رحم مادر کی پیوندکاری: اسلام کی نظر میں (پہلی قسط)

مقبول احمدسلفی

ٹکنالوجی کے اس حیران کن دور میں انسانوں کو حیران کردینے والی نئی نئی دریافتیں ہورہی ہیں، دریافتیں کیسی بھی ہوں مادہ پرستی کے دور میں اکثرلوگ بلاسمجھے بوجھے ان کا حامی بھرنے لگتے ہیں، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ جونئی نئی دریافتیں ہورہی ہیں ان کے متعلق علمائے اسلام سے شرعی حیثیت دریافت کریں کہ کہیں انجانے میں حرام کام میں ملوث نہ ہوجائیں۔ اسلام نہ سائنس کے مخالف ہے، نہ نئی ایجادات واکتشافات کا مخالف ہے اور نہ ہی جدید آلات وٹکنالوجی کے مخالف ہے۔ ہاں اسلام ایک منظم نظام حیات پیش کرتا ہے، اس کے اپنے اصول وتعلیمات ہیں، نئی دریافت اور ٹکنالوجی کی جو چیز اسلامی نظام سے متصادم ہوگی اس کا استعمال ہمارے لئے جائز نہیں ہوگا۔

مادر رحم کی پیوندکاری بھی دنیا والوں کے لئے ایک نئی کھوج ہے، گوکہ اس پہ برسوں سے تجربہ کیا جارہاتھا۔ پہلے جانوروں پہ تجربہ کیا گیا، وہاں کامیابی ملی تو پھر انسانوں پر برتا گیااور متعدد قربانیوں اور انسانی ہلاکتوں کے بعد تین ممالک (سویڈن، امریکہ اور بھارت ) میں اب تک مادر رحم کی پیوندکاری پہ تجربہ کامیاب ہوا ہے۔پیلی بار 2014 میں سویڈن میں کامیابی ملی، اور پھر 2017 میں امریکہ اور بھارت میں یہ تجربہ کامیابی کے مرحلہ سے گزرا۔

مادر رحم کو انگلش میں یوٹرس اور پیوندکاری کو ٹرانسپلانٹ کہا جاتا ہے، اسطرح مادرم رحم کی پیوندکاری کی انگریزی اصطلاح یوٹرس ٹرانسپلانٹ(Uterus Transplant) رائج ہے۔

بھارت کے شہر پونے کے گیلیکسی نامی ہسپتال میں گجرات کی رہنے والی خاتون میناکشی ولانڈ نے 18/اکتوبر 2018 کو ایک بیٹی کو جنم دیا ہے جس میں اسی کی ماں کی بچہ دانی ٹرانسپلانٹ کی گئی تھی۔ اس بات سے جہاں بھارت کا سر فخر سے بلند ہورہاہے وہیں لوگوں میں اس تجربہ کی خوشی منائی جارہی ہے اور مستقبل میں عورت کے بانجھ پن کےخاتمہ کی امید جتلائی جارہی ہے۔

ابھی تک دنیا میں جسے بچہ نہ ہو وہ یا تو صبر کرتا رہاہے، یا کسی عورت کی کوکھ کرایہ پر لیکر بچہ (Surrogate)پیدا کیاہے یا دوسرے کا بچہ(Adoption) گود لیا ہے۔ دوسری صورت کو سروگیسی یاسروگیٹ مدرہوڈ کہا جاتا ہے، اس کا طریقہ کاریہ ہے کہ مرد کی منی اور عورت کا بیضہ ملاکر لیباٹری میں جینین تیار کیا جاتا ہےپھر تیارشدہ جینین کو انجکشن کے ذریعہ عورت کی بچہ دانی میں ڈالا جاتا ہے۔اسلام میں یہ عمل ناجائز ہے۔ مصنوعی حمل کے کئی اقسام ہیں، ان میں بعض جائز بھی ہیں اس پہ آگے بحث آئے گی۔

مادر رحم کی پیوندکاری کے اسباب ومقاصد:

٭شادی کے بعد ایک عورت کی خواہش ماں بننے کی ہوتی ہے لیکن جب اسے شادی کے بعد بچہ پیدا نہیں ہوتا ہے تودردرکی ٹھوکریں کھاتی ہے، ڈاکٹروں سے مدد کی گہار لگاتی ہے یہ بڑی وجہ بنی مادر رحم کی پیوندکاری کی۔

