عورت: رسول اکرمﷺ کی نظر میں (آخری قسط)

 ڈاکٹر محمد واسع ظفر

 عورت بصورت بیوہ؍مطلقہ:

  بیوہ عورتوں کو سماج میں بدنصیب، منحوس اور حقیر تصور کیا جاتارہا ہے حالانکہ ان کی بیوگی میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا، قدرت کی طرف سے وہ خود ایک بڑی آزمائش کا شکار ہوتی ہیں ۔ لیکن سماج ان کے ساتھ ہمدردانہ اور معاونانہ سلوک کرنے کے بجائے ذلت آمیز سلوک کرتا رہا ہے حتیٰ کہ بعض معاشروں میں ان سے جینے کا حق بھی سلب کرلیا جاتا تھا اور انہیں شوہر کے آخری رسومات کے ساتھ ہی اپنی جان دینی پڑتی تھی۔ ہمارے ملک ہندوستان میں یہ رسم ستی پرتھا کے نام سے جاری تھی جس میں بیوہ کو شوہر کی چتا پر ہی خود کو جلا لینا ہوتا تھا اور یہ ان کے لئے عزت کی بات سمجھی جاتی تھی۔ ایک مطالعہ کے مطابق اسی قسم کی رسم نیپال، انڈونیشیا، ویتنام، فلپائن، کمبوڈیا، برما (میانمار)، فیجی، چین اور روس کے بعض خطوں میں بھی جاری تھی۔ ہمارے ملک میں اس رسم پر سب سے پہلے بنگال کی صوبائی حکومت نے ۱۸۲۹ء؁ میں پابندی لگائی۔ ملکی سطح پر اس رسم بد پر پابندی ۱۸۶۱ء؁ میں ملکہ وکٹوریہ کے ایک فرمان کے ذریعہ لگی۔ پھر ۱۹۸۸ ؁ء میں ’’ انڈین کمیشن آف ستی پریونشن ایکٹ ۱۹۸۷‘‘ (Indian Commission of Sati Prevention Act, 1987) کاہندوستانی پارلیمنٹ کے ذریعہ نفاذ عمل میں آیا جس کے ذریعہ ستی میں ہر قسم کے تعاون کو ممنوع قرار دیا گیا۔ پڑوسی ملک نیپال میں اس رسم پر۰ ۱۹۲ ؁ء میں پابندی لگی۔ یہ باتیں صرف اسی لئے لکھی گئیں تاکہ بیوہ کے سلسلہ میں جو سماجی سوچ تھی اس کا اندازہ لگایا جاسکے اور اس بات پر بھی غور کیا جاسکے کہ دوسری تہذیبوں کو بیوہ عورتوں کے ساتھ ہورہے اس غیر انسانی سلوک کی برائی کتنی تاخیر سے سمجھ میں آئی۔

 اسلام نے تو ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں ہی انسانی جان کا احترام کرنا سکھایا۔ قرآن کا اعلان عام یوں سامنے آیا:

مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً

’’جس نے کسی انسان کو بلاعوض کسی جان کے یا بجز زمین میں فساد پھیلانے کی سزاکے قتل کردیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی تو یہ ایسا ہے گویا اس نے سارے انسانوں کی جان بچائی‘‘۔ (المآئدۃ:۳۲)۔ انسانی جان کی عظمت و احترام کو بیان کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور اسلوب نہیں ہوسکتا۔ کوئی انسان جب کسی دوسرے انسان کا ناحق قتل کرتا ہے توگویا وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کے دل میں حیات انسانی کا کوئی ادب و احترام نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے انسانیت کے حدود کو پھلانگتا ہے پھر کسی کا قتل کرتا ہے۔ اس لئے قرآن کی نظر میں وہ پوری انسانیت کا دشمن ٹھہرتاہے۔ قرآن یہ چاہتا ہے کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کے تئیں احترام کا جذبہ موجود ہو اور ہر شخص دوسرے کی جان کے تحفظ میں مددگار بننے کا بھی حوصلہ رکھتا ہونہ یہ کہ وہ کسی کی جان تلف کرے یا کسی کی جان تلف ہوتے ہوئے دیکھے۔ کسی دوسرے انسان کی جان تلف ہونے کی تکلیف کو اگر کسی شخص نے اپنے دل میں محسوس نہیں کیا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس نے انسانی صفت کو ہی کھود یا ہے اور وہ انسان نما محض ایک حیوان ہے۔

