امن عالم کے علم بردار: اسلامی جامعات 

رضی الہندی

عرب جاہلیت کے حریم میں قید تھا، عورتوں کو لونڈی بنا کر رکھا جاتا تھا اور اکثر کو پیدا ہونے کے بعد درگور کر دیا جاتا تھا، کچھ مقام شرف حاصل تھا وہ نہ کے برابر تھا بلکہ یہ اثرات بھی ملتے ہیں کہ ایک ہی سے عام تعلقات قائم کیا جا تا اور اس عورت کے منھ سے جس متعلق کا نام نکل جاتا پیدا ہونے والی اولاد اسی کی طرف منسوب کی جاتی، بات بات پر جھگڑا، قتل وغارت اور خونریزی کا بازار گرم ہو جاتا اور یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا، غریب سودی نظام معیشت کے طلسم میں الجھا کر رکھے جاتے تھے۔ اور تو اور ظلم اکبر شرک اتنا عام تھا کہ راہگیر ستو پانی لیکر نکلتا تھا اور کھانے کی ضرورت سے پہلے اس کا بت بنا کر عبادت کرتا پھر اسی کو کھا لیا کرتا تھا مزید کاروانِ سفر الگ الگ پتھر لیکر نکلتے اسی کی پرستش کرتے پھر اس سے اچھا ملتا تو پہلے کو پھینک دوسرا لے لیا کرتے تھے الغرض جتنے قبائل اتنی روایتیں ھر پتھر معبود تھا انتہاء یہ ہوئی کی خانہ کعبہ کو تین سو ساٹھ خداؤوں کا مرکز بنا دیا گیا۔ اس کی تھیوری کافی دلچسپ ہے۔

خطہ ارض پر قیصر وکسریٰ کے جلوے تھے لیکن ان میں بھی انانیت کا جراثیم لگ چکا تھا اور مالک حقیقی کی جگہ لے بیٹھے تھے  اور مملکت کسریٰ کی رعایہ دوخداؤوں کے تصور کے بعد اپنے بادشاہ کی عبادت بھی کررہی تھی۔ ایوانِ قیصر صلیب کا پجاری  اور اسکی عظمت و تقدس کی لڑائی لڑ رہا تھا۔

یثرب میں اوس خزرج کی لڑائیاں زوروں پر تھیں تو اسکے اطراف میں آباد یہودی بستیوں میں عزیز علیہ السلام کو ابن اللہ کہہ کر عبادت کے مقام پر رکھ لیا تھا گوکہ یہ بھی مشرک تھے آج کی طرح۔

سمندر پار بھارت عورتوں کے لئے جہنم کدہ اور انسانیت کے لئے عذاب بن چکا تھا رسم ستی، برہمنوں کا بے جا ابتریت وبرتری کاسکہ چل رہا تھا،اور تینتیس کروڑ دیوی دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی تھی۔ جاپان وچین،، تبت وبرما بدھ کے ستوپوں اور انکے جائے پیدائش کو ہی اصل معبود سمجھ بیٹھا تھا۔ ھر قوم کے پاس ایک غیر معمولی قوتوں کے مالک دھرمگرو کااور رہنمائے زندگی کے لئے ایک الہامی آسمانی کتاب کا تصور تھا۔ لیکن ھر جگہ پر رافضی و یہودی، تقلیدی اذھان ومبلغین نے قوانین الٰہیہ و دعوت نبویہ صحیحہ کا حلیہ بگاڑ رکھا تھا اور عوام کو بیوقوف بنا کر پیٹ پوجا چلو کر رکھا تھا۔

  فطرتاً انسان امن وامان اور سکون پسند پیدا ہوا ہے لیکن راھبوں، پنڈتوں، باباؤوں، دیویوں اور پاپاؤوں کے نت نئے فہم دین نے جہالت کی آخری دہلیز پرانسانوں کوکھڑا کردیا تھااور انسان سکون وراحت قلب کیلئے بے پانی کی مچھلیوں کی طرح تڑپ رہے تھے۔ انسانیت کی بقا آخری امید کے آمد کے اشارے کی منتظر تھی جس کی نشانیاں تمام کتب سماویہ کے مطابق پوری ھو چکی تھیں۔