٭اسکے علاوہ مجھے یہ وجہ بھی کچھ کم بڑی نہیں معلوم ہوتی ہے کہ آج کل بڑی تعداد میں عورتیں اپنی بچہ دانی کٹواکر پھینک رہی ہیں، ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں ضائع ہونےوالے انسانی عضو(رحم مادر) کی موجود گی نے اطباء اورسائنس دانوں کو اس طرف توجہ مبذول کیا اوراس کوکارآمدبنانے میں غوروفکر کی دعوت دی۔

٭ سائنسداں دنیا والوں کو نئی نئی کھوج سے متعارف کرانے کی ہمہ وقت کوشش کرتے رہتے ہیں، اس پہلو پہ کسی کی نظر گئی اور تجربہ شروع ہوگیا، ہلاکتوں کے باجوداس پہ مسلسل تجربہ کی وجہ یہ بنی کہ یہ معیشت کا بڑا دروازہ کھول رہا تھا، جسے اولاد نہ ہورہی ہو اس کے لئے اولاد کی امید جگانے والا منہ مانگی رقم حاصل کرسکتا ہے۔

٭ کچھ عورتوں کے ساتھ رحم کی پیچیدگی ہوتی ہےجس کی وجہ سے اسے مجبورا ہٹانا پڑتا ہے، کچھ عورتوں میں پیدائشی طورپر بچہ دانی ہی نہیں ہوتی، کچھ کے پاس بہت چھوٹی ہوتی ہیں توکچھ کا حمل باربار اسقاط ہوجاتا ہے، بعض کوسرے سےحمل ہی نہیں ٹھہرتا۔ یہ باتیں بھی مادر رحم کے ٹرانسپلانٹ کے لئے محرک بنیں۔

سائنس وطب کا ماننا ہے کہ مادر رحم کی پیوندکاری کا مقصد یہ ہے کہ جوعورت بانجھ(Infertility) ہو یاکسی وجہ سےبچہ نہیں ہورہاہو اور وہ کسی دوسرے کی کوکھ کا بچہ بھی نہیں چاہتی ہو، اپنی ہی کوکھ سے بچہ جنم دینا چاہتی ہو ایسی ہرعورت ماں بن سکتی ہے اور اپنی ہی کوکھ سے بچہ جنم دے کر اپنی آرزو پوری کرسکتی ہے، اسی مقصد کے تحت مادر رحم کی پیوندکاری کا عمل معرض وجود میں آیاہے۔

مادر رحم کی پیوندکاری کا طریقہ :

ایک عورت کی بچہ دانی نکال کر دوسری عورت میں پیوند کی جاتی ہے، عموما قربی عورت ماں، بہن یا خالہ کی بچہ دانی بہتر مانی جاتی ہے کیونکہ ان کے درمیان ٹشوز اور خلئے میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ یوٹرس ٹرانسپلاٹ کا مکمل عمل دس سے بارہ گھنٹوں پر مشتمل نہایت شوارگزار ہوتا ہےکیونکہ انسانی بدن میں ایک انجان عضو لگنے سے اسے مسترد کئے جانے کا سنگین خطرہ لگا رہتا ہے۔ اس میں بچہ دانی کی ہی پیوندکاری ہوتی ہے، نسوں اور بیضہ دانی(Ovary) کی نہیں۔ عضوبندی کے بعد ایک سال تک اس کی خوب نگرانی کی ضرورت ہے پھر لیباٹری ٹسٹ سے حمل کی صلاحیت ظاہر ہونے پر شوہر کے نطفے اور بیوی کے بیضے کو لیباٹری میں جینین بنایا جاتا ہے اس کے بعد انجکشن کے ذریعہ عورت کی کوکھ میں نصب کیاجاتا ہے۔ سویڈن کے کامیاب تجربہ میں گیارہ نطفے تیار کئے گئے تھےاور انہیں منجمد کردیا گیا پھر ان میں اسے ایک منجمدنطفہ بچہ دانی میں ڈالا گیا۔

مادر رحم کی پیوندکاری کی ہلاکتیں :

