زینب کی حفاظت کیسے ہو؟ 

حامد محمود راجا

دلی اور لاہور مغل سلطنت کے دوہ اہم تہذیبی اور سیاسی مراکز تھے جڑواں بادشاہی مساجد اس مسلم ورثے کی نشانیوں کے طور پر آج بھی موجود ہیں۔ مغل شہنشاہوں اور فوجوں کا دونوں شہروں کے درمیان آنا جانا لگا رہتا جس کے لیے متعدد شاہرائیں سفر کا ذریعہ بنتی تھیں۔ راستے چلنے لگے تو کناروں پر شہر بھی آباد ہوگئے۔ فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں فیروز پور شہر بسایا گیاجس کے نام پر موسوم لاہور کی ایک معروف شاہراہ آج بھی دن رات رواں دواں رہتی ہے۔ لاہور میں مغل بادشاہ آتے تو مضافات میں انہوں نے اپنے لیے محلات بھی تیار کروالیے۔ محل کو عربی زبان میں قصر کہا جاتاہے جس کی جمع ’قصور‘ ہے۔ مغل محلات سے معمور شہر’ قصور‘ ایک زمانے تک لاہور کی تحصیل رہا لیکن بعد میں اس کو الگ ضلع بنا دیا گیا۔پچھلے دو تین سالوں سے قصوراور ملک کے دیگر علاقوں سے تواتر کے ساتھ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے کہ اہل فکر و نظر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ایسے واقعات کا تدارک کیسے ممکن ہو ؟

معاشرتی اصلاح اور بہتری کا دائرہ گھر سے شوع ہوتا ہے اور آخر میں حکومت وقت کواپنے اندر سمولیتاہے۔ والدین اپنے نوجوان لڑکوں کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ جوانی میں کسی غلط راستے پر گامزن نہ ہو جائیں۔ جرم کی دنیا ان کے لیے اجنبی ہو اور وہ کسی برائی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں۔ نوجوانوں کو تعلیم اور دیگر مشاغل میں اس قدرمصر وف رکھا جائے کہ وہ دوسری کسی جانب توجہ ہی نہ کر سکیں۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے فراہم کردہ تربیتی ماحول کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ آج کل تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کا بڑھتا ہوا رجحان بھی زنا کے فروغ کا باعث ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں جبکہ درسگاہ میں ناچ گانے کو اہمیت دی جارہی ہے۔

محلے کی مسجدکاکردار اصلاح معاشرہ میں نہایت اہم اور شاندار رہا ہے۔ مسلم معاشرے میں آج پھر اسی ایمانی حرارت اور جذبے کی فروغ کی ضرورت ہے۔ ائمہ مساجد نوجونوں کو اپنی سرگرمیوں کا محورومرکز بنائیں۔ فقط نماز پڑھا دینا یا جمعہ میں رٹا رٹایا اور پڑھا پڑھایاخطبہ دہرا دیناکافی نہیں بلکہ نوجوانوں سے ذاتی مراسم قائم کرنا ضروری ہیں۔ ایک پر کشش شخصیت کے روپ میں امام مسجد نوجوانوں کو قریب لائیں اور محلے کی سطح پر کسی منفی سرگرمی کو فروغ پذیر مت ہونے دیں۔ معاشرے میں پائے جانے والے جرائم پر وقتاً فوقتا ًسیر حاصل گفتگو کی جائے اور ان جرائم کے انجام بد سے نوجونوں کو باخبر کیا جائے۔

