امیر شریعت: کچھ یادیں کچھ باتیں!

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

کاروانِ آخرت کی برق رفتاریوں پر قلم غمزدہ ہے کہ کس ہستی کو رویا جائے،کس ہشت پہل شخصیت کی جدائی پر ماتم کیاجائےاور کس علمی وادبی نقصان پر آنسو بہائے جائیں۔ ان دنوں رہ رہ کرحضوراکرم  کی زبان حق شناس سے نکلے ہوئے وہ الفاظ یادآرہےہیں کہ:” جب تک زمین پر اللہ اللہ کہا جائے گا، اس وقت تک یہ دنیا قائم رہے گی اور جب کوئی ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا باقی نہیں رہے گا، اس وقت اس نظام کائنات کو لپیٹ دیا جائے گا۔

محسوس یوں ہوتا ہے کہ کائنات کے اس نظام کو لپیٹنے کا وقت بتدریج قریب آرہا ہے، اس لئے کہ اللہ والے ایک ایک کرکے اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔ چند سالوں میں وقت کی عظیم بزرگ ہستیاں اور علماء وصلحاء دنیا فانی سے منہ موڑ کر جانب عقبی جاچکے ہیں، حالانکہ یہ حضرات ایسے تھے جو امت مسلمہ کے دین وایمان کی سلامتی کے لئے ہمہ وقت فکرمند اور راتوں کو اٹھ کر رب کے سامنے سجدہ ریز ہوکر دنیائے انسانیت کی اصلاح وفلاح کے لئے تڑپنے اور دعائیں کرنے والے تھے، جن کی شبانہ روز دعاؤں اور توجہات کی بدولت یہ دنیا فتنوں، آفتوں اور پریشانیوں سے محفوظ تھی، اب تو یوں لگتا ہے کہ شاید مصائب وآلام کا دہانہ کھل گیا ہے۔

بالخصوص رواں سال تو علمی حلقوں کےلیے  عام الحزن  ثابت ہوا؛جس میں مختلف جہتوں سے دینی علمی،ملی اورسیاسی خدمات انجام دینے والی کئی ایک سربرآوردہ شخصیات راہئ ملک بقاء ہوئیں اور اب یہ خبرنہ صرف جنوبی ہند بل کہ پورے ملک اور دنیا بھر کےلیے بجلی بن کرگری کہ علم و ہنرکے آسمان کا ایک بہت ہی روشن اور منور ستارہ،اعتدال و میانہ روی کا حسین سنگم،انتظام و انصرام کا بہترین نمونہ اور فضل وکمال کاآفتاب وماہتاب ہمارے درمیان سے ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

 امیر شریعت،حکیم الملت،پیرطریقت،شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی اشرف علی باقوی رحمہ اللہ وہ  نابغہ روزگار شخصیت تھی؛جن کی پوری زندگی جہد مسلسل،عمل پیہم،دعوت ِ قرآن کی اشاعت اوراسلامی تعلیمات کی ترویج  کیلئے وقف تھی۔میں اس وقت حیراں وسرگرداں ہوں کہ امیر شریعت جیسی باکمال، منفرد اور گوناگوں صفات کی حامل شخصیت کے جملہ پہلووں کا کیسے احاطہ کروں؟ آج قلم متحیر ہے کہ اس عظیم شخصیت کے کس رخ کو اجاگرکیاجائےاورکس کو نظرانداز کردیا جائے؟ جامعہ سبیل الرشاد بنگلور کے حوالے سے آپ کی خدمات کا ذکر کیاجائے یا جنوبی ہند سمیت ملک بھر میں آپ کی دینی و اصلاحی فکروں کو منظر عام پر لایاجائے۔

مختلف دینی وملی تحریکوں کی سرپرستی و وسربراہی کا تذکرہ چھیڑا جائے یا اصلاح  ارشاد کے تعلق سے آپ کی سرگرمیوں کو بیان کیاجائے۔   ؎سفینہ چاہیئے اس بحر بیکراں کے لیے

 مختصرسوانحی خاکہ:

 آپ کی ولادت26 فروری 1940 کو ریاست تمل ناڈومیں واقع نارتھ ارکو ٹ کے گاﺅں ویلنجی پور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر اور علاقہ میں ہی حاصل کی،تکمیل حفظ قرآن مدرسہ مدینة العلم میل وشارم میں کیا۔ پھر جامعہ باقیات صالحات ولیورمیں علوم عالیہ وآلیہ کی تحصیل کی اخیرمیں برصغیر کی شہرہ آفاق دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اوردوسال وہاں رہ کر سندِ فضیلت وافتاءحاصل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد خداداد صلاحتیوں سے مالا مال فرمایا تھا،ان میں تعلیمی قابلیت آپ کا سب سے نمایاں وصف تھا۔ حضرت والا کا انتقال قدرے طویل علالت کےبعد مورخہ 16 ذی الحجہ 8 ستمبرلیلة الجمعہ شب ڈھائی بجے ہوا۔

 انوکھا طرز تدریس :