 یہ بھی قرآنی تعلیمات کا حصہ ہے کہ انسانی جان اللہ کی امانت ہے اور اس سے ایک معین مدت تک استفادہ کرنے کی تو اللہ نے اجازت دی ہے لیکن اسے تلف کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی اور خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔ قرآن کا حکم ہے:  ’’وَلَا تَقْتُلُوْٓا أَنْفُسَکُمْ‘‘۔ترجمہ: ’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو‘‘۔ (النسآء: ۲۹)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِشَيْئٍ عُذِّبَ بِہِ فِيْ نَارِ جَھَنَّمَ‘‘  یعنی جس نے کسی چیز سے خود کشی کرلی تو اسے جہنم میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الأَدب، باب مَنْ کَفَّرَ أَخَاہُ بِغَیْرِ تَأْوِیْلٍ، فَھُوَ کما قال)۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں خودکشی کا رجحان دوسری ملتوں کے مقابلہ میں بہت ہی کم بلکہ ناقابل ذکر ہے۔ لہٰذا جو بیوہ عورتیں ستی کی نذر ہوگئیں وہ صرف اسلامی تعلیمات سے محرومی کی وجہ سے ہوئیں ؟ اگرلوگوں نے اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ لیا ہوتا تو انسانیت کا اتنا بڑا نقصان شاید نہیں ہوتا۔

 بیوہ سے کچھ ملتی جلتی صورت حال مطلقہ عورت کی بھی ہوتی ہے کہ سماج اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے گرچہ اس کا اس معاملہ میں کوئی قصور بھی نہ ہو۔ ایسی عورتیں عموماً بے سہارا ہوجاتی ہیں اور بقیہ زندگی گزارنا بھی ان کے لئے دوبھر ہوجاتا ہے۔ ان میں اکثر اپنے والدین کی طرف لوٹتی ہیں اور بقیہ اپنی زندگی کی جنگ خود لڑنا پسند کرتی ہیں ۔ اس لئے رسول پاک ﷺ نے مومن کو اپنی ایسی بیٹی کے ساتھ جو اس کی طرف لوٹ کر آجائے حسن سلوک کی ترغیب دی ہے۔ حضرت سراقہ بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:

’’أَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی أَفْضَلِ الصَّدَقَۃِ ابْنَتُکَ مَرْدُودَۃٌ إِلَیْکَ، لَیْسَ لَھَا کَاسِبٌ غَیْرُکَ‘‘

’’کیا تمھیں سب سے افضل صدقہ کے بارے میں نہ بتائوں ؟ تمھاری بیٹی جو (خاوند کی وفات یا طلاق کی وجہ سے) تمھارے پاس واپس آگئی اور جس کے لئے تمھارے علاوہ اور کوئی کمانے والا نہ ہو‘‘۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الأدب، باب بِرِّ الْوَالِدِ وَالْاِحْسَانِ إِلَی الْبَنَاتِ)۔

یعنی ایسی بیوہ یا مطلقہ بیٹی کے اخراجات برداشت کرنا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے افضل ترین صدقہ ہے۔

مطلقہ عورت کے لئے اسلام نے یہ ضابطہ بھی دیا ہے کہ اگر اس کے چھوٹے بچے ہوں اور وہ ان کی پرورش و پرداخت کرتی ہے تو جب تک یہ سلسلہ رہے گا مطلقہ عورت اور بچوں کا نفقہ اس مرد کے ذمہ ہوگا جس نے طلاق دی ہے اور جس کے وہ بچے ہیں ۔ لیکن بیوہ عورت کے پاس اگر چھوٹے بچے ہوں اور مالی حالت پہلے سے اچھی نہ ہو اور والد یا بھائی یا کوئی اور قریبی رشتہ دار بھی کفالت کرنے والا نہ ہو تو بچوں کی پرورش بھی ان کے لئے مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لئے رسول پاک ﷺ نے عام مومنین کو بھی بیوائوں اور محتاجوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’السَّاعِي عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِي سَبِیْلِ اللّٰہِ، أَوِالْقَائِمِ  اللَّیْلَ وَالصَّائِمِ النَّھَارَ‘‘

