امن کی دیوی مر رہی ہے گاندھی جی کے آنگن میں

سید ابراہیم حسامی قاسمیؔ

امن وآشتی کے علمبرد۱ر پیارے ہندوستان تجھے کس کی نظر لگ گئی؟یہاں کی رس گھولتی فضا میں کس نے زہر گھول دیا؟یہاں کی محبت بھری تہذیب پر کس نے ڈاکہ ڈال دیا؟ یہاں کے سکون کو کس نے غارت کردیا؟تھوڑا ساوقت نہیں گزرتا کہ کوئی نہ کوئی واردات پیش آجاتی ہے، کچھ نہ کچھ بدامنی پھیل جاتی ہے، موجودہ حکومت اس بدامنی کے روک تھام میں خود کو ناکام ثابت کرچکی ہے،ملک میں کبھی توفرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے، کبھی تو معمولی بحت وتکرار پر ایک دوسرے کا خون بہادیا جاتاہے، یہاں انسانی خون کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی، آئے دن قتل وغارت گری، فتنہ پروری،امن وآشتی سے دوری اور دہشت گردی کے واقعات بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں، اطمینان کی کیفیت ختم ہوتی جارہی ہے، محبت کا گلا گھونٹا جارہا ہے، کوئی بھی انسان اپنی نہ جان کے سلسلہ میں مطمئن ہے اور نہ ہی مال کے سلسلہ میں مطمئن ہے، پتہ نہیں کب مال چھن لیا جائے، کب جان لوٹ لی جائے، کب عفتوں پر حملہ کردیا جائے، امن وسکون کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔

پرانے واقعات اب تک انصاف کی دہلیز کو نہ پہونچ پائے تھے کہ روز افزوں نئی وارداتیں جنم لے رہی ہیں، کوئی بھی معاملہ فیصل ہونے نہیں پاتا کہ دوسرا تیار کھڑا رہتا ہے، کبھی انکاؤنٹر کے نام پر پانچ مسلم نوجوانوں کو پولیس اہلکار خود گولیوں کا نشانہ بنالیتے ہیں، تو کبھی اخلاق کو بے دردانہ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، کبھی حافظ جنید کو دن دھاڑے موت کی نیند سلادیا جاتا ہے، تو کبھی حصول تعلیم کی غرض سے آئے ہوئے نجیب کوتعلیم یافتہ اور اخلاق و کردار کے علمبردار طلبہ ہی گوشہ گمنامی کے حوالہ کردیتے ہیں، افروز الاسلام کوپوری بے باکی اور بڑی بے دردی کے ساتھ مار دیا جاتا ہے، تو گورکھپور کے ہسپتال میں معصوم بچوں کی جان بچانے والے ہمدرد ڈاکٹر کفیل ہی کو ملزم قرار دیا جاتا ہے اور انہیں سلاخوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے، تو کبھی دن دھاڑے مسجد کے مؤذن پر حملہکردیا جاتا ہے،آسنسول میں مسجد کے امام کے بیٹے کو زود وکوب کرکے موت کا نوالہ بنادیا جاتاہے تو نربھیا واقعہ کو دہرایا جاتا ہے، اناؤ میں ملت کے رکھوالے ہی عصمت فروشی کا بازار گرم کر ڈالتے ہیں، تو کبھی کٹھوعہ میں ایک معصوم کشمیری کھلتی کلی کو مہکنے سے پہلے ہی کچل مسل دیا جاتا ہے۔

اناؤ کی لڑکی کی عصمت دری کا واقعہ اور آصفہ کے ساتھ دردندگی کی انسانیت سوز حرکت کوئی مذہبی معاملہ نہیں، یہ انسانیت کی اساس پردیکھا جانے والا معاملہ ہے، یہ تو انسانیت کا سر شرم سے نیچا کردینے والامعاملہ ہے، کہ ایک لڑکی کے ساتھ قوم کا ذمہ دار سمجھا جانے والا انسان نما حیوان اپنی ہوس پوری کرلیتا ہے اور اس کا پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر تک درج نہیں کیا جاتا، جبراًایف آئی آر درج کروانے پر بھی کوئی مثبت قدم نہیں اٹھاجاتا، کوئی شنوائی نہیں ہوتی، جب معاملہ گرم ہونے کے قریب ہوتا ہے تو بچی کو دھمکی دے کر اس کے باپ کو گھر سے اٹھا لیا جاتا ہے اور پوری بے دردی کے ساتھ اس کے باپ کا قتل کردیا جاتا ہے، وہ لڑکی اب کیا کرے، وہ اپنا ہی دکھ برداشت نہیں کرپارہی تھی کہ ا اس پر دوسرا غم کا پہاڑٹوٹ پڑتاہے، اس مظلوم کی نگاہوں کے سامنے اس کے باپ کا اٹھ جانا کیا قیامت سے کم مصیبت نہیں ؟