اسی وقت  عرب کے ایک معزز گھرانے میں ایک بچہ بطن آمنہ سے پیدا  ہوتا ہے اور عرب کے نامور سردار ھاشم عبدالمطلب، ثوبیہ، حلیمہ اور عرب کی گود کھیل کر بڑا ھوتا ہے، اپنی زندگی کے چار دسک میں انسانی کمالات کا جامع بن لوگوں کیلئے رشک بن جاتا ہے اور پھر اپنے نام کی طرح لوگوں کی زبان سے صرف تعریفیں بٹورتا ہے اور انسانیت کا عظیم اوصاف میں سے دو عظیم صفتیں  صادق اور امین سے مشہور ہوجاتا ہے۔ اللہ رب العالمین ان کو اپنا آخری خلیفہ چن کر رسالت ونبوت کے عظیم منسب پر فائز کرتا ہے۔

اب ایک بار گراں آپڑا اللہ کا یہ آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے اسلام کی دعوت کا آغاز کر جہالت اور سلطنتِ کفر وشرک کو بند کرنے کا اعلان کرتا ہے، پھر مکہ صفا پہاڑی گواہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کو توحید کی دعوت دیتے ہیں۔

 قولوا لاالہ الااللہ تفلحوا۔

یا ایھا الناس قولو لاالہ الااللہ تملکوالعرب والعجم۔

لوہے کا زنگ ایک ہی ہتھوڑا مارنے سے نہیں جاتا، قوم نے اس دعوت کو ایجاب نہ کیا، جب زنگ زده لوہے کی کیلیوں کے گٹھر ہوں تو ان کے زنگ کو چھڑانے کیلئے ایک ایک پر لوہار محنت کرتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر گھر پہنچے اور توحید کی دعوت دی اور پھر فرداً فرداً دعوت دی، نتیجہ اچھا نکلا چراغِ توحید بہت سے گھروں میں جل گئے لیکن ان فانوسوں کو تیل کی ضرورت تھی تا کہ یہ دن کے اجالے میں پہچان لئے جائیں رات کو اپنی شعاؤں کے ساتھ منفرد  ممتاز ہو جائیں۔ اب کفر وشرک کے ایمان کو ھلا دینے والے حملے شروع ہو رہے تھے اسی وقت شمعوں کو روغن دینے کی بنیاد دارارقم میں پڑی اور دن بھر کے علوم ربانی کے پیاسے یہاں جمع ہونے لگے یہ پہلا موقع تھا جبکہ استاذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنے اور سابقون اولون کو وحی الہٰی

اقراء باسم ربک الذی خلق ۔ خلق الانسان من علق اقراء وربک الاکرم ۔ الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم

کے تحت قرآن کی تعلیم دینا شروع کیا اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھااور اس مکتب کا چرچا عام ہوگیا کہ یہ عقولیات ومنطقیات کو چھوڑ اللہ کی کتاب کی بات کرتا ہے اور پھر تو ان پر مشرکین مکہ کی جمعیت انکو ستانے و تڑپانے اور اذیت پہنچانے لگی مجبوراً اس کی ایک ٹکڑی ک حبشہ ھجرت کرنے و پناہ لینے کا حکم ہوا وہاں بھی مکار مقلد وعقولی عالم مشرکین مکہ کی ایک ٹیم پہنچی اور دشمن کو تحفہ کی شکل میں رشوت دیکر دارارقم کے پناہ گزین طالب علم کے خلاف کان بھر دیئے مگر شاہ نجاشی محقق تھا دام فریب میں نہ آیا اپنے جاسوسوں سے انکا پتہ لگوایا اور پھر اپنے دربار میں طلب کیا، فریقین نے اپنے دلائل رکھے پہلا فریق اپنے آباء و اجداد کے دین کا حوالہ دیکر پناہ گزین طلبہ علوم شرعیہ کو گمراہ قرار دیتا ہے۔