’’بیوائوں اورمسکینوں (کی خدمت و پرورش ) کے لئے کوشش کرنے والا (نیکی و ثواب کے اعتبار سے ) اللہ کی راہ میں جہاد کر نے والے یا رات بھر نماز میں کھڑا رہنے والے اور دن کو(مستقل)روزہ رکھنے والے کی طرح ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب النَّفَقَاتِ، بابُ فَضْلِ النَّفَقَۃِ  عَلَی الْأَھْلِ)۔

ایک اور روایت صفوان بن سُلیمؓ سے ہے کہ آپؐ نے فرمایا:  ’’السَّاعِي عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِي سَبِیْلِ اللّٰہِ، أَوْ کَالَّذِیْ یَصُوْمُ النَّھَارَ وَیَقُوْمُ  اللَّیْلَ‘‘  یعنی ’’سعی کرنے والا بیوائوں اور مسکینوں کی حاجتوں میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مانند ہے یا اس شخص کی مانند ہے جو دن میں روزہ رکھے اور رات بھر (نمازمیں ) قیام کرے‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب البر و الصلۃ، باب مَا جَآئَ فِی السَّعْیِ عَلَی الْأَرْمِلَۃِ وَ الْیَتِیْمِ)۔ ان ارشادات پر غور کرنے سے بیوائوں اور مسکینوں کے تئیں رسول اللہ ﷺ کی شفقت اور ہمدردی کا اندازہ ہوتا ہے۔

 بیوہ اور مطلقہ عورتوں کو اسلام نے ایک اور حق دیا ہے جس کا تصور ہمارے برادران وطن کے کئی معاشرتی طبقوں میں نہیں تھا، وہ ہے دوسری شادی کرنے کا حق(Right to Remarriage)۔ خواہ عورت کتنی کم عمری میں ہی بیوہ کیوں نہ ہو جائے اسے دوشری شادی کا حق نہیں تھا۔ کچھ یہی صورتحال مطلقہ عورتوں کی بھی تھی۔ اس کے نتیجہ میں ایسی عورتوں کی زندگی دوبھر ہوجاتی تھی۔ ان میں کچھ تو آشرموں کا سہارا لیتی تھیں ، بہت ساری بھیک مانگ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی تھیں اور بہت سی طوائف خانوں کی نذر ہوجاتی تھیں ۔ ان کی حالت کو دیکھ کر سب سے پہلے پنڈت ایشور چندر ودیاساگر (۱۸۲۰ء-۱۸۹۱ء) نے بنگال میں بیواؤں کی شادی کی تحریک چلائی اور ان کی کوششوں سے ۱۸۵۶؁ء میں انگریز حکومت نے ہندو بیوہ عقد ثانی ایکٹ   (The Hindu Widows’ Remarriage Act, 1856)پاس کرکے اس غیرانسانی اور غیرفطری رویہ پر لگام لگانے کی کوشش کی۔ لیکن اس قانون کے نفاظ سے ڈیڑھ صدی بیت جانے کے بعد بھی بیوہ اور مطلقہ عورتوں کی دوسری شادی کے تعلق سے ہندو سماج کی سوچ میں بہت بدلائو نہیں آیا ہے جبکہ بعض صوبائی حکومتیں بیوائوں کی شادی کو فروغ دینے کے لئے مالی تعاون بھی دے رہی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق مدھیہ پردیش کی حکومت جہاں بیوائوں کی تعداد ۲۰ لاکھ سے بھی زیادہ ہے، ۴۵ سال سے کم عمر کی بیوہ سے شادی کرنے پر تین لاکھ روپیہ کی امداد دے رہی ہے۔ (دیکھیں :  http://www.bhopalsamachar.com/2018/02/3-mp-news.html, Accessed on 01.04.18 )۔ اسی طرح اترپردیش کی حکومت بیوائوں اور مطلقہ عورتوں کی شادی کے لئے وزیر اعلیٰ اجتماعی شادی اسکیم (Mukhyamantri Samoohik Vivaah Yojana) چلا رہی ہے جس میں ہر جوڑے کو ۳۵ ہزار روپیہ، موبائل فون اور کچھ ضروری گھریلو اشیاء فراہم کی جارہی ہیں ۔ (حوالہ:  www.business-standard.com/article/pti-stories/up-govt-launches-mass-marriage-scheme-117100301293_1.html, Accessed on 01.04.18)۔ لیکن یہ ساری اسکیمیں بھی کارگر ثابت نہیں ہوپارہی ہیں کیوں کہ لوگوں نے اس مسئلہ کو غلط طریقہ سے دھرم (مذہب) سے جوڑ رکھا ہے اور آج بھی ایسی شادیوں کوسماجی قبولیت  (Social Acceptance) حاصل نہیں ہے۔

  اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بیوائوں کی تعداد اس ملک میں بڑی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ لندن واقع لومبا فائونڈیشن (Loomba Foundation) جو بیوائوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے عالمی سطح پر کام کر رہی ہے، کے ذریعہ ۲۰۱۵ء؁ میں جاری گلوبل رپورٹ بیوگان (The Global Widows Report 2015) کے مطابق ہندوستان اس وقت بیوائوں کی آبادی کے اعتبار سے عالمی درجہ بندی میں سر فہرست ہے اور یہاں بیوائوں کی تعداد ۲۰۱۵ء؁ میں ۴۶ ملین، ۴۵۷ ہزار، ۵۱۶ تھی جو کہ اسی ادارہ کی ۲۰۱۰ء؁ کی رپورٹ میں ۴۲ ملین، ۳۹۵ ہزار، ۶۳ تھی جب ہندوستان دوسرے نمبر پر تھا۔ اس ادارہ کے ۲۰۱۵ء؁ کی عالمی درجہ بندی میں ۴۴ ملین، ۵۹۰ ہزار، ۵۶۰ بیوائوں کی تعداد کے ساتھ چین دوسرے مقام پر تھا جو کہ اسی ادارہ کی ۲۰۱۰ ء؁ کی رپورٹ کی درجہ بندی میں ۴۳ ملین، ۴۴ ہزار، ۹۴۳کی تعداد سے اول نمبر پر تھا۔ گویا کہ اس میدان میں ہم نے چین کوتین سال قبل ہی شکست دے دی ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۵ء؁ میں بیوائوں کی کل عالمی آبادی ۲۵۸ ملین، ۴۸۱ ہزار ۵۶ تھی جبکہ ۲۰۱۰ ء؁ کے رپورٹ میں یہ تعداد ۲۳۷ ملین، ۱۱۳ ہزار، ۷۶۰ تھی۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ ہندوستان میں بیوائوں کی تعداد ۲۰۱۵ء؁ میں دنیا کی کل بیوہ آبادی کا ۹۷ء۱۷ فیصد اور ۲۰۱۰ء؁ میں ۸۸ء۱۷ فیصد تھی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا کی کل بیوہ آبادی کا ۸۰ء۱۴ فیصد ( یعنی ۳۸ ملین ۲۶۱ ہزار، ۳۴۵ بیوائیں ) شدید غربت کی زندگی گزار رہی ہیں اور انہیں سماجی علیحدگی (Social Segregation)، ایذارسانی (Harassment) اور مالی وجنسی استحصال (Economic & Sexual Exploitations) کا سامنا ہے۔ ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد کی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنا اور انہیں عزت بخش زندگی فراہم کرنا ملکی حکومتوں کے بس میں نہیں ہے۔ اس مسئلہ کا بہترین حل بیوائوں کی دوسری شادی اور مردوں کی ایک سے زیادہ شادی (یعنی Poligamy ) ہی ہوسکتا ہے جس کے لئے سماجی سطح پر لوگوں کے انداز فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

  اب اس سلسلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اسلام ایک فطری نظام حیات ہے اور اس کے قوانین میں بنی نوع انساں کے تمام تر تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے جس میں سماجی، اقتصادی حتی کہ جنسی تقاضے بھی شامل ہیں ۔ اس لئے اس میں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی بھی مرد یاعورت تفرد کی زندگی گزارے کیوں کہ اس سے سماج میں کئی طرح کے مفاسد کے پیدا ہونے کا خطرہ رہتاہے۔ اس لئے قرآن میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ تم میں جو بھی بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کردیا کرو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَأَنکِحُوا الْأَیَامٰی مِنکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَآئِکُمْ إِن یَکُونُوا فُقَرَآء  یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِن فَضْلِہِ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ}۔

