امن کی ہر ہاتھ میں قندیل ہو

افتخار راغبؔ

امن کی ہر ہاتھ میں قندیل ہو
روشنی میں روشنی تحلیل ہو

خوبیاں خوبی رہیں خامی نہ ہوں
قلب کا موسم اگرتبدیل ہو

حکمرانی کس کی جسم و جاں پہ ہے
اور کس کےحکم کی تعمیل ہو

اُن کے سینے میں کبھی دھڑکے یہ دل
حدّتِ وحشت اُنھیں بھی ’فیل‘ ہو

کیوں نہ ہو مجھ کو تمھاری جستجو
میں کہ پیاسا ہنس ہوں تم جھیل ہو

ہو زباں بھی گُنگ تیرے سامنے
اور نظر سے بھی نہ کچھ ترسیل ہو

میں کہ سرگشتہ تمھارے عشق میں
تم کہ میری روح میں تحلیل ہو

کون ہوں راغبؔ؟ نہیں کھلتا تو کیا
انکشافِ ذات کی تکمیل ہو

1 تبصرہ
  1. شاداب وفا پورنوی کہتے ہیں

    بہترین غزل، مطلع تا مقطع ہر شعر قابلِ ذکر، افتخار راغب صاحب کا کلام واقعی منفرد اور یکتا ہوا کرتا ہے جو قاری کو داد دینے کیلئے مجبور کر دیتا ہے. اس کے لیے مضامین ڈاٹ کام کا شکریہ

تبصرے بند ہیں۔