دوسری جانب ایک کھلتی کلی آصفہ کے ساتھ تو ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا ہے کہ جس سے رحمنتوکجا، شیطان بھی غضب میں ابل پڑے، شیطانیت بھی شرم سے سر جھکالے، پتہ نہیں شیطان بھی کتنی مرتبہ چلا کر رویا ہوگا کہ جب اس معصوم کے ساتھ ایک نہیں کئی کئی درندوں نے ایک مرتبہ نہیں کئی کئی مرتبہ اپنی جنسی ہوس پوری کی ہوگی اور ایسی پَوِتْر جگہ یہ حرکت انجام دی گئی کہ جہاں اس کا تصور بھی پاپ ہے، افسو س تو اس بات پر ہے کہ اس حرکت میں کوئی منچلا نوجوان ملوث نہیں ؛ بلکہ دادا اور نانا کی عمر کو پہونچنے والے درندے شامل ہیں، مندر میں بیٹھ کر بھگوان کا نام جپنے والے پجاری بھی ہیں تو کبھی وردی پہن کر قوم کی رکھوالی کا ڈھونگ رچانے والے مکار بھی شامل ہیں، پتہ نہیں ان کی انسانیت کہاں کھو گئی تھی، کیسی حیوانیت غالب آگئی تھی، ڈر تو اس بات پر لگتا ہے کہ اگر اس حرکت کو حیوانیت کا نام دیا جائے تو حیوان بھی غصہ نہ ہوجائیں او رکہہ پڑیں کہ ہم بھی اتنی بری، گھٹیااور رذیل نہیں حرکت کرتے، آخر ایسی حرکتوں کو کیا نام دیا جائے، کن الفاظ سے یاد کیا جائے، کس تہذیب کا حصہ مانا جائے، ایسے واقعات سے جہاں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچتی ہے تو غیر مسلموں میں غصہ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ کوئی مذہبی نظریہ سے دیکھے جانے والا مسئلہ نہیں، یہ تو انسانی نسبتوں پر پرکھا جانے والا واقعہ ہے، اس سے رحمن کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو رام کی گنگا بھی میلی ہوجاتی ہے، ایسے جرائم سے جہاں پاکیزگی منھ چھپاتی ہے تو پوتر وپاون رشتے بھی ارتھی کے حوالہ ہوجاتے ہیں، آخر اس کو کیا نام دیا جائے، کچھ سمجھ میں نہیں آتاکہ ایک معصوم سی لڑکی کو روپوش کرلیا جاتا ہے اور اسے مندر میں لے جاکر اس کی عزت وعصمت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے، ایسے واقعات کی کس سے منصفی چاہی جائے، عزتوں کے رکھوالے ہی عزتوں کا سودا کرنے پر اترآئیں، ملت کے محافظ ہی ملت کی معصوم بچیوں کو اپنی ہوس کا نوالہ بنانے لگ جائیں، نانا دادا کی عمر کے لوگ بھی اپنے پوتی، نواسی نما معصوم کلی کی عصمت وعفت کو کچل ڈالیں تو کیا اس پر فوراً کاروائی نہیں ہونی چاہیے تھی، کیا ایسے درندوں کو فی الفور کیفرکردار تک نہیں پہونچادیا جانا چاہیے تھا؟ کیا ایسے مجرموں کے جرم کی سزا فوراً طے کرکے ان کو ان کے انجام بد کا راستہ نہیں دکھانا چاہیے تھا، لیکن یہ ہمارے ملک میں کیسے ہوپاتا، یہاں تو قاتلوں کو سرے عام گھومنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے، یہاں تو وقت واحد میں عدلیہ کو بھی خریدا جاسکتا ہے، معزز ججوں سے مانڈولی کی جاسکتی ہے، پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کا یہاں رواج اور چلن عام ہے، یہاں وردی پہن کر بھی وردی کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، یہاں ملت کے حلال مال کو نئے نئے بہانوں سے قانون کے رکھوالے ہی لوٹ لیتے ہیں، عوام سے وردی کے زور پر لی گئی رشوت کو پولیس افسر اپنی محترم ٹوپی میں رکھ کرگنتا ہے، یہاں انصاف کا گلہ خود مصنف ہی گھونٹے ہیں، مجرم کو اور جرم کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں اور معصوموں کو مزید دبادیا جاتا ہے تو ایسی صورت حال میں کہاں قاتلوں کو سزا ہوگی؟ اور کہاں مجرموں کی شناخت ہوسکے گی؟ اور حقیقت حال یہی ہے کہ ہمارے ملک میں قاتلو ں کی تصدیقیں تک مشکل ہوجاتی ہیں، شاید اسی لیے کنور جاوید نے کہا تھا ؎