’’تم میں سے جو مرد و عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کردیا کرواور تمہارے غلام اور باندیوں میں جو نکاح کی صلاحیت رکھتے ہوں ان کا بھی، اگر وہ تنگدست ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا، اللہ وسعت والا اور علم والا ہے‘‘۔ (النور:۳۲)۔

اَلْأَیَامٰی کا مطلب ہوتا ہے بغیر بیوی والے مرد یا بغیر شوہر والی عورتیں جیسا کہ صاحب انوار البیان فی حل لغات القرآن نے لکھا ہے لیکن صاحب مفردات القرآن نے اس سے بیوہ (رانڈ) عورتیں اور رنڈوے مرد ہی مراد لیا ہے۔ تو اگر پہلا معنی اختیار کیا جائے جب بھی بیوہ عورتیں اور رنڈوے مرد اس میں شامل ہوں گے اگر دوسرے معنی کو لیا جائے تو ان کے نکاح کے سلسلہ میں اور بھی تاکید کا پہلو شامل ہوجاتا ہے۔

  اسی طرح مطلقہ عورتوں کے سلسلہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ  فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَّنکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَیْْنَہُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذٰلِکَ یُوعَظُ بِہِ مَنْ کَانَ مِنکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذٰلِکُمْ أَزْکٰی لَکُمْ وَأَطْہَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔

’’جب تم عورتوں کو طلاق دے دوپھر وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں اپنے (تجویز کردہ) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور شرعی کے مطابق رضامند ہوں ، یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں سے ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور یوم آخرت پر، یہ تمہارے لئے زیادہ ستھرا اور زیادہ پاکیزہ ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔ (البقرہ:۲۳۲)۔

قرآن کریم کے ان احکامات ہی کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے بیوہ اور مطلقہ عورتوں کی دوسری شادی کی نہ صرف حمایت کی بلکہ انہیں اختیار بھی دیا ہے کہ وہ اپنی پسند سے دوسرا نکاح احسن طریقہ پر کرسکتی ہیں جیسا کہ اس سے متعلق چند روایتیں پہلے گزر چکی ہیں ۔ خود آپؐ نے ایک(بی بی عائشہ صدیقہؓ) کے علاوہ تمام نکاح بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے ہی کئے تاکہ لوگوں کو اس کی ترغیب ہو۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے ہندو تہذیب کے اثرات کو اس درجہ قبول کرلیا ہے کہ یہاں مسلم معاشرہ میں بھی بیوہ کی شادی ایک مسئلہ ہے اور مرد دوسری شادی کا توسوچ بھی نہیں سکتا۔ خواہ کتنا ہی بڑا متقی اور پرہیزگار آدمی کیوں نہ ہو اگر اس نے دوسری شادی کرلی گرچہ بیوہ اور یتیم سے ہی کیوں نہ کی ہو تو لوگ اس کی ساری دین داری پر پانی پھیر دیتے ہیں اور اس کو سماج میں رسو ا کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ راقم کو ایک ایسی خبر ملی کہ ایک مسجد کے امام صاحب نے دوسری شادی کرلی تو لوگوں نے انہیں امامت کے منصب سے ہی برطرف کردیا۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شریعت کی دی ہوئی اجازت کے باوجود یہاں کے مسلمان کس قسم کی سوچ رکھتے ہیں ؟ گو بیوائوں اور مطلقہ عورتوں کی حالت مسلم معاشرے میں آج بھی ہندو معاشرے سے بہتر ہے لیکن یہاں بھی اصلاحات کی سخت ضرورت ہے جس پر علماء اور مصلحین حضرات کو توجہ دینی چاہیے۔

