائی کورٹ کا کوئی دوسرا جج یا چیف جسٹس بھی شامل ہو سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