آنسو دل کی زبان ہیں!

سیدہ تبسم منظور

آپ پوچھیں تو زیادہ تر لوگ یہی کہیں گے کہ ہم آنسوؤں کو صرف آنکھوں سے بہتا ہوا نمکین پانی سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو ہر نعمت سے نوازا ہے آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں غرض ہر ایک چیز۔۔۔۔ انسان کے ہر ایک عضوکے حصے میں اللہ تعالی نے کوئی نہ کوئی کام رکھ دیا ہے۔ واقعی اللہ سب سے بڑا مصور ہے اور وہی بہتر جاننے والا ہے۔ ان اعضا میں سے ایک عضو ہے آنکھ۔۔۔۔! اور ہماری آنکھوں کے حصے میں انتہائی  اہم کام یعنی بصارت کا کام آیاہے۔آنکھیں اس دنیا کا نظارہ کرتی ہیں اور دماغ کو ہر بات کی خبر تو دیتی ہیں اس کے علاؤہ یہ ہمارے جذبات کے اظہار کا بھی ذریعہ ہیں اور کبھی یہ جذبات آنسوؤں کی شکل میں اپنا وجود ثابت کرتے ہیں۔  ان آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے موتیوں جیسے آنسو۔۔۔۔!

پانی کے مانند نظر آنے والی شئے آنسو اپنے آپ میں ایک منفرد پہچان رکھتی ہے جو موقع، حالات اور کیفیات کے مطابق جُدا جُدا انداز میں جذبات کا اظہار کردیتے ہیں۔ یہ آنسو بے پناہ مسرّتوں کے عالم میں آنکھوں میں آکر دل کی شادمانی کو ظاہر کرتے ہیں تو کیفیاتِ غم میں ماتم کدہ بنے دل کی نوحہ گری کرتے ہیں۔ یہی آنسوؤں کی لڑیاں محبوب کی جدائی بیان کرتی ہیں تو کبھی یہی آنسوؤں کے قطرے ملاقات کے پُر مسرت لمحوں کا اظہار۔۔۔۔۔ یہ آنسو پھول کی پنکھڑیوں پر بکھرے ہوئے شبنم کے قطروں کی طرح ہوتے ہیں۔

یہ آنسو ذریعۂ اظہارِ بندگی بھی ہیں کہ بندہ اپنے رب کے حضور مقبول ہوجائے۔ سراپا گناہوں میں ڈوبا ہوا وجود توبہ کے مقدس آنسوؤں کی وجہ سے پاکیزگی کے اتھاہ سکون کی وادیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ آنسوؤں کے موتی دربارِ خداوندی میں مقبول ہو جائیں تو بندہ بندگی کےاعلیٰ ترین مدارج پر فائز ہوکر مقبول ہوجاتا ہے۔

رونا کے فعل سے ہمارا پیدائشی رشتہ ہے۔آنسوؤں کا اور رونے کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ آنسوؤں سے ہمارا پیدائشی رشتہ ہے!!!!!!۔ جب ہم نےاس دنیا میں آنکھ کھولیں تو پہلا کام رونے کا ہی تو کیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس وقت آنسو تو نہیں تھے مگر جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ہمارے رونے کے عمل نے آنسوؤں کا ساتھ پاکر ہمارے سب کام بنانا شروع کردیا۔

آنسو بھی مختلف وجوہات کی بنا پر ہماری ہی آنکھوں سے بہتے ہیں۔ ہماری آنکھوں میں اس وقت بھی آنسو بہتے ہیں جب ہم غمگین ہوتے ہیں۔ ۔۔ ہماری آنکھوں سے اس وقت بھی آنسو آتے ہیں جب ہم بہت خوش ہوتے ہیں ۔ ۔۔۔۔درد و تکلیف میں بہتے ہیں آنسو۔۔۔۔ جدائی میں بہتے ہیں آنسو۔۔۔۔۔ اور سب سے اچھے آنسو تو وہ ہیں جو اللہ کے حضور بہتے ہیں اور وہ ہیں ندامت کے آنسو۔ ۔۔۔۔۔اور کبھی کبھار دکھاوے کے آنسو بھی بہائے جاتے ہیں جنہیں مگرمچھ کے آنسو کہا جاتا ہے۔ آنسو بہانا یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں بنا کچھ کہے دوسرے ہماری باتیں سمجھ جاتے ہیں۔

