تری گلی سے گزرنا مجھے پسند نہیں

احمد کمال حشمی

تری گلی سے گزرنا مجھے پسند نہیں

جو سب کریں وہی کرنا مجھے پسند نہیں

اگر میں ٹوٹا تو ٹوٹوں گا سنگ کی صورت

شکستہ ہوکے بکھرنا مجھے پسند نہیں

کسی کی یاد سے پیچھا چھڑا رہا ہوں میں

وہ کررہا ہوں جو کرنا مجھے پسند نہیں

میں دیکھ لیتا ہوں خود کو تمہاری آنکھوں میں

اب آئنے میں سنورنا مجھے پسند نہیں

یہ بات کیسے بتاؤں تجھے طبیب مرے

جگر کے زخم کا بھرنا مجھے پسند نہیں

تم اپنے دل میں بسانے کی بھول مت کرنا

کسی کے گھر میں ٹھہرنا مجھے پسند نہیں

وہ موت ہو کہ عدو ہو کہ زندگی میری

ڈرانے والے سے ڈرنا مجھے پسند نہیں

کہانی یاد ھے خرگوش اور کچھوے کی

میں چل پڑا تو ٹھہرنا مجھے پسند نہیں

تبصرے بند ہیں۔