دوسرا فریق آباءواجداد کے دین کی خامیوں کو گناتا اور اس سے نجات دینے والی دلیل قرآن پاک وسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتا اور دلی طور پر مسلمان ہوجاتا ہے اور یہ عقولیات و منطقیات اور بزرگوں کے طریقہ کار کو دین کا نام دینے والوں پر پہلی فتح ہوتی ہے۔گویا کہ آج جو بھی دین کو عقل ومنطق سے سمجھ رہے ہیں اور اس گمراہ افکار کے پیروکار پیدا کر رہے انکو یہ دلیل یہیں سے مل رہی ہے اور محققین کو انصاف نجاشی اور تقریر جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے۔

پھر مکہ میں ایک جمیعت تیار ہو چکی تھی جوکہ اپنی بے لوث، پر اخلاص خدمتِ دین سے مشرکین کے محلوں میں ھلچل بپا کر چکی تھی باپ بیٹے، شوہر بیوی، ماں بیٹیاں ایک دوسرے سے بغاوت کر رہی تھیں اور ھر ظلم کا سامنا کلمہ احد احد کے ساتھ کر رہی تھیں یہاں تک کہ شہادت کی دولت سب سے پہلےحضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو ملی۔ ھدایت اور ایمان کی دولت کو لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف پہنچ گئے اور وہاں کے سرداروں نے اپنے اوباش ان کے پیچھے چھوڑ دیئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لہولہان و نیم مردہ کردیا لیکن معلم امن عالم کی زبان اس وقت صرف یہی کہتی ہے۔

اللھم اھد قومی فانھم لایعلمون

طائف میں مقدس خوں ٹپکا مکے میں کبھی پتھر کھائے

بس ایک تڑپ تھی کیسی تڑپ انساں ھدایت پا جائے

ظلم بڑھ رہا تھا جوں دوا کا کام بڑھ رہا تھا اھل مکہ نے اب معلم کائنات، رحمۃ اللعالمین کی جان لینے کا فیصلہ کرلیا اور پھر اللہ کا حکم ھجرت آگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اس وقت یثرب میں اسلام کے مبلغ تھے جنہوں نے زبان نبوت سے علم حاصل کیا پھر اپنے معلم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے وہاں پہنچے تھے۔

یہاں یہ نکتہ بھی کافی اہم کردار رکھتا ہے کہ جو علم حاصل کرتا ہے اور معلم کائنات جس کو اس کے لئے مناسب سمجھتے تھے اسی کو بھیجتے تھے اور پھر وہ مبلغ وہیں کے ہوکر رہ جاتے تھے جبکہ موجودہ صورتحال جو اس ناحیہ سے متعارف کرائی جارہی بالکل الگ ہے اور بے بنیاد ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یثرب پہنچے اور وہاں کی گلیاں  طلع البدر علینا  کے نغمہ سے گونج اٹھیں۔

مسجد نبوی کی تعمیر اور پھر وہاں پر ایک چبوترہ صفہ نامی بنا جہاں اللہ کے قرآن کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے اور لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے تھے کثرت سوال سے امت کو بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر پل کو قرآن کی تفسیر بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ۔

فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم۔ ۔ سورة النساء 80

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ وَ مَنۡ تَوَلّٰی  فَمَاۤ  اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا  ﴿ؕ۸۰﴾

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ  فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ  اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ  لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ  الۡاٰخِرَ  وَ ذَکَرَ  اللّٰہَ  کَثِیۡرًا ﴿ؕسورة الأحزاب 21﴾

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی  یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ  بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ  لَا  یَجِدُوۡا فِیۡۤ  اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا  مِّمَّا قَضَیۡتَ  وَ یُسَلِّمُوۡا  تَسۡلِیۡمًا ﴿ سورة النساء 65﴾

وَ مَاۤ  اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ  اِلَیۡہِمۡ فَسۡئَلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ  لَا  تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾

بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ ؕ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ  اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ  لِتُبَیِّنَ  لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ  اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ  یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۴﴾

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ  وَّ  اَحۡسَنُ  تَاۡوِیۡلًا ﴿ سورة النساء 59﴾

مذکورہ آیات کی روشنی میں اسلامی جامعات کی بنیاد رکھنا چاہئے اور اسکے فوائد درج ذیل ہیں۔ اور ھم انہیں کا عکس دور نبوت کی درسگاہ میں پاتے ہیں۔

 اسلامی درسگاہ صفہ کے طلباء اصحاب صفہ کے نام سے مشہور زمانہ ہیں۔

علم کے حصول کا جو اصول مذکورہ آیات کی روشنی میں ایک معمولی ذھن رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہیکہ کیا کہا گیا ہے

1/رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے اوپر نگراں بناکر نہیں بلکہ اللہ کے آخری خلیفہ ورسول اور خاتم الانبیاء بناکر بھیجے گئے ہیں اور انکی اطاعت کرنا عین اللہ کی اطاعت ہے۔

2/جو لوگ اللہ سے نیک امید لگائے ہوئے ہیں اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ کثرت سے اللہ کو یاد کریں اور اپنی زندگی کو اخلاقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھال لیں۔

3/تیرے رب کی قسم (کسی امر کی عظمت و اہمیت اللہ رب العالمین کو بتانی ہوتی ہے تو وہ قسم کھاتا اور یہاں پر اپنی عظیم صفت رب کی کھا رہا ہے یعنی واقعی کوئی معاملہ اتنا اہم ہے)

تیرے رب کی قسم!

وہ مومن اس وقت تک نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ اپنے تمام اختلاف میں تجھکو اپنا حاکم(جج، فیصل) نہ مان لیں۔ اور پھر تونے جو قضاء(فیصلہ) دیا اسمیں اپنے نفس کے اندر کسی بھی قسم کی تنگی نہ پائیں اور اسے بلا تاویل و چوں چرا کے تسلیم کر لیں۔

4/اور ھم نے آپ سے پہلے بھی انسانوں کو ہی رسول بنا کر ان کی طرف بھیجا ہے پس تم اھل الذکر (یہود ونصاریٰ۔ اھل کتاب) سے پوچھ لو۔ ان پیغمبروں کو روشن دلائل اور کتابوں کے ساتھ بھیجا۔ اور آپکی طرف یہ ذکر(قرآن)نازل کیا تاکہ آپ انکی طرف جو نازل کیا گیا اسکو واضح کر دیں تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں۔

   یہی اسلامی یونیورسٹی و جامعات کے منثور و تعلیمی قوانین ٹھہرے۔ اب جو اس نہج پر اسلام کی تعلیمات کو عام کرتا اور اخذ کرتا ہے اسکے امن وامان کے علمبردار بن نے میں کوئی چیز مانع نہ ہوگی وہ جہاں جہاں چلےگا، باتیں کریگا، اس کے کردار و اخلاق میں سیرت طیبہ کے نقوش نظر آئیں گے، اور جو اس طریقہ کار سے بغاوتیں کریگا اس سے اسلام اور اسکا معلم اول بری ھوگا۔

دار ارقم سے صفہ اور پھر بعد کے ادوار میں اسلام کی تعلیم کے لئے الگ بلڈنگوں بتایا گیا اور پھر اسکا جال پھیلتا چلا گیا آج بھی ھمارے مدارس امن وامان کے تحفظ اور بقائے انسانیت کی تعلیمات کے ساتھ اپنی خدمات میں مصروف ہیں اور  ھماری چہار دیواریاں ھر ادیان کے ماننے والوں کے لئے کھلے ہیں۔