 آنسو سیپ میں چھپے موتیوں کی طرح ہیں۔ آنسو بھی اللہ تعالی کی نعمت ہیں۔ گر یہ نہ ہوتے تو دل درد سے پھٹ کر باہر نکل آتا۔یہ آنسو دل کی زبان ہیں۔ ۔۔۔۔۔یہ آنکھوں سے بہنے والے انمول موتی ہیں۔ ۔۔۔۔تنہائیوں کے ساتھی ہیں۔ ۔۔۔۔اللہ کی راہ میں روشنی عطا کرنے والے موتی ہیں۔ ۔۔۔۔یہ کسی انمول خزانے سے کم نہیں ہوتے۔ پر بہتے بھی تو بے مول ہیں۔ ۔۔۔ یہ آنسو ان کہے جذبات۔ ۔۔ان کہے دکھوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔وہ جذبات جن کے لئے الفاظ نہیں ہوتے ان کی ترجمانی کرتے ہیں یہ آنسو۔ ۔۔۔ جب ہم خود اپنے آگے بے بس ہوجاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔جہاں پر ہمارے پاس الفاظ نہیں  ہوتے۔ ۔۔۔۔وہاں پر یہ آنسوؤں کا بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ جب دل درد سے کراہتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خوب رو لیں۔ ۔۔اور جب تک رو نہیں لیتے تب تک دل کا غبار نہیں نکلتا اور تب تک ہم اپنے آپ کو پرسکون نہیں پاتے۔

  آنسوانمول ہیں اور بہتے بھی اس لئے ہیں کہ ان کے سبب ہم انمول پنہائیوں تک جا پہنچیں۔ یہ آنسو کبھی ہمیں اپنی کھوئی ہوئی ذات تک پہنچا دیتے ہیں تو کبھی لوگوں سے جدا کر کے ہمیں کسی اور دنیا میں گم کردیتے ہیں۔ ۔۔۔دل سے دل کا سفر ہو یا۔ ۔۔۔۔زمین سے لے کر آسمان کا سفر ہو۔ ۔۔۔یہ انسان ان آنسوؤں کی بدولت لمحوں میں طے کرلیتا ہے۔ یہ آنسو بھی کیا خوب ہیں۔ ۔۔۔پتھر دل کو بھی پل میں موم کر دیتے ہیں۔ آنسو مسکراہٹ سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں کیونکہ مسکراہٹ تو ہر کسی کے لئے ہوتی ہے۔۔۔۔پر آنسو اس کے لئے ہوتے ہیں جنہیں ہم کبھی کھونا نہیں چاہتے۔ زندگی کی سب سے بڑی ہار یہ ہوتی ہے کہ کسی کی آنکھوں میں آنسو آپ کی وجہ سے ہو۔ ۔۔۔اور زندگی کی سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ کسی کی آنکھوں میں آنسو آپ کے لئے ہو!!!!!!!

  یہ آنسو آنکھوں سے بہنے والے چمکنے والے موتی ہیں۔ ۔۔۔۔یہ آنسو انسان کی فریاد ہوتے ہیں۔ ۔۔۔ پرانی یادوں کی تعبیر ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔یہ آنسو ایک انمول خزانہ ہیں اور یہ خزانہ کمزور دلوں کی قوت ہے۔۔۔۔ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والاچشمہ ہیں۔ ۔۔۔۔۔ یہ آنسو تنہائی کے ساتھی ہیں۔ ۔۔۔۔دعاؤں کی مقبولیت ہیں ۔ ۔۔۔یہ انسانوں کے پاس ایسی پونجی ہے جو یش بہا ہیں۔ ۔۔یہ تحفہ خداکا انمول عطیہ ہے۔

 علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے

قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے 

تبصرے بند ہیں۔