ویسےآپ محبوب العلماء تو تھے ہی،طلباء دین بھی آپ پر ہمیشہ نثار رہتےتھے، طلبہ کی اصلاح وتربیت کے حوالے سے آپ کسی قدر سخت گیرتھےمعلم بالخصوص عام درسگاہوں میں جو چیزیں قابل اعتناء نہیں سمجھی جاتیں،حضرت کے ہاں وہ قابل ِمواخذہ جرم ہوتیں اور اس پر سخت دار وگیر ہوتی۔  سبق میں ذراسی کوتاہی ،مطالعہ وتکرار میں عدم دلچسپی پر ہرطالب علم کا ایسا مواخذہ ہوتا کہ آئندہ کسی طالب علم کوایسی کوتاہی کی جرأت نہ ہوتی۔بایں ہمہ آپ کی شفقت آپ کی شدتوں پر غالب آجاتی اور آپ طالب علموں کے دلوں کو موہ لیتے۔ مزاج میں میانہ روی اوراعتدال تھا اس لیے اسباق میں بھی اس کی شان نمایاں طورپر محسوس ہوتی،آپ کا درس انزلو الناس منازلھم کا آئینہ دار ہوتا،صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی شان میں ذرہ برابر تنقیص کی بو تک گوارا نہ فرماتے فورا رگ حمیت پھڑک جاتی اور مشاجرات صحابہ کے حوالے سے جامع تقریر فرماتے۔

 اوصاف وخصائل :

آپ شرافت ،اخلاق،بردباری اور تواضع کا ایک مجسم آئینہ تھے، آپ کی شخصیت میں انتہاء کی ہردلعزیزی تھی،عوام ” علماء "بچے جوان سب آپ کی کرشماتی شخصیت کے اسیر تھے۔ آپ حلم وقار کے پیکر اور عجز وانکسار کا مجموعہ تھے، آپ نے ہمیشہ دیانت وامانت اور شرافت وصداقت کے لباس کو زیب تن کئے رکھا اور دین ومذہب کی خدمت کو اپنے لئے سعادت ونجات کا ذریعہ سمجھا ۔ حضرت مفتی صاحب کا شمار ملک کے ان ممتاز ترین مفتیان کرام میں ہوتا تھا؛جو اختلاف کے وقت مرجع خلائق کی حیثیت رکھتےہیں، بڑے بڑے مفتیان کرام اپنے مسائل اور فتاویٰ کی تصدیق وتصویب اور تائید کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ سلوک واحسان اور اصلاح وارشاد میں بھی آپ بلند مقام پر فائزاور اپنےوالد ماجد کے جانشین تھے، ہزاروں متوسلین نے آپ سے فیض پایا خداکرے کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری وساری رہے۔

 عہدے و مناصب :

آپ کی ہشت پہل شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ متعدد دینی،علمی، اصلاحی اورسیاسی،ملی، رفاہی اداروں کے ذمہ دار و سرپرست تھے۔ حصول تعلیم کے بعد دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں آپ بطور استاذ بحال کرلئے گئے اور وہاں آپ نے مختلف کتابوں کے ساتھ تقریبا ساٹھ سال تک بخاری شریف کا درس دیا ،والد محترم مولانا ابو سعود احمد کے انتقال کے بعد آپ ریاست کرناٹک کے امیر شریعت منتخب کئے گئے ،علاوہ ازیں آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے رکن تاسیسی،آل انڈیا ملی کونسل اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے نائب صدر،دارالعلوم وقف دیوبنداور دارالعلوم ندوة العلماءلکھنوءکے رکن شوری اور رابطہ اد ب اسلامی کے صدر تھے ۔

 ختم بخاری کے موقع پر کچھ زریں نصیحتیں:

اخیرمیں حضرت مفتی صاحبؒ کے خطاب سےچند قیمتی اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں؛جنہیں مولانامحمد تبریز عالم قاسمی زیدمجدہم استاذ دارالعلوم حیدرابادنے محفوظ فرمایا۔

بہ موقع: تقریب ختم بخاری دارالعلوم حیدراباد 7مئی 2017

1:اساتذہ کی دعائیں لیجیے یہی اصل سرمایہ ہیں۔

2:خدمتِ دین کے مختلف شعبے ہیں جس شعبہ میں خدمت کا موقع ملے انشراح واطمینان سے کیجیے کسی شعبے کو معمولی مت سمجھیے۔

3: ساری کتابیں سارے اساتذہ عزت واحترام کے حوالہ سے برابر ہیں۔

4:امامت کی خدمت بہت اہم اور قابل فخر ہے ساری چیزوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ہوچکی ہیں لیکن امامت آج بھی على منهاج النبوة باقی ہے۔

5:عصری علوم وفنون کبھی بےکار ہوسکتے ہیں لیکن دینی علوم کبھی بےکار نہیں ہوں گے۔

6:ولایتِ کاملہ کے بغیر اجتہاد تک پہنچنا ناممکن ہے۔

7:علماء دین کی سرحد کے سپاہی ہیں انھیں معاش کی فکر نہیں کرنی چاہیے دیکھیے ملک کی سرحد کا سپاہی اپنی کوئی دوکان نہیں کھولتا بلکہ دن رات سرحد کی حفاظت میں مشغول رہتا ہے اور پوری قوم اس کے معاش کی فکر کرتی ہے علماء تو اللہ کے دیں کے محافظ ہیں اللہ انھیں کبھی معاشی تنگی میں کیوں کر مبتلاء کریں گے۔⁠⁠⁠⁠

تبصرے بند ہیں۔