مادررحم کی پیوندکاری انتہائی خطرناک ہے، اس سے نہ صرف بیماری لاحق ہوتی ہے بلکہ جان بھی چلی جاتی ہے اور اس عمل کے ارتقائی ادوا ر میں کئی جان جانے پہ تاریخ شاہد ہے۔ عمومی خطرہ یہ ہے کہ نئے عضو کا اضافہ جسم قبول نہیں کرپاتا ہے اور جلد ہی اسے کاٹ کر ہٹا دیا جاتا ہےاور یہ متعدد بیماریو ں کا سبب بن سکتا ہے۔ اس عالم میں سال بھر خطرات منڈلاتے ہیں اور کڑی نگرانی کی جاتی ہے اورقوت مدافعت دواؤں کے ذریعہ سست کردی جاتی ہے تاکہ عضو جدید کو قبول کرسکے مگر مدافعاتی قوت کی کمی سے ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اس کے ساتھ بلڈ پریشر کے بڑھنے اور کم ہونے کا بھی خطرہ رہتا ہےبلکہ یہ عورت کے لئے جان لیوا بھی ہے۔ مردہ عورت کی بچہ دانی کی منتقلی کامیاب نہیں ہے اس وجہ سے زندوں سے ہی یہ عضو لیا جاتا ہے بلکہ غیر عورت کی بچہ دانی کا ٹرانسپلانٹ تجرباتی اعتبار سے نقصان دہ بتلایا جارہاہے اس لئے قریبی عورت ماں یا بہن یا خالہ وغیرہ کی بچہ دانی کو کم نقصان والا بتلایا جارہاہے کیونکہ ان کے درمیان ٹشوز اور خلئے میں زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ سرجری کے علاوہ حمل، توالد اور زچہ بچہ تمام مراحل مشکل ترین ہیں۔ نہ ہی حمل آسان ہوتا ہے اور نہ ہی زچگی، اور کم وقتوں میں بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے جس سے مولود کو سخت حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حمل اور زچگی کے دوران پیچیدگیاں پیدا ہونے سے زچہ اور بچہ دونوں کو جان کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

1931 میں جرمنی میں ایک ہجڑے(Transgender) میں بچہ دانی کو ٹرانسپلانٹ کیا گیا لیکن یہ عمل کامیاب نہ ہوا اور اس کی جان چلی گئی۔ 2002 میں سعودی عرب میں ایک چھبیس سالہ عورت میں چھیالیس سالہ اجنبی عورت کی بچہ دانی کی منتقلی کا عمل ہوامگر انفکشن کے سبب چند ہفتوں میں ہی یہ عضو نکالنا پڑا۔ 2014میں سویڈن میں تاریخ کےپہلا بچہ یوٹرس ٹرانسپلانٹ سے 31 ہفتے میں پیدا ہوا اور پیدائش کے وقت دل کی دھڑکن خلاف معمول پایا گیا۔ ہندی خاتون میناکشی کے پیٹ محض بائیس ہفتے ہی بچہ ہوا اور وہ اس مولود تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مسلسل سترہ ماہ تک اسپتال میں انتہائی نگرانی میں زیر علاج رہی۔

میناکشی کایوٹرس ٹرانسپلانٹ کررہے ڈاکٹرشیلیش کا کہنا ہے کہ یہ عمل انتہائی خطرناک ہے، وہ کہتے ہیں کہ اب تک اس طرح سے دنیا میں گیارہ حمل ٹھہرا ہے، نو سویڈن میں، دو یونائی ٹیڈ اسٹیٹ میں اور بارہ بچہ ہمارا ہے۔ یہ کوئی آسان سرجری نہیں ہے اور نہ حمل ٹھہرنا آسان ہے۔

بہرکیف! یہ عمل خطرات پر مشتمل ہے، دنیابھر میں کتنی ساری عورتوں کا یوٹرس ٹرانسپلانٹ کیا گیا، اکثر کو نقصان ہوا،اب تک محض بارہ بچوں کی پیدائش کا ذکر ملتا ہے، یہ بارہ بچے بھی محض دعوے ہیں، ان سب کی تفصیل نہیں ملتی۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ سرجری، حمل اور پیدائش سب امید پہ قائم ہے یعنی نتیجہ کا یقین نہیں ہوتا محض امید پہ یہ سارا عمل انجام دیا جاتا ہے آگے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

نوٹ : اس کی اگلی قسط انتہائی اہم ہوگی اسے پڑھنا نہ بھولیں۔

تبصرے بند ہیں۔