تری گلی سے گزرنا مجھے پسند نہیں
احمد کمال حشمی
تری گلی سے گزرنا مجھے پسند نہیں
جو سب کریں وہی کرنا مجھے پسند نہیں
…
اگر میں ٹوٹا تو ٹوٹوں گا سنگ کی صورت
شکستہ ہوکے بکھرنا مجھے پسند نہیں
…
کسی کی یاد سے پیچھا چھڑا رہا ہوں میں
وہ کررہا ہوں جو کرنا مجھے پسند نہیں
…
میں دیکھ لیتا ہوں خود کو تمہاری آنکھوں میں
اب آئنے میں سنورنا مجھے پسند نہیں
…
یہ بات کیسے بتاؤں تجھے طبیب مرے
جگر کے زخم کا بھرنا مجھے پسند نہیں
…
تم اپنے دل میں بسانے کی بھول مت کرنا
کسی کے گھر میں ٹھہرنا مجھے پسند نہیں
…
وہ موت ہو کہ عدو ہو کہ زندگی میری
ڈرانے والے سے ڈرنا مجھے پسند نہیں
…
کہانی یاد ھے خرگوش اور کچھوے کی
میں چل پڑا تو ٹھہرنا مجھے پسند نہیں
تبصرے بند ہیں۔