تبلیغی جماعت کو بھارت میں جگ سدھار جماعت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ چند سال قبل تک تک سہ روزے کی تشکیل بھی رائے ونڈ مرکز سے کی جاتی تھی اس کا فائدہ یہ ہوتاتھاکہ دور دراز سے آنے والے لوگوں کی تشکیل رائے ونڈ کے قریبی علاقوں میں کردی جاتی تھی۔ قریبی علاقوں میں قصور سرفہرست ہے۔ آج بھی بہت سارے تبلیغ میں جڑے قدیم کارکنان آپ کو مل جائیں گے جن کی تشکیل قصور اور اس کے مضافات میں ہوئی ہو گی۔ اب سہ روزہ کی تشکیل مقامی تبلیغی مرکز سے کی جاتی ہے یعنی لاہور اور قصور کے تبلیغی مراکز سے ہی ان علاقوں میں جماعتیں روانہ کی جاسکتی ہیں۔ ہاں البتہ وہ لوگ جو چلہ یا تین چلے کے آخر میں چھوٹی تشکیل کرواتے ہیں ان کو قریبی علاقوں کی طرف بھیجاجاسکتا ہے۔ تشکیل پر مامور حضرات اگر جماعتوں کو نسبتاً دیہاتی علاقوں کی طر ف روانہ کریں تو اصلاح و تربیت کے اثرات یقینا دور رس ہو سکتے ہیں۔

معاشرے کی اخلاقی تربیت میں میڈیا کے رول کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا ہے۔ جنسی ہیجان پر مبنی منفی میڈیائی مواد ناظرین کے دل و دماغ پر دیرپا نقش مرتب کرتا ہے۔ لازم ہے کہ میڈیا پر ایسے مواد کی روک تھام کامو ¿ثرنظام قائم کیا جائے۔ میڈیا سے منسلک کچھ حضرات کا سوال ہو سکتا ہے کہ زینب ایسے واقعات کی مو ¿ثر رپورٹنگ بھی تو میڈیا نے ہی کی ہے۔ بالکل درست، یہ اچھائی کا پہلو بھی میڈیا میں موجود ہے لیکن تصویر کے دوسرے رخ پر بھی غور کی ضرورت ہے۔ رپورٹنگ اور ایڈٹنگ سے منسلک افراد اب بھی اخلاقی اور معاشرتی اقدار کے پابند ہیں لیکن شعبہ اشتہارات اور غیر صحافتی پس منظر رکھنے والے ٹی وی میزبان اس شعبے کی ساکھ کو متاثر کررہے ہیں۔ بہت سارے لوگ اب خبریں بھی اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھتے کہ نہ جانے کب کوئی بے ہودہ اور غیر اخلاقی مواد سکرین پر نمودار ہو جائے۔

گھر سے شروع ہونے والے اس سلسلے کی آخری کڑی سیاستدان اور حکمران ہیں۔ جیسے ہی کوئی مجرم قانون کی گرفت میں آتا ہے، اس کے ساتھ ہی علاقائی سیاستدان ان کے تحفظ کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات تو یہ سیاستدان خود شریک جرم ہوتے ہیں۔ جیسے قصور ہی میں اس سے پہلے پیش آنے والے ویڈیو سکینڈل میں مقامی ایم پی اے کے ملوث ہونے کے چرچے زبان زد عام ہیں۔ اور کبھی یہ سیاستدان خود تو شریک جرم نہیں ہوتے لیکن ان کے ووٹرز اس کار شر میں ملوث ہوتے ہیں جن کو بچانا یہ اپنا فریضہ منصبی سمجھتے ہیں۔ ایک نجی محفل میں ایک نوجوان نے کہا کہ ہم سیاستدانوں کو ووٹ اس لیے دیتے ہیں تاکہ ہماری گلی پختہ ہوجائے۔ راقم نے اس پر کہا کہ یہ تو پھر بھی مثبت سوچ ہے کہ چلو چار گھروں کا تو فائدہ ہوگا ورنہ صورت حال یہ ہے کہ بہت سارے جرائم پیشہ لوگ صرف س لیے ووٹ دیتے ہیں کہ جب ہمارے نوجوان یا کارندے مجرم بن کر حوالات کی سلاخوں کے پیچھے پہنچیں گے تو ہمارے حلقے کاایم پی اے اور ایم این اے اس کو چھڑوانے کے لیے پہلے سے وہاں موجود ہو۔