جو بیوہ عورت اپنی زندگی کی جنگ خود لڑنا چاہتی ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کے خیال سے دوسرا نکاح نہیں کرنا چاہتی اسلام نے اسے بھی آزادی دی ہے کہ وہ ایسا کرسکتی ہے اور اس سلسلہ میں اسے کوئی مجبور نہیں کرسکتا اور ایسی عورتوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’أَنَا وَامْرَأَۃٌ سَفْعَائُ الْخَدَّیْنِ کَھَاتَیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘  یعنی ’’میں اور وہ عورت کہ جس کے رخسار (اپنی اولاد کی پرورش و دیکھ بھال کی محنت ومشقت اور ترک زینت وآرائش کی وجہ سے)سیاہ پڑ گئے ہوں قیامت کے دن اس طرح ہوں گے‘‘۔ اس حدیث کے ایک راوی یزید ابن زریع نے یہ الفاظ بیان کرنے کے بعد اپنی درمیانی انگلی اور انگشت شہادت کی طرف اشارہ کیا۔ اور سیاہ رخساروں والی عورت کی تشریح کرتے ہوئے بتایا : ’’إِمْرَأَۃٌ آمَتْ مِنْ زَوْجِھَا ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ حَبَسَتْ نَفْسَھَا عَلٰی یَتَامَاھَا حَتّٰی بَانُوا أَوْ مَاتُوا‘‘  یعنی اس سے مراد’’وہ صاحب منصب (معزز ) اور حسین و جمیل عورت ہے جس کا شوہر وفات پاگیا اور اس نے اپنے یتیم بچوں کی (حفاظت، پرورش اور بھلائی کی ) خاطر اپنے نفس کو روکے رکھا ( یعنی باوجود عزت و خوبصورتی کے دوسرا نکاح نہیں کیا جب کہ اس کا نکاح ہوسکتا تھا اور اسی لئے زیب زینت کی نوبت نہیں آئی ) یہاں تک کہ وہ بچے (بڑے ہوکر) اس سے جدا ہوگئے (یعنی اس کے محتاج نہ رہے) یا وفات پاگئے‘‘۔ (سنن ابی دائود، کتاب الأدب، باب فِي فَضْلِ مَنْ عَالَ یَتَامٰی، بروایت عوف بن مالک اشجعیؓ)۔ ظاہر ہے اس بشارت کی مستحق وہ عورت بھی ہوگی جسے طلاق دے دی گئی اور نکاح کے عوامل کے موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی خاطر اس نے دوسرا نکاح نہیں کیا، گویا اپنی زندگی کو ان بچوں کے لئے ہی وقف کردیا۔

 یہ تو تھے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات عورتوں کی مختلف حیثیت اور ان کے حقوق کے بارے میں ۔ اس کے علاوہ عورتوں کو نماز باجماعت، حج و عمرہ اور جہاد میں شرکت کی مشروط اجازت، سفر میں ان کی راحت کا خاص خیال رکھنے کا حکم اور جہاد میں انہیں قتل نہ کرنے کاحکم حدیث کی کتابوں میں منقول ہے۔ یہاں مزید طوالت کے خوف سے نقل کرنے سے قاصر ہوں ۔ شارع اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے مذکورہ خیالات کو جاننے کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ اسلام میں عورتوں کو عزت وقعت اور معاشرتی حقوق حاصل نہیں ہیں تو اس کا یہ کہنا نا انصافی پر محمول کیا جائے گا۔ مسلم سماج میں عورتوں پر ہونے والے مظالم اور استحصال کے انفرادی واقعات کو اسلام کے سر نہیں منڈھا جاسکتا کیونکہ یہ واقعات دراصل شریعت سے لا علمی یا بے دینی کے نتائج ہیں اور جس معاشرہ میں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں در حقیقت وہ اسلامی نہیں رہے بلکہ دین سے بیگانگی اور غیروں سے اختلاط نے ان کی اسلامی خصوصیات کو یکسر بدل دیا ہے۔

اس لئے ایسے واقعات کو کم کرنے اور مسلم معاشرہ کو بدنامی سے بچانے کے لئے مسلم سماج میں دین سے وابستگی اور علم دین کے حصول کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے جس سے معاشرے کی اصلاح ہو سکے اور ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری ہمارے ذی شعور اور حساس افراد کو ہی نبھانی پڑے گی۔ مغربی تہذیب اور حقوق نسواں کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے کھوکھلے نعروں سے متاثر ہو کر اسلام یا اسلامی شریعت پر الزام عائد کرنا درحقیقت اللہ اور اس کے رسول ﷺپر الزام عائد کرنے کے مترادف ہے جس سے کم از کم ایک مسلمان کو پر ہیز لازم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم عورتوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پر غور کریں تو یہ نتیجہ اخذ کئے بغیر نہیں رہیں گے کہ محمد ﷺ حقوق نسواں کے سب سے بڑے علمبردارتھے۔

تبصرے بند ہیں۔