انتخابات اور ہندوستانی مسلمان

مسعود جاوید

2019 کے انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں قیاس آرائیاں بهی شروع  ہیں اسی دوران کرناٹک کے ضمنی انتخابات کے 4-1  کے نتیجے سے اس کا عندیہ بهی  ملتا ہے کہ بی جے پی گٹھ بندھن کا زور کم ہوا ہے اور مودی لہر  2014 و الی رفتار سے نہیں چل رہی ہے۔ لیکن صوبائی اور ضمنی انتخابات کے نتائج  مرکزی انتخابات عامہ کے لئے پرفیکٹ بیرومیٹر نہیں ہوتے ہیں۔ مقامی الیکشن کے موضوعات اور ترجیحات مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ مرکزی انتخابات کل ہند سطح کے ہونے کی وجہ سے اس کے لئے کوششیں اور توڑ جوڑ کے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔

انتخابات کا ایک اہم حصہ دار مسلم کمیونٹی بهی ہے یہ اور بات ہے کہ پچھلے دس سالوں میں اس کمیونٹی کو بے وقعت بنانے کی جو کوشش شروع ہوئی تھی اس کا عروج 2014 میں ہوا کہ directly یا indirectly  اعلان کرکے یا عمل اور رویہ سے بتادیا گیا کہ مسلم امیدوار اور ووٹ کے بغیر بھی الیکشن نہ صرف جیت  سکتے ہیں بلکہ اتنی اکثریت سے کہ حکومت اپنے بل بوتے بنا سکیں۔ لیکن اب مین اپوزیشن نے بهی ووترز کو گول بند کرنے کے وہ سب ہتھکنڈے اپنانا شروع کیا تو تخمینہ لگانے والوں نے یہ تخمینہ لگا لیا کہ اب اپوزیشن پارٹیز بهی ہندو ووٹ کاٹ سکتی ہے۔

اس عجیب و غریب پیچیدگی نے ایک بار پهر مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں کو مسلم ووٹ کی تهوڑی بہت اہمیت کا احساس دلایا ہے اب یہ مسلم قیادت اور عوام پر موقوف ہے کہ اس وقتی جزئی دائمی یا کلی احساس کا فائدہ کتنا اٹها پائیں۔ ڈاکٹر ابو صالح شریف Abusaleh Shariff یو اس انڈیا پالیسی انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن USIPI  کے چیف اسکالر ہیں۔ پالیسی میئٹر پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، سچر کمیٹی رپورٹ کی تیاری اور اسی طرح اقلیتوں سے متعلق دیگر پالیسیوں پر منموہن سنگھ سرکار میں باہر سے مشیرکار رہے ہیں اور ان موضوعات پر بے شمار سیمینار اور سمپوزیم منعقد کرایا ہے۔ ‘Mission 2019 No Voter Left Behind کوئی ووٹر چهوٹ نہ جائے’ ان کا ملی درد کا آئینہ ہے۔ انہوں نے پچھلے کئی سالوں سے اقلیتوں کے ووٹ کی اہمیت افادیت اور ضرورت کے تعلق سے سابق چیف الیکشن کمشنر وائی قریشی صاحب کے ساتھ بیداری لانے کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ زیادہ تر ان کے پروگرام میں شریک ہونے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں جن کی ایک بڑی تعداد ووٹنگ  و الے دن کی چھٹی کو پکنک ڈے کے طور پر لیتے ہیں۔

ہر کمیونٹی میں اصل ووٹرز مڈل اور لوور کلاس کے لوگ ہوتے ہیں۔ تو ہمارے ان تعلیم یافتہ افراد جو انتخابات کی اہمیت اور اسٹریٹجی سے واقف ہیں اور اس طرح کے ہائی ٹیک میٹنگز میں شریک ہوتے ہیں وہ اپنے حصے کا کام انجام دیں یعنی بیداری مہم کو کارگر بنانے کے لئے اپنے اپنے حلقہ اثر و نفوذ میں  ابهی سے کام شروع کردیں ورنہ ‘برساتی مینڈک مسلم قائدین’  الیکشن سے عین قبل خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اخبارات میں فل پیج کا اشتہار چھپوائیں گے جس کے عوض میں ان "ملی قومی ” پارٹیوں کے صدر و سکریٹری صاحبان کے تصاویر کے ساتھ بیانات دو کالمی تو کبهی سہ کالمی چهپیں گے جس میں لکها ہوگا کہ انصاری یا فلاں فلاں برادریوں کا اشرافیہ طبقے نے ہمیشہ استحصال کیا ہے اس لئے ان سے انتقام لینے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے ان کو اور ان کی پارٹی کو ووٹ دیں۔ وہی ان کا مسیحا ہیں وغیرہ وغیرہ۔  برادری کے نام پر عوام میں ہیجان پیدا کرکے بڑی سیاسی پارٹیوں کو اپنی تعداد اور ووٹ کا احساس دلائیں گے پهر ووٹنگ سے چند روز قبل ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ وجہ ؟  پبلک ہے سب جانتی ہے۔ لیکن یہی پبلک مذہب اور ذات کے نعروں کے نشہ میں ایسا بد مست ہوجاتی ہے کہ اچهے برے کی تمیز اور شعور بهی ختم ہوجاتا ہے۔

پچھلے ماہ ایک علاقے کا دورہ کے دوران معلوم ہوا کہ مختلف مقامی ملی تنظیموں کے نمائندوں نے اس مقصد کے لئے ایک خصوصی میٹنگ کا انعقاد کیا۔ کارروائی شروع ہونے سے چند منٹ قبل ایک برادری کا نیتا اور سرگرم ملی کارکن ایک سابق ایم ایل اے کو لے کر اسٹیج پر آگیا جبکہ طے یہ ہوا تها کہ چونکہ  یہ جلسہ کسی پارٹی کی تائید یا حمایت کے لئے نہیں ہے اس لئے سیاسی پارٹیوں کے موجودہ یا سابق ذمہ داروں کو دعوت نہیں دی جائے گی۔ نتیجہ ہہ ہوا کہ اتحاد کا بہترین مظہر یہ جلسہ بدترین انتشار کی نذر ہوگیا۔ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں سے گریز کرنا ہی دانشمندی ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