کرسیاں بھی شامل تھیں کھادیاں بھی شامل تھیں

ٹوپیاں بھی شامل تھیں دھوتیاں بھی شامل تھیں

اس لیے نہ ہو پائیں قاتلوں کی تصدیقیں

قتل کرنے والوں میں وردیاں بھی شامل تھیں

پیاری بہن آصفہ میں تجھے سلام کروں یا تیرے انجام پہ ماتم کروں کہ سلام کرنے کو تو جی اس لیے چاہ رہا ہے کہ تیرے واقعہ نے مذہبی حدبندیوں کا خاتمہ کرکے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے، تیری معصومیت کے ساتھ ہونے والی شیطانیت پر ہر انسان نالاں ہے، تیرے ماں باپ کے غم میں ہر ہندوستانی برابر کا شریک ہے،سارا ہندوستان تیرے انجام پر رورہا ہے ؛ بلکہ بیرون ملک سے بھی تیرے حق میں صدائیں بلند ہورہی ہیں، تو نے خود کو مٹا کرلوگوں کو حوصلہ و جرأت دے دی ہے، ایک شعور اور ایک احساس زندہ کردایا ہے، ہر کسیکو ایک ہی صف ماتم وغضب میں لا کھڑا کیا ہے، سب کو حق کے حصول میں لگا دیا ہے، تیر ے انصاف کے فریادی اب لاکھوں کروڑوں میں نہیں ؛ بلکہ ان گنت ہوچکے ہیں، تو مر کر بھی ایک کارنامہ انجام دے چکی ہے، تیرے اس مرنے پر بھی قوم کا ضمیر زندہ ہورہا ہے، تیرے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ہر کوئی اپناذاتی مسئلہ تصور کر رہا ہے، ہر کوئی تیرا فدائی بن چکا ہے۔

اور رونا اس بات پرآرہا ہے کہ تو نے ابھی مسکانا بھی نہیں سیکھا تھا، کلی ہوکر مہک بھی نہپائی تھی، تیرے ماں باپ نے تیرے متعلق کوئی آرزواور ارمان بھی نہ نکال پائے تھے، آخر تجھ معصوم کے ساتھ ان درندوں کی ہوس وابستہ ہوگئی، اس وقت  تو کتنا تڑپی ہوگی، کتنا روئی ہوگی، کتنا چلائی ہوگی، تو کرتی تو آخر کیا کرتی، کوئی تیرا پرسان حال نہیں تھا، کوئی تیری آہ وفغاں سننے والا نہیں تھا، نہ قریب میں تیرے ابو تھے اور نہ امی، تجھے ایسی پاون جگہ پر چھپایا گیا تھا کہ جس کے تعلق سے لوگوں کو ایسا براگمان بھی نہیں ہوپاتا، تیرے ساتھ جن لوگوں نے یہ گھٹنا رچی ہے، ان پر کسی کو شک بھی نہیں ہوا ہوگا، تیری مجبوری کو کون سمجھ پاتا، تیرے ساتھ ان وحشیوں نے صرف جنسی زیادتیہی نہیں کی ؛بلکہ ان لوگوں نے تیراکیاحشر بنادیا، کیا انجام تیرا کردیا، کیسے سخت دل یہ انسان ہوگئے، کیا تیری معصومیت بھی ان کو نہیں بھائی، آصفہ ! تیرے اس انجام نے تو ہمیں رلادیا، جھنجھوڑکر رکھ دیا۔