مقامی سیاستدانوں کے بعد وفاقی اور مرکزی حکمران ایسے واقعات کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ اس طرح کے مجرموں کے لیے اللہ تعالی نے فسادی کا لفظ اختیار فرمایا ہے اور ان کے لیے انتہائی سخت سزائی تجویز کی ہیں۔ ارشاد باری ہے :’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ پاو ¿ں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں زمین سے دور کردیا جائے۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔(مائدہ : آیت 33)

قراٰن کریم نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جہاں اسلامی سزاﺅں کے نفاذ کا حکم دیا ہے وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ایسے بدطینت اور خبیث لوگوں کو عبرتناک سزا دی جائے اور دیکھنے والوں کا بڑا مجمع سزا کے وقت موجود ہو تاکہ برائی کا ہیبت ناک انجام سب کے سامنے آجائے۔اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں :’زنا کار عورت و مرد میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاو ¿۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ‘(النور:آیت 2)۔

مذکوہ بالامعروضات کی روشنی میں ہر شخص اپنے کردار او ذمہ داریوں کا تعین کرکے آج ہی سے منزل کی طرف روانہ ہو جائے۔خیر و شر کے اس معرکے میں حتمی فتح نیکی کی قوتوں کی ہی ہوگی، ان شاءاللہ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اگر آپ ماں ہیں, بہن ہیں یا ٹیچر ہیِں تو اپنا کردار ادا کریں ہماری بچیوں کو ہماری رہنمائی کی ضرورت ہے.
    انہیں سمجھائیں کہ باہر دوپٹے کو پھیلا کر رکھیں. جسم کو جتنا زیادہ چھپا کر باہر نکلا جائے اچھا ہے ۔جس معاشرے میں گوشت خور درندے پائے جاتے ہوں وہاں بچیوں کے لباس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
    بہت سی مائیں اپنی بچیوں کو چست ٹراؤزر تنگ پاجامے پہنا دیتی ہیں کہ ابھی بچی ہی تو ہے کیا ہوتا ہے ۔۔
    کاش انہیِں وہ آنکھیں کچھ دیر دیکھنے کو مل جائیں جو ہوس پرستوں کے چہرے پر لگی ہیں تو کبھی پھر بچیوں کو نہ تو ایسا لباس پہنائیں نہ یہ کہیں کہ
    "بچی ہی تو ہے کچھ نہیں ہوتا”

    کچھ نہیں ہوتا ہوتا کرتے بہت کچھ ہو جاتا ہے.

    آج کل کسی بھی بات ہر کہہ دیتی ہیں کہ
    "کیا ہوا بچی تو ہے”

    بچی آدھی آستینیں پہن کر باہر گھوم رہی ہے
    "کیا ہوا بچی تو ہے”

    دوپٹہ کیوں نہیں لیا ہوا اور ہے تو سر پر کیوں نہیں
    "کیا ہوا بچی تو ہے”

    کزن کے ساتھ بائیک پر بٹھا دیا یا اکیلے کہیں بھیج دیا
    "کیا ہوا بچی تو ہے”

    شادی میں ڈانس کرلیا
    "کیا ہوا بچی تو ہے ”

    ایک بات ذہن میں بٹھا لیں کہ مرد لڑکی کی عمر نکاح کرنے کے لئے دیکھتا ہے زنا اور زیادتی کرنے کے لئے نہیں ۔
    اسلئے اس جملے کو کہیں دفن کردیں کہ
    "کیا ہوا بچی تو ہے ”

    کیونکہ تربیت بچی کی ہی کرنی ہے۔اور تربیت کے لئے اس سوچ کو ختم کرنا لازمی ہے کہ
    "کیا ہوا بچی تو ہے”

    زینب بھی بچی تھی.

    1. حامد محمودر کہتے ہیں

      درست کہا

تبصرے بند ہیں۔