  یہ مدارس و جامعات امن عالم کے وہ ٹاور ہیں جوکہ ھرایک کیلئے ایک ہی سوچ وفکر اور ایک ہی پسند کی شعائیں ولہریں چھوڑتی ہیں جہاں بنات حوا کی عزت پوشی کی جاتی اور اگر وہ ماں ہے تو اسکی خدمت کو جنت کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسکو بازار کی طوافانہ اذیت سے نجات دیکر بہن، بیوی، ماں، نانی، دادی، پھوپھی، خالہ کے مقام میں رکھ کر عصمت وعفت کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔

یہ جامعات و مدارس ہیں جہاں توحید کا درس دیا جاتا ہے جس سے بندہ نام نہاد معبودوں کے کے چنگل سے نکل کر حقیقی معبود ایک اللہ سے جا ملتا ہے اور نمازجوکہ امن عالم واتحاد کا ایک اہم نکتہ وہ مظہر ہے جہاں امراء وغرباء ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا، قدم سے قدم ملاکر ایک امام کی اقتدا میں اپنی عبودیت کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ اسلامی جامعات و مدارس ہیں جہاں کی چاردیواری میں پڑوسی کسی بھی دین کا ماننے والا ہو اسکی خبرگیری واعانت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ پیاسہ جانور کتا ہو تو اسکو پانی پلانے کا حکم اور جنت کی بشارت اور بے زبان بلی کو ستا نے اور جان لینے پر جہنم کی تہدید کی تعلیم دی جاتی ہے۔

یہ جامعات و مدارس ہی وہ قلعے ہیں جہاں معاشرے کو رشتہ داریوں کی زنجیر سےجوڑ رکھنے اور ایک دوسرے کو عزت و شرف دینے اور صلہ رحمی کی تعلیم میں بھشت کی نوید اور قطع تعلق کرنے پر نقص عمر، ر تنگی رزق اور خسارہ آخرت کی تعلیم دی جاتی ہے۔

یہ جامعات ومدارس ہیں جہاں زکوٰۃ وصدقات اور خیرخواہی کے درس دیئے جاتے ہیں تاکہ معاشرے کے غرباء ومساکین کو بھی انکا حق مل سکے اور وہ بھی با عزت وشرف کی زندگی میں مقام حاصل کرسکیں اور سود کو حرام قرار دے کر ان کو قرض کے دلدل میں پھنس جانے سے بچا لیا ہے۔

یہ جامعات و مدارس کی نمایاں خاصیت ہے کہ معاشرے کو لاعلاج امراض سے بچانے کیلئے چوری وزنا کو قابل سزا، قتل و ضرب پر قانون قصاص سے حیات جاویداں دیتے رہتے ہیں۔

   آج امن عالم کے علمبرداری کی اس سے اعلیٰ کیا مثال دی جا سکتی ہے کہ جہاں سائنس اور جدید و ٹیکنالوجی کی تعلیم نہیں ہوتی وہیں کے لوگوں کو دھشت گردی کے الزامات ڈالکر بدنام کرنے کی کوشش جاری ہے اور اسکے نظام تعلیم کو توڑنے کی سعی کی جا رہی ہے مگر یہ بے لوث فدائیان وطن اور صالح امن پسند شہری پیدا کر رہے ہیں۔

اسلام کے نام پر چونکہ دلائل وبراھین، قرآن و احادیث صحیحہ اور سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی جگہ پر آباء اجداد کی بزرگیت کو ہی متعارف کرایا جا رہا اور پڑھایا جا رہا ہے اسلئے کچھ جامعات شبیہہ خراب ہوئی ہے اور یہ تو قدرتی اصول ہے کہ جب کوئی چیز اپنی اصل چھوڑتی ہے تو اسے اپنے بقا کی لڑائی لڑنے میں کچھ غلط قدم اٹھانے پڑتے ہیں اور یہی ناک کٹانے کا سبب بن جایا کرتی ہیں۔

  ضرورت اس بات کی ہے کہ ھم پہلے اپنے جامعات ومدارس کو طرح صفہ پر قائم کریں اور ایک ہوکر امن وامان عالم کے تحفظ کا عالمی علم اٹھائیں۔ اللہ اس کی توفیق دے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