ارے آصفہ ! تیر ے گاؤں والے بھی کیسے سنگ دل ثابت ہوئے کہ گاؤں کی زمین میں تیرے چھلنی بدن کوپیوند خاک ہونے بھی نہیں دیا، کیا گاؤں والوں کو اپنے گاؤں کی ایک معصوم بٹیا کی یہ حالت زار بھی نہیں دیکھی گئی، آخر ان کے دلوں کو کس نے اتنا سخت وسنگ کردیا کہ دفن کے لیے دوگز زمین بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے، آخر ان کوکس چیز نے مجبور کیا تھا، ارے تیری حالت زار پر سارا ملک غمگین ہوا؟ مگر افسوس تیرے گاؤں کے باسی تیرے معاملہ میں سنگین ہوگئے،آخر تو کتنی مجبور ہوگئی، مگر آصفہ ان کے اس گردار نے ان کی حقیقت اور حیثیت کا پردہ فاش کردیا ہے اور یہ بات ثابت کردی کہ یہاں شرافت کا کوئی بسیرا نہیں، یہاں پیارو محبت کا کوئی ڈیرا نہیں ؛ بلکہ رفتار زمانہ کے ساتھ سب بدل جاتے ہیں، اپنوں کو بھول جاتے ہیں، وقتی مفاد یا ایک دھمکی ان کے دلوں کو بے ضمیر کرسکتی ہے،یہاں سب امن کے بیوپاری جیتے ہیں، جب چاہا اپنوں کو بیچ دیا اور جب چاہا اپنوں سے ہی دغا کرلی۔

پیاری بہن آصفہ!سارا ملک تیرے انصاف کا متقاضی ہے، تیرے ساتھ جرم ناروا کرنے والوں کے لیے پھانسی کا مطالبہ کر رہا ہے، شاید تجھے بھی اندازہ تھا ہوگا کہ یہاں اندھا قانون ہے، یہاں ننگا ناچ کرنے والوں کا راج ہے، بے ضمیر سماج ہے، ظالموں کو کھلی چھوٹ دینا یہاں کا قانونی رواج ہے، انصاف پسندی و معاملہ فہمی کا نظام ہمارے ملک میں تباہ وتاراج ہے،ارے پگلی تو کیا سمجھ پائے گی ابھی تو تونے ہوش کی آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں، ابھی تجھے ہم جولیوں کے ساتھ کھیلنے سے فرصت ہی کہاں تھی، تو تو تیرے گھوڑے اور بکریوں میں مست ومگن تھی، ان کے چارہ پانی میں گم تھی، تیرے ساتھ درندگی کی حدیں پار ہوگئیں، یہ درد محض تیرے اکیلے کا درد نہیں، یہ آوازصرف تیرے ایک ضمیر وروح کی آواز نہیں، بلکہ ہندوستان کی ہر بیٹی بہن کی یہی آہ وفغاں ہے، ہر طرف دہشت کا سماں ہے، ہر سمت انہی حرکات بد سے پاکیزہ ماحول بھی دھواں دھواں ہے،اور تیرے انصاف کامتقاضی ہر پیر وجواں ہے۔

ارے آصفہ !ہم تیرے ایک درد ہی سے کراہ رہے تھے کہملت کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی اس قسم کی زیادیتوں کی ایسی مزید خبروں نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا،ہمیں غم سے نڈھال کردیا،روز بروز ایسی گھناؤنی حرکتوں کی خبریں گشت کر رہی ہیں، حالات تباہی کی طرف تیزی سے رواں دواں ہیں، 13سالہ لڑکی کو ایک ڈاکٹر اپنے دواخانہ میں بند کرکے اس کے ساتھ اپنا منھ کالا کرڈالتاہے،7سالہ لڑکی کے ساتھ خود اس کا پڑوسی اپنی ہوس پوری کرلیتا ہے، حالت تو اس درجہ ابتر ہوچکی ہے کہ ایک سفید بال والا بوڑھا بھی صرف 4/5سالہ لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنارہا ہے اور عقلیں اس وقت گم ہوگئیں، پیروں کے نیچے سے زمین اس وقت کھسک گئی اور غیرت وانسانیت کا جنازہ اس وقت اٹھا کہ جب اندورسے دل کودہلانے اور آنکھوں کو رلانے والی خبر آئی کہ صرف4ماہ کی بچی کے ساتھ کسی ہوس کے پجاری نے اپنا منھ کالا کرلیا، اب کوئی بتلائے تو سہی کہ یہ ہندوستان ہے یا پھر ریپستان، ایسی صورت حال میں ہم کیا کریں، کس کے سامنے روئیں، کس سے گلہ کریں، کس سے شکوہ کریں، کس کو اپنا وکیل بنائیں، کن کن سے اپنی فریادیں سنائیں، یہاں کوئی فریاد رس نہیں، کوئی سہارا دیناتو دور کی بات، دلاسہ تک دینیتیار نہیں، کس کو اپنا رہبر بنائیں، کس کے سامنے انصاف کی اپیل کریں، کس عدلیہ پر یقین کریں، کس نظریہ پر بھروسہ کریں، ہر طرف ہوس پسندوں نے ڈیرا ڈال رکھا ہے، ہر سمت ظالموں نے اپنا مورچہ سنبھال رکھا ہے۔ ؎

