امن اور انسانیت معاشرے کی بنیادی ضرورت

محب اللہ قاسمی

ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہا ہے، اس میں اسے سماجی برابری کا درجہ حاصل ہو۔ وہ اونچ نیچ، ظلم و استحصال اور ہر طرح کے خطرہ سے آزاد رہ کرامن وسکون کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ اسے ناحق قتل کیاجائے نہ بے بنیاد الزام کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجائے۔

اپنے اس حق کے حصول اور اس کی حفاظت کے لیے وہ کوشش بھی کرتاہے۔ چنانچہ وہ حق کی حمایت میں اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے۔ وہ اس بات کی قطعاً پروانہیں کرتا کہ ظلم کس پر ہو رہا ہے؟اس کی زد میں اس کا سگا بھائی ہے یا کوئی اور! اس کے مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں!! اسے صرف یہ خیال ستاتا ہے کہ ظلم انسان پر ہورہاہے، خون ایک بے قصور انسان کا بہ رہاہے۔ جو اسی کی طرح دنیا میں چلتا پھرتا اور آدم کی اولاد ہے۔

انسانوں پر ظلم ہوتا دیکھ کرتڑپ اٹھنا انسان کا وہ جذبہ ہے جو انسانیت کی روح ہے۔ یہ جذبہ جو اسے دوسری مخلوقات سے افضل بناتا ہے۔ انسان اپنے اندر ایک حساس دل رکھتا ہے جو عدل کی حمایت میں کسی ظالم قوت کی پروا نہیں کرتا۔ اگر یہ جذبہ عام انسانوں کے اندر کارفرما نہ ہو تو پھر پوری دنیا تباہ و بربادہ ہوجائے گی۔ ہر طرف ظلم وستم کا ہی بول بالا ہوگا۔ روشنی قید کرلی جائے گی اور چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا، جس میں کوئی بھی جی نہیں سکتا، حتی کہ ظالم بھی نہیں، کیوں کہ ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو ختم ہوجاتاہے۔ اس صورت میں ظالم کوظلم توبہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جب تک کہ ایک انسان اس ظالم کوحیوانیت سے نکال کر انسانیت کی طرف لانے کے لیے سعی و جہد کرتا ہے، جو انس و محبت کا تقاضا ہے۔ اس لیے اسلام نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

انصر اخاک ظالما او مظلوما: فقال  رجل یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصرہ اذا کان مظلوما، أفرأیت اذا کان ظالما کیف أنصرہ؟ قال: تحجرہ أوتمنعہ من الظلم، فان ذلک نصرہ (بخاری، کتاب المظالم والغضب)

        اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہؐ ! میں مظلوم کی مددتو کرتا ہوں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کروں ؟ آپؐ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یہی اس کی مدد ہے۔

جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں ماحول حددرجہ خراب ہوتا جارہاہے۔ ہم دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج پوری دنیا میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کو دنیا میں اس بنیادی ضرورت سے محروم کیا جارہاہے۔ اس سے دنیا میں جینے کا حق چھینا جارہاہے۔ بے گناہوں، معصوم بچوں کا خون پانی کی طرح بہایاجارہاہے۔ غیرت مندماؤں اور بہنوں کی عزت تارتار کی جارہی ہے۔

اس کے بعد جب ہم اپنے پیارے وطن کا جائزہ لیتے ہیں۔ تو یہاں بھی پچھلے چند سالوں میں ہمیں قریب قریب وہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ذات پات، اونچ نیچ کا فرق، جس کے نتیجے میں ہونے والی خود کشی، بے جا گرفتاریاں، خوں ریزی بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں کا باشندہ ہوتے ہوئے بھی غیر محفوظ ہونے کا ڈر لوگوں کے دلوں میں سمارہا ہے۔ اس سے اس کے وجود کی سند مانگی جاتی ہے۔ پتہ نہیں، کون کس وقت دروازے پر دستک دے اور دروازہ کھلتے ہی اسے دبوچ لیاجائے، بے بنیاد الزام کے تحت مدتوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیت ناک سزابھگتنے کے لیے ڈال دیا جائے۔ پھر کئی سالوں کے بعد عدالت سے باعزت بری ہونے کا اعلان کیا جائے۔

ایسے میں بنیادی حقوق کی بات کرنے والے، امن وامان کے خواہاں لوگوں اور عدل و انصاف کے علمبرداروں کو بھی ان ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گویا اجالوں سے کہا جارہاہو کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی پاؤں پسارنے کی۔ تمھیں دکھتا نہیں کہ ابھی چاروں طرف اندھیروں کا قبضہ ہے۔ ایسے میں تو اپنی ٹمٹاتی روشنی سے کیا کرے گا، پھر یا تو یہ روشنی بجھادی جاتی ہے، یا ٹمٹماتا ہواچراغ بے یار و مدد گار خود ہی دم توڑدیتاہے۔ مگر اندھیروں کو پتہ نہیں کہ یہ ہلکی سی روشنی اور دم توڑتا ہوا چراغ اپنے حوصلوں سے ان بے شمار جگنؤوں میں قوت بھر رہا ہے، پھر وہ تمام بے تاب ہو کر ایک ساتھ جگمگانے لگیں گے۔ آخر میں یہ کالی رات اور اندھیروں کا سایہ دھیرے دھرے فنا ہوجائے گا۔

مگر ساتھ ہی اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ وہ تعیش پسند انسان جس کے اندر نہ حس ہے نہ وہ انسانی جذبات سے سرشارہے کہ قربانی دے، اگر تھوڑی بہت ہمت جٹا بھی لے تو خوفناک انجام اس کے سامنے ویڈیو کی طرح گھومتارہتا ہے۔ چنانچہ وہ اس میں خود کو جھونک دینے سے کتراتا ہے اور یہی ڈر اور خوف ظالم اندھیروں کو اپنا سایہ پھیلانے میں کامیاب ہوجاتاہے، پھرانسانوں کی بستی میں حیوانیت اور درندگی کاکھیل شروع ہوجاتاہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد اپنوں کی غلامی میں جینا ہوگا؟کیااب امن قائم نہ ہوگااور یہ خوف یوں ہی برقرار رہے گا اور خونی کھیل یوں ہی جاری رہے گا۔ جس کی لپیٹ میں وہ معصوم اوربے قصور انسان ہیں، جو عدل وانصاف اور اس روشنی کے خواہاں ہیں جو اندھیروں کا پردہ چاک کردے۔ اس لیے انسانیت کے اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے، جس کاانسان کے خالق و مالک نے قرآن کریم میں اعلان کیا ہے:

من قتل نفسا بغیرنفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔ ومن احیاہا فکانما احیا الناس جمیعا (مائدۃ: 32)

’’جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویاتمام انسانوں کا قتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویاتمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ ‘‘

اگر لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے، وہ خوف کے سائے میں روشنی کے بجائے اندھیرں میں بھٹکتے رہے۔ تو انسانیت کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اندھیروں کے پرستارتوپوری قوت سے انھیں اجالا ثابت کرکے لوگوں کو مصیبت میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان سے نبردآزما ہونا، انصاف کی اس لڑائی کو جاری رکھنے، ان کے مکر وفریب اور پروپگنڈے کوختم کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ساتھ ہی ان جگنؤوں کوبلا خوف و خطر ایک ساتھ جگمگانا ہوگا، تاکہ وہ سب مل کر ایک خورشید مبین بن جائیں، اندھیرے خود ہی دم توڑ دیں اور امن کا پرندہ قید سے آزاد ہو۔

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