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی  منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

کھبی کبھی تو قانون پراور قانون کے رکھوالوں پر بھی ہنسی آنے لگتی ہے کہ یہاں حیوان محفوظ ہیں، مگر انسان محفوظ نہیں. یہاں گائے، مور اور ہرنوں کا شکار تو دورکی بات، ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر بھی قانونی پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں، چھیڑ خوانی کرنے والوں کو حوالات کے حوالہ کردیا جاتا ہے، اس معاملہ میں ملک کے معزز سمجھے جانے والے افراد کو بھی نہیں بخشا جاتا، ایک گائے کو اگر کوئی لے جاتا ہوا دکھائی دے تو پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے، فرقہ واریت کوہوا مل جاتی ہے، پولیس چوکس ہوجاتی ہے، جگہ جگہ پر گاؤ رکھشک ہتھیاروں سمیت سڑکو ں پر آنکلتے ہیں ؛ مگردوسری جانب انسانیت کی عزت لوٹی جارہی ہے، ماں، بہن، بیٹی اور معصوم بچیوں کی تک عفتیں محفوظ نہیں ہیں، سرعام شرمناک حرکتوں کا ارتکاب کیا جارہا ہے ؛ مگر کوئی پرسان حال نہیں، مجرموں کی نشاندہی کے باوجود ان کو بچانے کی ہر ممکنہ کوششیں اور تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں، بے غیرتی کی تو انتہاء دیکھیے کہ ان کے بعض بھگت اور حامی ان کے حق میں ترنگالے کر ان کی طرف داری کر رہے ہیں، اور ان کے حمایتی بن کر ان کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں کہ انہیں بے قصور سمجھا جائے اور ان پر کسی طرح کی کوئی قانونی داروگیر نہ کی جائے، یہ کہاں کے انصاف کی بات ہے ؟

ملک میں امن کے خاتمہ کی ایک بڑی مثال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مکہ مسجد بم بلاسٹ کے حقیقی مجرموں کو رہائی دے دی گئی،کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ملک مجرموں کی آماجگاہ بن جائے گااور حیرت تو اس بات پر ہے کہ آپ اپنے حق کے لیے لڑ بھی نہیں سکتے اور اگرآواز اٹھائی جائے تو دہشت گرد اور کبھی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے گردانے جاتے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں اگر رہنا ہے کہ ہر ظلم سہنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، کھونٹی کے بیل کی طرح اپنا سر جھکائے جس سمت ہنکایا جائے بس چل پڑنا ہوگا، خود ہی لٹیے اور خود ہی بچئے کا نظام شاید اس ملک میں نافذ ہوجائے گا، اگر زانیوں کے سلسلہ میں پھانسی کا مطالبہ کیا جائے تو انتہائی متشدد ہونے کے لقب سے بھی نواز ا جاسکتا ہے، لیکن ہر حال میں ہر ہندوستانی کو یہ مطالبہ برابر کرنا ہوگا اور اس مطالبہ پر برقرار رہنا بھی ہوگا کہ جو کوئی بھی اس طرح کی بری حرکت کرے اس کی سزا سوائے پھانسی کے کچھ اور نہیں ہوسکتی اور حکومت کہتی ہے کہ سر جھکا کے چلو، یہ بات ایک باضمیر انسان کے لیے کیسے رواہوسکتی ہے اور یہ کہاں کا انصاف ہوگا؟

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں  

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والاطواف کو نکلے

نظر چراکے چلے جسم وجاں بچا کے چلے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